عالـمی ایـٹمـی دوڑ تیـز ہـوگـئی

پاک بھارت کشیدگی،شمالی کوریا کا ایٹمی تجربہ، ایران بھی دعویدار، دنیا کا مستقبل کیا ہوگا.


Muhammad Akhtar February 24, 2013
فوٹو : فائل

شمالی کوریا اور جنوبی کوریا سے سیکڑوں میل دور سمندر میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔

زلزلے کی شدت 4.9 سے 5.1 کے درمیان تھی۔ پہلے تو زلزلہ قدرتی آفت سمجھا گیا لیکن پھر امریکا اور جاپان کے ماہرین کی جانب سے کہا گیا کہ یہ زلزلہ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا۔جلد ہی شمالی کوریا نے تصدیق کی کہ یہ ایٹمی دھماکے اس نے کیے تھے اور زلزلہ بھی اسی وجہ سے آیا۔اس کے ساتھ ہی عالمی سطح پر ہلچل مچ گئی۔امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں جاپان اور جنوبی کوریا کی جانب سے ان ایٹمی تجربات کی مذمت کی گئی لیکن شمالی کوریا نے ان تمام ممالک کی مذمت کو حقارت کے ساتھ مسترد کردیا۔شمالی کوریا کی جانب سے یہ ایٹمی ہتھیاروں کا تیسرا تجربہ تھا۔

عالمی مبصرین کے مطابق شمالی کوریا کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے تیسرے کامیاب تجربے کے بعد دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ تیز ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔اس کے ساتھ ہی دنیا کے مستقبل کے حوالے سے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔دنیا کی چھ تصدیق شدہ ایٹمی طاقتوں امریکا ، روس ، چین ، برطانیہ ، فرانس اور بھارت کے بعد گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں پاکستان بھی اعلانیہ طور پر ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل بھی ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے۔ اب ایسے دو ممالک بھی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں جو امریکا کے کھلم کھلا دشمن سمجھے جاتے ہیں۔یہ شمالی کوریا اور ایران ہیں۔

امریکا کے دشمن سمجھے جانے والے شمالی کوریا نے گذشتہ سے پیوستہ ہفتے کو پیر اور منگل کی درمیانی رات ایٹمی دھماکہ کیا۔شمالی کورین حکام کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ ان کے ملک نے تیسری مرتبہ کامیاب ایٹمی دھماکہ کیا ہے۔ادھر ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے ''ایکسپریس'' چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ایران ایٹمی طاقت ہے اور اگر کسی نے اس پر حملے کی کوشش کی تو اسے یہ حملہ بہت مہنگا پڑے گا۔تاہم ان کا کہنا تھاکہ ملک کے دفاع کے لیے صرف ایٹمی ہتھیار کافی نہیں بلکہ اس کے لیے دیگر عوامل بھی ضروری ہے۔

شمالی کوریا کے سرکاری خبر رساں ادارے کے سی این کے مطابق سائنسدانوں نے یہ تجربہ زیرِ زمین ایک چھوٹی ایٹمی ڈیوائس کا دھماکا کر کے کیا۔کے سی این اے کے مطابق شمالی کورین حکام کا کہنا تھا کہ یہ ایک اعلیٰ درجے کا ایٹمی تجربہ تھا جو محفوظ اور بہترین طریقے سے ایک چھوٹی ایٹمی ڈیوائس کی مدد سے کیا گیا جس کی طاقت ماضی کی نسبت زیادہ تھی اور اس کا اردگرد کے ماحول پر بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑا تھا۔بیان میں مزیدکہا گیا تھا کہ یہ تجربہ اس امریکی جارحیت کے خلاف ملکی سلامتی کے اقدامات کا حصہ ہے جس نے ان کے پرامن راکٹ تجربے کے حق کی مخالفت کی تھی۔

امریکا کے بعد شمالی کورین ایٹمی دھماکے کی مذمت کرنیوالے ممالک میں جنوبی کوریا اور جاپان پیش پیش تھے۔جنوابی کوریا نے سخت الفاظ میں تجربے کی مذمت کی جبکہ اسی تناظر میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا۔شمالی کوریا کی جانب سے ایٹمی دھماکے کی تصدیق ملک میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جانے کی اطلاعات کے بعد آئی۔امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق منگل کی صبح ریکارڈ کیے جانے والے ان جھٹکوں کی شدت ریکٹر اسکیل پر چار اعشاریہ نو تھی اور یہ زلزلہ زمین کے نیچے ایک کلومیٹر کی گہرائی پر آیا۔اس زلزلے کے بعد یہ خدشات سامنے آئے تھے کہ یہ ممکنہ طور پر کسی ایٹمی تجربے کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جس کی تصدیق آخر شمالی کوریا نے خود ہی کر دی۔

