عالمگیر اخوت
صحت کے لیےعلاج کا خیال رکھنا ہر مسلمان کا اس کی قوت اور استطاعت کے مطابق ایک دینی فریضہ ہے
مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت ہے جس کا سرچشمہ لا الٰہ الااﷲ ہے۔ وہ مغرب کے تصور قومیت سے کیفیت، کمیت اور خصوصیت ہر لحاظ سے منفرد اور جدا ہے۔ اسلام نے رنگ، نسل، زبان، وطن، معیشت اور سیاست کی بنیادوں پر قومیت کی تعمیر کی بجائے خالص روحانی، جوہری اور نظریاتی بنیادوں کی نئی سمت اور نئی نہج پر قومیت کی تعمیر و تشکیل کی اور اسے جداگانہ تشخص دینے کے لیے ملت کے منفرد اور امتیازی نام سے تعبیر کیا اور عشق بتاں کو نہیں، عشق یزداں کو قومیت کی اصل قرار دیا۔
اسلام خاندانوں، قبیلوں اور خطوں کی فطری ترتیب و تقسیم کا قائل ہے اور ان کا مقصد باہمی تعارف وتعاون، اتحاد و اتفاق اور حمد و تالیف قرار دیتا ہے۔ انسان بحیثیت ایک نوع بھی وحدت ہے اور اس انداز فکر کی قطعاً گنجائش نہیں بلکہ یہ انسان کے دل و دماغ پرخناس کا اثر ہے کہ لسانی، نسلی، وطنی اور لسانی امتیازات کے چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچ کرانسانوں کے درمیان مخالفت، مزاحمت، عداوت اور نفرت کی دیوار کھڑی کر دی جائے۔
جو ان دیواروں کے دروں ہو وہ اپنا، جو بروں ہو وہ غیر قرار پائے۔ اس طرح تنافر اور تفاخر کے بیج بو کر خون انسان سے اسے سینچ کر مادی اور جسمی مفادات کی فصلیں تیار کی جائیں۔ ہدف تحقیر بنا کر غیروں کو تسخیر کیا جائے۔ کمتری اور برتری کے پیمانے وضع کیے جائیں۔ تعصب کی دوربین آنکھوں پر لگا کر آگ و خون میں چیختی، سسکتی، دم توڑتی بہتی ہوئی انسانی نعشوں کے مناظر دیکھ کر جام سرور نوش کیا جائے۔ انسان کی فرمانبرداری، وفاداری اور جانثاری کے مستحق خداؤں میں سب سے زیادہ چلن آج وطن کا ہے۔ بقول اقبالؒ ''ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے''۔
قوم پرستی اور وطن پرستی کے مشرکانہ جذبے کو ہوا دینا، عصبیت، نفرت اور ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ امن و سلامتی کے پیروں پر کلہاڑی مارنا اور شاخ نازک پر آشیانہ بنانا ہے۔ اپنے ہی خنجر سے خودکشی اور نسل کشی کرنا ہے۔ وطن پرستی اور قوم پرستی کی فکر گستاخ کی بے تاب بجلیوں سے آج پورا عالم انسانیت خطرے میں ہے اس کے مفر کی ایک ہی صورت ہے کہ نظریاتی قومیت کو وحدت اور سیاسی مرکزیت کے لیے ایک بنیادی عامل صدق دل سے تسلیم کرنا اور رائے عامہ کا وحدت الٰہ اور وحدت آدم کے تصور پر متفق علیہ ہونا، ایک خدا، ایک قانون، ایک مرکز اور ایک ہی آدم کے مشترک گھرانے کا اپنے آپ کو باعزت فرد سمجھنا۔ جس کا اسلام داعی ہے۔
اس بنیاد پر ایک عالمی ریاست کی عمارت کی تعمیر کی صورت نکل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سب تدبیریں الٹی ہو جائیں گی، نہ دعا سے کام چلے گا نہ دوا سے۔ مرض بڑھتا چلا جائے گا۔ اگر انسانی ذہن وحدت الٰہ اور وحدت آدمؑ کی قدر مشترک پر متفق نہ ہوں گے۔ اسلام انسان وحدتِ الٰہ اور وحدتِ آدم کی حقیقت پر ٹھنڈے دل سے غور کرو، آواز فطرت کو سنو اور عمل کرو، غیر عقلی اور غیر فطری آواز جو ظاہر میںسریلی لیکن باطن میں زہریلی ہے اس کے پیچھے جانوروں کی طرح مت بھاگو۔ خناس کے جمائے ہوئے نقش کہن کو نیتوں، ارادوں، دلوں اور دماغوں سے کھرچ کھرچ کر مٹادو۔ اسی میں انسانیت کی عافیت ہے۔ اور حقیقی شادمانی کی ضمانت ہے۔
وحدتِ الٰہ اور وحدت آدم اسلام کا ساز بھی ہے آواز بھی۔ بیان بھی ہے زبان بھی۔ اس سلسلے میں کئی قرآنی آیات اظہر من الشمس ہیں۔
وحدت کی حقیقت کو رسولؐ خدا نے اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں واضح، صاف اور روشن انداز میں بیان فرمایا تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے اور انسان کو ناحق پکڑے جانے کا نہ شکوہ ہو اور نہ ہی شکایت۔ اور غیر موجود تک جو موجود تھے آپؐ نے اس کی خبر کی نشر کا ذمے دار ٹھہرایا۔ خبر یہ ہے:
''خوب سن رکھو کہ فخر و تاز کا ہر سرمایہ، خون و مال کا ہر دعویٰ آج میرے قدموں کے نیچے ہے۔ اے اہل قریش! اﷲ نے تمہاری جاہلیت و نخوت اور باپ دادا کی بزرگی کے فخر و تاز کو مٹادیا ہے۔ اے لوگو! تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ نسب پر کوئی فخر نہیں۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فخر نہیں۔ تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ بتاؤ میں نے تمہیں خبر پہنچادی۔ لوگوں نے کہا ہاں یا رسول اﷲؐ پھر آپؐ نے نصیحت کی اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ خبر پہنچادے جو موجود نہیں''۔
