تقابل و موازنے کی باتیں
نظیر بھٹو نے تیسری بار بھی وزیر اعظم بننے کے لیے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا
SUKKUR:
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے 2013 کے عام انتخابات میں تیسری بار وزیراعظم بن کر اپنی صاحبزادی مریم کو اپنے متبادل کے طور پر آگے لانے کی کوشش کی تھی اور انھیں ایک سرکاری عہدے پر بھی تعینات کیا تھا جو عدالت میں چیلنج ہوا اور مریم نواز کو مستعفی ہونا پڑا تو بعد میں انھیں وزیر اعظم ہاؤس میں قائم میڈیا ہاؤس کا غیر سرکاری سربراہ بنایا گیا تھا جس پر شیخ رشید اور چوہدری نثار کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز میں اب تک کوئی سیاسی صلاحیت نظر نہیں آئی اور ملک بھر میں نواز شریف کے مخالفین بھی کہتے آ رہے ہیں کہ جس طرح میاں نواز شریف کا ذوالفقار علی بھٹو سے موازنہ درست نہیں اسی طرح مریم نواز کا بھی بے نظیر بھٹو سے موازنہ قبل از وقت ہے۔
بے نظیر بھٹو نے سیاست میں آکر آصف زرداری سے شادی کی تھی مگر اپنا نام بے نظیر زرداری نہیں رکھا تھا بلکہ وہ آخر تک اپنے والد کی ذات بھٹوکے حوالے سے بے نظیر بھٹو ہی کہلاتی رہیں کیونکہ ان کی سیاسی شناخت بھٹو ہی رہی جب کہ ان کی والدہ بھٹو سے شادی کے بعد بیگم نصرت بھٹو کہلائیں کیونکہ عمومی طور پر شادی کے بعد کسی بھی خاتون کی شناخت اس کے باپ کے نام سے نہیں رہتی اور ان کے نام کے ساتھ شوہر کا نام یا شوہر کی ذات لگ جاتی ہے۔
مریم نواز نے بھی شادی کے بعد خود کو مریم صفدر نہیں کہلایا بلکہ اپنے والد کے حوالے سے مریم نوازکہلانا پسند کیا کیونکہ بھٹو کی طرح نواز شریف مقبول سیاسی شخصیت تھے اور حکمران بھی رہے۔ذوالفقارعلی بھٹو یوں تو غیر ملکی دوروں میں بیگم کے ساتھ اپنے تینوں بچوں کو بھی ساتھ رکھتے تھے مگر وہ بے نظیر بھٹو کو خصوصی اہمیت دیتے تھے اور انھیں سیاست میں لا رہے تھے کیونکہ وہ بے نظیر میں سیاسی صلاحیت دیکھ رہے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی اور اپنے بھائیوں کی جلاوطنی پھر دونوں کی ناگہانی موت اور والدہ کی علالت ، جنرل ضیا کے مارشل لا میں اسیری اور پھر جلا وطنی کے بعد ملک سے باہر رہ کر انھوں نے پیپلز پارٹی کو سنبھالا اور پھر 1986 میں وطن واپس آکر انھوں نے عملی سیاست میں اپنی عوامی مقبولیت دیکھی اور 1988 میں پیپلز پارٹی کو اپنی سیاسی جدوجہد سے کامیابی دلائی اور ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔
پیپلزپارٹی کے بانی رہنما پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو کے ساتھ نہ چل سکے تھے اور انھوں نے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں اور بے نظیر بھٹو نے پارٹی قیادت سنبھال کر اپنی پارٹی کے انکلوں سے ہی نہیں بلکہ حقیقی انکل ممتاز بھٹو سے بھی جان چھڑالی تھی جو آصف زرداری سے شادی کے بعد ان کے بھٹو کہلانے پر معترض تھے اور دو بار بے نظیر بھٹو اقتدار میں بھی آئیں اور تیسری بار وزیر اعظم بننے کے لیے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا اور جنرل کے منع کرنے کے باوجود پاکستان آئیں اور دو ماہ بعد ہی وہ اس قاتل کا نشانہ بن گئیں جس کا سراغ ان کی پیپلز پارٹی کی حکومت اور محترمہ کے شوہر آصف زرداری 5 سال صدر رہ کر بھی نہ لگوا سکے اور حقیقی قاتلوں کا پتا چلنے کی امید بھی نہیں ۔ البتہ جنرل مشرف کے بقول محترمہ کی شہادت سے انھیں نقصان ہوا اور آصف علی زرداری کو صدارت اور پی پی کو اقتدار ملا۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھٹو کی پھانسی نے پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا اور چار بار اقتدار بھی دلایا۔ بھٹوکی مقبول صاحبزادی نے اپنے دو بھائیوں کی ناگہانی موت کے بعد پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا وہ دو بار وزیراعظم منتخب ہوئیں اور تیسرا اقتدار انھیں نصیب نہ ہوا مگر ان کی موت نے پی پی کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے حالانکہ پیپلز پارٹی میں بے نظیر بھٹو کے پائے کا کوئی اور رہنما نہیں ہے اورآصف علی زرداری پر الزام ہے کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کردیا ہے اور باقی 3 صوبوں میں پی پی برائے نام رہ گئی ہے جب کہ آصف زرداری اور ان کے بیٹے محض بلند وبانگ دعوؤں تک ہی محدود ہیں جب کہ میڈیا دونوں کے دعوؤں کو صرف دعوے قرار دینے لگا ہے اور یہی حال پی پی کے دیگر رہنماؤں کا ہے اور پی پی کی بڑھتی مقبولیت کا ثبوت لاہور کے ضمنی انتخاب میں مل گیا ہے جہاں فیصل میر نے اپنی ضمانت ضبط کروا کے پی پی کی مقبولیت کی پول کھول دی ہے۔
لاہور کے حلقہ این اے 120 کے نتیجے اور مریم نواز کی بھرپور انتخابی مہم نے بعض لیگی رہنماؤں کو بھی شاید اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کردیا ہو جن کے بیان میں مریم کو کہنا پڑا کہ وہ نواز شریف کے پرانے ساتھی اور میرے لیے قابل احترام ہیں۔ مریم نواز ایک سلجھی ہوئی خاتون ہیں جن کے لیے شیخ رشید مسلسل الزام تراشیکر رہے ہیں مگر مریم نے لاہور میں ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کی سطح کی سیاستدان تو نہیں ہیں مگر بلاول زرداری سے بہتر سیاستدان ہیں جو اب تک دوسروں کی لکھی ہوئی تقریر جلسوں میں دیکھ کر پڑھتے آرہے ہیں۔
شیخ رشید نے بلاول زرداری کو بھی نہیں بخشا اور انھیں '' بلو رانی'' قرار دیا ،شیخ صاحب پاناما کے فیصلے کے بعد خود کو ہیرو سمجھ رہے ہیں اور ایک نشست جو انھیں عمران خان کی وجہ سے ملی تھی کے باعث خود کو اور عمران خان کو ہی سب سے قابل سیاستدان سمجھ رہے ہیں۔ شیخ رشید کو کسی کا مذاق اڑانے کا حق نہیں کیونکہ مریم نواز اور بلاول زرداری اپنی پارٹیوں میں مقبول ہیں۔
پیپلز پارٹی میں سینیئر سیاستدان موجود ہیں مگر کسی نے بھی بلاول پر اعتراض کیا، نہ بچہ سمجھا ، مریم نے اب اپنی سیاسی بلوغت کا ثبوت دے دیا ہے۔ بھٹو جیسی سیاسی صلاحیت تو بے نظیر میں نہیں تھی مگر نواز شریف سے بہتر سیاسی صلاحیت مریم نواز نے ظاہر کی ہے انھوں نے نواز شریف کے بعض اقدامات سے عدم اتفاق بھی کیا مگر بلاول زرداری میں اتنی جرأت نہیں کہ اپنے والد کے کسی اقدام کو غلط کہہ سکیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی مسلسل روبہ زوال ہے مگر مریم نواز نے ثابت کردیا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی قائد نہیں تو ایک اچھی رہنما ضرور ثابت ہوسکتی ہیں اور انھوں نے اپنے چچا شہباز شریف جیسی محنت کی تو وہ مسلم لیگ (ن) کے لیے خود کو مستقبل میں قیمتی اثاثہ ثابت کرسکتی ہیں ۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے 2013 کے عام انتخابات میں تیسری بار وزیراعظم بن کر اپنی صاحبزادی مریم کو اپنے متبادل کے طور پر آگے لانے کی کوشش کی تھی اور انھیں ایک سرکاری عہدے پر بھی تعینات کیا تھا جو عدالت میں چیلنج ہوا اور مریم نواز کو مستعفی ہونا پڑا تو بعد میں انھیں وزیر اعظم ہاؤس میں قائم میڈیا ہاؤس کا غیر سرکاری سربراہ بنایا گیا تھا جس پر شیخ رشید اور چوہدری نثار کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز میں اب تک کوئی سیاسی صلاحیت نظر نہیں آئی اور ملک بھر میں نواز شریف کے مخالفین بھی کہتے آ رہے ہیں کہ جس طرح میاں نواز شریف کا ذوالفقار علی بھٹو سے موازنہ درست نہیں اسی طرح مریم نواز کا بھی بے نظیر بھٹو سے موازنہ قبل از وقت ہے۔
بے نظیر بھٹو نے سیاست میں آکر آصف زرداری سے شادی کی تھی مگر اپنا نام بے نظیر زرداری نہیں رکھا تھا بلکہ وہ آخر تک اپنے والد کی ذات بھٹوکے حوالے سے بے نظیر بھٹو ہی کہلاتی رہیں کیونکہ ان کی سیاسی شناخت بھٹو ہی رہی جب کہ ان کی والدہ بھٹو سے شادی کے بعد بیگم نصرت بھٹو کہلائیں کیونکہ عمومی طور پر شادی کے بعد کسی بھی خاتون کی شناخت اس کے باپ کے نام سے نہیں رہتی اور ان کے نام کے ساتھ شوہر کا نام یا شوہر کی ذات لگ جاتی ہے۔
مریم نواز نے بھی شادی کے بعد خود کو مریم صفدر نہیں کہلایا بلکہ اپنے والد کے حوالے سے مریم نوازکہلانا پسند کیا کیونکہ بھٹو کی طرح نواز شریف مقبول سیاسی شخصیت تھے اور حکمران بھی رہے۔ذوالفقارعلی بھٹو یوں تو غیر ملکی دوروں میں بیگم کے ساتھ اپنے تینوں بچوں کو بھی ساتھ رکھتے تھے مگر وہ بے نظیر بھٹو کو خصوصی اہمیت دیتے تھے اور انھیں سیاست میں لا رہے تھے کیونکہ وہ بے نظیر میں سیاسی صلاحیت دیکھ رہے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی اور اپنے بھائیوں کی جلاوطنی پھر دونوں کی ناگہانی موت اور والدہ کی علالت ، جنرل ضیا کے مارشل لا میں اسیری اور پھر جلا وطنی کے بعد ملک سے باہر رہ کر انھوں نے پیپلز پارٹی کو سنبھالا اور پھر 1986 میں وطن واپس آکر انھوں نے عملی سیاست میں اپنی عوامی مقبولیت دیکھی اور 1988 میں پیپلز پارٹی کو اپنی سیاسی جدوجہد سے کامیابی دلائی اور ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔
پیپلزپارٹی کے بانی رہنما پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو کے ساتھ نہ چل سکے تھے اور انھوں نے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں اور بے نظیر بھٹو نے پارٹی قیادت سنبھال کر اپنی پارٹی کے انکلوں سے ہی نہیں بلکہ حقیقی انکل ممتاز بھٹو سے بھی جان چھڑالی تھی جو آصف زرداری سے شادی کے بعد ان کے بھٹو کہلانے پر معترض تھے اور دو بار بے نظیر بھٹو اقتدار میں بھی آئیں اور تیسری بار وزیر اعظم بننے کے لیے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کیا اور جنرل کے منع کرنے کے باوجود پاکستان آئیں اور دو ماہ بعد ہی وہ اس قاتل کا نشانہ بن گئیں جس کا سراغ ان کی پیپلز پارٹی کی حکومت اور محترمہ کے شوہر آصف زرداری 5 سال صدر رہ کر بھی نہ لگوا سکے اور حقیقی قاتلوں کا پتا چلنے کی امید بھی نہیں ۔ البتہ جنرل مشرف کے بقول محترمہ کی شہادت سے انھیں نقصان ہوا اور آصف علی زرداری کو صدارت اور پی پی کو اقتدار ملا۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھٹو کی پھانسی نے پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا اور چار بار اقتدار بھی دلایا۔ بھٹوکی مقبول صاحبزادی نے اپنے دو بھائیوں کی ناگہانی موت کے بعد پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا وہ دو بار وزیراعظم منتخب ہوئیں اور تیسرا اقتدار انھیں نصیب نہ ہوا مگر ان کی موت نے پی پی کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے حالانکہ پیپلز پارٹی میں بے نظیر بھٹو کے پائے کا کوئی اور رہنما نہیں ہے اورآصف علی زرداری پر الزام ہے کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کردیا ہے اور باقی 3 صوبوں میں پی پی برائے نام رہ گئی ہے جب کہ آصف زرداری اور ان کے بیٹے محض بلند وبانگ دعوؤں تک ہی محدود ہیں جب کہ میڈیا دونوں کے دعوؤں کو صرف دعوے قرار دینے لگا ہے اور یہی حال پی پی کے دیگر رہنماؤں کا ہے اور پی پی کی بڑھتی مقبولیت کا ثبوت لاہور کے ضمنی انتخاب میں مل گیا ہے جہاں فیصل میر نے اپنی ضمانت ضبط کروا کے پی پی کی مقبولیت کی پول کھول دی ہے۔
لاہور کے حلقہ این اے 120 کے نتیجے اور مریم نواز کی بھرپور انتخابی مہم نے بعض لیگی رہنماؤں کو بھی شاید اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کردیا ہو جن کے بیان میں مریم کو کہنا پڑا کہ وہ نواز شریف کے پرانے ساتھی اور میرے لیے قابل احترام ہیں۔ مریم نواز ایک سلجھی ہوئی خاتون ہیں جن کے لیے شیخ رشید مسلسل الزام تراشیکر رہے ہیں مگر مریم نے لاہور میں ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کی سطح کی سیاستدان تو نہیں ہیں مگر بلاول زرداری سے بہتر سیاستدان ہیں جو اب تک دوسروں کی لکھی ہوئی تقریر جلسوں میں دیکھ کر پڑھتے آرہے ہیں۔
شیخ رشید نے بلاول زرداری کو بھی نہیں بخشا اور انھیں '' بلو رانی'' قرار دیا ،شیخ صاحب پاناما کے فیصلے کے بعد خود کو ہیرو سمجھ رہے ہیں اور ایک نشست جو انھیں عمران خان کی وجہ سے ملی تھی کے باعث خود کو اور عمران خان کو ہی سب سے قابل سیاستدان سمجھ رہے ہیں۔ شیخ رشید کو کسی کا مذاق اڑانے کا حق نہیں کیونکہ مریم نواز اور بلاول زرداری اپنی پارٹیوں میں مقبول ہیں۔
پیپلز پارٹی میں سینیئر سیاستدان موجود ہیں مگر کسی نے بھی بلاول پر اعتراض کیا، نہ بچہ سمجھا ، مریم نے اب اپنی سیاسی بلوغت کا ثبوت دے دیا ہے۔ بھٹو جیسی سیاسی صلاحیت تو بے نظیر میں نہیں تھی مگر نواز شریف سے بہتر سیاسی صلاحیت مریم نواز نے ظاہر کی ہے انھوں نے نواز شریف کے بعض اقدامات سے عدم اتفاق بھی کیا مگر بلاول زرداری میں اتنی جرأت نہیں کہ اپنے والد کے کسی اقدام کو غلط کہہ سکیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی مسلسل روبہ زوال ہے مگر مریم نواز نے ثابت کردیا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی قائد نہیں تو ایک اچھی رہنما ضرور ثابت ہوسکتی ہیں اور انھوں نے اپنے چچا شہباز شریف جیسی محنت کی تو وہ مسلم لیگ (ن) کے لیے خود کو مستقبل میں قیمتی اثاثہ ثابت کرسکتی ہیں ۔