جنوبی کوریا کے ذرائع ابلاغ نے ان جھٹکوں کو انسانی اقدامات کے تحت آنے والا زلزلہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدت 5.1 بتائی جس سے بظاہر اس ایٹمی دھماکے کی طاقت ماضی میں شمالی کوریا کے دو ایٹمی دھماکوں سے زیادہ معلوم ہوتی تھی۔عالمی مبصرین اور سفارتکاروں کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کے اس اقدام پر اپنا ہنگامی اجلاس بلایا۔سلامتی کونسل پہلے ہی شمالی کوریا کو متنبہ کر چکی تھی کہ ایٹمی تجربہ کرنے کی صورت میں اسے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

قارئین ،آپ کو معلوم ہوگا کہ گزشتہ سال 12 دسمبر کو شمالی کوریا کی جانب سے ایک دور مار راکٹ کا تجربہ کیا گیا تھا۔ اس راکٹ کی مدد سے شمالی کوریا نے خلائی مدار میں اپنا سیارہ چھوڑا تھا جو اس کے لیے ایک بڑی کامیابی تھا۔اس تجربے کے بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس پر عائد پابندیوں میں اضافہ کر دیا تھا جس کے جواب میں شمالی کوریا نے ایٹمی پروگرام پر مزید مذاکرات کو رد کرتے ہوئے اپنی فوجی اور ایٹمی صلاحیت بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔اسی سلسلے میں شمالی کوریا نے گذشتہ مہینے اپنا تیسرا ایٹمی دھماکہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا تاہم یہ دھماکہ کس مہینے کے کس دن کیا جائے گا، اس کا درست وقت نہیں بتایا گیا تھا۔یاد رہے کہ شمالی کوریا 2006 اور 2009 میں دو ایٹمی تجربات کر چکا تھا جن کے بعد سلامتی کونسل نے اس پر میزائل تجربات کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔تیسرے ایٹمی دھماکے کے اعلان پر امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان نے اسے خبردار کیا تھا کہ وہ ایسا کرنے سے باز رہے۔ چین نے بھی، جو شمالی کوریا کا قریبی تجارتی اتجادی ہے، اسے ایسے کسی اقدام سے باز رہنے کو کہا تھا۔تاہم ان دوستوں اور دشمنوں کی جانب سے منع کیے جانے کے باوجود شمالی کوریا نے گزشتہ سے پیوستہ ہفتے میں اپنا تیسرا ایٹمی دھماکہ کرڈالا۔

ابھی شمالی کورین ایٹمی دھماکے کی بازگشت تھمی نہیں تھی کہ ایران کی جانب سے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کردیا گیا۔یہ اعلان باقاعدہ طور پرنہیں کیا گیا بلکہ ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ کیا کہ ایران بھی ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔انھوں نے پاکستان کے معروف ٹی وی نیوز چینل ''ایکسپریس'' کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ایران ایٹمی طاقت ہے اور اگر کسی نے اس پر حملے کی کوشش کی تو اسے یہ حملہ بہت مہنگا پڑے گا۔تاہم ان کا کہنا تھاکہ ملک کے دفاع کے لیے صرف ایٹمی ہتھیار کافی نہیں بلکہ اس کے لیے دیگر عوامل بھی ضروری ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل چھوٹے سے گروپ سے شکست کھا چکا ہے جبکہ ایران اس سے کہیں بڑا اور مضبوط ملک ہے۔ایرانی اسپیکرنے مزید کہاکہ امریکا کبھی بھی ایران پر حملے کی غلطی نہیں کرے گا۔اگر امریکا نے ایسا کیا تو پاکستان کے لوگ اور حکومت ایران کی مدد کرے گی کیونکہ پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ایران کے صدیوں پرانے تعلقات ہیں۔پاکستان کے لوگ کبھی بھی امریکا کو اس کی اجازت نہیں دیں گے۔

شمالی کوریا اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار

شمالی کوریانے 2009 میں اس بات کا باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ اس نے ایٹم بم تیار کرلیا ہے۔اس کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس سادہ نوعیت کے ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ امریکا سی آئی اے کا شبہ ہے کہ شمالی کوریا کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کا قابل ذکر ذخیرہ بھی موجود ہے۔ شمالی کوریا نے 2003ء تک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے معاہدے این این پی ٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم اس کے بعد اس نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ شمالی کوریا نے اس کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ امریکا اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا تھا جس کے تحت اس نے اس متفقہ فریم ورک کوختم کرنا تھا جس کے تحت شمالی کوریا کے ایٹمی عزائم کو محدود کرنا، تعلقات کو نارمل بنانا اور ایٹمی ری ایکٹرز کے ذریعے شمالی کوریا کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دینا شامل تھا۔

