گوادر کا آتش فشاں
گوادر بندر گاہ آبنائے ہر مز سے صرف چارسو سمندری کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
آج گوادر مرکز نگاہ ہے۔ دورافتادہ اور پس ماندہ مچھیروں کی بستی، دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔گوادر کی بندر گاہ امریکیوں کے گلے میں چھچھوندر بن کر اٹک گئی ہے،جسے اگلا جاسکتا ہے نہ نگلا ۔افغانستان سے واپسی کے تمام محفوظ راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔جزائرہ ملاکا کی کھاڑیوں اور تنگنائیوں سے خلیج فارس تک تیل اور گیس کی ترسیل کے سب سے بڑے بحری راستے پر اجارہ داری کا یہ کھیل پیچیدہ مرحلے میں داخل ہوگیاہے۔18 فروری کو گوادرکی بندرگاہ کو چین کے حوالے کردیا گیا۔ 17فروری کو گوادر بندر گاہ سے صرف30کلومیٹر کے فاصلے پر ایران نے پسا بندر نامی ساحلی قصبے میں اپنا نیا بحری اڈا بنانے کا اعلان کیا ۔جس کے بعد گوادر کا یہ علاقہ عالمی نقشے پر سرخ دائروں کے ساتھ نمودار ہوا ،جسے امریکیوں نے اس علاقے کا سب سے بڑا "HOT SPOT"قرار دیاہے۔ امریکیوں کو یقین ہوچلا ہے کہ گوادر کی بندر گاہ اور پسا بندر کا ایران بحری اڈہ پاکستان ،چین اور ایران کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ان تینوں ممالک کے فوجی ،اقتصادی اور معاشی مفادات باہم آہنگ ہوچکے ہیں۔
گوادر بندر گاہ آبنائے ہر مز سے صرف چارسو سمندری کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آبنائے ہر مز کو دفاعی حکمت کارخلیج فارس کی شہ رگ قرار دیتے ہیں۔یہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے تیل کی چین کو ترسیل کا اہم ترین بحری راستہ ہے۔جب کہ خلیج فارس سے بحیرہ عرب کے درمیان تجارتی اور جنگی جہازوں کی نقل وحمل کا واحد قدیم ترین ذریعہ رہا ہے۔گوادر میں چین کی فوجی موجودگی کے بعد یہ سارا سمندر اس کی کڑی نگرانی میں آجائے گا۔ادھر خلیج عمان کے ساحل پر پسا بندر کا ایرانی بحری اڈہ اس خطے میں ایران کی بحری قوت میں بے پناہ اضافہ کرے گا۔کسی بھی ممکنہ محازآرائی کی صورت میں اس راستے سے عالمی منڈیوں کو تیل کی ترسیل بند کی جاسکے گی۔پسابندر اور گوادر کے درمیان صرف30 کلومیٹرکا فاصلہ ہے ۔جو چین اور ایران کے درمیان باہمی تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔عین اس وقت پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہوچکے ہیں۔جب کہ چین اور ایران سے گرم جوشی بڑھتی جارہی ہے۔برصغیر کے سمندروں میں نئے علاقائی اتحاد کے امکانات واضح ہورہے ہیں۔جس کی نمو سے یک طاقتی دنیا کا محور تیزی سے بدل رہا ہے۔
چین کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کی برکات سے ایشیاء تا افریقہ غربت کے اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔چوٹی کے ایک ماہر اقتصادیات نے کئی دہائی قبل یہ کہا تھاکہ چین فوجی طاقت کے بل بوتے پر نہیں اپنے سیاحوں اور تاجروں کے ذریعے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردے گا،اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چین کی سرخ فوج کے بجائے اس کے سیاحوں اور تاجروں نے ہانگ کانگ کو فتح کرلیا۔ تاریخ عالم میں چینیوں نے ایک ملک دو نظام کا کامیاب تجربہ کرکے دیکھایا۔امریکی اوریورپی دانش گاہوں اور دانش وروں کے تمام خدشات اور تجزیات کو ان کے منہ پر دے مارا۔جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ کمیونسٹ سرخ چین ہانگ کانگ میں سرمایہ دارانہ نظام کی جنت کو تلپٹ کرکے رکھ دے گا۔اب تو مدتیں بیت چکیں، لیکن ایک ملک میں دونظاموں کی فلاسفی اور جدید چین کے معمار" ڈنگ زیاواؤپنگـ"کی دانش پر کامیابی سے عمل جاری ہے۔اب تا ئیوان کے سرمایہ دار تما م تر امریکی سازشوں کے باوجوداپنی اصل" مین لینڈچائنہ" کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
دہرے نظام کے اس تجربے نے عالمی سطح پر چین کے وقار میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔جس کا سب سے بڑا ثبوت باہم تصادم اور متحارب پاکستان ،بھارت اور ایران ہیں ۔تمام تر علاقائی تنازعات کے باوجود مختلف شعبوں میں چین سے باہم مل کر کام کررہے ہیں۔امریکی انخلاء کے بعد عملاً افغانستان بھی چین کی جھولی میں جاگرے گا۔اب تو پہلی بار پاکستان کی اشرافیہ نے تذبذب اور گومگو سے نکل کر کھل کر امریکا کے مقابلے میں چین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔گوادر چین کے حوالے کردیا گیا،جس سے واضح ہوگیاکہ اب اس خطے میں پاکستان نے چین اور ایران کے ساتھ مل کر مفادات کا نیا کھیل شروع کردیا ہے ۔
بھارت توانائی کی ضروریات کے لئیے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں پر انحصار کرنے پر مجبور اور تذبذب کاشکار ہے۔ جب کہ امریکی بحر ہند میں دہراکھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ بھارت کے ذریعے چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں،لیکن بھارت کے جمہوری نظام اور غریب عوام کو اپنے مفادات کے لئیے سب سے بڑاخطرہ سمجھتے ہیں۔لیکن صنعتی ترقی کی وجہ سے ابھرنے والے بھارتی طبقہ امراء اور اشرافیہ کے ذریعے وہ چین کے علاقائی کردار کو چیلنج بھی کرنا چاہتے ہیں۔یہ ایسا پیچیدہ دہراکھیل ہے جس میں وہ بھارت اور چین کو اپنی حکمت عملی کے ذریعے کمزورکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا سوال ہے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی تما م تر مخالفت کے باوجود چین پاکستان کو چھ نئے ایٹمی گھروں میں کام آنے والے یونٹ فراہم کرے گا۔چشمہ کے ایٹمی بجلی گھرمیں دو نئے یونٹوں کی تنصیب پر سول سپلائرز ایٹمی گروپ شدید احتجاج کرچکا ہے ان کا خیال ہے کہ پاکستان کا چشمہ ایٹمی بجلی گھر فوجی مقاصد کے لئیے بروئے کا ر ایٹمی پروگرام سے براہ راست منسلک ہے۔افغانستان سے پسپائی کے بعد گوادر میں چینیوں کی آمد امریکی سفارتکاری اور حکمت عملی کی دہری شکست ہے۔پاکستان کی سول اور فوجی اشرافیہ نے امریکا کی تمام تر چالاکیوں اور چال بازیوں کے باوجوداس کو "Good Bye" کہہ دیا ہے،جس کے بعد بلوچستا ن میں بغاوت کی بھڑکتی ہوئی آگ کو جوالا مکھی بنایا جارہا ہے۔کوئٹہ میں شیریں مقال ہزارہ فارسی بانوں اور پنجابی آباد کاروں کا قتل عام ،کراچی میں دن دیہاڑے کیمرے کی آنکھ سے سامنے ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تما م ڈانڈے گوادر بندر گاہ اور خلیج فارس میں پاک چین اور ایران کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔پاک ایران پائپ لائن امریکیوں کو زہریلے ناگ کی طرح ڈس رہی ہے۔ خلیج فارس میں چینی بحریہ کی موجودگی امریکیوں کے لئیے ایک ڈراؤنا خواب ہے ،گزشتہ ہفتے ایک مغربی سفارتکار نے غیررسمی گفتگو کے دوران بتایا کہ پاکستانی سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرجائیں یا سی این جی کے لیے دن رات قطاروں میں کھڑے رہیں مہذب دنیاکو اس کی کوئی پروا نہیں۔امریکی کسی طور پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔یہ منصوبہ اس علاقے میں امریکی مفادات کے لیے زہر قاتل ہوگا۔
وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام اور انتظامی خلاء امریکیوں کی ناگزیر ضرورت ہے،اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستانی قوم کے اجتماعی شعور نے درآمدی مداری کی شعبدہ بازیوں کو یک سر مسترد کردیا ،لیکن یاد رکھئے کہ ہمارے دشمن انتخابات اور انتقال اقتدار کی منزل کے درمیان ہمیں جوئے خون کو عبور کرنے پر مجبور کردیں گے۔کراچی اور کوئٹہ میں اس مکرو خونی کھیل کا آغاز ہوچکا ہے ۔ہمیں بڑے صبر وتحمل سے پھونک پھونک کر آگے بڑھنا ہوگا۔دشمن پینترے بدل بدل کر مختلف بہروپوں میں حملہ آورہوگا،کہ ہماری منزل کھوٹی کرنا اس کے لیے زندگی اور موت کا کھیل بن چکا ہے۔بعض سیانے کہتے ہیں کہ نگران انتظامیہ کے بروئے کار آنے کے بعد سازشی مہرے نئے سرے سے اپنا کھیل شروع کردیں گے۔اگرچہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے برملا یہ کہہ کر حوصلہ دیا ہے کہ فوج منصفانہ ،غیر جانبدارانہ اور بروقت انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے،اس مرحلے پر اللہ رب ذوالجلال کے حضور یہی فریادہے کہ ہم تیری ہی مدد چاہتے ہیںاور تجھ ہی سے نصرت کے طلب گار ہیں،ہماری مدد فرما۔۔۔
گوادر بندر گاہ آبنائے ہر مز سے صرف چارسو سمندری کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ آبنائے ہر مز کو دفاعی حکمت کارخلیج فارس کی شہ رگ قرار دیتے ہیں۔یہ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے تیل کی چین کو ترسیل کا اہم ترین بحری راستہ ہے۔جب کہ خلیج فارس سے بحیرہ عرب کے درمیان تجارتی اور جنگی جہازوں کی نقل وحمل کا واحد قدیم ترین ذریعہ رہا ہے۔گوادر میں چین کی فوجی موجودگی کے بعد یہ سارا سمندر اس کی کڑی نگرانی میں آجائے گا۔ادھر خلیج عمان کے ساحل پر پسا بندر کا ایرانی بحری اڈہ اس خطے میں ایران کی بحری قوت میں بے پناہ اضافہ کرے گا۔کسی بھی ممکنہ محازآرائی کی صورت میں اس راستے سے عالمی منڈیوں کو تیل کی ترسیل بند کی جاسکے گی۔پسابندر اور گوادر کے درمیان صرف30 کلومیٹرکا فاصلہ ہے ۔جو چین اور ایران کے درمیان باہمی تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔عین اس وقت پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہوچکے ہیں۔جب کہ چین اور ایران سے گرم جوشی بڑھتی جارہی ہے۔برصغیر کے سمندروں میں نئے علاقائی اتحاد کے امکانات واضح ہورہے ہیں۔جس کی نمو سے یک طاقتی دنیا کا محور تیزی سے بدل رہا ہے۔
چین کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت کی برکات سے ایشیاء تا افریقہ غربت کے اندھیرے چھٹ رہے ہیں۔چوٹی کے ایک ماہر اقتصادیات نے کئی دہائی قبل یہ کہا تھاکہ چین فوجی طاقت کے بل بوتے پر نہیں اپنے سیاحوں اور تاجروں کے ذریعے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردے گا،اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چین کی سرخ فوج کے بجائے اس کے سیاحوں اور تاجروں نے ہانگ کانگ کو فتح کرلیا۔ تاریخ عالم میں چینیوں نے ایک ملک دو نظام کا کامیاب تجربہ کرکے دیکھایا۔امریکی اوریورپی دانش گاہوں اور دانش وروں کے تمام خدشات اور تجزیات کو ان کے منہ پر دے مارا۔جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ کمیونسٹ سرخ چین ہانگ کانگ میں سرمایہ دارانہ نظام کی جنت کو تلپٹ کرکے رکھ دے گا۔اب تو مدتیں بیت چکیں، لیکن ایک ملک میں دونظاموں کی فلاسفی اور جدید چین کے معمار" ڈنگ زیاواؤپنگـ"کی دانش پر کامیابی سے عمل جاری ہے۔اب تا ئیوان کے سرمایہ دار تما م تر امریکی سازشوں کے باوجوداپنی اصل" مین لینڈچائنہ" کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
دہرے نظام کے اس تجربے نے عالمی سطح پر چین کے وقار میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔جس کا سب سے بڑا ثبوت باہم تصادم اور متحارب پاکستان ،بھارت اور ایران ہیں ۔تمام تر علاقائی تنازعات کے باوجود مختلف شعبوں میں چین سے باہم مل کر کام کررہے ہیں۔امریکی انخلاء کے بعد عملاً افغانستان بھی چین کی جھولی میں جاگرے گا۔اب تو پہلی بار پاکستان کی اشرافیہ نے تذبذب اور گومگو سے نکل کر کھل کر امریکا کے مقابلے میں چین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔گوادر چین کے حوالے کردیا گیا،جس سے واضح ہوگیاکہ اب اس خطے میں پاکستان نے چین اور ایران کے ساتھ مل کر مفادات کا نیا کھیل شروع کردیا ہے ۔
