کرپشن کہانی
قومی سیاست کی اسٹوری اور اسکرین پلے پر غور کریں تو یہ بھی کسی فلم سے کم نہیں ہے
TEHRAN:
اس بار میرا جی چاہ رہا تھا کہ آپ کو وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان راجہ پرویز اشرف کے ساتھ اپنی ''ون ٹو ون'' ملاقات کا احوال بیان کروں جس کے لیے مجھے اچانک لاہور سے اسلام آباد کا سفر کرنا پڑا لیکن ہمارے ہاں سیاسی پلوں کے نیچے سے پانی اس قدر تیزی سے بہتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان سے ''تخلیہ'' میں کی گئی ملاقات مجھے ''آخری ملاقات'' لگنے لگی ہے،
لیکن جیسا کہ بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان کہا کرتے ہیں کہ... پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست...کولیشن پارٹنرز نے بھی فیصلے کی شام ہی صدر زرداری کی زیرصدارت اجلاس میں مشترکہ ایجنڈا طے کیا ہے کہ توہین عدالت بل کے سلسلہ میں پارلیمنٹ سے نیا قانون پاس کرایا جائے گا... وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سے میری ملاقات 31 جولائی بروز منگل دوپہر 12بجے ہوئی،
مورخہ 3 اگست کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت قانون کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد میڈیا میں تعینات منصفین نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ...راجہ کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو گیلانی کے ساتھ ہوا تھا... ہمارے ہاں برکتوں کے مہینے میں گراں فروشوں اور حکمرانوں نے مہنگائی کو دوگنا اور چوگنا کر کے ثابت کر دیا ہے کہ فریقین میں گرینڈ الائنس ہو چکا ہے۔
جس تیزی سے ماہ رمضان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھی ہیں اس رفتار سے تو پنجاب میں کپتان خان کا ووٹ بینک نہیں بڑھا۔ ووٹ بینک سے یاد آیا کہ ایڈووکیٹ خواجہ محمد آصف نے محترم پرویز رشید کی سنگت میں شوکت خانم میموریل اسپتال کے حوالے سے جو الزامات عمران خان پر لگائے تھے، وہ منافع بخش ثابت ہونے کے بجائے الٹا نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔
نون لیگ کی طرف سے ایک الزام لگایا گیا تھا جسے طوالت کے اعتبار سے 'نظم' کہا جا سکتا ہے مگر عمران خان تو میاں برادران پر الزامات کا پورا دیوان مارکیٹ میں لے کے آ گئے ہیں۔ ن لیگ کی اس جوڑی نمبر ون نے الزام عائد کیا تھا کہ عمران خان نے شوکت خانم میموریل اسپتال کے فنڈز سے سٹہ لگایا
جس سے انھیں خسارہ ہوا۔ ان کا اعتراض تھا کہ عمران خان جو ہر وقت میاں برادران کی کرپشن کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں، ان کے مالیاتی معاملات خاص طور پر شوکت خانم کے فنڈز اور ان کا آڈٹ شفاف نہیں ہے۔ جوابی پریس کانفرنس میں عمران خان نے قریب کی عینک لگا کر نہ صرف میاں برادران کو مناظرہ کا چیلنج کر دیا ہے بلکہ ان سے دریافت کیا ہے کہ وہ بتائیں لندن میں مے فیئر اپارٹمنٹس اور جدہ میں اسٹیل ملز کے لیے اربوں روپیہ کہاں سے آیا؟ عمران نے الزام لگایا کہ نواز شریف نے 417 ملین ڈالر کی کرپشن کی، شریف فیملی نے اس غریب ملک کے بنکوں سے 6 ارب روپیہ لے کر معاف کرایا،
صرف موٹروے کے منصوبے سے 160 ملین ڈالر کمیشن کھائی۔ یہی نہیں رائے ونڈ محل بنانے کے لیے 1500ایکڑ زمین سستے داموں الاٹ کرائی گئی، پھر اس مقام پر انفرااسٹرکچر قائم کرنے کے لیے سرمایہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ مراد یہ ہے کہ اس جنگل میں منگل کرنے کے لیے کشادہ اور کارپٹ سڑکیں بچھانے کے لیے، شہر سے دور بجلی، گیس، ٹیلی فون، کیبل اور پانی پہنچانے کے لیے اس غریب عوام کے ٹیکسوں کی کمائی سے ان گنت پیسہ صرف کر دیا گیا۔ عمران خان نے الزام عائد کیا کہ شریف فیملی جب سے سیاست میں آئی ہے ان کے اثاثے 1500سو گنا بڑھے ہیں جب کہ انھوں نے قومی خزانے میں جو ٹیکس جمع کرایا وہ سالانہ پانچ سے 14 ہزار روپے رہا۔
