نئی خارجہ حکمت عملی

پاکستان کی میانمار کے متعلق پالیسی میں یکسوئی مشکل ہوگئی


Anis Baqar September 22, 2017
[email protected]

KARACHI: تقریباً 5 برس بعد پاکستان کو کوئی وزیر خارجہ نصیب ہوا وہ بھی جو ماضی میں اس منصب کا کوئی تجربہ نہ رکھتا تھا۔ پھر بھی انھوں نے کئی سمت کے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی ورنہ پاکستان کے سیاستدانوں کو دنیا بھر میں چین اور سعودی عرب کے علاوہ کوئی ملک نظر نہ آتا تھا، اگر کوئی نظر بھی آیا تو وہ ترکی۔ گزشتہ دس برسوں سے شرق اوسط میں سعودی عرب کے علاوہ کوئی ملک نظر نہ آتا تھا۔ مگر برکس کانفرنس کے بعد حکومت کو اپنی خامیاں نظر آنے لگیں اور یہ اچھا ہوا کہ حاکموں نے خوش دلی سے خامیوں کو قبول کیا۔ چین کی طرف سے برکس اعلامیہ میں پاکستان پر پہلی بار نکتہ چینی کو نظر انداز کیا گیا اور جیش محمد اور لشکر طیبہ پر بھارت کے موقف کو قرارداد کی زینت بننے دیا گیا۔

اس لیے پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس موضوع پر خصوصی توجہ دی۔ گو کہ تیر کمان سے نکل چکا تھا مگر پھر بھی اس پر مزید گفتگو اور منفی اثرات میں اضافہ نہ ہوسکا اور روایتی گفتگو جاری رہی اور چین اور پاکستان کے روابط میں روایتی تعلقات برقرار رہے۔ ماضی میں 2 بار چین نے قرارداد کو ویٹو کیا تھا مگر پاکستانی تنظیموں کی کارکردگی دنیا کی نظروں سے اوجھل نہ رہی بلکہ اس میں بھارت اور افغان سیاستدانوں کا واویلا زیادہ تھا۔ گو افغانستان کا براہ راست برکس سے کوئی تعلق نہیں مگر عالمی تعلقات میں پروپیگنڈے کی بڑی اہمیت ہے۔

افغان سفارتکاری پاکستان کے خلاف موثر انداز میں سرگرم ہے، مانا کہ اشرف غنی کی افغانستان میں اتنی مقبولیت نہیں مگر جو لوگ اس کے ہمراہ ہیں وہ لائق اور فائق ہیں، اسی لیے افغان صدر نے استدلال اور منطق کی گفتگو کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے اور منطقی طور پر وہ امریکا کو قائل کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے، مگر اس نے جو پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات اٹھا رکھے ہیں اس پر امریکا کی نظر نہیں۔ یہ خامی ہماری خارجہ حکمت عملی کی رہی۔ کیونکہ سفارتکاری کی دنیا پر پاکستان کی توجہ نہیں رہی۔ خود ہی وزیراعظم، عالمی امور پر فیصلے، دنیا میں کاروباری فیصلے، بھارت سے کاروبار بھی اور کشیدہ تعلقات میں توازن کو برقرار رکھنا، یہ تمام مرحلے حکومت کے لیے آسان نہ تھے۔ ظاہر ہے کاروبار اور سیاست مخالف سمتوں میں کوئی سہل راستہ نہ تھا اور جب چین کی جانب سے ایک نکتہ چینی کی گئی، سو یہ عسکری اور سیاسی قوتوں کے لیے اچھی خبر نہ تھی اور ملکی رائے عامہ نے بھی اس تنقید پر مایوسی کا اظہار کیا۔

چونکہ داعش کی آمد نے اور اس کے اختتام نے دنیا میں رائے عامہ کو مذہبی انتہاپسندی کو ایک منفی عمل قرار دیا۔ اس لیے پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی نمو کو دنیا میں ریاست کی سرپرستی سمجھا جاتا ہے اور آئے دن نئی سے نئی تنظیموں کی آمد اور پھر ان پر قدغن کی وجہ سے پاکستان کو دو طرفہ طرز عمل کی ریاست سمجھا جا رہا ہے اور پھر ریاست کا وجود دنیا کی نظر میں مختلف ہوتا جا رہا ہے۔ مثلاً روہنگیا مسلمانوں پر پاکستان کا ردعمل مذہبی بنیاد پر برما مخالف تھا مگر جیسے چین نے (برما) میانمار کی حکومت کی حمایت کردی اس کے بعد پاکستان کی میانمار کے متعلق پالیسی میں یکسوئی مشکل ہوگئی، کیونکہ امریکا میانمار کے مسلمانوں کا ہمنوا اور چین مخالف ہوگیا ہے۔ لہٰذا علاقے کی پالیسی پیچیدہ تر ہوتی جا رہی ہے، ایسی صورت میں تمام وہ ریاستیں جن کا ریاستی مذہب کوئی نہیں، وہ آسودہ ہیں۔ مگر پاکستان چونکہ اسلامی جمہوریہ ہے اس کو بہت غور و فکر کے بعد قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ جب کہ ترکی مسلمانوں کا ملک ہے مگر ترکی سیکولر اسٹیٹ ہے۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان کی ریاست کو سیکولر ہونا چاہیے یا نہیں، یہ مسئلہ پاکستان کے عوام خود طے کریں گے، فی الوقت اس پر ملک میں کوئی تصادم نہیں، البتہ تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہے۔

رہ گیا کہ ہم ترکی کی راہ پر چلنے کے قابل ہیں یا نہیں، دونوں ملکوں کے ثقافتی اور آئینی حالات مختلف ہیں۔ پاکستان نیٹو (Nato) کا ممبر نہیں، البتہ ایک زمانے میں پاکستان سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا جب کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس کو سیٹو اور سینٹو سے آزاد کرایا تھا۔ جب کہ ترکی اب بھی نیٹو Nato کا رکن ہے۔ اور روز بروز ترکی روس سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ نیٹو کا رکن ملک ہونے پر بھی طیب اردوان نے تقریباً 15 روز قبل روس سے اربوں روپے کا دفاعی سامان خریدا۔ یہ ایک عجب ڈیل ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔ باوجود اس کے کہ پاکستان امریکا سے کسی دفاعی معاہدے میں جکڑا ہوا نہیں، مگر یہ ترکی جتنا آزاد بھی نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا نیٹو کا سربراہ ہے، مگر اپنے رکن کی حمایت سے وفا نہیں کر رہا۔ بلکہ ترکی کے مخالف گروہ کردوں کو بھاری اسلحے سے لیس کرتا جا رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں ترکی نے جو رویہ اختیار کیا اس کی وجہ سے ترکی کو یورپی یونین میں وہ مقام نہ ملا جس کا وہ مستحق تھا اور آئے دن جرمن چانسلر صاحبہ ترکی پر غیر ضروری تنقید کرتی رہتی ہیں۔ رہ گیا پاکستان کو امریکا کی ناراضگی کا اتنا ملال کیوں ہے، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکا میں کوئی ایسی ڈیل ہے جس کی بنا پر وہ ذرا سا کچھ ہو امریکا فوراً ڈرون حملہ کردیتا ہے اور ہماری جانب سے کاغذی احتجاج ہوتا ہے اور تمام مذہبی پارٹیاں خاموش تماشائی بنی رہ جاتی ہیں۔

اگر بغور حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے وزیر خارجہ نے ایک ایک یا 2 دن ہر ملک کے دورے پر لگائے ہیں مگر امریکا کے مقاصد اور دنوں کا کوئی تعین نہیں۔ اس کی وضاحت خود امریکی اداروں کی جانب سے دی گئی ہے کہ پاکستان کو امریکی تعلقات سے جو خصوصی مراعات حاصل ہیں وہ اس سے گویا مراعات واپس لے سکتا ہے۔ آخر یہ خصوصی تعلقات اور مراعات کیا ہیں، اس میں کیا خاص بات یا شق شامل ہے جس پر امریکا ہمیشہ اپنا اثر دکھاتا ہے۔ جیسے کہ وہ ہمارا آقا بنا ہوا ہے، جب کہ پاکستان نے سی پیک معاہدہ چین سے کرلیا جو امریکا کا ہند چینی معاملات میں مخالف ہے ابھی میانمار (برما) میں روہنگیا کے مسلمانوں پر ایک بڑا عالمی تنازع جاری ہے، اس پر بنگلہ دیش، پاکستان کا ایک موقف ہے مگر چین نے میانمار پر بالکل متضاد موقف اختیار کر رکھا ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ چین ہمارے ہر موقف کو مسترد کرے یا ہم چین کی ہر بات کی ہاں میں ہاں کریں۔ کیونکہ چین نے اپنے سیاسی تعلقات کو ایک اصول سے منسلک کر رکھا ہے اور چین کے سیاسی تعلقات کو پنج شیلا کے اصولوں کی بنیاد پر طے کر رکھا ہے۔ میانمار کے مسئلے پر امریکا کا موقف واضح ہے۔ دنیا روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی کو اس لیے اہمیت دے رہی ہے کہ یہ صوبہ معدنیاتی طور پر بہت آمدنی والا ہے لہٰذا اس صوبے پر مسلمانوں کو قابض نہیں ہونا چاہیے۔ بعض نکتہ دانوں کا کہنا ہے کہ روہنگیا صوبے میں شدت پسند مسلمانوں نے جنگ کا آغاز کیا مگر یہ بات درست ہے کہ میانمار حکومت نے جمہوری روایات کو پامال ہونے دیا اب غلطی کس کی ہے اور قابل ملامت کون ہے، مظالم کسی کے ہاتھ سے ہوں اس پر مذمت ضروری ہے۔ عربستان میں یمن پر بھی مظالم جاری ہیں مگر وہاں لوگوں کی نظر نہ پڑی۔ تمام دنیا اپنے سیاسی مقاصد کے اصول اور ہم خیالوں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ اصول پرستی، گناہ اور ثواب میں لوگ نہیں الجھ رہے ہیں یہ ہیں آج کل کے طریقہ واردات۔ لیکن پاکستان اپنے اہم محل وقوع کی بنیاد پر مشکلات کا شکار ہے۔

اگر تاریخی تناظر میں افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو دیکھا جائے تو پاکستان کا افغان حکومت سے کوئی اختلاف نہ تھا باوجود اس کے کہ وہاں سوشلسٹ انقلاب آ چکا تھا۔ مگر امریکا میں سرخ انقلاب کے لیے سازشیں شروع ہوچکی تھیں اور پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقے میں مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد ڈالی گئی اور پاکستان کو استعمال کیا گیا اور اب مغرب نواز افغانیوں کو جن میں اکثریت فارسی بولنے والوں کی ہے ان کو برسر اقتدار لاکر پاکستان کو ان کی تابعداری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گویا امریکا پاکستان کو مساوی درجہ دے کر بات چیت نہیں کر رہا ہے بلکہ ڈو مور کا پہاڑا یاد کرا رہا ہے۔ میں نے گزشتہ مضمون میں صدر اشرف غنی کو استدلال اور منطق کی بات پر حکومت کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ایک وسیع و عریض مسودہ کسی بڑے انٹرنیشنل ریلیشن کے استاد سے اس مسئلے پر تیار کرا کے تمام یونیورسٹیوں میں پاک افغان تعلقات پر سیمینار کرائے جائیں اور تشہیر کی جائے تو یقیناً پاک افغان تعلقات میں تسلی بخش پیشرفت نمایاں ہوگی۔ کیونکہ وزارت کا قلمدان ہر وقت ہر سمت یکساں توجہ کا خواستگار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں