حلیمہ یعقوب چوکیدار کی بیٹی نے سنگاپور میں نئی تاریخ رقم کردی

حلیمہ یعقوب تنقید کے تیروں کی بوچھاڑ میں ملک کی پہلی خاتون صدر بن گئی

تنقید کے تیروں کی بوچھاڑ میں ملک کی پہلی خاتون صدر بن گئی

کراچی سے پانچ گنا چھوٹا اور محض چھپّن لاکھ کی آبادی کا ملک سنگاپور عالمی اقتصادی و تجارتی مرکز کا درجہ رکھتا ہے۔ نو اگست 1965ء کو ملائیشیا سے علیحدگی کے بعد ایک آزاد جمہوریہ کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والی یہ قوم پیٹرولیم جیسے قدرتی وسائل سے محروم تھی۔

اسے بے روزگاری، بے امنی، رہائشی سہولیات اور زمین کی قلت جیسے مسائل کا بھی سامنا تھا۔ اس کے باوجود سنگاپور چند ہی عشروں کے بعد ترقی یافتہ اقوام ممالک کی صف میں شامل ہوگیا۔ حلیمہ یعقوب نے 14 ستمبر کو اسی محنتی اور جفاکش قوم کی آٹھویں صدر کا منصب سنبھالا ہے۔ ریاست کے سربراہ کی مسند پر براجمان ہونے والی وہ اولین خاتون ہیں۔ یوسف بن اسحاق کے بعد وہ دوسری صدر ہیں جن کا تعلق مسلم اقلیت سے ہے۔

حلیمہ یعقوب کے والد کا تعلق ہندوستان سے تھا جو بہ سلسلہ روزگار سنگاپور میں آکر مقیم ہوئے تھے۔ ان دنوں سنگاپور برطانیہ کی کالونی تھا۔ یہاں انھوں نے ایک ملائی خاتون کو جیون ساتھی بنالیا جن سے ان کی پانچ اولادیں ہوئیں۔ حلیمہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ حلیمہ کے والد چوکیداری کرتے تھے۔ ان کی آمدنی سات افراد کے کنبے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی تھی، چناں چہ یہ خاندان عسرت زدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا۔ حلیمہ کی عمر آٹھ سال تھی جب ان کے والد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔

چناں چہ حلیمہ اور ان کے بہن بھائیوں کی پرورش کی ذمہ داری والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔ انھوں نے یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی، اور محنت مزدوری کرتے ہوئے بچوں کا پیٹ پالا۔ دس برس کی عمر سے حلیمہ بھی والدہ کے ساتھ اس کام میں شریک ہوگئی تھیں۔ ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اسکول اور کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے نیشنل یونی ورسٹی آف سنگاپور سے 1978ء میں ایل ایل بی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی اور پھر اسی درس گاہ سے انھیں 2001ء میں ایل ایل ایم کی سند تفویض کی گئی۔

قانون کی ڈگری ہاتھ میں آتے ہی حلیمہ پر ترقی کی راہیں کُھلتی چلی گئیں۔ عملی زندگی کے نئے دور کا آغاز مزدوروں کی نمائندہ تنظیم نیشنل ٹریڈ یونین کانگریس میں لا آفیسر کے طور پر شمولیت سے ہوا۔ غربت سے لڑتے لڑتے محنت اور جفاکشی ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔ اسی کی بدولت وہ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی گئیں، اور 1992ء میں اس تنظیم کے شعبہ قانون کی سربراہ بن گئیں۔

اسی تنظیم میں رہتے ہوئے انھوں نے ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور ویمن ڈیولپمنٹ سیکریٹریٹ کی ڈائریکٹر کے طور پر بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔ بعدازاں 1999ء میں انھوں نے سنگاپور انسٹیٹیوٹ آف لیبر اسٹڈیز میں ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھال لیا۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے فعال تنظیموں سے وابستہ رہتے ہوئے حلیمہ محنت کشوں کو درپیش مسائل سے بہ خوبی آگاہ ہوچکی تھیں۔ ان کا بچپن اور جوانی غربت و افلاس سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے گزری تھی لہٰذا انھیں محنت کشوں کے مصائب کا ادراک تو پہلے ہی تھا مگر ٹریڈ یونینوں سے وابستگی ان کے اندر مزدوروں کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے کے جذبے کو تحریک دینے کا باعث بنی۔ چناں چہ انھوں نے میدان سیاست میں قدم رکھا اور پیپلز ایکشن پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔

اس وقت تک حلیمہ یعقوب سنگاپور کے سماجی حلقوں میں ایک جانی پہچانی شخصیت بن چکی تھیں۔ اسی بنیاد پر پارٹی کی جانب سے انھیں 2001ء کے انتخابات کے لیے ٹکٹ دیا گیا۔ سنگاپور ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کو شکست دے کر وہ رکن پارلیمان منتخب ہوگئیں۔

پارلیمان میں پہنچنے کے بعد انھوں نے مزدوروں کے مسائل حل کرنے کے لیے کاوشیں شروع کردیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کا مثبت تأثر اُجاگر کرنے میں بھی کردار ادا کرنے لگیں۔ حلیمہ کی خدمات کے پیش نظر 2011ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر پیپلز ایکشن پارٹی فتح یاب ہوئی تو حلیمہ کو کمیونٹی ڈیولپمنٹ، یوتھ اینڈ اسپورٹس کی وزیر بنادیا گیا۔ بعدازاں نومبر 2012ء میں انھیں سماجی اور خاندانی ترقی کی وزارت سونپ دی گئی۔ اس دوران انھوں نے اپنے انتخابی حلقے کی کونسل کی چیئرپرسن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ حلیمہ کو جو بھی وزارت سونپی گئی، اسے انھوں نے بہترین طریقے سے چلایا۔ انھوں نے مزدوروں کے علاوہ خواتین، نوجوانوں اور بزرگوں کی بہبود کے لیے متعدد اقدامات کیے۔


آٹھ جنوری 2013ء کو حلیمہ نے سنگاپور کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا جب انھیں وزیراعظم لی ہسین لونگ نے مائیکل پالمر کے مستعفی ہونے کے بعد پارلیمان کی اسپیکر کے عہدے کے لیے نام زد کیا۔ ایک ہفتے بعد وہ اسپیکر منتخب ہوگئیں۔ وہ یہ عہدہ سنبھالنے والی پہلی خاتون تھیں۔

جنوری 2015ء میں حلیمہ نے اپنے سیاسی کیریئر میں اس وقت ایک اور سنگ میل طے کیا جب انھیں پی اے پی کی مرکزی مجلس عاملہ کی رکن منتخب کرلیا گیا۔ اسی مجلس کو پارٹی میں فیصلہ سازی کا اختیار حاصل ہے۔ اسی سال ہونے والے عام انتخابات میں حلیمہ کو ایک نئے حلقے سے پارٹی کی امیدوار بنایا گیا اور حسب توقع انھوں نے فتح حاصل کی۔

حلیمہ یعقوب سنگاپور اور پڑوسی ممالک میں معتدل سوچ کی حامل سیاست داں کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ اسلامی انتہا پسندی کے خلاف متعدد مواقع پر انھوں نے ببانگ دہل اپنے خیالات کا اظہار کیا اور داعش کی مذمت کرنے میں بھی پیش پیش رہی ہیں۔

حلیمہ یعقوب کے سیاسی کیریئر میں اگلا موڑ اس وقت آیا جب وزیراعظم لی ہسین لونگ کی ایما پر انھوں نے گذشتہ ماہ کی چھے تاریخ کو اسپیکر کے عہدے سے مستعفی ہونے اور عہدۂ صدارت کی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ آئین کی رُو سے اس بار مسند صدارت پر صرف ملائی زبان بولنے والا براجمان ہوسکتا تھا۔ سنگاپور میں ملائی آبادی مجموعی آبادی کا تیرہ فی صد ہے۔ آئین کے تحت ہر پانچویں صدر کا ملائی ہونا ضروری ہے۔ چناں چہ حلیمہ یعقوب پی اے پی کی جانب سے عہدہ صدارت کے لیے موزوں ترین امیدوار تھیں۔

ماضی میں صدر کا انتخاب پارلیمان کرتی رہی ہے مگر1993ء میں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ حق عوام کو تفویض کردیا گیا تھا کہ وہ ووٹ کے ذریعے سربراہ مملکت چُن سکتے ہیں۔ تاہم اس بار عوام کو ووٹ ڈالنے کی زحمت یوں نہیں اٹھانی پڑی کہ منصب صدارت کی دوڑ میں حلیمہ یعقوب اکیلی ہی تھیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے پاس کوئی ایسا امیدوار نہیں تھا جو صدارتی الیکشن کمیشن کے مقررکردہ معیارات پر پورا اترتا۔ چناں چہ حلیمہ یعقوب بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئیں اور چودہ ستمبر کو حلف اٹھاکر انھوں نے سنگاپور کی تاریخ میں ایک اور نئے باب کا اضافہ کیا۔

حلیمہ کے بلامقابلہ انتخاب پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی جارہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکم راں جماعت کی جانب سے اپنی امیدوار کی کام یابی یقینی بنانے کے لیے صدارتی امیدواروں کی اہلیت کے لیے کڑے معیارات مقرر کیے گئے، جن پر صرف وہی پورا اترتی تھیں۔ سنگاپور میں صدارتی انتخاب غیرجماعتی ہوتے ہیں اور کوئی بھی شہری اس میں حصہ لے سکتا ہے، مگر الیکشن کمیشن کی جانب سے غیرسیاسی افراد کے صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے یہ شرط رکھ دی گئی تھی کہ وہ کسی ایسے کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں جس کے اثاثوں کی مالیت پچاس کروڑ سنگاپوری ڈالر سے کم نہ ہو۔

اس بنیاد پر چار مزید امیدواروں نے کاغذات نام زدگی داخل کیے جو الیکشن کمیشن کی جانب سے کمپنی کے اثاثے مقررہ حد سے کم ہونے کی بنیاد پر مسترد کردیے گئے۔ اس پر ناقدین نے کہا کہ ایک امیدوار محمد صالح ان عزائم کا اظہار کرچکے تھے کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ وزیراعظم لی ہسین کی جانب سے اپنے والد کی وصیت میں ردوبدل کرنے کے الزامات کی تحقیقات کروائیں گے (واضح رہے کہ لی ہسین کے والد لی کوان یو سنگاپور کے بانی اور پہلے وزیراعظم تھے۔ وہ پیپلز ایکشن پارٹی کے شریک بانی بھی تھے جو اپنے قیام سے آج تک برسراقتدار چلی آرہی ہے) ناقدین کہتے ہیں کہ محمد صالح کا یہ بیان سامنے آنے کے بعد ہی الیکشن کمیشن نے امیدواروں کے لیے کڑی شرائط مقرر کردی تھیں، جن پر ان کا پورا اترنا محال تھا۔

تریسٹھ سالہ حلیمہ نے تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپنے شوہر (محمد عبداﷲ) اور بچوں کی مخالفت کے باوجود انھوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا کیوں کہ وہ ملک اور عوام کی خدمت جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں بھی بلامقابلہ انتخاب کی مثالیں موجود ہیں، لہٰذا صرف اس وجہ سے ان پر تنقید درست نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بلامقابلہ صدر ضرور بنی ہیں مگر حلف اٹھانے کے بعد وہ مذہب و قومیت سے قطع نظر ہر شہری کی صدر ہیں اور اسی نظریے کے ساتھ سنگاپور اور اس کے لوگوں کی خدمت کرتی رہیں گی۔
Load Next Story