نظام تعلیم میں خرابیوں کا ذمے دار کون
خرابیوں کے ذمہ دار حکمران طبقہ ہے جو جاگیردارانہ سوچ کا حامل ہے
ہمارا نظام تعلیم زوال پذیر ہے۔ یہ دعویٰ قطعی طور پر غلط ہے۔ کیونکہ ہمارے نظام تعلیم کو کبھی عروج حاصل ہی نہیں رہا اس لیے اس کے زوال پذیر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے معاملے میں ہمیشہ بے رخی اختیار کی ہے۔ جس وقت آکسفورڈ کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اس وقت مغل بادشاہ اپنی سرزمین پر تاج محل کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ قیام پاکستان یعنی تقسیم ہند کے بعد بھارت نے اپنا پہلا وزیر اعظم ایک عالم دین اور مفکر مولانا ابوالکلام آزاد کو مقررکیا تھا جب کہ پاکستان کے ابتدائی برسوں تک تعلیم اور تجارت کے قلم دان ایک وزیر آئی آئی چندریگر کے پاس تھے۔ اس سے ہماری تعلیم کے معاملے میں سنجیدگی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
اب آپ ماضی چھوڑیے ہمارا نظام تعلیم آج بھی پسماندگی کا شکار ہے ہماری اس جانب کوئی توجہ نہیں۔ نظام تعلیم کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ دو طبقات یعنی سیکولر اور مذہبی قوتوں میں تقسیم ہے۔ ان دونوں قوتوں کے درمیان فکری ٹکراؤ ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی کوئی سمت متعین نہ کرسکے۔ ہمارے یہاں تعلیم کے معاملے میں بے مقصد تجربات کیے جا رہے ہیں۔
نظام تعلیم کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں تعلیم آزاد فکر کے ساتھ دی جاتی ہے اس کے برعکس ہم سائنس جیسے مضمون جو اپنی فطرت میں ہی سیکولر ہیں اس کو سائنس کی طرح پڑھنے کے بجائے اس کے ذریعے مذہب کی حقانیت اور سچائی کو ثابت کرتے ہیں اس طرح سے ہمارے اندر ایک غیر سائنسی سوچ جنم لیتی ہے اور ہم سائنس کی افادیت سے محروم ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ڈاکٹر اور انجینئر تو پیدا کر رہا ہے لیکن ہم سائنسدان پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
یہی کچھ معاملہ تاریخ کے مضمون کے ساتھ ہے۔ تاریخ ہم سے تحقیق غیر جانب داری اور سائنسی فکر کا مطالبہ کرتی ہے جب کہ ہم تاریخ کو جذبات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم تاریخ کے صحیح شعور سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہم بحران کا تجزیہ کرنے اور ان کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے اور اس کے حل کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
نصاب تعلیم کے حوالے سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم نے اپنے نظام تعلیم میں یکساں نصاب کے بجائے کئی طرح کے نصاب رکھنے والا تعلیمی نصاب نافذ کیا ہے۔ جو ایک طرف جامد مذہبی سوچ کو جنم دیتا ہے دوسری طرف لادینی اور سیکولر مزاج۔ ایک نظام حکمران طبقہ پیدا کر رہا ہے دوسرا نظام محکوم۔ ایک نظام افسر شاہی کو جنم دے رہا ہے تو دوسرا کلرک، بابو۔ اس نصاب تعلیم نے ہمیں ایک قوم بنانے کے بجائے مختلف طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔
میری ناقص رائے میں تعلیم نظام کو مرتب کرنے والے کرتا دھرتاؤں نے طبقاتی تقسیم کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے تعلیمی نظام میں نصاب کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے تاکہ تعلیم سب کے لیے کا عالمی سلوگن کا لحاظ بھی رکھا جاسکے اور اپنا الو بھی سیدھا رہے۔
ذریعہ تعلیم کے حوالے سے بڑی خرابی ایک ذریعہ تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ہم نے انگریزی کو عالمی ضرورت، فارسی کو علمی ضرورت، اردو کو قومی ضرورت، مادری زبان کو مقامی اور صوبائی ضرورت کے نام پر اپنے طالب علم کو مختلف زبانوں کی گتھیاں سلجھانے میں لگایا ہوا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا طالب علم علم سیکھنے کے بجائے اپنی عمر کا بیشتر حصہ زبان کو سیکھنے میں ہی صرف کردیتا ہے اور زمانہ طالب علمی کی آخری منزل پر بھی ان مضامین کے مبادیات اور تعارف سے واقف نہیں ہو پاتا جن پر آج کل کی دنیا گردش کر رہی ہے۔
اب آئیے طریقہ تعلیم کی جانب۔ ہمارا طریقہ تعلیم کچھ ایسا ہے جس میں ہم نے سارا زور یادداشت کو تیز کرنے پر صرف کیا ہوا ہے۔ یادداشت بذات خود عقل نہیں بلکہ ذہن کی ایک صلاحیت ہے۔ ہم اپنے طالب علم کے امتحانات میں اس کی یادداشت کا امتحان لیتے ہیں صلاحیت کا نہیں۔ اس طرح ہم اپنے طریقہ تعلیم کے ذریعے ایک اچھے اور دیرپا یادداشت رکھنے والے طوطے پیدا کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں جو خرابیاں ہیں ان خرابیوں کا ذمے دار کون ہے؟ اس ضمن میں ہمارے یہاں کے ارسطو اور بقراط تمام خرابیوں کو لارڈ میکالے کی سازش قرار دے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ان افلاطونوں سے کوئی یہ سوال کرے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم نے کون سا ایسا نظام تعلیم تیار کیا ہے جو ہمیں عملی زندگی میں داخل کرکے پاکستان کو بلندیوں کی جانب لے جا سکے۔ یقینا ان کا جواب نفی میں ہوگا۔
میرے نزدیک تعلیمی نظام میں ہمہ گیر خرابیوں کے ذمے دار حکمران طبقہ ہے جو جاگیردارانہ سوچ کا حامل ہے وہ جانتا ہے کہ علم پھیلے گا تو لازمی ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے والے پیدا ہوجائیں گے اس لیے یہ طبقہ علم کی روشنی کو اپنے مفادات کے خلاف تصور کرتا ہے۔ افسر شاہی کے جگر گوشے کیوں کر بیرونی ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لیے ہماری افسر شاہی ملک کی عام بگڑتی ہوئی تعلیمی صورتحال سے لاتعلق ہے۔ سوال یہ ہے کہ نظام تعلیم کی اصلاح کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔ میرے نزدیک تعلیم کی بنیاد جن فکری بنیادوں پر رکھی جانی چاہیے وہ مذہبی ہوں یا سیکولر اس کی منصوبہ بندی اس طرح کی جائے کہ تعلیم کے نام پر قومی وسائل کا ضیاع نہ ہو۔ اور اس کے ذریعے ایسے باصلاحیت طالب علم پیدا ہوں جو خود اپنے لیے بلکہ ملک اور قوم کے لیے بھی مفید شہری ثابت ہوں۔