کیا یہ خوفزدہ حکمران امن قائم کریں گے

یہی جنرل بابر جب بے نظیر کے وزیر داخلہ تھے تو انھوں نے اس شہر بے امن میں امن قائم کر دیا

Abdulqhasan@hotmail.com

پاکستانیوں کے ذہن میں جو سب سے بڑا سوال کلبلا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ ملک میں امن کیسے قائم ہو۔ کراچی جیسے بے امن اور بے قرار شہر میں ایک بار جب امن قائم ہو گیا تو پاکستانی حیران رہ گئے، ان کی حیرت کے واقعہ کا ایک ذکر ہمارے ایک دوست کالم نگار ارشاد نے کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ چند برس پہلے میں نے پشاور میں جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر سے ملاقات کی کوشش کی اور محلے میں جا کر ان کے گھر کا پتہ جب ایک دکاندار سے پوچھا تو اس نے کہا کہ سڑک کے دائیں طرف چلتے جائیں جس گھر کا بڑا دروازہ کھلا ہوا ہو اور باہر کوئی چوکیدار نہ ہو وہ جنرل بابر کا گھر ہو گا۔

ان دنوں پشاور کے حالات اچھے نہیں تھے۔ جنرل بابر سے ملاقات ہوئی اور میں نے کہا کہ شہر کی بدامنی کی وجہ سے آپ کے پڑوسیوں نے جو گھروں کی دیواریں اونچی کر لی ہیں اور پہرہ داروں میں اضافہ بھی کر لیا ہے مگر آپ نے تو ایسی کوئی کوشش نہیں کی انھوں نے جواب میں کہا کہ جس شہر اور ملک کی اشرافیہ قلعہ بند ہو جائے تو وہاں شر پسندوں کو چھوٹ مل جاتی ہے اور ان کا راج قائم ہو جاتا ہے مگر میں اپنے لوگوں کے ساتھ زندہ مرنا چاہتا ہوں، میں غنڈوں اور حالات سے ڈر کر گھر کے دروازے بند نہیں کر سکتا۔

یہی جنرل بابر جب بے نظیر کے وزیر داخلہ تھے تو انھوں نے اس شہر بے امن میں امن قائم کر دیا، وہ جب کراچی پہنچے تو سیکیورٹی والوں کو پہرے ہٹا کر گاڑی خود چلا کر گورنر ہائوس گئے جس سے سب کو پتہ چل گیا کہ اب کون آدمی قیام امن کے لیے آیا ہے۔ دہشت گردوں کے لیے ان کی شکست کا یہ پہلا پیغام تھا۔ پولیس والے شہر میں یونیفارم میں باہر نہیں نکلتے تھے۔ انھوں نے اپنے حلیے بدل لیے تھے۔ لمبے بال اور لباس شلوار کرتا۔ مجھے بے نظیر نے امن کے لیے بھیجا تھا۔ آئی جی پولیس ڈاکٹر شعیب سڈل نے بھی ہمت دکھائی، مجھے وزیراعظم اور جنرل کاکڑ کا تعاون بھی حاصل تھا۔ یوں کراچی شہر کی زندگی ہی بدل گئی، بازاروں کی رونقیں لوٹ آئیں۔ شہر زندہ ہو گیا۔ اس تحریر کا حوالہ دینا ضروری تھا تا کہ ہمارے قارئین بھی اس سے آگاہ ہو جائیں۔

جنرل بابر نے یہ کہہ کر جب اشرافیہ قلعہ بند ہو جائے تو شر پسند آزاد ہو جاتے ہیں سارا مسئلہ ہی حل کر دیا ہے، آج اشرافیہ مکمل طور پر قلعہ بند ہے یا ان کی حفاظت میں اور دہشت گرد مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ملک میں لاشیں ہی لاشیں ہیں، قومی زندگی بار بار معطل ہو جاتی ہے۔ ہمارے حکمران تو تعمیری منصوبوں کا افتتاح بھی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کرتے ہیں جو ایک لطیفہ اور المیہ بھی ہے جس ملک کے حکمرانوں کی یہ حالت ہو اور وہ اس قدر خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہوں تو پھر ایسے ملک میں امن کہاں۔ ہم مسلمانوں کی ایک تاریخی روایت ہے کہ ذمے دار اور فرض شناس حکمرانوں نے دن رات اپنے آپ کو عوام کے ساتھ رکھا اور ان کی قربت میں زندگی بسر کی۔