جہاں تک کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے شمالی کوریا کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔1987 ء میں شمالی کوریا نے حیاتیاتی ہتھیاروں کے حوالے سے ایک عالمی معاہدے پر دستخط کیے اور پھر 1989ء میں جنیوا پروٹوکول کو اختیار کیا تاہم تاحال اس نے کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے پردستخط نہیں کیے۔شمالی کوریا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس خاصی مقدار میں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ٹابون اور مسٹرڈ گیس تیار کرنے کے لیے ٹیکنالوجی تو شمالی کوریا نے 50ء کی دہائی میں ہی حاصل کرلی تھی۔

1945میںدوسری عالمی جنگ کے دوران شمالی کوریا نے سوویت یونین اور چین سے ٹیکنالوجی ، کیمیائی ایجنٹ اور تحفظ کے طریقوں کو سیکھ لیا تھا۔ شمالی کوریا کے پاس کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے خام ذرائع پہلے ہی موجود ہیںاور 1959 کے بعد کے برسوں میں شمالی کوریا میں کیمیائی صنعت بھرپور طریقے سے کام کرنے لگی تھی۔ 1989 کے بعد سے شمالی کوریا مقامی طور پر مختلف کیمیائی ہتھیار جیسے اعصابی ، بلسٹر ، دم گھوٹنے والی اور بلڈ کیمیکل ایجنٹس بڑے پیمانے پر تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔مزید یہ کہ شمالی کوریا نے بڑے پیمانے پر کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے خلاف دفاع کی صلاحیت بھی حاصل کررکھی ہے جس میں گیس ماسک، سوٹ اور ڈیٹیکٹر کے استعمال کی بڑے پیمانے پر تربیت وغیرہ شامل ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس کم ازکم آٹھ ایسے صنعتی ادارے ہیں جہاں کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیار تیار کیے جاسکتے ہیں۔

ایٹمی جنگوں کے خدشات
شمالی کوریا اور ایران کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے بارے میں بھی دنیاکو یقین ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر ایٹمی ہتھیاروں کا زخیرہ رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ ان ہتھیاروں کی ڈیلیوری کے لیے وہ مطلوبہ روایتی و میزائل ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہیں۔دونوں میں کشیدگی ہمیشہ موجود رہتی ہے جس میں کبھی تیزی اور کبھی سستی آجاتی ہے۔دونوں ملکوں میں موجود کشمیر کا دیرینہ مسئلہ اس کشیدگی کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔دونوں ملکوں کی طرف سے مستقبل میں کسی جنگ یا دفاعی جنگ کے لیے ایٹمی دھماکے اور میزائل تجربات تواتر سے کیے جاتے ہیں۔عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان کوئی جنگ (روایتی) ہوتی ہے تو اس کے ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کا خدشہ بھی بھرپور طریقے سے موجود ہے۔بین الاقوامی محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان کے پاس 100 سے 110 ایٹمی وارہیڈز موجود ہیں جبکہ بھارت کے پاس 80-100 کے درمیان ایٹمی وارہیڈز ہیں۔

کورین خطے اور پاکستان اور بھارت کے علاوہ جس خطے میں ایٹمی جنگ کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے اس میں مشرق وسطیٰ بھی شامل ہے جہاں اسرائیل کے پاس بڑے پیمانے پر ایٹمی اور دیگر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں اور اسے امریکا کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل چاروں طرف سے عرب ممالک میں گھرا ہوا ہے جن کے اسرائیل کے ساتھ سیاسی و تاریخی تنازعات موجود ہیں۔اسرائیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایٹمی ہتھیاروں کو ڈیٹرنس کے طورپر رکھا ہوا ہے تاہم یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ عرب ممالک کی جانب سے کسی قسم کے فوجی تصادم کی صورت میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال بعید از قیاس نہیں۔

مبصرین اور فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا تمام ممالک کے درمیان سیاسی و تاریخی کشیدگی اور ان کے پاس موجود ایٹمی اور کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے مستقبل بعید یا قریب میں دنیا کی سلامتی کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔اس حوالے سے کسی بھی قسم کے سنگین نتائج کو بعید از قیاس نہیں سمجھا جاسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں