آزاد دنیا کے غلام دیس

انسانوں کو غلام بنانے کی سوچ سے پھوٹتا یہ عمل اب مختلف خطوں، علاقوں اور قوموں کو غلام بنانے پر مرکوز ہے۔

فوتو : فائل

KARACHI:
اکیسویں صدی کی اولین دہائی مکمل ہوئے دو سال ہوچکے ہیں۔

انسان کے تخلیق کردہ آلات نے مریخ کی سطح کو بھی چھو لیا ہے اور زیرِآب فی الحال گہرے ترین مقام تک رسائی بھی حاصل کرلی ہے۔ ترقی کا لازوال سفر جاری ہے، لیکن کچھ ایسے قابل افسوس حقائق بھی ہیں، جن سے محسوس ہوتا ہے کہ انسانی سوچ ماضی کے تاریک دور میں ٹھہرگئی ہے۔ انسانوں کو غلام بنانے کی سوچ سے پھوٹتا یہ عمل اب مختلف خطوں، علاقوں اور قوموں کو غلام بنانے پر مرکوز ہے۔ اس حوالے سے دنیا میں ایسے بہت سے خطے ہیں جہاں حکم راں جماعت یا خود حکم راں کسی دوسرے ملک کی پالیسیوں پر چلنے پر مجبور ہیں۔

اگرچہ ان میں باقاعدہ انتخابات بھی ہوتے ہیں، تاہم انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے آئین کی حکم رانی کا دعویٰ کرنے والے حکم راں اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ اپنے اصل حکم رانوں، جن کے احکام تلے وہ اپنی سیاسی اور معاشی پالیسیاں بناتے ہیں، ان پالیسیوں پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ کیا جائے۔ زیرنظر تحریر میں ایسے ہی طفیلی، تابعدار یا محکوم ممالک اور ان پر اصل حکومت کرنے والے ممالک کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

٭متحدہ برطانیہ کے زیر تسلط سمندر /سرحد پار علاقے(British Overseas Territories)
متحدہ برطانیہ کالونین ازم کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ اگرچہ فی زمانہ کالونین ازم تقریباً ختم ہوچکا ہے، لیکن متحدہ برطانیہ اس وقت بھی پندرہ خطوں کے ارضیاتی وجود اور سیاسی جغرافیے پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔ ان خطوں میں بیشتر جزائر ہیں، جہاں پر مختلف قومیں اپنی منفرد ثقافت اور معاشرت کے ساتھ بستی ہیں۔ برطانوی سرپرستی میں حکومت چلانے والے ان خطوں کوBritish Overseas Territoriesایکٹ2002سے قبل British Dependent Territoryکہا جاتا تھا۔ تاہم اس قانون کے بعد انہیں ''سمندر پاربرطانوی سرزمین'' (British Overseas Territory)کہا جاتا ہے۔ صرف تین علاقے گورنیسی، جرسی اور آئیزل آف مین اگرچہ برطانوی حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔ تاہم، دفاع سمیت تمام اہم حکومتی معاملات برطانوی حکومت کے ذمے ہیں۔ یہ تینوں علاقے علامتی طور پر خود کو British Crownکے ماتحت ظاہر کرتے ہیں متحدہ برطانیہ کے زیرتسلط سمندرپار علاقوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔

}اینگوایلا(Anguilla)
اینگوایلا کے 1982کے نئے آئین کے تحت اینگوایلا برطانوی کالونی ہے، جو بحیرہ کیریبین یا جزائر غرب الہند میں واقع ہے۔ اس جزیرے کا رقبہ91کلومیٹر ہے جزیرہ کے اردگرد بے شمار چھوٹے چھوٹے بے آباد ٹاپو یا مرجان سے بنے فرش ہیں۔ آبادی کا نوے فیصد حصہ مغربی افریقہ کے آبائی باشندوں پر مشتمل ہے۔ ملکۂ برطانیہ کے تعینات کردہ چیف منسٹرHubert Hughesہی جزیرے کے سربراہ ہیں، لیکن آئین کے تحت انہیں اپنے تمام فیصلوں کو برطانیہ کے ممبر پارلیمنٹ Mark Simmonds سے منظور کروانا ضروری ہے۔ جزیرے کا دفاعی انتظام برطانیہ کی فوج کی ذمہ داری ہے۔ اگرچہ برطانیہ نے اینگوایلا کو1980میں اپنی سمندر پار ملکیت قرار دیتے ہوئے برطانوی سرپرستی میں لیا ہے۔ تاہم تاریخی لحاظ سے1650سے برطانوی آبادکاروں نے یہاں پر اپنا تسلط جمایا ہوا ہے۔

}برمودا(Bermuda)
دنیا بھر میں برمودا ٹرائی اینگل کے حوالے سے پہچانے جانے والے اس جزیرے پر برطانیہ کا قبضہ ہے۔ یہ پراسرار جزیرہ بحیرہ اوقیانوس میں امریکا کے شمالی ساحل کے قریب واقع ہے۔ 53مربع کلومیٹر پر محیط جزیرہ 1684سے تاج برطانیہ کے زیرِنگیں ہے۔ اس جزیرے کے وزیراعظم Craig Cannonierہیں۔ اس جزیرے کے بھی سیاسی اور دفاعی معاملات برطانوی ممبر پارلمینٹMark Simmondsکی اجازت سے مشروط ہیں۔ برمودا میں 54 فیصد مقامی سیاہ فام اور 31فیصد سفید فام افراد رہائش پذیر ہیں۔

}برطانوی بحر ہند کاخطہ(British Indian Ocean Territory)
برٹش انڈین اوشین ٹیراٹیری( BIOT) جسے مقامی زبان میں چھاگوس بھی کہتے ہیں۔ بحر ہند میں افریقہ اور انڈونیشیا کے درمیان واقع ہے۔ عسکری لحاظ سے نہایت اہمیت کے حامل اس جزیرے پر برطانیہ 8نومبر1965سے حکم رانی کررہا ہے، جس دوران مقامی لوگوں کو، جنہیں چھاگوسی سین (Chagossians) کہا جاتا ہے، بے دخل کرکے برطانوی، امریکی اور دیگر یورپی اقوام کے افراد کو بسایا گیا ہے جزیرے کے سربراہ کمشنر Peter Hayesہیں جو Mark Simmondsکو جواب دہ ہیں۔

}برٹش ورجن آئی لینڈ(British Virgin Islands)
برٹش ورجن آئی لینڈ کا سرکاری نام ''ورجن آئی لینڈ'' ہے، جو بحیرۂ کریبین میںامریکا کے زیرتسلط ریاست پورٹوریکو کے مشرق میں واقع ہے۔153مربع کلومیٹر پر محیط جزیرے کے اطراف چالیس سے زاید پہاڑی ٹاپو بھی اس کا حصہ ہیں۔ 1672میں برطانوی کالونی بننے والا یہ جزیرہ جدید سیاسی تقسیم کے لحاظ سے 1967سے برطانیہ کے فیصلوں کا تابع ہے۔ لگ بھگ تیس ہزار نفوس پر مشتمل جزیرے کا وزیر اعظم ملکہ برطانیہ کا نمائندہ ہوتا ہے یہ عہد اس وقتOrlando Smith کے پاس ہے، جو برطانوی ممبر پارلیمنٹMark Simmondsکو جواب دہ ہیں۔ جزیرے کی آبادی میں83فیصد افراد کا تعلق جزائر غرب الہند کے سیاہ فام باشندوں(Afro-Caribbean) سے ہے۔

}کے مین آئی لینڈ(Cayman Islands)
بحیرہ کیریبین کی مغربی سمت پر واقع یہ جزیرہ خطے میں تجارتی سرگرمیوں کااہم مرکز ہے۔ جزیرے کی دریافت مشہور مہم جو کرسٹوفر کولمبس کے مرہون منت ہے۔ 1670میں غلاموں کی آبادکاری کے لیے معاہدۂ میڈرڈ کے تحت برطانوی کالونی بننے والے اس جزیرے کی آبادی پچپن ہزار ہے، جس میں 40فیصد افرو یورپین، 20فیصد یورپین اور اتنی ہی تعداد میں خالص افریقی باشندے شامل ہیں۔ سمندری طوفانوں سے نبرد آزما رہنے والے اس جزیرے کو آئین کے تحت1962میں برطانیہ کاسمندر پار علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس جزیرے کی سربراہ خاتون وزیر اعظم Julianna O'Connor-Connolly ہیں، جن کی سرپرست ملکہ برطانیہ ہیں۔ یہاں کا وزیر اعظم بھی Mark Simmondsکو جواب دہ ہے۔

}فاک لینڈ آئی لینڈ(Falkland Islands)
برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان1982میں جنگ کا باعث بننے والا یہ جزیرہ بحیرۂ اوقیانوس کے جنوب میں ارجنٹائن سے 490کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ جزیرہ تاج برطانیہ کے سائے تلے1833سے ہے، جب کہ موجودہ آئین کے تحت 2009 میں فاک آئی لینڈ کو باقاعدہ برطانیہ کا سمندر پار علاقہ قرار دیا جاچکا ہے۔ جزیرے کا رقبہ بارہ ہزار دو سو مربع کلومیٹر ہے اور آبادی صرف دوہزار آٹھ سو ہے۔ مجموعی طور پر جزیرہ مغربی اور مشرقی جزائر کے علاوہ چھوٹے چھوٹے770جزائر کا مجموعہ ہے۔ جزیرے کے سربراہNigel Haywoodہیں، جو برطانوی ممبر پارلیمنٹHugo Swireکو جواب دہ ہیں، جزیرے کی 61فیصدآبادی جزیرے کے آبائی افراد اور 29فیصد برطانوی افراد پر مشتمل ہے۔

(Gibraltar)
جبرالٹر جو دراصل عربی نام جبل الطارق کا انگریزی نام ہے، اسلام کے جری سپاہ سالار طارق بن زیاد کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے 711میں اس مقام سے اسپین میں اسلام کی بنیاد رکھی تھی۔ تاریخی ''جنگ اسپین'' کے دوران Treaty of Utrechtکے تحت 1713میں جبرالٹر کو اسپین نے برطانیہ کے حوالے کیا تھا، جس کے حصول کے لیے دونوں ممالک میں تنازعات ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم 1967میں منعقد کیے گئے ریفرنڈم میں یہاں کی آبادی نے برطانیہ کے حق میں فیصلہ دیا اور اب یہاں امور مملکت ملکہ برطانیہ کی زیرسرپرستی چل رہے ہیں۔ جبرالٹر کا مجموعی رقبہ6.8مربع کلومیٹر ہے، جب کہ آبادی اٹھائیس ہزار ہے۔ جبرالٹر کے سربراہ وائس ایڈمرلAdrian Johns ہیں جو برطانوی ممبر پارلیمنٹDavid Lidingtonکو جواب دہ ہیں۔ آبادی میں 27فیصد برٹین،24فیصد اندلسی،20فیصد اطالوی،10فیصد پرتگیزی،8فیصد مالٹائی، انڈین اور دیگر اقوام کے افراد شامل ہیں۔

}مائونٹ سیرت(Monteseratt)
جزائر کیریبین کے مشرقی حصے میں واقع یہ جزیرہ1632سے برطانیہ کی کالونی ہے، جو اب برطانیہ کا سمندر پار علاقہ قرار پاچکا ہے۔ سو مربع کلومیٹر والے اس جزیرے کے تمام امور مملکت برطانیہ کے ذمے ہیں۔ آتش فشانی عمل سے متاثر رہنے والے اس جزیرے کے سربراہ ملکہ برطانیہ کے نام زد کردہ Reuben Meadeہیں، جو برطانوی پارلیمنٹ کے ممبرMark Simmondsکو جواب دہ ہیں۔ جزیرے پر مغربی افریقہ، برطانوی، آئرش اور سفید اور سیاہ فام والدین کی مخلوط النسل آبادیMulatto رہائش پذیر ہے۔

}جزائر پٹکیرین(Pitcairn Island)
جنوبی بحیرۂ اوقیانوس میں نایاب پرندوں کی آماج گاہ پر مشتمل یہ جزیرہ دنیا میں سب سے کم آبادی والا ملک ہے، جو 1838سے برطانوی کالونی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جزیرے کے تمام داخلی اور خارجی معاملات برطانوی قوانین کے تابع ہیں 47مربع کلو میٹر والے اس جزیرے کا سربراہ ہائی کمشنر /گورنر کہلاتا ہے۔ اس عہدے پر اس وقت خاتون گورنرVictoria Treadellفائز ہیں جزیرے کی تمام آبادی کا نسلی تعلق جزیرے پر بسنے والے ابتدائی لوگوں سے ہے۔

}سینٹ ہیلینا(Saint Helena)
ستر فیصد سیاہ فام آبادی والے تین جزائر پر مشتمل اس ملک پر برطانیہ کا 1657سے سکہ چلتا ہے۔ جزیرے کا مجموعی رقبہ420مربع کلومیٹر ہے۔ جزیرہ جنوبی بحر اوقیانوس میں واقع ہے، جس کے سربراہ گورنرMark Andrew Capes ہیں، جو برطانوی ممبر پارلیمنٹ Mark Simmonds کو جواب دہ ہیں۔ آبادی کا بیشتر حصہ افریقی، برطانوی، مشرقی افریقہ، ایسٹ انڈیز، مڈغاسکر اور چین سے تعلق رکھتا ہے۔

}جنوبی جارجیاجزائر(South Georgia)
جنوبی بحرِاوقیانوس میں چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل اس علاقے کا رقبہ تین ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ پینگوئن کی وسیع آبادی پر مشتمل اس علاقے کے سربراہ کمشنر Nigel Haywood ہیں۔ سرد موسم والے اس خطے پر برطانیہ کی1843 سے عمل داری ہے، جسے بعدازاں 1985میں برطانیہ کا سمندر پار علاقہ قرار دے دیا گیا ہے، آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔

}جزائر کیکس و ترکیہ(Turks and Caicos Islands)
جزائر غرب الہند میں واقع یہ دونوں جزائر برطانیہ کے سمندر پار علاقے ہیں، جس کی نوے فیصد آبادی سیاہ فام افراد پر مشتمل ہے، جن میں مخلوط نسل یورپین اور شمالی امریکا کے افراد شامل ہیں۔ 616مربع کلومیٹر رقبے والے اس جزیرے کی آبادی پینتالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ستمبر2009میں برطانوی حکومت نے جزائر کیکس اور ترکیہ کی انتظامیہ پر کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے تمام عہدے داروں کو برطرف کردیا تھا، جس کے بعد نومبر2012میں برطانوی حکومت نے اپنی نگرانی میں عام انتخابات کرائے، جس کے نتیجے میں Rufus Ewingاس وقت یہاں کے وزیراعظم کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ اگرچہ 1799میں یہاں برطانوی اپنے قدم رکھ چکے تھے۔ تاہم جزیرے کو اگست 1962میں برطانوی کالونی قرار دیا گیا۔

}جزائر ایکروتری اینڈ دھکیلیا''(Akrotiri and Dhekelia)
برطانوی فوجیوں کی خاندان سمیت مستقل رہائش کے حوالے سے ایکروتری اینڈ دھکیلیا بھی سمندر پار برطانوی علاقہ کہلاتا ہے۔ 1960میں تشکیل دیے گئے۔ یہ جزائر بالترتیب بحرِ روم میں قبرص کے قریب واقع ہیں۔ تیرہ ہزار نفوس اور 254 مربع کلومیٹر پر مشتمل اس علاقے کے ایڈمنسٹریٹرایئر وائس مارشلWilliam Staceyہیں، جو برطانوی ممبر پارلیمنٹDavid Lidington کو جواب دہ ہیں۔ زیادہ تر آبادی کا تعلق قبرص سے ہے۔