اسلام میں فرزندان توحید کا تصور ہے لیکن فرزند زمین کے تصور کا کوئی وجود نہیں۔ اصل چیز نسل، زبان، قوم اور وطن نہیں، دین و ایمان ہے جو ہر چیز سے برتر اور عزیز تر ہے۔ جس پر دنیا کی ہر چیز کو قربان کیا جاسکتا ہے لیکن اسے دنیا کی کسی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا ۔ رسول خدا نے مکہ سے ہجرت اور مدینہ میں سکونت اختیار کرکے اور وہاں ابدی آرام فرماکر وطنی قومیت کی جڑیں کاٹ دیں۔ اگر اسلام کا تصورِ قومیت مادی، حسی اور ارضی نوعیت کا ہوتا تو بلال حبشیؓ، سلمان فارسیؓ اور صہیب رومیؓ کسی حال میں بھی اسلام کے گھر میں داخل ہوکر ملتِ اسلامیہ کی رکنیت اختیار نہیں کرسکتے تھے۔ اگر رنگ، نسل، زبان یا وطن میں سے کسی کو بھی قومیت کی تشکیل کا بنیادی عامل تصور کرلیا جائے تو اس سے دین اسلام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔
دین اسلام، اہل ایمان کے دلوں میں یہ زندہ جذبہ اور احساس پیدا کرتا ہے کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پر وہ سب ایک ہیں۔ وحدتِ کائنات، وحدت الٰہ، وحدت انسان کی طرح وحدت مسلمان ایک اٹل حقیقت ہے اور امت مسلمہ کی قوت، عظمت اور شان و شوکت کا راز جذب باہم اور ہم آہنگ رہنے میں مضمر ہے جسم وحدت کی صحت کے لیے پرہیز اور علاج کا خیال رکھنا ہر مسلمان کا اس کی قوت اور استطاعت کے مطابق ایک دینی فریضہ ہے، وحدت مسلمان کا منکر گویا وحدت الٰہ کا منکر ہے، غیر شعوری طور پر ضرب لگانے والا اسلام کا دانا دشمن ہے اور دونوں ہی اﷲ کو سخت ناپسندیدہ ہیں اﷲ کو تو وہ پسندیدہ ہے جو اس کی قوت کو بحال، برقرار اور اضافہ کرنے میں کوشاں رہے وحدت اسلام کی فطرت مختاری، بلندی اور برتری ہے اور کثرت کی فطرت کمزوری، پستی اور مجبوری ہے، اس لیے دین اسلام نے وحدت کا دامن مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے اور کثرت میں تقسیم ہونے سے سخت منع فرمایا ہے۔
وحدت اور اخوت مسلمانوں کے لیے اﷲ کی رحمت اور نعمت ہے۔ اگر وہ اخوت کی نعمت کو جو انھیں اﷲ کی عنایت سے حاصل ہوئی ہے اسے کھونے کی کوشش کریں، ناشکرے پن کا مظاہرہ کریں، اخوت کی عزت اور غیرت کو بالائے طاق رکھ کر ننگے پن پر اتر آئیں۔ یگانے بن جائیں، بات باتوں سے ہاتھوں، لاتوں، تلواروں اور ہنگاموں تک پہنچ جائے ، وحدت دو ٹکڑے ہوجائے تو یہ مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے کہ ان کی اپنی امت کے دو گروہ آپس میں آگ اور خون کے دریا میں ایک دوسرے کو ڈبونے کی کوشش کررہے ہوں اور وہ تماشائی بنے یہ افسوسناک منظر دیکھتے رہیں۔ بلکہ یہ غمناک صورتحال اہل ایمان کے جذبۂ ایمان کی آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے۔ یہ خبر سن کر ان کا حال یہ ہوجانا چاہیے کہ ان کے دل کی کلی کی بے کلی دیکھی نہ جاسکے۔ جب تک کہ جنگ کو امن میں، دشمنی کو دوستی میں، آگ کو انداز گلستان میں نہ بدل دیں چاہے اس حصول مقصد کی خاطر ان سب کو مل کر وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے مظالم گروہ کے خلاف جہاد ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اسلام ہی وہ دین ہے جس نے نظریہ کو قومیت کی اساس قرار دے کر روئے زمین کے تمام خطوں میں بکھری ہوئی نوع انسانی کی بے شمار نسلوں اور قوموں کو مجتمع کرکے وحدت کی لڑی میں پروکر ایک امت بنادیا۔ اس نے قومیت کے پیرہن کو مذہب کے تانے بانے سے تیار کیا۔ اسلام کا کسی خاندان، ذات، قبیلہ یا نسل سے کوئی واسطہ اور رابطہ نہیں، وہ تو ایک اصول، نظریہ اور نظامِ حیات کا نام ہے۔ ہر وہ فرد جو اﷲ کو اپنا رب ، محمدؐ کو اپنا رسول اور اسلام کو اپنا دین تسلیم کرنے پر راضی اور مطمئن ہوجائے۔ وہ مسلم کہلانے میں حق بجانب ہوتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی نسل، رنگ، زبان یا خطہ زمین سے ہو، اسلام عشق بتاں کو نہیں، عشق یزداں کو قومیت کی اصل قرار دیتا ہے اور عالمگیر اخوت کا سب سے بڑا داعی اور علمبردار ہے۔