کبھی چھری کو اپنا دشمن نہ بناؤ
سائنس اب یقین رکھتی ہے کہ دوسروں کا درد ہمیں تکلیف میں مبتلا کرتا ہے
KARACHI:
اپنے مسئلے کو ہمیشہ سمجھنے کی کوشش کرو، اسے وہ حیثیت دو جو کسی عزیز دوست کو دی جاتی ہے۔ عزت، محبت، احترام اس کا حق ہے، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یا وہ تمہارا دشمن ہوجائے گا یا تم اس کے دشمن ہوجاؤ گے۔
چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، دونوں حالتوں میں نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے، لہٰذا کبھی بھی چھری کو اپنا دشمن نہ بناؤ۔ مشہور امریکی وکیل جان ڈبلیو ڈیوس جو 1924 میں صدارتی امیدوار بھی تھا، کہتا تھا ''صحیح، ہم کوئی پل نہیں بناتے، ہم کوئی مینار تعمیر نہیں کرتے، ہم کوئی انجن تیار نہیں کرتے، ہم کسی تصویر میں رنگ نہیں بھرتے، لیکن ہم مشکلات کو دور کرتے، ہم دباؤ سے چھٹکارا دلاتے، ہم اغلاط کو درست کرتے، ہم دوسرے آدمی کا بوجھ اٹھاتے اور اپنی کوششوں کے ذریعے ہم آدمی کی پرامن ریاست میں پرامن زندگی کو ممکن بناتے ہیں''۔ جب کہ گاندھی نے کہا تھا ''انسان کی حیثیت سے ہماری عظمت اس دنیا کو از سر نو بنانے میں نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو دوبارہ بنانے میں ہے''۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم سب غلط بن گئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو دوبارہ کیسے بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم غلطی سے غلط بن گئے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم سے اکثر غلطی نہیں ہوا کرتی بلکہ ہم سے غلطی ہمیشہ حالات و واقعات کرواتے ہیں، واقعات حالات سے جنم لیتے ہیں اور حالات ہمیشہ حکمران بناتے ہیں۔ جیسا کہ جان ڈبلیو ڈیوس نے کہا تھا، یعنی اگر ہمارے ملکی حالات و واقعات مختلف ہوتے تو ہم سب مختلف ہوتے اور ہمیں اپنے آپ کو دوبارہ نہیں بنانا پڑتا۔ اگر ہمارا ملک خوشحال، ترقی یافتہ، مستحکم ہوتا اور ملک میں تمام ادارے مضبوط ہوتے، عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا، قانون کی مکمل حکمرانی ہوتی، ملک میں ہر معاملے میں شفافیت ہوتی، کرپشن، لوٹ مار، غبن کرنا ناممکن ہوتا، تو پھر ظاہر ہے ہمارے موجودہ حکمران بھی مختلف ہوتے، ان کی سوچیں بھی مختلف ہوتیں، ان کے اعمال بھی یکسر بدلے ہوئے ہوتے، ان کے ذہنی رویے تبدیل ہوتے اور وہ ''میں'' کی بیماری میں مبتلا نہ ہوئے ہوتے۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے حکمرانوں کو دوبارہ بنانے کی کوشش اور جدوجہد کرنا پڑے گی، کیونکہ اس کے بغیر ملک میں کچھ بھی تبدیل یا بدلنے والا نہیں ہے۔ اگر وہ خود کو دوبارہ نہیں بناتے ہیں تو پھر اسی طرح سے ملک میں خاک اڑتی پھرے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ عمل کب شروع ہونا چاہیے؟ جان ایف کینیڈی کے الفاظ میں ''اس کو ابھی ہونا چاہیے''۔
عظیم فرانسیسی مارشل لیاوتے، جس نے ایک مرتبہ اپنے مالی سے ایک درخت لگانے کے لیے کہا۔ مالی نے اعتراض کیا کہ درخت بہت آہستہ پروان چڑھتا ہے اور بلوغت تک سو سال میں بھی نہیں پہنچے گا۔ مارشل نے جواب دیا ''اس معاملے میں ہمارے پاس برباد کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، اس لیے اسے آج دوپہر کو ہی لگا دو''۔
