امریکی تاریخ کی متنازعہ ترین فلم
جو عوام کے ساتھ اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے.
امریکی ہدایت کارہ کیتھرین بگلو نے متنازع موضوعات کو پوری صحت کے ساتھ سیلولائیڈ پر منتقل کرنے والی ہدایت کارہ کے طور پر شہرت حاصل کرلی ہے۔
2009ء میں اس کی فلم The Hurt Locker نے بیسٹ فلم اور بیسٹ ڈائریکٹر کے آسکر سمیت مجموعی طور پر چھے آسکر ایوارڈز حاصل کیے تھے۔ اس فلم میں جنگ زدہ عراق کے شہر بغداد میں امریکی فوج کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کی اڑتیس روز کی روداد دکھائی گئی تھی۔The Hurt Locker کو فلمی مبصرین اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک غیرجانب دار فلم قرار دیا تھا۔ اگرچہ ان کی تازہ ترین فلم Zero Dark Thirty کے بارے میں بھی فلمی ناقدین کی جانب سے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ تاہم یہ فلم سیاسی طور پر متنازعہ ترین فلم بھی قرار پائی ہے۔
Zero Dark Thirty کو بہترین فلم سمیت اکیڈمی ایوارڈ کی پانچ کیٹیگریز میں نام زدگی ملی ہے۔ یہ فلم ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں کے آپریشن سے متعلق ہے، جس میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔
پروڈیوسر، اسکرین رائٹر اور صحافی مارک بول کے ساتھ کیتھرین کی یہ دوسری فلم تھی۔ اس سے قبل The Hurt Locker بھی ان ہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھی۔ ابتدائی طور پر یہ دونوں ، 2001ء میں تورا بورا کی پہاڑیوں میں اسامہ بن لادن کی کھوج لگانے کے لیے کی جانے والی امریکی اسپیشل فورسز کی کوششوں کو پردۂ سیمیں پر پیش کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تاہم جب امریکی فوجیوں کی ٹیم کے ایبٹ آ باد میں آپریشن کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر آئی تو انھوں نے فوری طور پر اسی واقعے کو سلولائیڈ پر منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
Zero Dark Thirty امریکا میں ریلیز کے پہلے ہی ہفتے میں آمدنی کے لحاظ سے سرفہرست آگئی تھی۔ اس فلم کو مبصرین نے کیتھرین کی گذشتہ فلم کی طرح غیر جانب دار فلم قرار دیا۔ تاہم سیاسی طور پر یہ تاریخ کی متنازعہ ترین فلم کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ اس فلم میں نائن الیون کے بعد نہ صرف سی آئی اے کے اہل کاروں کو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے خفیہ ٹھکانوں میں لوگوں پر بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے بلکہ کچھ ماہرین کے خیال میں یہ فلم تشدد کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات اور اس کے نتیجے میں بن لادن کے ٹھکانے کی دریافت کے مابین جھوٹا تعلق بھی پیش کرتی ہے۔
دسمبر میں امریکی سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی کی سربراہ Dianne Feinstein ، آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن جان میک کین اور چیئرمین کارل لیون نے سونی کے چیئرمین مائیکل لنٹن کو ایک خط تحریر کیا تھا، جس میں Zero Dark Thirty کو '' کُلی طور پر نادرست'' کہا گیا تھا کہ یہ فلم تشدد کے نتیجے میں حاصل کردہ معلومات کو اسامہ بن لادن کے ٹھکانے تک رسائی کا سبب قرار دیتی ہے، جو درست نہیں ان سینیٹرز نے سی آئی اسے سے بھی کہا تھا کہ وہ بتائے کہ بگلو اور بول کو ایجنسی سے کس نوع کی معلومات اور کس نوع کی رسائی حاصل ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیکل موریل نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے آپریشن کے بارے میں بگلو اور بول کو معلومات فراہم کی تھیں۔
نائن الیون کے بعد سی آئی اے کے کردار، تفتیشی طریقہ ہائے کار اور خفیہ ٹھکانوں کا گہرا علم رکھنے والے صحافیوں نے بھی اس فلم میں پیش کی جانے والی معلومات کو غلط قرار دیا جن میں پلٹزر انعام یافتہ اسٹیو کول بھی شامل ہیں۔ تاہم فلمی ناقدین کی بیشتر تنظیمیں Zero Dark Thirty کو سال گذشتہ کی بہترین فلم قرار دیتی ہیں۔
اب تک دس کروڑ ڈالر کے لگ بھگ کمانے والی Zero Dark Thirty ، آمدنی کے اعتبار سے بگلو کے کیریئر کی سب سے بڑی فلم ہے۔ یہ فلم ایک عوامی کینوس بن گئی ہے، جس پر ناظرین اپنے خیالات و تصورات اور ہم دردیوں کے رنگ بکھیر رہے ہیں۔ اور اگرچہ امریکا کے تشدد سے کام لینے پر ان گنت مضامین اور کتابیں لکھی اور ٹیلی ویژن سیریز پیش کی جاچکی ہیں، تاہم ان میں سے کسی پر نہ تو Zero Dark Thirty جتنی لاگت آئی تھی اور نہ ہی ان کی اتنے وسیع پیمانے پر مارکیٹنگ اور پبلسٹی کی گئی تھی اور نہ ہی ان سے اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی ہدایت کارہ کا نام منسلک تھا۔
24 فروری کو ہونے والی تقریب میں اگرچہ بگلو اکیڈمی ایوارڈ کی امیدوار کے طور پر شرکت نہیں کرے گی۔ تاہم اس کی عدم نام زدگی اس کی فلم پر جاری پُرزور بحث میں دب سی گئی ہے۔ Zero Dark Thirty پر ایسے ردعمل کی بگلو کو خود بھی توقع نہیں تھی۔ اس کا کہنا ہے،''یہ موضوع رواں عشرے کے اوائل ہی سے متنازع رہا ہے۔ اس لیے مجھے علم تھا کہ یہ فلم متنازعہ ثابت ہوگی۔ تاہم مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنے وسیع پیمانے پر زیربحث آئے گی۔'' بگلو کا کہنا ہے کہ اسے اس فلم پر فخر ہے اور وہ ہر طرح اس کی ذمے داری قبول کرتی ہے۔
61 سالہ ہدایت کارہ کہتی ہے،''میرے خیال میں یہ مکمل طور پر ایک اخلاقی فلم ہے، جو طاقت کے استعمال پر سوال اٹھاتی ہے۔ یہ پوچھتی ہے کہ بن لادن کی تلاش کے نام پر کیا کیا گیا۔'' فلم کی مرکزی اداکارہ اور سی آئی اے کی اہل کار مایا کا کردار ادا کرنے والی جیسیکا چیسٹین کا کہنا ہے کہ اس فلم سے کیتھرین کا مقصد ایک بحث کا آغاز کرنا تھا، اور وہ اس کا اختتام ایک جواب طلب سوال پر کرتی ہیں کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ وہ فلم بینوں سے استفسار کرتی ہیں کہ ہم کہاں تھے اور یہاں سے کہاں جائیں گے؟
Zero Dark Thirty میں اس کی کہانی کا کریڈٹ '' اصل واقعات کی متعلقہ ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات'' کو دیا گیا ہے۔ اس فلم کی کہانی بول کی رپورٹنگ اور سی آئی اے کے اہل کاروں کے ساتھ اس کی ملاقاتوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات پر مبنی ہے۔ اس فلم کے کردار بھی حقیقی کرداروں سے متاثر ہیں۔ فلم کا آغاز تاریک اسکرین سے ہوتا ہے جب کہ پس منظر میں نائن الیون کے سانحے کا شکار ہونے والوں کی مدد کے لیے پُکارتی آوازوں کی اصل ریکارڈنگ چل رہی ہوتی ہے۔ بعدازاں سی آئی اے کے ایک خفیہ ٹھکانے کا منظر سامنے آتا ہے، جہاں مایا ( جیسیکا جیسٹین) اپنے ساتھی ڈین (جیسن کلارک) کو ایک قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔
فلم کے ابتدائی 25 منٹ قیدی پر ہونے والے مختلف طرح کے تشدد کے مناظر سے پُر ہیں۔ اس کے بعد دس برس کے دوران ہونے والے مختلف واقعات بھی دکھائے گئے ہیں، جن میں 7 جولائی 2005ء کو لندن میں ہونے والے دھماکے، اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں ستمبر 2008ء میں ہونے والا خود کش دھماکا، دسمبر 2009ء میں سی آئی اے کی ''فارورڈ آپریٹنگ بیس چیپمن'' پر ہونے والا خود کش حملہ اور آخر میں دو مئی 2011ء کی صبح ایبٹ آباد میں امریکی فوجی کارروائی شامل ہیں۔ اس کارروائی کے مناظر کو انتہائی مہارت سے ترتیب وار فلمایا گیا ہے، جو کیتھرین کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم سی آئی اے کا سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن ان مناظر پر اعتراض کرتا ہے۔
اس کے الفاظ میں،''پہلی بات تو یہ کہ فلم میں تفتیشی مناظر کو غلط طور پر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ قیدیوں سے حاصل کردہ معلومات کے بغیر اسامہ بن لادن کا سراغ لگانا ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ تاہم فلم میں ان معلومات اور ایبٹ آباد آپریشن کے درمیان سیدھے سادے تعلق کے سلسلے میں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔'' امریکا کے سیکریٹری دفاع بھی اس فلم کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے خود کو نہ روک سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم اتنی واضح نہیں ہے۔
بہرحال Zero Dark Thirtyکا ہر پہلو قابل بحث ہے۔ مارک کے مطابق فلم میں پیش کردہ حقائق سے متعلق عام سے سوالات بھی اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ داں، صحافی، سیاست داں اور خفیہ اداروں کے اہل کار بھی اس پر اظہار خیال کررہے ہیں۔ مارک کا کہنا ہے کہ اگر اس فلم سے عام تاثر یہ اُبھرتا ہے کہ اسامہ کی تلاش میں تشدد نے کردار ادا کیا تو اس کا سبب یہ ہے کہ حقیقت یہی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں پر تشدد کرنا مجبوری تھی، یا تشدد ناگزیر یا اخلاقی طور پر درست ہے۔