عورتوں کو اختیارات دینے کے اقدامات

2004ء میں لوک سبھا کے انتخابات سے قبل واجپائی نے کانگریس پر الزام لگایا

بھارتی خواتین کی نشستیں مخصوص کرنے کا بل یعنی مسودہ قانون بوجوہ پارلیمنٹ میں منظور نہیں ہوسکا۔ ممکن ہے اس میں دیگر رکاوٹوں کے ساتھ مردانہ ہٹ دھرمی کا بھی عمل دخل ہو۔ یہ مسودہ قانون پہلی مرتبہ 1996ء میں لوک سبھا کے روبرو پیش کیا گیا جب دیو گوڈا وزیراعظم تھے۔ اس مسودہ قانون کے حوالے سے پارلیمنٹ میں بڑا شور و غوغا ہوا۔ حتیٰ کہ اس کارروائی کے دوران سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تا آنکہ 2010ء میں اس مسودہ قانون کے خلاف پہلی قانونی رکاوٹ کو عبور کر لیا گیا۔

اس بل میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوںمیں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں مختص کی جائیں۔ مسودے کے مطابق یہ نشستیں باری باری مختص کی جانی تھیں اور 3 عام انتخابات میں صرف ایک ایک مرتبہ کسی خاتون کو نشست ملنی تھی۔ مسودے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 15 سال کے بعد ان نشستوں کا وجود ختم ہو جائے گا۔ حقیقت میں ایک سو آٹھواں آئینی ترمیمی بل جسے عام طور پر خواتین کا ریزرویشن بل کہا گیا،21 سال کی جدوجہد کے بعد گزشتہ ہفتے یعنی 12 ستمبر کو منظور کیا گیا۔ ان تمام برسوں میں یہ بل صرف راجیہ سبھا کی طرف سے توثیق کا انتظار کرتا رہا جب کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران اس بل نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہنگامہ مچائے رکھا۔ بعض موقعوں پر اراکین اسمبلی کی اشتعال انگیزی میں اس قدر اضافہ ہوگیا کہ انھوں نے راجیہ سبھا کے چیئرمین حامد انصاری پر جسمانی طور پر حملہ کرنے کی کوشش کی تا کہ وہ اس بل کو ایوان میں پیش نہ کر سکیں۔

اس بل کے حوالے سے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے مزید مراعات کے مطالبے کیے گئے لیکن اس معاملے میں کوئی کامیابی نہیں ہو سکی۔ جہاں تک کہ اس مسودہ قانون کا تعلق ہے ایوان میں اس کی منظوری نہ مل سکی چنانچہ اسے پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ پارلیمانی کمیٹی نے 1998ء میں لوک سبھا میں اپنی رپورٹ پیش کر دی، جب اٹل بہاری واجپائی قومی جمہوری اتحاد کی حکومت کے سربراہ تھے۔ انھوں نے اس مسودہ قانون کو ایوان میں دوبارہ پیش کیا۔ راشٹریہ جنتا دل کے ایک رکن اسمبلی نے اسپیکر کے ہاتھ میں سے چھین کر مسودے کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ لہٰذا ہر دفعہ جب ایوان کو ملتوی کیا جاتا یہ بل منظور ہونے سے رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ 1999ء، 2002ء اور 2003ء میں اسے بار بار پیش کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے ہر بار مرد پارلیمنٹرین اس بل کی مخالفت کرتے رہے۔ جس کی وجہ سے یہ ابھی تک وہیں پڑا ہے۔

اگر کانگریس اور بائیں بازو کی پارٹیوں کے علاوہ بی جے پی نے بھی اس کی سماعت کی اور اس کے حق میں دلائل بھی دیے لیکن اس کے باوجود یہ لوک سبھا میں منظور نہ ہو سکا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1998ء میں واجپائی حکومت اپنی بقاء کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کی مرہون منت تھی لہذا اس بل کی منظوری کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکی۔ 1999ء میں وسط مدتی انتخابات کے بعد اگرچہ واجپائی دوبارہ اقتدار میں آ گئے تھے لیکن مینڈیٹ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کو ملا تھا جس نے لوک سبھا کی 544 نشستوں میں سے 303 نشستیں جیت لی تھی۔ اس مرتبہ واجپائی کو ایسی صورتحال میں دھکیل دیا گیا جس میں انھوں نے تمام پارٹیوں کو اکٹھا رکھنا تھا۔ گو کہ کانگریس اور بائیں بازو کی دوسری پارٹیوں کی وجہ سے یہ مسودہ قانون اسمبلی میں تھوڑی پیشرفت اختیار کر گیا اور اس پر ووٹنگ کروانے کا اعلان کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود بل پاس نہیں ہو سکا۔