ہمارے حکمرانوں کو کچھ ایسا زیادہ نہیں کرنا ہے جو وہ نہ کرسکیں، جب وہ اپنے بارے میں سوچیں گے تو انھیں احساس ہوگا کہ ان کے اعمال، اخلاقیات اور انسانیت سے کتنے دور ہیں۔ گو کہ وہ اس کی گہرائی سے بے خبر ہیں۔ سائنس اب یقین رکھتی ہے کہ دوسروں کا درد بھلے وہ ہم سے کتنی ہی دور کیوں نہ ہو، مجازی طور ہمیں تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔ سماجی درد اسی درد کو دماغ کے حلقوں میں جسمانی درد کی حیثیت سے سرگرم کرتا ہے۔ دماغ نہایت سماجی ہوتا ہے، ہماری اپنی فلاح کے لیے ہم اپنے سروں کو نیچے کرنا اور اردگرد کی دنیا کی تکالیف سے صرف نظر کرنا برداشت نہیں کرسکتے۔
چارلس ڈکنس کے الفاظ میں ''انسانیت میرا کاروبار ہے، مشترکہ فلاح و بہبود میرا کاروبار ہے، خیرات، رحم، صبر اور فیض رسانی سب میرے کاروبار ہیں''۔ بس انھیں اور کچھ نہیں کرنا، اپنا کاروبار تبدیل کرنا ہے۔ انھیں بس چارلس ڈکنس جیسا کاروبار شروع کرنا ہے، جیسے ہی وہ کاروبار تبدیل کریں گے اسی وقت وہ تبدیل ہوجائیں گے۔ یاد رکھیں آپ کے موجودہ کاروبار کی وجہ سے بیس کروڑ انسان سخت تکلیفوں اور اذیتوں میں مبتلا ہیں۔ کروڑوں انسان دن رات تمہیں تبدیل ہونے کی دعائیں کررہے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ تمہاری عمر لگ بھگ ستر سال کے قریب ہوگئی ہے، وقت تیزی کے ساتھ نکلا جارہا ہے آج تمہاری پاس وقت ہے، ہوسکتا ہے کل نہ ہو۔
جوزف ایڈیسن نے کہا تھا ''میں جب عظیم لوگوں کے مزاروں کو دیکھتا ہوں تو میرے اندر حسد کے تمام جذبات مرجاتے ہیں، جب میں حسین لوگوں کے کتبے پڑھتا ہوں تو میری تمام نامناسب خواہشات دم توڑ دیتی ہیں، جب میں قبروں پر والدین کو غم سے روتے دیکھتا ہوں تو میرا دل فرط جذبات سے پگھل جاتا ہے اور جب میں والدین کی قبریں دیکھتا ہوں تو میں ان لوگوں کے دکھ اور انا کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جن کے پیچھے پیچھے ہم نے بھی چلے جانا ہے، جب میں بادشاہوں کو ان کی سازشوں کے ساتھ قبروں میں لیٹے دیکھتا ہوں، فریقین کو زمین بوس دیکھتا ہوں اور یا پھر ان مذہبی جنونیوں کی قبریں ملاحظہ کرتا ہوں کہ جنھوں نے اپنے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے دنیا کو کارزار بنادیا تھا تو میں حیرانی اور غم کے ساتھ ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں، مقابلوں، فرقوں اور انسانیت کے بارے میں بحثوں کے بارے میں سوچتا ہوں، جب میں کتبوں پر لکھی تاریخیں پڑھتا ہوں ۔
جن میں سے کچھ کل فوت ہوئے تھے اور کچھ چھ سو سال پہلے، تو میں اس عظیم دن کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جب ہم سب ہم عصر بن کر اکٹھے زندہ کیے جائیں گے''۔ آج ہم سب کے پاس وقت ہے، اس لیے ہم آج ہی سے اپنے بارے میں تحقیقات شروع کردیں اور جہاں جہاں ہمیں اپنے اندر خرابیوں اور برائیوں کا سراغ ملتا رہے اس کو صحیح کرنے کا آغاز کردیں، ورنہ کل کوئی اور جوزف ایڈیسن ہماری قبروں پر کوئی اور اقتباس لکھ رہا ہوگا، کیونکہ ہم سب نے ایک روز چلے ہی جانا ہے۔
