ناقابلِ فراموش آدمی ناقابلِ فراموش خراجِ تحسین
مولانا الطاف حسین حالی ہی نے سر سید کی باقاعدہ سوانح عمری (حیاتِ جاوید) لکھی تھی
KARACHI:
آج پاکستان کے اکیس، بائیس کروڑ شہری اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آزادی کی جن بیش بہا اور لاتعداد نعمتوں سے لطف اندوز اور مستفید ہو رہے ہیں، اِن سب کے عقب میں ایک بے مثال شخص کی قومی خدمات اور محنتیں کار فرما ہیں۔ ہمارے قومی محسنین میں حضرت علامہ محمداقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒممتاز، محترم اور بلند ترین مقام رکھتے ہیں۔ تاریخی طور پر مگرہماری علمی اور قومی زندگی پر جو بے پناہ احسانات جناب سر سید احمد خان مرحوم و مغفور کے ہیں، وہ کسی اور کے نہیں۔ سر سید احمد خان کے قومی احسانات کے سامنے تو علامہ اقبال کا سر بھی جھکتا ہے اور قائد اعظم کا بھی۔17اکتوبر2017ء کو سر سید احمد خان کا 200 واں یومِ پیدائش منایا جارہا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آج پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں بسنے والے تقریباً دو ارب انسان سر سید احمد خان کے زیر بارِ احسان ہیں۔ اسلامیانِ متحدہ ہندوستان کے تو وہ سب سے بڑے محسن تھے۔ متفقہ اور مصدقہ محسن۔ اگر سر سید احمد خان مسلمانانِ ہند کے دلوں میں دو قومی نظریہ راسخ نہ کرتے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تعلیم و تعلّم کے میدان میں دیوانہ وار نہ نکلتے تو سچی بات یہ ہے کہ برِ صغیر کے مسلمانوں کو یہاں کا اکثریتی ہندو ہڑپ کر جاتا اور غالب و حاکم انگریز ہمیشہ کے لیے ہمیں ہندوؤں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر انگلستان روانہ ہو جاتے۔اِس عظیم اور بے بدل شخصیت کے احسانوں کو یاد کرنے اور اُن کی باقاعدہ 200 ویں سالگرہ منانے کے لیے وطنِ عزیز کے معروف سرکاری ادبی جریدے ''ماہِ نَو'' نے ایک ایسا اقدام کیا ہے جو بینظیر بھی ہے اور منفرد بھی۔ اِس اقدام میں بیک وقت محبت بھی جھلکتی ہے اور احترام و اکرام بھی۔ ''ماہِ نَو'' نے ''سر سید احمد خان : مسلمانانِ برِ صغیر پاک وہند کے محسنِ اعظم'' کے عنوان سے ، 537 صفحات پر مبنی، ایک نہایت شاندار اور پُر شکوہ خصوصی نمبر شایع کیا ہے۔
بڑی تقطیع اور چار رنگوں میں اشاعت پذیر ہونے والے اِس خصوصی نمبر کو مضبوط اور قیمتی گلیزنگ پیپر پر شایع کیا گیا ہے تاکہ اس کی طبعی عمر بھی تادیر قائم رہے۔ جناب محمد سلیم بیگ، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کتاب کے سچے عاشق ہیں، کی زیر نگرانی یہ عظیم ادبی وقومی خدمت انجام دی گئی ہے۔ یہ خصوصی اشاعت اگر معنوی اور صوری اعتبار سے دلکش اور دلکشا ہے تو اِ س کے عقب میں پورے ڈیڑھ سال کی محنتِ شاقہ کار فرما ہے۔
اِس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سر سید احمد خان کو خراجِ تحسین پیش کرتے اِس خصوصی نمبر کے اوّلین صفحات میں (سابق) وزیر اعظم جناب نواز شریف اور وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب کے خصوصی پیغامات بھی شامل ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب یہ خصوصی نمبر تیاری اور تکمیل کے مراحل سے گزر رہا تھا تو اِس کے نگرانِ اعلیٰ محمد سلیم بیگ صاحب نے دونوں مذکورہ اہم شخصیات کوساتھ ساتھ آگاہ بھی رکھا ہوگا۔ اِس کا ایک مزید دلربا مطلب یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے اوّلین معمار، سر سید احمد خان، کی200 ویں سالگرہ منانے میں جناب نواز شریف اور محترمہ مریم اورنگزیب کی محبتیں اور تمام تر احترام بھی موجود ہیں۔
''ماہِ نَو'' کی اِس خصوصی اشاعت ( سر سید احمد خان: مسلمانانِ برِ صغیر پاک وہند کے محسنِ اعظم) میں 88 مضامین شامل ہیں۔تقریباً سبھی مضامین، جو تاثراتی بھی ہیں اور سوانحی بھی، بڑی محنت اور احتیاط سے لکھے گئے ہیں۔ بعض قدیم لکھاری جو برسہا برس اور براہ راست سر سید احمدخان صاحب سے ملاقاتیں کرتے رہے، اُن کے مشاہدات تو حیرت خیز ہیں۔ یہ مشاہدات ہمارے اس عظیم مصلحِ قوم کی عظمتوں، محنتوں اور بے مثال خدمات کے کئی ایسے نئے رُخ سامنے لاتے ہیں جو اِس سے قبل ہماری نظروں سے پوشیدہ تھے۔مثال کے طور پر: ہم تو ابھی تک یہی سمجھتے رہے ہیں کہ صرف مولانا الطاف حسین حالی ہی نے سر سید کی باقاعدہ سوانح عمری (حیاتِ جاوید) لکھی تھی مگرزیر نظر خصوصی نمبر سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ایک معروف انگریز ادیب، کرنل جارج گراہم، نے بھی سرسید کے سوانح حیات مرتّب کیے تھے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جناب سر سید احمد خان کی قومی، تعلیمی اور سماجی خدمات کو (متحدہ )ہندوستان کے ساتھ ساتھ انگلستان کی اشرافیہ بھی دل سے تسلیم کررہی تھی۔
اُردو کے نامور ادیب اور نقاد سید عبداللہ صاحب کا وہ تفصیلی مضمون بھی شاملِ اشاعت ہے جس میں ''حیاتِ جاوید'' کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کی سائنٹفک کوشش کی گئی ہے۔ اس وقیع مضمون کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب ''حیاتِ جاوید'' چھپ کر سامنے آئی تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ تنقید مولانا شبلی نعمانی نے کی۔جے کینیڈی نامی ایک مقتدر انگریز، جو سرسید کے زمانے میںضلع علی گڑھ کا بہت بڑا سرکاری افسر اور سید صاحب کے دوستوں میں شامل تھا، کا مضمون تو زیر نظر خصوصی اشاعت کی خصوصی سوغات ہے۔ یہ مضمون انگریزی زبان میں سید صاحب کے انتقال کے بعدایک مشہور ادبی جریدے (ایشیاٹک کواٹرلی) میں شایع ہُوا تھا۔ اب 119برس بعد،پہلی بار یہ مضمون اُردو میں زیر نظر نمبر میں شایع ہُوا ہے۔ اس کا مطالعہ ہم پر سرسید کی عظمتوں کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ مسٹر کینیڈی بتاتے ہیں کہ سید صاحب نے کس دردمندی اور اخلاص کے ساتھ اپنی قوم(مسلمانانِ ہند) کی بہتری کے لیے حاکم اور اور محکوم کے درمیان سمجھوتہ کروایا۔ اگر سید صاحب یہ سمجھوتہ نہ کرواتے تو ممکن ہے اسلامیانِ ہند مستقل طور پر ہندوؤں کی تحویل اور غلامی میں چلے جاتے۔
ایسے بھی مگر بہت تھے جو سید صاحب کی مخالفت میں (اور اُن کی بعض متنازع تحریروں کی بنیاد پر) اُن پر کُفر کے فتوے لگا کر انھیں قتل کروانے کے درپے تھے۔ ایسے افراد میں ایک مولوی علی بخش خاں بھی تھے جنہوں نے سر سید احمد خان کے خلاف قتل کا فتویٰ حاصل کرنے کے لیے حجاز تک کا سفر کیا۔ سید صاحب مگر ایسے متشدد مخالفین کے لیے کبھی کوئی قابلِ اعتراض لفظ اپنی زبان پر نہ لائے۔ وہ اپنی دُھن میں مگن اپنی قوم کی بہتری اور اُن کا تعلیمی و سیاسی مستقبل سنوارنے میں لگے رہے۔اِسی وجہ سے ہمارے سر سید احمد خان کا نام دوسو سال بعد آج بھی دمک رہا ہے۔
سر سید احمد خان کی خدمات کا دائرہ اسقدر وسیع اور متنوع تھا کہ ان خدمات سے ہر مذہب اور ہر مسلک نے استفادہ کیا۔ اس کا اندازہ زیر نظر خصوصی اشاعت میں شامل اُس ارمغان صفت مضمون سے ہوتا ہے جسے گاندھی جی کے پوتے راج موہن گاندھی نے لکھا۔یہ خطوط جناب سید نے 1869ء میں لندن سے اپنے دوست مولوی مہدی علی خان کو لکھے تھے۔ سید صاحب اُن دنوں لندن میںمحض اس لیے قیام پذیر تھے کہ انگریز مصنف، ولیم میور، کی لکھی کتاب میں اسلام اور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کی شان میں کی گئی گستاخیوں کا جواب لکھ سکیں۔یہ پڑھ کر تو آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں جب سید صاحب اپنے خطوط میں بار بار لکھتے ہیں کہ ولیم میور کی طرف سے سرکارِ دو عالم صلّی اللہ علیہ وسلّم کی شان میں کی گئی گستاخیوں کا دندان شکن جواب ضرور لکھوں گا، چاہے اِس راہ میں میرا سارا گھر بار فروخت ہو جائے، میرے برتن تک بِک جائیں اور چاہے مجھے لندن کے بازاروں میں بھیک ہی کیوں نہ مانگنی پڑ جائے۔ ایک خط میں عشقِ مصطفویؐ سے سرشار سر سید یوںلکھتے ہیں: ''ولیم میور کی متعصبانہ کتاب دیکھ کر دل کباب ہو گیا ہے۔
اس کا مکمل جواب ضرور لکھوں گا۔ اِس کوشش میں اگر میرا تمام روپیہ خرچ ہو جائے اور مَیں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلا سے۔ قیامت میں یہ تو کہہ کر پکارا جاوے گا کہ اُس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے دادا محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم کے نام پر فقیر ہو کر مر گیا، حاضر کرو۔'' (صفحہ 399) محمد سلیم بیگ صاحب کا دوبارہ شکریہ جنہوں نے سر سید احمد خان پر یہ خصوصی نمبر شایع کرکے ہمیں اِس عظیم المرتبت شخصیت سے ایک بار پھر رُوشناس کروایا ہے۔
آج پاکستان کے اکیس، بائیس کروڑ شہری اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آزادی کی جن بیش بہا اور لاتعداد نعمتوں سے لطف اندوز اور مستفید ہو رہے ہیں، اِن سب کے عقب میں ایک بے مثال شخص کی قومی خدمات اور محنتیں کار فرما ہیں۔ ہمارے قومی محسنین میں حضرت علامہ محمداقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒممتاز، محترم اور بلند ترین مقام رکھتے ہیں۔ تاریخی طور پر مگرہماری علمی اور قومی زندگی پر جو بے پناہ احسانات جناب سر سید احمد خان مرحوم و مغفور کے ہیں، وہ کسی اور کے نہیں۔ سر سید احمد خان کے قومی احسانات کے سامنے تو علامہ اقبال کا سر بھی جھکتا ہے اور قائد اعظم کا بھی۔17اکتوبر2017ء کو سر سید احمد خان کا 200 واں یومِ پیدائش منایا جارہا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آج پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں بسنے والے تقریباً دو ارب انسان سر سید احمد خان کے زیر بارِ احسان ہیں۔ اسلامیانِ متحدہ ہندوستان کے تو وہ سب سے بڑے محسن تھے۔ متفقہ اور مصدقہ محسن۔ اگر سر سید احمد خان مسلمانانِ ہند کے دلوں میں دو قومی نظریہ راسخ نہ کرتے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر تعلیم و تعلّم کے میدان میں دیوانہ وار نہ نکلتے تو سچی بات یہ ہے کہ برِ صغیر کے مسلمانوں کو یہاں کا اکثریتی ہندو ہڑپ کر جاتا اور غالب و حاکم انگریز ہمیشہ کے لیے ہمیں ہندوؤں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر انگلستان روانہ ہو جاتے۔اِس عظیم اور بے بدل شخصیت کے احسانوں کو یاد کرنے اور اُن کی باقاعدہ 200 ویں سالگرہ منانے کے لیے وطنِ عزیز کے معروف سرکاری ادبی جریدے ''ماہِ نَو'' نے ایک ایسا اقدام کیا ہے جو بینظیر بھی ہے اور منفرد بھی۔ اِس اقدام میں بیک وقت محبت بھی جھلکتی ہے اور احترام و اکرام بھی۔ ''ماہِ نَو'' نے ''سر سید احمد خان : مسلمانانِ برِ صغیر پاک وہند کے محسنِ اعظم'' کے عنوان سے ، 537 صفحات پر مبنی، ایک نہایت شاندار اور پُر شکوہ خصوصی نمبر شایع کیا ہے۔
بڑی تقطیع اور چار رنگوں میں اشاعت پذیر ہونے والے اِس خصوصی نمبر کو مضبوط اور قیمتی گلیزنگ پیپر پر شایع کیا گیا ہے تاکہ اس کی طبعی عمر بھی تادیر قائم رہے۔ جناب محمد سلیم بیگ، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کتاب کے سچے عاشق ہیں، کی زیر نگرانی یہ عظیم ادبی وقومی خدمت انجام دی گئی ہے۔ یہ خصوصی اشاعت اگر معنوی اور صوری اعتبار سے دلکش اور دلکشا ہے تو اِ س کے عقب میں پورے ڈیڑھ سال کی محنتِ شاقہ کار فرما ہے۔
اِس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سر سید احمد خان کو خراجِ تحسین پیش کرتے اِس خصوصی نمبر کے اوّلین صفحات میں (سابق) وزیر اعظم جناب نواز شریف اور وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات محترمہ مریم اورنگزیب کے خصوصی پیغامات بھی شامل ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب یہ خصوصی نمبر تیاری اور تکمیل کے مراحل سے گزر رہا تھا تو اِس کے نگرانِ اعلیٰ محمد سلیم بیگ صاحب نے دونوں مذکورہ اہم شخصیات کوساتھ ساتھ آگاہ بھی رکھا ہوگا۔ اِس کا ایک مزید دلربا مطلب یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے اوّلین معمار، سر سید احمد خان، کی200 ویں سالگرہ منانے میں جناب نواز شریف اور محترمہ مریم اورنگزیب کی محبتیں اور تمام تر احترام بھی موجود ہیں۔
''ماہِ نَو'' کی اِس خصوصی اشاعت ( سر سید احمد خان: مسلمانانِ برِ صغیر پاک وہند کے محسنِ اعظم) میں 88 مضامین شامل ہیں۔تقریباً سبھی مضامین، جو تاثراتی بھی ہیں اور سوانحی بھی، بڑی محنت اور احتیاط سے لکھے گئے ہیں۔ بعض قدیم لکھاری جو برسہا برس اور براہ راست سر سید احمدخان صاحب سے ملاقاتیں کرتے رہے، اُن کے مشاہدات تو حیرت خیز ہیں۔ یہ مشاہدات ہمارے اس عظیم مصلحِ قوم کی عظمتوں، محنتوں اور بے مثال خدمات کے کئی ایسے نئے رُخ سامنے لاتے ہیں جو اِس سے قبل ہماری نظروں سے پوشیدہ تھے۔مثال کے طور پر: ہم تو ابھی تک یہی سمجھتے رہے ہیں کہ صرف مولانا الطاف حسین حالی ہی نے سر سید کی باقاعدہ سوانح عمری (حیاتِ جاوید) لکھی تھی مگرزیر نظر خصوصی نمبر سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ایک معروف انگریز ادیب، کرنل جارج گراہم، نے بھی سرسید کے سوانح حیات مرتّب کیے تھے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جناب سر سید احمد خان کی قومی، تعلیمی اور سماجی خدمات کو (متحدہ )ہندوستان کے ساتھ ساتھ انگلستان کی اشرافیہ بھی دل سے تسلیم کررہی تھی۔
اُردو کے نامور ادیب اور نقاد سید عبداللہ صاحب کا وہ تفصیلی مضمون بھی شاملِ اشاعت ہے جس میں ''حیاتِ جاوید'' کا ہر پہلو سے جائزہ لینے کی سائنٹفک کوشش کی گئی ہے۔ اس وقیع مضمون کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب ''حیاتِ جاوید'' چھپ کر سامنے آئی تو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ تنقید مولانا شبلی نعمانی نے کی۔جے کینیڈی نامی ایک مقتدر انگریز، جو سرسید کے زمانے میںضلع علی گڑھ کا بہت بڑا سرکاری افسر اور سید صاحب کے دوستوں میں شامل تھا، کا مضمون تو زیر نظر خصوصی اشاعت کی خصوصی سوغات ہے۔ یہ مضمون انگریزی زبان میں سید صاحب کے انتقال کے بعدایک مشہور ادبی جریدے (ایشیاٹک کواٹرلی) میں شایع ہُوا تھا۔ اب 119برس بعد،پہلی بار یہ مضمون اُردو میں زیر نظر نمبر میں شایع ہُوا ہے۔ اس کا مطالعہ ہم پر سرسید کی عظمتوں کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ مسٹر کینیڈی بتاتے ہیں کہ سید صاحب نے کس دردمندی اور اخلاص کے ساتھ اپنی قوم(مسلمانانِ ہند) کی بہتری کے لیے حاکم اور اور محکوم کے درمیان سمجھوتہ کروایا۔ اگر سید صاحب یہ سمجھوتہ نہ کرواتے تو ممکن ہے اسلامیانِ ہند مستقل طور پر ہندوؤں کی تحویل اور غلامی میں چلے جاتے۔
ایسے بھی مگر بہت تھے جو سید صاحب کی مخالفت میں (اور اُن کی بعض متنازع تحریروں کی بنیاد پر) اُن پر کُفر کے فتوے لگا کر انھیں قتل کروانے کے درپے تھے۔ ایسے افراد میں ایک مولوی علی بخش خاں بھی تھے جنہوں نے سر سید احمد خان کے خلاف قتل کا فتویٰ حاصل کرنے کے لیے حجاز تک کا سفر کیا۔ سید صاحب مگر ایسے متشدد مخالفین کے لیے کبھی کوئی قابلِ اعتراض لفظ اپنی زبان پر نہ لائے۔ وہ اپنی دُھن میں مگن اپنی قوم کی بہتری اور اُن کا تعلیمی و سیاسی مستقبل سنوارنے میں لگے رہے۔اِسی وجہ سے ہمارے سر سید احمد خان کا نام دوسو سال بعد آج بھی دمک رہا ہے۔
سر سید احمد خان کی خدمات کا دائرہ اسقدر وسیع اور متنوع تھا کہ ان خدمات سے ہر مذہب اور ہر مسلک نے استفادہ کیا۔ اس کا اندازہ زیر نظر خصوصی اشاعت میں شامل اُس ارمغان صفت مضمون سے ہوتا ہے جسے گاندھی جی کے پوتے راج موہن گاندھی نے لکھا۔یہ خطوط جناب سید نے 1869ء میں لندن سے اپنے دوست مولوی مہدی علی خان کو لکھے تھے۔ سید صاحب اُن دنوں لندن میںمحض اس لیے قیام پذیر تھے کہ انگریز مصنف، ولیم میور، کی لکھی کتاب میں اسلام اور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کی شان میں کی گئی گستاخیوں کا جواب لکھ سکیں۔یہ پڑھ کر تو آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں جب سید صاحب اپنے خطوط میں بار بار لکھتے ہیں کہ ولیم میور کی طرف سے سرکارِ دو عالم صلّی اللہ علیہ وسلّم کی شان میں کی گئی گستاخیوں کا دندان شکن جواب ضرور لکھوں گا، چاہے اِس راہ میں میرا سارا گھر بار فروخت ہو جائے، میرے برتن تک بِک جائیں اور چاہے مجھے لندن کے بازاروں میں بھیک ہی کیوں نہ مانگنی پڑ جائے۔ ایک خط میں عشقِ مصطفویؐ سے سرشار سر سید یوںلکھتے ہیں: ''ولیم میور کی متعصبانہ کتاب دیکھ کر دل کباب ہو گیا ہے۔
اس کا مکمل جواب ضرور لکھوں گا۔ اِس کوشش میں اگر میرا تمام روپیہ خرچ ہو جائے اور مَیں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلا سے۔ قیامت میں یہ تو کہہ کر پکارا جاوے گا کہ اُس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے دادا محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم کے نام پر فقیر ہو کر مر گیا، حاضر کرو۔'' (صفحہ 399) محمد سلیم بیگ صاحب کا دوبارہ شکریہ جنہوں نے سر سید احمد خان پر یہ خصوصی نمبر شایع کرکے ہمیں اِس عظیم المرتبت شخصیت سے ایک بار پھر رُوشناس کروایا ہے۔