محبت کا آئینہ

ہمارے پاس یوم تجدید محبت کو جائز اور حلال قرار دینے کا واحد جواز صرف ’’محبت‘‘ نظر آتا ہے

ہم جیسے اپنی اقدار کے منحرف اور بے بنیاد قسم کے لوگوں میں رجحانات کی پیروی کسی اچھنبے کی بات نہیں اور خصوصاً رجحان اگر عالمی وبا کے زمرے میں آتا ہو تو ہم ہنسی خوشی روم روم اس میں لوٹ پوٹ ہونا دل سے بلکہ فطری طور پر پسند کرتے ہیں جیسا کہ گزشتہ ہفتے ہم یوم تجدید محبت منا کر فارغ ہوئے ہیں، جسے اب غالباً ہفتے بھر پر محیط کر دیا گیا ہے تا کہ آغاز سے انجام تک کاروباری میلہ لوٹ لیا جائے، اب یہ دن محبت کرنے والوں کے دلوں پر کون سی رحمتیں اور برکتیں نازل کرتا ہے یہ تو ''دو'' پیار بھرے دل ہی جانیں، لیکن نشر و اشاعت کے شعبے سے لے کر دیگر تک ایک کاروباری Event کی شکل ضرور اختیار کر گیا ہے، یوں تو محبت کے فلسفے کے مطابق محبت کا نغمہ خاص دلوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے جسے ہر ساز پہ گانا گویا ایک طرح سے توہین محبت کے مترادف ہے لیکن جدید ویلنٹائنی فلسفہ محبت کی رو سے اسے نہ صرف تخصیص بالا کے دائرے سے کان پکڑ کر باہر کھینچ لایا گیا ہے بلکہ دنیا کی تیز رفتاری اور تغیرات سے مطابقت کے پیش نظر اسے عمر ''ذات'' زبان یہاں تک کہ رشتوں اور انتہائی احتیاط کے ساتھ عرض ہے کہ جنس کی قید و بند سے بھی آزاد قرار دیا گیا ہے۔ واحد اور بنیادی شرط صرف ''دو دلوں'' کا محبت زدہ ہونا کافی ہے، ہم جیسے سادہ لوح تقلیدیوں نے اس دن کی حرمت کی صفائی میں اماں، ابا، بہن، بھائی اور چاچے، پھپے سمیت ماموں، تایوں کی محبت کو بھی اس دن کی مد میں لا کھڑا کیا ہے اور اس انٹلیکچول اقدام کو ہم اس جدید فلسفہ محبت کا وسیع کینوس قرار دیتے ہیں۔

ہمارے پاس یوم تجدید محبت کو جائز اور حلال قرار دینے کا واحد جواز صرف ''محبت'' نظر آتا ہے اب اسے دلچسپ کہہ دیا جائے یا سنگین کہ مشرق اور مغرب کے نظریہ محبت میں بڑا گہرا فرق بلکہ تضاد ہے، جو محبت مغرب میں انسان کی تمام عمر میں ''دو دل'' کی حدود سے آگے نہیں بڑھ پاتی وہی محبت مشرق میں معاشرے کا بنیادی نظام وضع کرتی ہے اور ایک گھر اور گھرانے کی بنیاد رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں محبت کوئی قابل تجدید معاہدہ یا جذبہ نہیں ہے بلکہ ہم تو اسے پاکیزگی، پارسائی، غیرت، عزت، حیا اور آبرو کے معنوں میں مراد لیتے ہیں، ہم محبت پر یقین رکھتے ہیں مگر یہ ہمارے دلوں میں متصور ہے، وفاداری اور استوار رفاقت کے استعاروں میں، ہماری اقدار کے لحاظ سے محبت وہ مرکز ہے جو دو دلوں کو کشش کرتا ہے اور انھیں زندگی کے نظام میں داخل کر کے زندگی کا حصہ بنا دیتا ہے، اب محبت کے آئینے سے ایک ہنستے بستے گھرانے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں محبت انسانی فطرت کی تکمیل اور شادمانی کا بڑا مہذب اور محترم اصول ہے۔


جدت کی آلائش سے اٹ جانے کے باوجود ابھی ہمارے رویے اور مزاجی ساخت اتنی مضبوط یا بے حس نہیں ہوئی ہے کہ ہم سال یا چند برسوں میں پھر کوئی نیا دل تلاشیں اور اس سے تعلقات گانٹھ لیں۔ ہماری نازک طبع تو ایک محبت سے بھی بعض اوقات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں کہ وہ پھر دوبارہ اس تجربے کا حوصلہ ہی نہیں کر پاتی۔ محبت کے اپنے عقیدے میں ہم اتنے پکے اور سچے ہیں کہ بعد از رفاقت نہ شوہر کو بیوی کے گیسو دراز کا بالشت بھر پونچھ میں تبدیل ہو جانے کا خیال رہتا ہے اور نہ فربہی کے نتیجے میں بننے والے ڈولوں کا، ادھر بیوی کو بھی شوہر کے آدھے یا پورے گنجے سر اور لٹکی ہوئی توند سے کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ حادثے اور بیماری بھی اس تعلق کی پائیداری کو گزند نہیں پہنچا پاتی، سب کچھ وقت کے بہاؤ میں رونما ہونے والی فطری تبدیلیوں کے ضمن میں اپنے نئے روپ میں قابل قبول ہوتا ہے۔ کیا محبت کو سرخ اور گلابی رنگ کی علامت سے پیش کرنے والی، چاکلیٹ اور مصنوعی دل کے سہارے اپنے جذبات کی نزاکت اور حساسیت کو مشتہر کرنے والی ذہنیت محبت کی اس بالیدگی اور استقامت کی متحمل ہو سکتی ہے؟ جب کہ دوسری جانب صورت حال کی منظر کشی کے لیے بھی انتہائی محتاط اور با پردہ لفظوں کی ضرورت ہے، اس کے بعد بھی کچھ پہلو ایسے چھوڑنے پڑیں گے کہ جن کا تذکرہ اخلاقی حد بندی کی وجہ سے ممکن نہیں ہو گا۔