اپنے مسئلے کو ہمیشہ سمجھنے کی کوشش کرو، اسے وہ حیثیت دو جو کسی عزیز دوست کو دی جاتی ہے۔ عزت، محبت، احترام اس کا حق ہے، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یا وہ تمہارا دشمن ہوجائے گا یا تم اس کے دشمن ہوجاؤ گے۔
چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، دونوں حالتوں میں نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے، لہٰذا کبھی بھی چھری کو اپنا دشمن نہ بناؤ۔ مشہور امریکی وکیل جان ڈبلیو ڈیوس جو 1924 میں صدارتی امیدوار بھی تھا، کہتا تھا ''صحیح، ہم کوئی پل نہیں بناتے، ہم کوئی مینار تعمیر نہیں کرتے، ہم کوئی انجن تیار نہیں کرتے، ہم کسی تصویر میں رنگ نہیں بھرتے، لیکن ہم مشکلات کو دور کرتے، ہم دباؤ سے چھٹکارا دلاتے، ہم اغلاط کو درست کرتے، ہم دوسرے آدمی کا بوجھ اٹھاتے اور اپنی کوششوں کے ذریعے ہم آدمی کی پرامن ریاست میں پرامن زندگی کو ممکن بناتے ہیں''۔ جب کہ گاندھی نے کہا تھا ''انسان کی حیثیت سے ہماری عظمت اس دنیا کو از سر نو بنانے میں نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو دوبارہ بنانے میں ہے''۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم سب غلط بن گئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو دوبارہ کیسے بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم غلطی سے غلط بن گئے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم سے اکثر غلطی نہیں ہوا کرتی بلکہ ہم سے غلطی ہمیشہ حالات و واقعات کرواتے ہیں، واقعات حالات سے جنم لیتے ہیں اور حالات ہمیشہ حکمران بناتے ہیں۔ جیسا کہ جان ڈبلیو ڈیوس نے کہا تھا، یعنی اگر ہمارے ملکی حالات و واقعات مختلف ہوتے تو ہم سب مختلف ہوتے اور ہمیں اپنے آپ کو دوبارہ نہیں بنانا پڑتا۔ اگر ہمارا ملک خوشحال، ترقی یافتہ، مستحکم ہوتا اور ملک میں تمام ادارے مضبوط ہوتے، عدل و انصاف کا بول بالا ہوتا، قانون کی مکمل حکمرانی ہوتی، ملک میں ہر معاملے میں شفافیت ہوتی، کرپشن، لوٹ مار، غبن کرنا ناممکن ہوتا، تو پھر ظاہر ہے ہمارے موجودہ حکمران بھی مختلف ہوتے، ان کی سوچیں بھی مختلف ہوتیں، ان کے اعمال بھی یکسر بدلے ہوئے ہوتے، ان کے ذہنی رویے تبدیل ہوتے اور وہ ''میں'' کی بیماری میں مبتلا نہ ہوئے ہوتے۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے حکمرانوں کو دوبارہ بنانے کی کوشش اور جدوجہد کرنا پڑے گی، کیونکہ اس کے بغیر ملک میں کچھ بھی تبدیل یا بدلنے والا نہیں ہے۔ اگر وہ خود کو دوبارہ نہیں بناتے ہیں تو پھر اسی طرح سے ملک میں خاک اڑتی پھرے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ عمل کب شروع ہونا چاہیے؟ جان ایف کینیڈی کے الفاظ میں ''اس کو ابھی ہونا چاہیے''۔
عظیم فرانسیسی مارشل لیاوتے، جس نے ایک مرتبہ اپنے مالی سے ایک درخت لگانے کے لیے کہا۔ مالی نے اعتراض کیا کہ درخت بہت آہستہ پروان چڑھتا ہے اور بلوغت تک سو سال میں بھی نہیں پہنچے گا۔ مارشل نے جواب دیا ''اس معاملے میں ہمارے پاس برباد کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، اس لیے اسے آج دوپہر کو ہی لگا دو''۔
ہمارے حکمرانوں کو کچھ ایسا زیادہ نہیں کرنا ہے جو وہ نہ کرسکیں، جب وہ اپنے بارے میں سوچیں گے تو انھیں احساس ہوگا کہ ان کے اعمال، اخلاقیات اور انسانیت سے کتنے دور ہیں۔ گو کہ وہ اس کی گہرائی سے بے خبر ہیں۔ سائنس اب یقین رکھتی ہے کہ دوسروں کا درد بھلے وہ ہم سے کتنی ہی دور کیوں نہ ہو، مجازی طور ہمیں تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔ سماجی درد اسی درد کو دماغ کے حلقوں میں جسمانی درد کی حیثیت سے سرگرم کرتا ہے۔ دماغ نہایت سماجی ہوتا ہے، ہماری اپنی فلاح کے لیے ہم اپنے سروں کو نیچے کرنا اور اردگرد کی دنیا کی تکالیف سے صرف نظر کرنا برداشت نہیں کرسکتے۔
چارلس ڈکنس کے الفاظ میں ''انسانیت میرا کاروبار ہے، مشترکہ فلاح و بہبود میرا کاروبار ہے، خیرات، رحم، صبر اور فیض رسانی سب میرے کاروبار ہیں''۔ بس انھیں اور کچھ نہیں کرنا، اپنا کاروبار تبدیل کرنا ہے۔ انھیں بس چارلس ڈکنس جیسا کاروبار شروع کرنا ہے، جیسے ہی وہ کاروبار تبدیل کریں گے اسی وقت وہ تبدیل ہوجائیں گے۔ یاد رکھیں آپ کے موجودہ کاروبار کی وجہ سے بیس کروڑ انسان سخت تکلیفوں اور اذیتوں میں مبتلا ہیں۔ کروڑوں انسان دن رات تمہیں تبدیل ہونے کی دعائیں کررہے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ تمہاری عمر لگ بھگ ستر سال کے قریب ہوگئی ہے، وقت تیزی کے ساتھ نکلا جارہا ہے آج تمہاری پاس وقت ہے، ہوسکتا ہے کل نہ ہو۔
جوزف ایڈیسن نے کہا تھا ''میں جب عظیم لوگوں کے مزاروں کو دیکھتا ہوں تو میرے اندر حسد کے تمام جذبات مرجاتے ہیں، جب میں حسین لوگوں کے کتبے پڑھتا ہوں تو میری تمام نامناسب خواہشات دم توڑ دیتی ہیں، جب میں قبروں پر والدین کو غم سے روتے دیکھتا ہوں تو میرا دل فرط جذبات سے پگھل جاتا ہے اور جب میں والدین کی قبریں دیکھتا ہوں تو میں ان لوگوں کے دکھ اور انا کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جن کے پیچھے پیچھے ہم نے بھی چلے جانا ہے، جب میں بادشاہوں کو ان کی سازشوں کے ساتھ قبروں میں لیٹے دیکھتا ہوں، فریقین کو زمین بوس دیکھتا ہوں اور یا پھر ان مذہبی جنونیوں کی قبریں ملاحظہ کرتا ہوں کہ جنھوں نے اپنے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے دنیا کو کارزار بنادیا تھا تو میں حیرانی اور غم کے ساتھ ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں، مقابلوں، فرقوں اور انسانیت کے بارے میں بحثوں کے بارے میں سوچتا ہوں، جب میں کتبوں پر لکھی تاریخیں پڑھتا ہوں ۔
جن میں سے کچھ کل فوت ہوئے تھے اور کچھ چھ سو سال پہلے، تو میں اس عظیم دن کے بارے میں سوچتا ہوں کہ جب ہم سب ہم عصر بن کر اکٹھے زندہ کیے جائیں گے''۔ آج ہم سب کے پاس وقت ہے، اس لیے ہم آج ہی سے اپنے بارے میں تحقیقات شروع کردیں اور جہاں جہاں ہمیں اپنے اندر خرابیوں اور برائیوں کا سراغ ملتا رہے اس کو صحیح کرنے کا آغاز کردیں، ورنہ کل کوئی اور جوزف ایڈیسن ہماری قبروں پر کوئی اور اقتباس لکھ رہا ہوگا، کیونکہ ہم سب نے ایک روز چلے ہی جانا ہے۔