اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل ایک المیہ

ڈومیسٹک کرکٹ سے انٹرنیشنل کرکٹ میں ہمارے نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑی شامل ہوتے ہیں

ڈومیسٹک کرکٹ سے انٹرنیشنل کرکٹ میں ہمارے نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑی شامل ہوتے ہیں.فوٹو: فائل

پاکستان کا مقبول ترین کھیل کرکٹ ہے، عزت، شہرت اور دولت ہرکھلاڑی کو ملتی ہے، جو اس کا حصہ بنتے ہیں، لیکن مقام افسوس ہے کچھ کھلاڑی اسکینڈلز کی زد میں آکر نہ صرف اپنے کیریئر کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ملکی وقار کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اسی پس منظر میں پاکستان سپر لیگ اسپاٹ فکسنگ کیس میں پی سی بی اینٹی کرپشن ٹریبونل نے معطل کرکٹر خالد لطیف کے خلاف 5 سال کی پابندی اور 10لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ خبر کے مندرجات کے مطابق خالد لطیف اور شرجیل خان پی ایس ایل میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی نمایندگی کر رہے تھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے خالد لطیف پر پی سی بی کے اینٹی کرپشن ضابطہ اخلاق کی چھ شقوں کی خلاف ورزی پر مبنی فرد جرم عائد کی تھی۔ شرجیل خان پر پانچ شقوں کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔ خالد لطیف اور ان کے وکیل زیادہ تر وقت ٹریبونل کی کارروائی میں حاضر ہونے سے گریزاں رہے اور انھوں نے ٹریبونل کی کارروائی روکنے سے متعلق عدالت سے بھی رجوع کیا لیکن ان کی اس سلسلے میں دائر تمام درخواستیں عدالت نے مسترد کر دیں جس کے بعد خالد لطیف کو اپنا جواب ٹریبونل میں جمع کرانا پڑا۔اینٹی کرپشن کے ضابطوں اورڈسپلن کے حوالے سے سزا کے عمل کو توہم مستحسن فیصلہ قرار دے سکتے ہیں، لیکن اس سارے سلسلے کو سمجھنے، پرکھنے اور نقائص کو دورکرنے کی ضرورت بھی ہے ۔


ڈومیسٹک کرکٹ سے انٹرنیشنل کرکٹ میں جب ہمارے نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑی شامل ہوتے ہیں اور تو وہ راتوں رات سپراسٹار بن جاتے ہیں ۔دولت اورشہرت کی دیوی ان پر مہربان ہوجاتی ہے اوریہی وہ وقت ہوتا ہے جب بکیز ان سے رابطہ کرتے ہیں مزید دولت کا لالچ دے کر انھیں اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں اور جب وہ پکڑے جاتے ہیں تو نہ صرف بد نامی، رسوائی ان کا مقدر بنتی ہے بلکہ وہ اپنا کیریئر اپنے ہاتھوں تباہ وبرباد کرلیتے ہیں۔ کرکٹر ملکی سفیر ہوتے ہیں، خالد لطیف پر عائد پابندی کے بعد اب اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں مبینہ طور ملوث کرکٹرز شاہ زیب حسن اور ناصر جمشید کا معاملہ زیرسماعت ہے۔

نوجوان کھلاڑیوں کو سوچنا ہوگا کہ سب سے پہلے ملکی وقار اور عزت ہوتی ہے۔ کیا ماضی کی پانچ دہائیوں میں کرپشن کے اسکینڈل قومی کرکٹ ٹیم کے حوالے سے سامنے آئے تو جواب نفی میں ہے۔کرکٹ بورڈ مضبوط اخلاقی بنیادوں پر کھلاڑیوں کی ذہنی تربیت کا اہتمام کرے تاکہ وہ شکاریوں کے جال میں نہ پھنسیں اور ملکی کرکٹ کا مستقبل اور نوجوان کھلاڑی تباہ نہ ہوں۔
Load Next Story