مختصراً یہ کہ وہاں پارکوں، کلبوں، سینما اور اسکولوں میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، پڑھتے ہنستے لوگ محبتوں سے دوچار ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو پسند کرنے کرنے میں ایک، دو تین انسانوں کے بچے بھی جنم دے دیتے ہیں اور اس سارے دورانیے میں سماج، قانون یا ریاست کی طرف سے کوئی قدغن بھی عائد نہیں کی جاتی کیونکہ دونوں اطراف سے باہمی رضامندی سب کچھ قانوناً اور اخلاقاً جائز اور قابل قبول بنانے کے لیے کافی ہے۔ بلکہ دو انسانوں کے بیچ اس پیار بھرے تعلق کو دوام بخشنے کی خاطر سنگل Parent اور Love Child جیسی Catagories سماج میں رائج کی جا چکی ہیں۔ مرد و زن کے اختلاط پر مبنی اور لباس کی اخلاقیات سے عاری معاشرے جہاں مصافحے، معانقے اور بوسے تہذیب کی علامت قرار دیے جائیں، ان معاشروں کی Nature اسی انداز میں متشکل ہوتی ہے، ایسے Broad Minded معاشروں کے افراد کے لیے ہماری روایات میں بڑے سخت گیر القابات رکھے گئے ہیں جو اخلاقی احتیاط کے ذیل میں درج نہیں کیے جا سکتے۔

اگر مشرق اور مغرب کے فلسفہ محبت کے تضاد کو دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں محبت کا جذبہ نفس کے دھارے کو پابند بنا دیتا ہے جب کہ دوسری طرف محبت کے نام پر نفس کی ہر بے لگامی جائز قرار پاتی ہے، جو جذبہ مشرق میں گھر کی بنیاد رکھتا ہے وہی جذبہ مغرب میں اکثر نئے تجربے اور نئے ذائقے کے ایڈونچر کے شوق میں گھر کے قیام میں ایک بڑی رکاوٹ ہے لیکن اب شاید ہم بھی محبت کے پھیلاؤ بلکہ کھلاڑے پر قائل اور راضی ہو گئے ہیں ہمارے ڈراموں کے مطابق کیوپڈ کا تیر اب بڑی تیز رفتاری سے اس المیے کی سمت بڑھ رہے ہیں کہ جہاں رائج، متروک اور راسخ و تنسیخ کی بحثیں نہ صرف سر اٹھانے لگتی ہیں بلکہ اپنے اپنے مکاتب فکر بھی تشکیل کرنے لگتی ہیں۔
ہم ایسے معاشروں سے مشابہت کی راہ اختیار کر رہے ہیں جہاں مائیں اپنی بیٹیوں کو بوائے فرینڈ کے ساتھ سونے کی احتیاطیں بتاتی ہیں اس سے پہلے کہ ہمارے بچوں کے بیگوں، پرسوں اور کمرے سے ایسی ویسی اشیاء برآمد ہونا شروع ہو جائیں ہمیں اپنی روایتی سادہ زندگی کی جانب پلٹنا ہو گا اور اپنے بچوں کو ''ایام کلچر'' سے تحفظ دینے کی خاطر انھیں یہ سمجھانا ہو گا کہ جب قومیں انسانی جذبوں اور اقدار کو زندگی کے بہاؤ اور روانی سے خارج کر کے انھیں ''عالمی دن'' کے جوڑوں میں قید کرنا شروع کر دیں تو ان کی تہذیب میں تعفن کے سوا کچھ نہیں رہتا، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود اس بات کو سمجھیں کہ جب قومیں اپنی چلچلاتی توانائی کو اپنی اقدار سے انحراف اور روگردانی کے امکانات کا پتہ بتانے لگتی ہیں تو ایسے بے عقیدہ رویے ''دین نفس'' کے مرکز پر ہی اجماع کرتے ہیں کیونکہ بالآخر یہی وہ انتہا سامنے آتی ہے جہاں انسانیت تو نہیں مگر ایسے انسانی فطرت کی کمزوریوں کے شکار انسانوں کے لیے یکسانیت، مساوات اور ہم آہنگی کی وہ فضا ممکن ہے جسے ''بے راہ روی'' سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
Load Next Story