بھارت توانائی کی ضروریات کے لئیے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں پر انحصار کرنے پر مجبور اور تذبذب کاشکار ہے۔ جب کہ امریکی بحر ہند میں دہراکھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ بھارت کے ذریعے چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں،لیکن بھارت کے جمہوری نظام اور غریب عوام کو اپنے مفادات کے لئیے سب سے بڑاخطرہ سمجھتے ہیں۔لیکن صنعتی ترقی کی وجہ سے ابھرنے والے بھارتی طبقہ امراء اور اشرافیہ کے ذریعے وہ چین کے علاقائی کردار کو چیلنج بھی کرنا چاہتے ہیں۔یہ ایسا پیچیدہ دہراکھیل ہے جس میں وہ بھارت اور چین کو اپنی حکمت عملی کے ذریعے کمزورکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا سوال ہے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی تما م تر مخالفت کے باوجود چین پاکستان کو چھ نئے ایٹمی گھروں میں کام آنے والے یونٹ فراہم کرے گا۔چشمہ کے ایٹمی بجلی گھرمیں دو نئے یونٹوں کی تنصیب پر سول سپلائرز ایٹمی گروپ شدید احتجاج کرچکا ہے ان کا خیال ہے کہ پاکستان کا چشمہ ایٹمی بجلی گھر فوجی مقاصد کے لئیے بروئے کا ر ایٹمی پروگرام سے براہ راست منسلک ہے۔افغانستان سے پسپائی کے بعد گوادر میں چینیوں کی آمد امریکی سفارتکاری اور حکمت عملی کی دہری شکست ہے۔پاکستان کی سول اور فوجی اشرافیہ نے امریکا کی تمام تر چالاکیوں اور چال بازیوں کے باوجوداس کو "Good Bye" کہہ دیا ہے،جس کے بعد بلوچستا ن میں بغاوت کی بھڑکتی ہوئی آگ کو جوالا مکھی بنایا جارہا ہے۔کوئٹہ میں شیریں مقال ہزارہ فارسی بانوں اور پنجابی آباد کاروں کا قتل عام ،کراچی میں دن دیہاڑے کیمرے کی آنکھ سے سامنے ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تما م ڈانڈے گوادر بندر گاہ اور خلیج فارس میں پاک چین اور ایران کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔پاک ایران پائپ لائن امریکیوں کو زہریلے ناگ کی طرح ڈس رہی ہے۔ خلیج فارس میں چینی بحریہ کی موجودگی امریکیوں کے لئیے ایک ڈراؤنا خواب ہے ،گزشتہ ہفتے ایک مغربی سفارتکار نے غیررسمی گفتگو کے دوران بتایا کہ پاکستانی سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرجائیں یا سی این جی کے لیے دن رات قطاروں میں کھڑے رہیں مہذب دنیاکو اس کی کوئی پروا نہیں۔امریکی کسی طور پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے۔یہ منصوبہ اس علاقے میں امریکی مفادات کے لیے زہر قاتل ہوگا۔
وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام اور انتظامی خلاء امریکیوں کی ناگزیر ضرورت ہے،اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستانی قوم کے اجتماعی شعور نے درآمدی مداری کی شعبدہ بازیوں کو یک سر مسترد کردیا ،لیکن یاد رکھئے کہ ہمارے دشمن انتخابات اور انتقال اقتدار کی منزل کے درمیان ہمیں جوئے خون کو عبور کرنے پر مجبور کردیں گے۔کراچی اور کوئٹہ میں اس مکرو خونی کھیل کا آغاز ہوچکا ہے ۔ہمیں بڑے صبر وتحمل سے پھونک پھونک کر آگے بڑھنا ہوگا۔دشمن پینترے بدل بدل کر مختلف بہروپوں میں حملہ آورہوگا،کہ ہماری منزل کھوٹی کرنا اس کے لیے زندگی اور موت کا کھیل بن چکا ہے۔بعض سیانے کہتے ہیں کہ نگران انتظامیہ کے بروئے کار آنے کے بعد سازشی مہرے نئے سرے سے اپنا کھیل شروع کردیں گے۔اگرچہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے برملا یہ کہہ کر حوصلہ دیا ہے کہ فوج منصفانہ ،غیر جانبدارانہ اور بروقت انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے،اس مرحلے پر اللہ رب ذوالجلال کے حضور یہی فریادہے کہ ہم تیری ہی مدد چاہتے ہیںاور تجھ ہی سے نصرت کے طلب گار ہیں،ہماری مدد فرما۔۔۔