}برطانوی انٹارکیٹک علاقہ(British Antarctic Territory)
تین مارچ1962کو برطانوی سمندر پار علاقے کی حیثیت پانے والے اس خطے کا رقبہ سترہ لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ تاہم آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ برطانیہ اس خطے پر 1908سے موجودگی کا دعوے دار ہے۔ تاہم برطانیہ کے اس دعویٰ کو بہت سے ممالک رد کرچکے ہیں۔ دوسری طرف 18دسمبر2012کو موجودہ ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوئم کی تخت نشینی کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر اس علاقے کو برطانیہ نے ''کوئین ایلزبتھ لینڈ'' کا نام بھی دیا ہے۔

}گورنیسی(Guernsey)
گورنیسی کا مکمل سرکاری نام ''بیلی وک آف گورنیسی'' ہے۔ گورنیسی مغربی یورپ میں فرانس کے علاقے نارمنڈی اور برطانیہ کے جنوب میں وے مائوتھ کے درمیان رودبار انگلستان میں واقع ہے۔ اس قدیم آباد جزیرے کا رقبہ63مربع کلومیٹر ہے، جو دوسری جنگ عظیم میں جرمن افواج کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ 1945سے تاج برطانیہ ( BritishCrown)کی سرپرستی میں چلنے والے اس ملک کا سربراہ ملکہ برطانیہ کا نام زد کردہ گورنر ہوتا ہے۔ پینسٹھ ہزار آبادی والے اس ملک کے موجودہ گورنر پیٹر واکر ہیں۔ جزیرے کی بیشتر آبادی برطانوی اور فرانسیسی نارمن افراد پر مشتمل ہے اور یہ سب برطانوی شہری کہلاتے ہیں۔

}جرسی(Jersey)
مغربی یورپ میں فرانس سے27کلومیٹر پر واقع جزیرہ جرسی کا سرکاری نام ''بیلی وک آف جرسی'' ہے اور یہ بھی1945سے تاج برطانیہ کی کالونی ہے۔ ایک لاکھ نفوس والے اس جزیرے کا رقبہ 117مربع کلومیٹر ہے۔ ملکہ کے نامزد کردہ John McCollاس وقت گورنر کے عہدے پر بحیثیت سربراہ تعینات ہیں، جو تاج برطانیہ کے ماتحت ہیں۔ جرسی میں برطانوی ، فرانسیسی نارمن اور پرتگالیوں کی اکثریت آباد ہے۔

}آئیزل آف مین(Isle of Man)
آئیزل آف مین کو صرف Mannبھی کہا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ برطانیہ، اسکاٹ لینڈ اورشمالی آئیرلینڈ کے درمیان بحیرۂ آئرش میں واقع ہے۔ جزیرے کا رقبہ572مربع کلومیٹر ہے، جب کہ آبادی پچاسی ہزار ہے۔ 1765سے یہ جزیرہ برطانوی تاج کے زیر نگیں ہے۔ تمام خارجی امور پر برطانیہ کا تسلط ہے۔ جزیرے کے سربراہ گورنر ایڈم وڈ ہیں، جو تاج برطانیہ کے احکامات کے پابند ہیں جزیرے پر برطانوی ، اسکاٹش اور شمالی آئرلینڈ کے افراد رہائش پذیر ہیں۔

٭فرانس کے زیر تسلط سمندر /سرحد پار علاقے
}فرانسیسی گو ئیانا(French Guiana)
فرانس کے زیرتسلط یہ علاقہ جنوبی امریکا میں بحیرۂ اوقیانوس کی شمالی ساحلی پٹی کے قریب واقع ہے۔ اس کی سرحدیں مشرق اور جنوب میں برازیل اور مغرب میں سرینام سے ملتی ہیں۔ 84ہزار مربع کلومیٹر والے اس ملک کی آبادی محض دولاکھ چھتیس ہزار ہے۔ اگرچہ فرانسیسیوں کے اولین قدم یہاں پر 1643میں پڑے تھے۔ تاہم، 1801میں گوئیانا کو فرانسیسی کالونی قرار دیا گیا، جس کا سربراہ فرانس کا صدر ہوتا ہے، جب کہ کالونی کے امور مملکت چلانے کے لیے ''پرفیکٹ '' کا عہدہ ہوتا ہے، جسے صدر نام زد کرتا ہے۔ اس خطے میں فرانس کا خلائی مستقر ''گوئیانا اسپیس سینٹر'' بھی ہے۔ جزیرے کی آبادی 70فیصد سیاہ فام یا سفید اور سیاہ فام والدین کی مخلوط نسلMulatto سے تعلق رکھتی ہے۔

}فرانسیسی پولی نیسیا(French Polynesia)
بحرالکاہل میں ہوائی، نیوزی لینڈ اور ایسٹر آئی لینڈ کی سمندری تکون میں واقع پولی نیسیائی سمندری خطے میں130جزائر کے مجموعے کو فرانسیسی پولی نیسیا کہا جاتا ہے، جس کا رقبہ4,167مربع کلومیٹر ہے۔ 1946میں فرانس کی سمندر پار سرزمین قرار دیے جانے والے یہ جزائر پچیس لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر بکھرے ہوئے ہیں۔ جزائر کا صدر فرانسیسی صدر کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اس وقت یہ عہدہ Oscar Temaruکے پاس ہے۔ یاد رہے کہ اس علاقے میں 1843میں فرانسیسیوں نے اولین قدم رکھے تھے۔ آبادی کا 70فیصد پولی نیسیائی خطے میں بسنے والے لسانی گروہوں اور باقی ماندہ افراد کا یورپین اور مشرقی ایشیائی ممالک سے تعلق ہے۔


}جنوبی فرانسیسی انٹارکٹک سرزمین(French Southern and Antarctic Lands)
439,781مربع کلومیٹر پر مشتمل اس علاقے کی مختصر آبادی فوجی اور محقق حضرات اور ان کے دفاتر کے عملے پر مشتمل ہے۔ پانچ مختلف جزائر پر مشتمل اس علاقے میں فرانس کے نمائندے پرفیکٹPascal Bolot ہیں۔ بحر ہند کے جنوب میں بحر منجمد جنوبی میں واقع جزائر کو 1955میں فرانس کی سمندر پار سرزمین قرار دیا گیا ہے فرانس ہی تمام انتظامی امور کا ذمہ دار ہے۔

}گواڈی لوپ(Guadeloup)
جزائر غرب الہند کے انتہائی مشرق میں واقع اس جزیرے کا رقبہ1628مربع کلومیٹر ہے آبادی چار لاکھ کے قریب ہے جزیرے میںVictorin Lurelفرانسیسی صدر کے نمائندے ہیں۔ اگرچہ تاریخی طور پر 1635میں فرانسیسیوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ تاہم، بعد میں دیگر یورپی اقوام کابھی یہاں پر قبضہ رہا ہے اس دوران دوسری جنگ عظیم کے بعد 19مارچ1946کو فرانس نے اسے اپنا سمندر پار علاقہ قراردے دیا خطے میں 71فیصد آبادی افریقی اور پانچ فیصد سفید فام افراد پر مشتمل ہے جب کہ 15فیصد تامل انڈین بھی رہائش پذیر ہیں۔

}مارتینیق(Martinique)
یہ جزیرہ بھی جزائر غرب الہند کے انتہائی مشرق میں واقع ہے، جس کا رقبہ1128مربع کلومیٹر ہے، جب کہ آبادی چار لاکھ دس ہزار ہے۔ جزیرے کے صدر Serge Letchimy ہیں۔ یہ جزیرہ بھی 1635سے فرانسیسیوں کے زیر تسلط رہا ہے، جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد 19مارچ1946کو فرانس نے اپنا سمندر پار علاقہ قرار دیا تھا۔ 90فیصد آبادی افریقی اور افریقی سیاہ فام اور سفید فام اور انڈین نسل کے مخلوط رنگت کے افراد پر مشتمل ہے۔

}مئے اوٹی(Mayotte)
بحر ہند میں شمال غربی مڈغاسکر اور شمالی موزمبیق کے درمیان واقع ان جزائر کا مجموعی رقبہ 374مربع کلومیٹر ہے، جہاں پر دولاکھ نفوس رہتے ہیں، جن میں سے 97فیصد مسلمان ہیں، جن کا تعلق ایران، مڈغاسکر، عرب ممالک اور افریقی علاقوں سے ہے۔ اگرچہ مارچ2009کے ریفرنڈم کے نتیجے میں مارچ2011میں ان جزائر کو فرانس کا سمندر پار علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس علاقے پر فرانس کی عمل داری1843سے ہے۔ جزیرے کے صدرDaniel Zaidaniہیں، جو فرانسیسی صدر کے احکامات کے تابع ہیں۔

}نیو کیلوڈونیا(New Caledonia)
بحرالکاہل کے جنوب مغرب میں واقع جزائر نیو کیلوڈونیا کا رقبہ 18,576مربع کلومیٹر ہے۔ ڈھائی لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی والے اس ملک کے صدر Harold Martin ہیں۔ نیوکیلوڈونیا کو1946میں فرانس کی سمندر پار سرزمین قرار دیا گیا تھا، جب کہ یہ علاقہ1853سے فرانس کے زیر تسلط ہے۔ مغربی بحرالکاہل سے تعلق رکھنے والے Kanakافراد نیوکیلوڈونیا کی آبادی کا پچاس فیصد ہیں، جب کہ ان جزائر میں 30فیصد یورپین افراد بھی رہتے ہیں۔

}ری یونین(Reunion)
بحر ہند میں ماریشس اور مڈغاسکر کے درمیان واقع اس جزیرے کا رقبہ ڈھائی ہزار مربع کلومیٹر ہے، جس میں ساڑھے آٹھ لاکھ افراد بستے ہیں۔ ری یونین کے صدرDidier Robertہیں یہ جزیرہ 1674 سے فرانس کی کالونی ہے ری یونین میں آباد افراد کا بیشتر حصہ یورپی، افریقی، مالاگاسی، انڈین اور چائینز لسانی گروہوں پر مشتمل ہے۔

}سینٹ بارتھیلے مے (Saint Barthelemy)
سینٹ بارتھیلے مے 1648سے فرانس کی نوآبادی ہے۔ جزیرے کی آبادی نو ہزار ہے، جب کہ رقبہ بائیس کلومیٹر ہے 1748میں اسے سوئیڈن نے خرید لیا تھا، جسے بعد میں1878میں فرانس نے دوبارہ خرید لیا، جب کہ اس علاقے کو فرانس کا سمندر پار علاقہ22 فروری2007 کو قرار دیا گیا۔ فرانسیسی صدر کے زیرانتظام چلنے والے اس جزیرے کے انتظامی سربراہPhilippe Chopinہیں۔ مقامی افراد زیادہ تر فرانسیسی زبان بولنے والے گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

} سینٹ مارٹن (St. Martin)
سینٹ مارٹن بھی 1648سے فرانس کی نوآبادی رہا ہے، جس کی آبادی 37ہزارہے، جب کہ رقبہ54کلومیٹر ہے۔ فرانس کے زیرِقبضہ اس جزیرے کے صدر Jacques Simonnet ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ جزیرہ ہالینڈ کی کالونی رہا ہے، جسے 2007میں فرانس نے ایک معاہدے کے تحت اپنا سمندر پار علاقہ قرار دیا۔ اس جزیرے میں فرانسیسی، ڈچ اور انگریزوں کی آبادی مساوی تعداد میں بستی ہے۔

}سینٹ پیٹر و میکلیون(Saint Pierre and Miquelon)
شمال مغربی بحیرۂ اوقیانوس میں کینیڈا سے متصل یہ جزیرہ 1814میں فرانس کا حصہ بنا، جسے 27 اکتوبر1946میں فرانس کا جزوی طور پر سمندر پار علاقہ تسلیم کیا گیا۔ 242 مربع کلومیٹر رقبے والے اس جزیرے کی آبادی چھے ہزار ہے، جو 28مارچ2003کو مکمل طور پر فرانس کی سمندر پار سرزمین قرار دی جاچکی ہے۔ حکومتِ فرانس کی جانب سے جزیرے کے نگراں Jean-Regis Borius ہیں۔ جزیرے کی آبادی کی اکثریت قدیم عرصے سے آباد فرانسیسی نسل سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں پر مشتمل ہے۔

}ویلیس اور فتونہ(Wallis and Futuna)
264مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط یہ جزائر جنوبی بحرالکاہل میں واقع ہیں۔ آتش فشانی کے عمل سے جنم لینے والے ان جزائر کی آبادی پندرہ ہزار ہے۔ 16فروری1888میں فرانس کی کا کونی بننے والی اس خطے کو 1956میں جزوی اور 2003میں مکمل طور پر فرانس کی سمندر پار سرزمین قرار دیا گیا اور آج بھی یہاںMichel Jeanjeanکی سرکردگی میں فرانسیسی قوانین کی عمل داری ہے۔ آبادی کا بیشتر حصہ پولی نیسیائی خطے کے لسانی گروہوں سے تعلق رکھتا ہے۔

٭یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکا کے زیر تسلط سمندر /سرحد پار علاقے
امریکا اپنے وہ علاقے جو اس کی سرحدی حدود سے باہر ہیں، ان کے لیے قانونی طور پر '' Unincorporatedخطوں'' کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ یعنی ایسے علاقے جو غیرمربوط طریقے سے پھیلے ہوئے ہیں، لیکن وہاں پر امریکی حکومت کی عمل داری ہے۔ امریکا کی پچاس ریاستوں کے علاوہ امریکا میں شمار کیے جانے والے وہ علاقے، جن کا آئینی سربراہ امریکی صدر ہے، ان علاقوں کے مختصر حالات کچھ اس طرح ہیں۔ واضح رہے کہ ان علاقوں میں دو ایسے علاقے شامل نہیں جو غیرآباد ہیں۔

}امریکی سموا(American Samoa)
جنوبی بحرالکاہل میں آزاد ریاست سموا کے جنوب مشرق میں واقع امریکن سموا کا رقبہ197مربع کلومیٹر ہے اور آبادی پچپن ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اس ریاست کے گورنرLolo Letalu Matalasi Moligaہیں، جو خطے میں امریکی مفادات کے نگراں ہیں۔ 1899کے آخر میں امریکا کا حصہ بننے والا یہ علاقہ جرمنی، برطانیہ اور ولندیزیوں کے زیرنگیں بھی رہا ہے۔ امریکی سموا کی ہائی کورٹ امریکی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے۔ رنگ برنگی ثقافت رکھنے والے اس ملک کی آبادی کا 91فیصد حصہ مقامی سموین افراد پر مشتمل ہے۔

}گوام(Guam)
مغربی بحرالکاہل میں واقع محکوم ملک گوام کا رقبہ541مربع کلومیٹر ہے جب کہ یہاں ڈیڑھ لاکھ نفوس بستے ہیں۔ تاریخی طور پرسن1521سے مختلف ملکوں کی کالونی بن کر رہنے والا یہ جزیرہ 1898میں کیے جانے والے معاہدۂ پیرس کے تحت اسپین سے امریکا کی حاکمیت میں آچکا ہے۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد1950تک یہ جزیرہ جاپان اور امریکی فوجیوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہا۔ اس جزیرے میں امریکی مفادات کے نگراں گورنرEddie Calvoہیں۔ گوام میں 40 فیصد مقامیChamorro اور 26فیصد فلپائنی رہتے ہیں۔

}شمالی ماریناجزائر(Northern Mariana Islands)
پندرہ چھوٹے بڑے جزائر پر مشتمل مارینا جزائر کا مجموعی رقبہ465مربع کلومیٹر ہے، جو مغربی بحر الکاہل میں ہوائی اور فلپائن کے درمیان واقع ہیں، جن کی آبادی ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے جزیرے کے گورنر Benigno Fitialہیں۔ یہ جزیرہ امریکا کے15جون 1944کے تسلط سے قبل اسپین، جرمنی اور جاپان کے زیر تسلط بھی رہا ہے۔ مارینا جزائر میں 25فیصد فلپائنی، 22فیصد چائینز اور21فیصد مقامی افرادChamorro بستے ہیں۔

}پورٹو ریکو( Puerto Rico)
شمال مشرق بحرالہند میں واقع پورٹوریکو ریاست کے مشرق میں جمہوریہ ڈومینکن اور مغرب میں امریکن ورجن ائی لینڈ واقع ہیں۔ انتہائی اہمیت کے حامل اس خطے کا رقبہ نوہزار ایک سو چار مربع کلومیٹر ہے، جب کہ آبادی37لاکھ ہے۔1508میں ہسپانوی آبادکاروں کے ہاتھوں بسائے جانے والے اس ملک پر امریکی تسلط25جولائی1898 سے قائم ہے۔ اس خطے میں کئی مرتبہ امریکا سے آزاد ی کی تحریکیں بھی چلی ہیں۔ تاہم امریکا نے بزور انہیں دبا دیا۔ پورٹوریکو میں اس وقت وکیل اور سیاسی راہ نماAlejandro Garcيa Padilla بحیثیت گورنر امریکی مفادات کے نگران ہیں حالیہ دنوں میں چھے نومبر2012میں ہونے والے ایک ریفرنڈم میں 61فیصد عوام نے آزاد ریاست کے حق میں ووٹ دیے۔ تاہم اس فیصلے پر امریکا نے ابھی تک عمل نہیں کیا ہے۔ پورٹوریکو کی 75فیصد آبادی اسپین سے آئے ہوئے سفید فام افراد پر مشتمل ہے۔

}امریکی ورجن جزائر(United States Virgin Islands)
ایک لاکھ چھے ہزار نفوس پر مشتمل ان جزائر کا مجموعی رقبہ346مربع کلومیٹر ہے بحر الہند میں واقع یہ جزائر ڈنمارک نے ایک معاہدے کے تحت 1916 میں امریکہ کو فروخت کئے تھے سمندری طوفانوں میں گھرے رہنے والے اس جزیرے کی مالیت اس وقت پچیس ملین امریکی ڈالر مقر ر کی گئی تھی، جس سے جزیرے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس وقت جزیرے کے گورنرJohn de Jongh ہیں۔ جزیرے میں کیریبین خطے سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام نسل کے افراد کی اکثریت ہے۔

٭نیدر لینڈ کے زیر تسلط سمندر /سرحد پار علاقے
نیدرلینڈ جسے ہالینڈ بھی کہا جاتا ہے، وہاں اگرچہ کارِ مملکت جمہوریت کے تابع ہیں، تاہم ملکہ بیٹرکس ولہل منا(Beatrix Whhelmina) کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ ملکہ کی زیرسرپرستی چھے ایسے علاقے ہیں جن پر ملکہ کے نام زد کردہ گورنر حکومت کرتے ہیں۔ یہ علاقے جو ہالینڈ کے سمندر پار علاقے کہلاتے ہیں۔ جزائر غرب الہند یعنی بحیرۂ کیریبین میں واقع ہیں، جن کی مجموعی آبادی ساڑھے تین لاکھ اور رقبہ 984مربع کلو میٹر ہے۔ ان جزائر میں اوربا، بونیار، کیوراسائو، سبا، سینٹ ایوسٹائٹیوس اور سینٹ مارٹان شامل ہیں اوربا اور بونیار میں سفید فام کیریبین، کیوراسائو میں سیاہ فام کیریبین، جب کہ سبا جزیرے میں افریقی، اسکاٹش اور ڈچ افراد آباد ہیں۔

٭آسٹریلیا کے زیر تسلط سمندر /سرحد پار علاقے
ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوئم کی سرکردگی میں دولت مشترکہ آسٹریلیا کے پانچ علاقے اس کی سرحدوں سے باہر آسٹریلوی خطوں یا علاقوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں بحر ہند میں واقع آسٹریلیا کا 1957میں حصہ بننے والے جزائر کرسمس اور کوکوس کے علاوہ1979میں شامل ہونے والا بحرالکاہل میں واقع جزیرہ نارفاک شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو ایسے جزیرے بھی آسٹریلیا کا ہی حصہ ہیں، جو بے آباد ہیں۔ ان میں آسٹریلیا کی ریاست کوئنز لینڈ کے شمال مشرق میں جزائرCoral Sea اور بحر ہند میں جزائرHeard and McDonaldشامل ہیں جزائر کرسمس میں 70فیصد چائنیز بستے ہیں جب کہ کوکوس جزیرے کی آبادی سوفیصد ملائی لوگوں پر مشتمل ہے، جس میں سے 80فیصد کا مذہبی تعلق سنی مسلمانوں سے ہے، جب کہ نارفاک جزائر کی بیشتر آبادی یورپی اور مقامیTahitian لسانی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔

٭نیوزی لینڈ کے زیر تسلط سمندر /سرحد پار علاقے
آسٹریلیا کی طرح نیوزی لینڈ کے سرحد پار علاقے بھی ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوئم کے احکامات کے تابع ہیں۔ ان علاقوں میں جنوبی بحرالکاہل میں واقع جزائر کوک، جزائر نیووے اور جزائر ٹوکیلائو شامل ہیں، جن کی مجموعی آبادی چودہ ہزار اور رقبہ پانچ سو مربع کلومیٹر ہے۔ جزائر کوک، نیووے اور ٹوکیلائو میں قدیم نیوزی لینڈ کے مورائی قبائل، سموا قبائل اور دیگر پولی نیسائی خطے کے متفرق لسانی گروہ بستے ہیں۔

٭ناروے کے زیر تسلط سمندر /سرحد پار علاقے
حکومت ناروے کے زیرتسلط سرحدپار علاقوں میں غیرآباد جزیرہBouvetہے جو جنوبی بحر اوقیانوس میں واقع ہے۔ دوسرا جزیرہJan Mayen ہے جو بحرِمنجمد شمالی میں واقع ہے۔ تیسرا اہم ترین جزیرہ ناروے سے تیرہ سو کلومیٹر دور قطب شمالی میں یخ بستہ جزائر کا مجموعہ ''سولبارڈ'' ہے۔ سولبارڈ کی آبادی تقریباً تین ہزار ہے، جس میں 75فیصد نارویجین لوگ رہائش پذیر ہیں۔

٭عوامی جمہوریہ چین کے زیرتسلط سمندر/سرحد پار علاقے
عوامی جمہوریہ چین کے زیرتسلط ستر لاکھ آبادی پر مشتمل ہانگ کانگ کا علاقہ ہے، جس کا رقبہ 1104مربع کلومیٹر ہے۔ ہانگ کانگ کی 95فیصد آبادی چائنیز افراد پر مشتمل ہے۔ چین کی جنوبی ساحلی پٹی سے متصل ہانگ کانگ1997سے چین کا خصوصی انتظامی سمندر پار حصہ ہے، جو اس سے قبل 156برس تک برطانیہ کی کالونی رہا تھا ہانگ کانگ کا نگراں ''چیف ایگزیکٹیو'' کہلاتا ہے۔ یہ عہدہ اس وقتCY
Leungکے پاس ہے۔

مکائو چین کا دوسرا اہم انتظامی حصہ ہے، جو سمندر پار واقع ہے۔ مکائو سولہویں صدی سے پرتگالیوں کی کالونی رہنے کے بعد1999میں عوامی جمہوریہ چین کا خصوصی انتظامی حصہ بن چکا ہے ساڑھے پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل یہ علاقہ بحیرہ جنوبی چین کے ساحل سے متصل ہانگ کانگ کی مخالف سمت پر واقع ہے۔ مکائو کا رقبہ محض 29مربع کلومیٹر ہے۔ مکائو کی 95فیصد آبادی بھی چینی ہے۔

٭ڈنمارک کے زیر تسلط سمندر /سرحد پار علاقے
مشرقی یورپ میں واقع ڈنمارک کے زیرانتظام سرحد پار دو علاقے ہیں، جن میں 1380اور بعد ازاں1948میں ڈنمارک میں شامل ہونے والے جزائر کا مجموعہ ''فارو'' (Faroe) ہے، جو بحیرہ نارویجیئن اور بحیرۂ اوقیانوس کے درمیان واقع ہے۔91فیصد مقامیFaroeseپر مشتمل پچاس ہزار آبادی والے اس خطے کا مجموعی رقبہ چودہ سو مربع کلومیٹر ہے۔ جزیرے کے انتظامی امور ڈنمارک کی ملکہ مارگریٹ الیگزینڈرائن دوئم کے نمائندے کی حیثیت سے ہائی کمشنر Dan M. Knudsen انجام دیتے ہیں۔ دوسرا سرحد پار علاقہ گرین لینڈ کا ہے، جو بحیرۂ منجمد شمالی اور بحیرۂ اوقیانوس کے مابین واقع ہے۔ گرین لینڈ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ اکیس لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ا س علاقے کی آبادی صرف پچپن ہزار کے لگ بھگ ہے۔ 1721سے مختلف شکلوں میں ڈنمارک کا حصہ رہنے والے اس خطے میں ملکہ مارگریٹ الیگزینڈرائن دوئم کی نمایندگی ان کا نام زد کردہ نمائندہ کرتا ہے، جسے ہائی کمشنر کہتے ہیں۔ اس عہدے پر موجودہ وقت میں ایک خاتونMikaela Engellفائز ہیں۔ خطے میں نوے فیصد گرین لینڈ کے مقامیInuitنسل کے لوگ رہتے ہیں۔
Load Next Story