ہماری شناخت

ہماری قومی زندگی کا دوسرا المیہ ہماری فقہی اور فرقہ وارانہ تقسیم ہے

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ہندوستان میں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں اور بہت ساری قومیتیں پائی جاتی ہیں،لیکن آپ ہندوستان کے کسی علاقے میں جائیں ہر جگہ رہنے والے اپنی شناخت ''ہندوستانی'' کی حیثیت ہی سے کراتے نظر آئیں گے حتیٰ کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان بھی اپنی شناخت ہندوستانی کی حیثیت ہی سے کرواتے ہیں ۔ جب کسی ملک میں رہنے والے ایک قوم بن جاتے ہیں تو ان میں نہ صرف قومی یکجہتی پیدا ہوجاتی ہے بلکہ اس قومی یکجہتی کی وجہ سے قومی مسائل پر اتفاق رائے بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے، لیکن مجھے اس مسئلے کے حوالے سے ہندوستانی عوام میں پائے جانے والے اتفاق رائے پر ہمیشہ حیرت سے دوچار ہونا پڑا۔ ہندوستان سے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ وفود کی شکل میں پاکستان آتے رہتے ہیں ان وفود میں مسلمان بھی ہوتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ان وفود میں شامل افراد سے جن میں مسلمان بھی شامل رہے ہیں، رائے معلوم کی جائے تو ان میں ہمیشہ حیرت انگیز اتفاق رائے دیکھنے میں آیا، اور جب بھی میں نے ان حضرات سے کشمیر میں رائے شماری کی بات کی ان کا جواب یہی رہا کہ ''پہلے آپ بلوچستان میں رائے شماری کروائیں۔''

پاکستان میں اب کسی پاکستانی باشندے سے اس کی شناخت کے حوالے سے سوال کریں تو ہر بندہ اپنی شناخت پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ، مہاجر یا سرائیکی کی حیثیت ہی سے کراتا نظر آتا ہے، پاکستانی کی حیثیت سے اپنی شناخت اس کے ذہن میں نہیں آتی۔ ہوسکتا ہے بادی النظر میں یہ نفسیات اتنی اہم نہ ہو، لیکن ہم آج جس بدترین صوبائی، لسانی اور نسلی تقسیم سے دوچار ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے اپنے سیاسی مفادات کے تحت نہ صرف عوام کو صوبوں، نسل اور زبان میں تقسیم کر رکھا ہے بلکہ اس تقسیم کو ہمیشہ گہرا کرنے کی کوشش کی۔ اس سیاست کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم 65 سال گزرنے کے باوجود ایک قوم نہ بن سکے۔ آج اس سیاست کا نتیجہ یہ ہے کہ پنجاب میں دبی دبی ہی سہی گریٹر پنجاب کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پختون سیاست کی جاتی ہے، بلوچستان میں آزادی کی جنگ لڑی جارہی ہے اور سندھ میں سندھو دیش، مہاجرصوبے کی کھچڑی پکتی نظر آتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تقسیم کو پاکستانی قومیت میں بدلنے کی کوئی دانشورانہ اور منظم کوشش کرنے کے بجائے انتقالی اور انتقامی ذریعوں سے اس تقسیم کو ختم کرنے کی احمقانہ کوششیں کی جاتی رہیں۔

ہماری قومی زندگی کا دوسرا المیہ ہماری فقہی اور فرقہ وارانہ تقسیم ہے، پورا پاکستانی معاشرہ فقہی اور فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہے اور یہ تقسیم اب فرقہ وارانہ انتہاپسندی کے اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں شیعہ ہونا، سنی ہونا، دیوبندی یا بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنا واجب القتل جرم بن گیا ہے۔ آج خیبر سے کوئٹہ تک اور کوئٹہ سے کراچی تک خون کے جو دریا بہتے نظر آرہے ہیں وہ اسی فرقہ وارانہ تقسیم کا نتیجہ ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ''مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا'' کے حسین خواب کی بھیانک تعبیر خیبر پختونخوا سے کراچی تک اس طرح پھیلی ہوئی ہے کہ کوئی شہری نہ گھر کے اندر محفوظ ہے نہ گھر کے باہر۔ کراچی کی ہر بستی فرقہ وارانہ اور لسانی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے، کوئٹہ کی علمدار اور کیرانی روڈ پر سیکڑوں جنازے لیے بیٹھنے والوں کی شناخت ہزارہ اور شیعہ برادری سے کی جارہی ہے اور انسانوں کو لاشوں میں بدلنے والوں کی شناخت لشکر جھنگوی وغیرہ سے کی جارہی ہے۔ اس سونے پر سہاگہ یہ کہ شیعہ برادری خود کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہے اور اہل سنت کی تقسیم درجنوں دھڑوں میں ہوگئی ہے۔ جس طرح شیعہ ہونا یا سنی ہونا جرم بن گیا ہے، اسی طرح پنجابی ہونا، مہاجر ہونا بعض علاقوں میں ایسا جرم بن گیا ہے جس کی سزا گولی ہے۔

پاکستان میں آج دہشت گردی کے جو خونیں بگولے اٹھ رہے ہیں اس کی اصل وجہ ہماری یہی تقسیم نظر آتی ہے۔ کوئٹہ میں کیرانی روڈ پر رکھے 115 کے لگ بھگ جنازے اور اس سال کے آغاز میں علمدار روڈ پر رکھے 86 جنازے اسی تقسیم کا نتیجہ ہیں۔ ہزارہ برادری اور کراچی کے شہری چیخ رہے ہیں کہ ان شہروں کو فوج کے حوالے کردو۔ کیرانی روڈ کے مکین کہہ رہے ہیں کہ ہم حکومت کی کسی یقین دہانی کو تسلیم نہیں کرتے، ہمارا مطالبہ ہے کہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کردو! دودھ کے جلے سیاستدان اپنے آپس کے شدید اختلافات کے باوجود فوج کے نام سے اسی طرح بدکتے ہیں جیسے اسرائیلی حماس کے نام سے بدکتے ہیں۔ ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ کراچی اور کوئٹہ کے قتل عام کو روکنے کی کیا نئی تدبیریں اختیار کی جائیں گی، لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ جو بھی اقدامات کیے جائیں گے وہ محض انتقامی اقدامات ہوں گے جن میں فوج کا استعمال بھی ہوسکتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں کوئی ایسے دانشورانہ حلقے موجود نہیں جو پاکستانیوں کی اس تقسیم اور تقسیم کے خون خرابے کا نظریاتی حل تلاش کرے، جو مستقل اور دیرپا ہو۔


ہماری سیاست قومیتوں زبان اور نسل میں بٹی ہوئی ہے اور ہر علاقہ علاقائی سیاست کا شکار ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں محدود ہے، اے این پی خیبر پختونخوا میں پشتو بولنے والوں علاقوں میں محصور ہے، بلوچ قوم پرستوں کی سیاست حب پر آکر رک جاتی ہے، سندھ کی سیاست سندھی شہروں، سندھی دیہاتوں میں بٹی ہوئی ہے اور دوسری جماعتیں ادھر ادھر اپنی ضرورتوں کے مطابق منہ مارتی دکھائی دیتی ہیں، رہی مذہبی سیاست تو وہ 65 سال کی مسلسل ناکامیوں کے بعد اب اس امید پر مذہبی انتہا پسندی کا دامن تھامے نظر آتی ہے کہ شاید یہ خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اقتدار تک پہنچ جائیں اور ان کے لیے اقتدار میں حصے داری کی راہ ہموار ہوسکے۔ اس پوری سیاست میں قومی مفادات قوم اور ملک کے بہتر مستقبل کی کوئی کرن نظر نہیں آتی، ہر طرف ایک خطرناک اندھیرا ڈیرہ ڈالے نظر آتا ہے جس میں اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام ٹھوکریں کھاتے دہشت زدہ ہوتے گولیوں ، بموں، خودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔

دنیا کے جمہوری ملکوں میں عوام کی شناخت ایک قوم کی حیثیت سے ہوتی ہے، اس قومی یکجہتی کی وجہ سے جہاں سماجی، سیاسی اور اقتصادی ترقی میں سہولتیں حاصل ہوتی ہیں وہیں معاشرہ قومیتی، نسلی اور فرقہ وارانہ منافرتوں سے محفوظ رہتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اس تقسیم کی وجہ سے جہاں بے شمار ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے وہیں یہ تقسیم ترقی کی راہ میں بھی حائل ہورہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سیاسی اور مذہبی قیادتیں عوام کی اس تقسیم کو اپنے مفادات کے لیے ضروری سمجھتی ہوں، ایسے معاشرے میں عوام کو ایک قوم میں بدلنا اور فرقہ وارانہ تقسیم سے نکالنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے؟ سیاسی اور مذہبی قیادت کے سیاسی مفادات اس تقسیم سے اس لیے وابستہ ہوگئے ہیں کہ یہ قیادت نہ قوم سے مخلص ہے، نہ مذہب سے اور اس سیاست کا المیہ یہ ہے کہ یہ تقسیم عوام میں اس قدر گہری ہوگئی ہے، سادہ لوح اور عقائد کے اسیر عوام اس تقسیم کو اپنی سیاسی اور عقائد کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ خود سیاسی اور مذہبی قیادت اس تقسیم کے نتیجے میں ٹکڑوں اور علاقوں میں بٹ گئی ہے اور قومی سیاست ان کے لیے شجرممنوعہ بن گئی ہے۔ یہ تقسیم اب تشدد کی شکل اختیار کرچکی ہے جس کا نظارہ ہم ہر علاقے میں کرسکتے ہیں۔

اس سیاست، اس تقسیم کے فروغ کی جہاں ایک وجہ سیاسی اور مذہبی قیادت کے مفادات ہیں وہیں اس کی دوسری بڑی وجہ ملک میں طبقاتی سیاست کی ناکامی ہے۔ طبقاتی سیاست کرنے والے لوگ بوجوہ سیاسی منظر سے غائب ہوگئے ہیں۔ اگر کہیں کہیں نظر آتے ہیں تو وہ اس قدر کمزور اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کہ وہ ایک موثر سیاسی طاقت بن کر سیاسی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔ سرمایہ دارانہ استحصالی طبقاتی نظام میں طبقاتی سیاست سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھی جاتی ہے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی طبقاتی سیاست کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت اپنی اصل میں اشرافیائی جمہوریت ہوتی ہے جس میں جمہوریت کے سارے ثمرات اشرافیہ کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اگر طبقاتی سیاست فروغ پاتی ہے تو انسان کی قومیتی، نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ تقسیم خودبخود ختم ہونے لگتی ہے۔

اس اشرافیائی اور مذہبی سیاست میں عوام کو پاکستانی اور مسلمان کی شناخت تک لانا بظاہر مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر عوام کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے والی طاقتیں ایک منظم، مربوط اور منصوبہ بند پروگرام کے ساتھ آگے آئیں اور میڈیا ان کا ساتھ دے تو انسانوں کو اس ہمہ جہت اور متصادم تقسیم سے نکال کر انھیں پاکستانی اور مسلمان بنانے میں کامیاب ہوسکتا ہے جو انسانی شناخت کے معاشرے تشکیل دینے کی طرف ایک پہلا قدم ہوسکتا ہے۔
Load Next Story