عمران نے کہا کہ شریف برادران کو زرداری کا احتساب کرنے سے پہلے خود اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے۔ سب سے آخر میں عمران خان نے کہا کہ میں کوئی فرشتہ نہیں ہوں، گنہگار بندہ ہوں مگر حلفاً بیان کرتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ دھوکہ نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ آٹھ سال بعد بھی جمائما میری عزت کرتی ہے لیکن کیا نواز شریف اور چوہدری نثار یہ قسم کھا سکتے ہیں کہ دونوں نے اپنی بیویوں کے ساتھ دھوکہ نہیں کیا؟ کس نے بیویوں کو دھوکا دیا اور کس نے ملک و قوم کا پیسہ لوٹا یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے مگر مجھے اس وقت بھارتی فلم ''شالیمار'' کا وہ گیت یاد آ گیا جسے کشور کمار نے دھرمیندر کے لیے گایا تھا۔
دھرمیندر نے اپنی حقیقی زندگی میں ''آن ریکارڈ'' دو شادیاں کیں، اپنے وقت کی ڈریم گرل ہیما مالنی ان کی دوسری بیوی تھی، مذکورہ فلم میں دھرمیندر نے اپنی فلمی بے گناہی کا مقدمہ لڑتے ہوئے اپنے مترنم دلائل یوں پیش کیے تھے کہ... ہم بے وفا ہرگز نہ تھے پر ہم وفا کر نہ سکے... ہم کو ملی جس کی سزا، ہم وہ خطا کر نہ سکے... پاکستان اور ہندوستان کی فلموں میں عمومی طور پر یہ مزے کی بات ہوتی ہے کہ اس میں ہیرو اور ولن کو صاف پہچانا جاتا ہے۔ ہیرو دنیا کا ایماندار، بہادر، نڈر، بے باک اور ببر شیر جیسی خصوصیات کا مالک ہوتا ہے جب کہ اس کے برعکس ولن دنیا جہان کی برائیوں کا منبع ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ فلموں میں ولن کا کردار کرنے والے ایکٹر نے گلہ کیا تھا کہ فلم کا ہدایتکار ہمارے گلے سے وہ لاکٹ بھی اتار لیتا ہے جس پر اللہ لکھا ہوتا ہے حالانکہ اللہ کسی ایک کا نہیں سب کا ہوتا ہے۔ عام طور پر انسان اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ ہوتے ہیں مگر فلموں اور سیاست میں ہیرو پیدائشی بہادر اور ایماندار ہوتا ہے جب کہ ولن فلم کے شروع سے لے کر آخر تک ولن ہی رہتا ہے بلکہ اگلی فلم میں بھی اسے ''استثنیٰ'' حاصل نہیں ہوتا۔
قومی سیاست کی اسٹوری اور اسکرین پلے پر غور کریں تو یہ بھی کسی فلم سے کم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں طویل فوجی ادوار میں سویلین لیڈروں کو غدار اور ملک توڑنے والے ولن بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دور میں ایبڈو کے قانون کے تحت متحدہ پاکستان کے مقبول سیاسی رہنمائوں کو ولن بنانے کے ''فلمی پراجیکٹ'' کا آغاز کیا گیا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کے ''ہینگ اوور'' دور میں آدھے پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دے کر علیحدہ کرتے ہوئے بنگالی باپو شیخ مجیب الرحمٰن کو غدار قرار دے کر ولن کا لقب دیا گیا ۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کرنے کے لیے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو ساتھ ملایا۔
یہ بھٹو صاحب کے مقدمہ میں ایک ناقابل فراموش ثبوت ہے کہ انھیں قاتل ثابت کرنے والے ''میڈیائی مدعی'' آج انھیں بے گناہ کہہ رہے ہیں مگر ان زود پشیمانوں نے بھٹو جیسے عظیم لیڈر کو پھانسی لگا کر قوم کا کتنا بڑا نقصان کیا تھا اس کا سیاسی، معاشرتی، معاشی اور تاریخی کفارہ ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔
(جاری ہے )