2004ء میں لوک سبھا کے انتخابات سے قبل واجپائی نے کانگریس پر الزام لگایا کہ وہ اس بل کے منظور ہونے میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے اور کہا کہ بی جے پی اور اس کے اتحادی 2004ء کے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد اس بل کو ہر صورت منظور کروائیں گے۔ جب کہ متحدہ قومی اتحاد (یو پی اے) کی حکومت اسمبلی میں ایک تہائی خواتین کو نشستیں دلوائے گی اور 2005ء میں بی جے پی نے اس بل کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا۔ 2008ء میں من موہن سنگھ حکومت نے یہ بل راجیہ سبھا میں پیش کیا۔ 2 سال بعد 9 مارچ 2010ء کو اس بل کی راہ میں سیاسی رکاوٹ دور کر دی گئی اور اراکین کے درمیان اختلافی بحث کے باوجود اس بل کو منظور کرنے کی کوشش جاری رہی۔ بی جے پی اور بائیں بازو کی بعض پارٹیاں حکمران کانگریس کے ساتھ مل کر اس بل کو ایوان بالا میں منظور کرانے کی کوشش کرتی رہیں۔

اس سارے معاملے کو 7 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور 3 بڑی پارٹیوں کی خواتین لیڈرز جن میں سونیا گاندھی، سشما سوراج اور برنڈہ کارٹ شامل ہیں، ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر میڈیا کے سامنے پیش ہوئیں اور اعلان کیا کہ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے لیکن 2017ء میں ایوان زیریں میں یہ بل منظور نہ ہو سکا۔ یو پی اے کی حکومت کی اگرچہ لوک سبھا میں262 نشستیں تھیں پھر بھی وہ مشترکہ طور پر اس بل کو منظور نہ کرا سکیں۔ اب بی جے پی کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کو ایوان میں کوئی کمی نہیں ہے نیز یہ جماعت اتنی قوت ضرور رکھتی ہے کہ اس بل کو منظور کرا سکے۔ وزیراعظم نریندر مودی پر عزم ہیں کہ وہ اس بل کو یقینا منظور کرایں گے لیکن میں تب بھی حیرت کا اظہار کروں گا اگر یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مرد پارلیمنٹرین خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو وہ اپنے اقتدار کو خواتین کے ساتھ شریک نہیں کرنا چاہتے۔

جب وہ اپنے گھروں میں عورتوں کو برابر کی عزت نہیں دیتے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواتین کو ایک حد سے زیادہ اختیارات دینے کے حق میں نہیں۔ یہ درست ہے کہ مودی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک عورت کو ملک کا وزیر دفاع مقرر کیا ہے جو کہ ماضی کی روایات سے بہت برا تفاوت ہے۔ حتیٰ کہ اندرا گاندھی جو سب سے زیادہ طاقتور خاتون سمجھی جاتی ہیں اسے بھی وزارت خارجہ سے بڑا کوئی عہدہ نہیں دیا گیا۔ دفاع اور خارجہ امور کا کسی خاتون کے پاس جانا وزیراعظم مودی کا بہت بڑا اقدام ہے جو کہ مودی کی مثبت سوچ کی آئینہ داری کرتا ہے۔ میری امید صرف اتنی ہے کہ مودی اپنا عزم برقرار رکھیں اور اس بل کو پارلیمنٹ سے منظور کرائیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس بل کا مقصد 2019ء کے عام انتخابات میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنا ہے۔ خیر جو بھی وجوہات ہوں خواتین کو بھارت کے معاملات میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہونا چاہیے لیکن یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب لوک سبھا میں ان کی تعداد زیادہ ہو۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story