ایک مجلس میں حضرت علیؓ بھی فرش پر دوسروں کے ساتھ بیٹھے تھے ،کسی نووارد نے یہ دیکھ کر عرض کیا کہ آپ ذرا اونچی جگہ پر بیٹھ جائیں۔ اس پر فقیر امیر المومنین نے جواب دیا جو فرش پر بیٹھتے ہیں، وہ گرتے نہیں ہیں۔ ہم نے عوام کے ساتھ اسی قربت اور اپنی حفاظت سے بے نیاز ہو کر اسی اسلامی روایت کے تحت اپنی تاریخ کی تین بہت ہی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ تین حکمران عمر، عثمان اور علیؓ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے مگر ہمارے ان رہنمائوں نے جان دے دی عوام سے دوری پر سمجھوتہ نہیں کیا جب کہ ہمارے آج کے حکمران ان دہشت گردوں سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا، وہ کہاں چھپ کر اور کن حفاظتوں میں محفوظ رہ کر زندگی بسر کریں۔ یہانتک کہ میں نے تو اپنے دوست بعض اخبار نویسوں کے ساتھ بھی محافظ دیکھے ہیں اور دیکھ رہا ہوں، آپ اسے ایک لطیفہ ہی سمجھیے۔

ان میں بعض مشہور صلح کن اور پر امن صحافی بھی ہیں جو شاید اپنی ٹوھر بنانے کے لیے یہ محافظ پالتے ہیں بلکہ زیادہ تر تو پولیس سے محافظ لے کر رکھتے ہیں کہ خرچے سے بس بچ جائیں۔ میرے پاس بھی ایک کلاشنکوف ہے مگر کسی چلانے والے کے بغیر۔ میں نے ابھی ابھی ایک ملازم سے کہا ہے کہ شاید فلاں جگہ یہ رکھی تھی، ذرا دیکھو کہ وہاں ہے یا ادھر ادھر تو نہیں ہو گئی لیکن وہ موجود ہے اور میری جان کو روتی ہے جس نے اسے خاموش اور قید کر رکھا ہے، بات اونچی ہو رہی تھی کہ میں نے اسے اپنی ذات تک گرا کر چھوٹا کر دیا۔ عرض یہ تھی کہ جب کسی کو روکنے والے خود دہشت زدہ ہو کر چھپے بیٹھے ہوں تو ایسے حکمرانوں سے کون ڈرتا ہے، ویسے بھی ان مال و منال کھنے والوں کو باہر کے علاوہ اپنے اندر کا خوف بھی ہمیشہ لاحق رہتا ہے، گڑ بڑ یہ ہے کہ ان کی امارت میں ناجائز مال زیادہ ہوتا ہے اور جس کا وہ حق مارتے ہیں وہ اسے بھولتا نہیں ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن باری باری دُھلنے والے دو جوڑوں میں رہتے ہیں اور کسی محافظ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں مگر پھر بھی زندہ سلامت ہیں۔ میں اس ضمن میں ان کے ایک پیشرو میاں طفیل محمد کو یاد کرتا ہوں اور مولانا تو کسی حفاظت کو اپنی توہین سمجھتے تھے۔ حیرت ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان یعنی قرآن و حدیث کے ماننے والے سمجھتے ہیں لیکن وہ زندگی اور موت جس کے بارے میں خدا نے خود اعلان کر دیا ہے کہ وہ صرف اس کے ہاتھ میں ہے مگر ہم اس بات سے عملاً انکار کرتے ہیں اور میرا یقین یہ ہے کہ اس وقت ہم مسلمان ہر گز نہیں ہوتے کیونکہ ہم اللہ کے ایک واضح فیصلے سے انکار کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران جن کے پاس ریاست کی طاقت ہے مگر پھر بھی وہ اپنے لوگوں سے ڈرتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ ملک میں امن قائم کر سکیں اور اپنے لوگوں کی حفاظت کا سامان کر سکیں۔

جان و مال کی حفاظت ہی تو کسی حکومت کا اولین فرض ہے ورنہ ایسی حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہم جب تک قانون کو آزاد اور بے خوف نہیں کریں گے قانون نافذ کرنے والے جب تک خود بے خوف نہیں ہوں گے تب تک کہاں امن اور کہاں کسی کی حفاظت۔ آپ کے سامنے ہیں وہ تمام لوگ جو ہماری حفاظت کے ذمے دار ہیں کیا یہ لوگ آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ہم تو میتوں کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے۔ میرا خیال ہے میں اپنی کلاشنکوف کو جو مجھے ایک شیعہ سیکریٹری داخلہ مرحوم ایس کے محمود نے دی تھی اسے باہر نکالوں اس کا زنگ اتاروں اور اسے گھر میں کسی ایسی جگہ رکھ دوں جو کسی دہشت گرد کو دکھائی دے مگر کوئی دہشت گرد پاگل ہے جو میرے گھر آ کر شر مندہ ہو گا۔ وہ قریب ہی کسی بڑے گھر میں کیوں نہ جائے گا۔ جہاں سے خالی ہاتھ نہ لوٹے گا جہاں حکومت کا کوئی حصہ دار رہتا ہو اور ناجائز مال کا مالک ہو۔ ان دنوں ایک بہت ہی مالدار اخباروں کے اشتہاروں میں بے نقاب ہو رہا ہے۔ مقام عبرت ہے مگر عبرت پکڑے گا کون؟
Load Next Story