ہمارے پاپ سنگر اور انقلاب

مغربی دنیا سے برصغیر ہند و پاک میں پاپولر گلوکاری کے جراثیم بہت بعد کو آئے

پاپولر گلوکاری کرنے والے پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں، خصوصاً مغربی دنیا میں ہزاروں چھوٹے بڑے پاپولر گلوکار موجود ہیں۔ وہاں یہ فن خاصا پرانا ہے۔ اس صنف گلوکاری میں فن موسیقی کے مروجہ اسرار و رموز کی پابندی ضروری نہیں ہوتی اور اسٹیج پر ظاہری پرفارمنس کا بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ ہر دم متحرک جسم سے حاضرین کو محظوظ کیا جانا ہی ضروری سمجھا جاتا ہے۔

مغربی دنیا سے برصغیر ہند و پاک میں پاپولر گلوکاری کے جراثیم بہت بعد کو آئے اور اس کی شکل بھی وہ نہیں تھی جو کچھ مغرب میں ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں اس رنگ کی گلوکاری کا آغاز گلوکار کشور کمار اور احمد رشدی نے کیا اور بعد میں گلوکار عالمگیر نئی نسل کی گلوکاری کر کے یہاں اس وطن کے اصل Pioneer بن گئے۔ عالمگیر کے بعد محمد علی شہکی، فخر عالم، سلیم جاوید اور حسن جہانگیر نے اس طرز گلوکاری میں خاصا نام بنایا اور خوب کمایا۔ ان کے بعد بھی اس میدان میں آنے والے نوجوانوں کا سلسلہ جاری رہا۔

اب میں لکھتے لکھتے رک گیا ہوں اور پاپ سنگرز کے نام یاد کر رہا ہوں، مگر یاد نہیں آ رہے۔ ایک لمبی فہرست ہے، ہاں! ایک بات اور ان میں مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر جدید تعلیم سے آراستہ اور دولت مند گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ یہ سب گلوکار بھی ہمارے ہاں بہت پسند کیے جاتے ہیں اور مشہور ہیں۔ پاپ سنگر عموماً مغربی سازوں کے ساتھ گلوکاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گٹار اور ردھم کے لیے ڈرم استعمال کرتے ہیں، جدید ترین ساؤنڈ سسٹم اور لائٹنگ کا سہارا بھی پرفارمنس کے لیے بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ گلوکاروں کا رنگ برنگا، عجیب کاٹ تراش والا لباس بھی فنکاری کا حصہ ہوتا ہے اور آخری بات یہ کہ گلوکاری میں شور شرابا اس قدر زیادہ ہو کہ سننے والوں کو گانے کے بولوں کا پتہ نہ چلے، اور گانا ختم ہو جائے۔

یہ نوجوان پاپ سنگر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، اپنے اردگرد پھیلے ناانصافیوں کے مارے انسانوں کو دیکھ رہے تھے۔ یوں ان گلوکاروں نے ایک کروٹ لی اور صوفیانہ کلام گانا شروع کر دیا۔ جنون گروپ کا گٹارسٹ سلمان احمد (ایم بی بی ایس) اور گلوکار علی عظمت بابا بلھے شاہ کا کلام گانے لگے ''بلیہا کی جاناں میں کون'' بھائی انور مقصود کے صاحبزادے بلال مقصود اور ان کے ساتھی فیصل کپاڈیا نے بھی سماج سدھار والے گانے شروع کر دیے۔ صوفیانہ کلام کا یہ سلسلہ چلا تو گانوں کے بول بھی سمجھ میں آنے لگے۔ ''بلو کے گھر'' جانے کا مشورہ دینے والے ایچی سن کالج کے سابق پروفیسر گلوکار ابرار الحق نے بھی اپنے گانوں اور ویڈیوز میں جاگیرداری کے خلاف کام شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ ناروال میں اسپتال بھی بنا ڈالا۔


صوفیانہ کلام کے بعد ان گلوکاروں نے ایک قدم اور بڑھایا اور براہ راست انقلاب گانا شروع کر دیا۔ انقلاب کا پہلا قدم جن گلوکاروں نے اٹھایا ان کے بینڈ کا نام ''لال بینڈ'' ہے۔ اس بینڈ کے کام کی ابتدا جنرل مشرف کے دور میں عین اس وقت ہوئی کہ جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے وکلا اور سول سوسائٹی سڑکوں پر تھی۔ لال بینڈ کے گلوکاروں شارام اظہر اور تیمور رحمٰن نے حبیب جالب اور فیض احمد فیض کا انقلابی کلام گانا شروع کر دیا۔ فیض کی نظم گوئی ''جگر دریدہ ہوں، چاک جگر کی بات سنو، امید سحر کی بات سنو'' جالب کی نظمیں ''ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا''، ''میں نے اس سے یہ کہا''، ''صدا آ رہی ہے، صدا آ رہی ہے'' یہ خوبصورت آوازوں والے نوجوان شارام اظہر اور تیمور رحمٰن کا تعلق لاہور کی معروف درس گاہ لمس (LUMS) سے ہے، تیمور رحمٰن آج بھی اس درس گاہ میں پڑھا رہے ہیں۔

''لال بینڈ'' نے براہ راست انقلاب گانے کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بینڈ نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ ان کے دو ایک پروگرام میں نے بھی دیکھے، ہر طبقے کے نوجوان ان کے گرویدہ ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ گاتے ہیں۔ ''لال بینڈ'' کے گلوکار نوجوانوں میں انقلاب کی سوچ کو بیدار کرنے کا کام کر رہے ہیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ ''لال بینڈ'' مشہور مزدور رہنما میجر اسحاق کی جماعت مزدور کسان پارٹی کے ممبر ہیں۔ اور یہ بینڈ بڑے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور گاؤں، دیہاتوں میں بھی اسٹریٹ تھیٹر کی طرز پر پروگرام کرتے ہیں۔ بقول ان کے وہ یہ کام تحریک سمجھ کر کر رہے ہیں۔ ''لال بینڈ'' کے بعد انقلاب والا کام اور آگے بڑھا۔ اور مشہور پاپ سنگر اور سماجی کارکن شہزاد رائے نے علامہ اقبال کا فکر انگیز کلام گانا شروع کر دیا۔ ''یا ربّ دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے''، ''خودی کا سر نہاں'' شہزاد رائے بھی اپنے انداز میں نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر رہا ہے۔

تعلیمی میدان میں یہ نوجوان بہت کام کر رہا ہے، بات یہیں نہیں رکی اور ''پرانی جینز اور میرے گٹار'' کے گلوکار علی حیدر نے بھی جالب کو گانا شروع کر دیا۔ ''فرنگی کا جو میں دربان ہوتا، تو جینا کس قدر آسان ہوتا'' اور ''نہ دل دے دو نہ جان دے دو'' جیسی نظمیں گا کر الگ فضا قائم کر دی۔ گلوکار جواد احمد بھی ''سماج سدھار'' خیالات رکھنے والا نوجوان ہے۔ نظریاتی ''لال بینڈ'' والوں کا کام جاری ہے۔ تیمور رحمٰن نے حضرت بابا فرید شکر گنج کا صوفیانہ کلام گایا ہے، ''فریدا ٹریا ٹریا جا''۔ علامہ اقبال کو گاتے ہوئے غریبوں کو جگایا ہے ''اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو''۔ جالب کو مسلسل لال بینڈ گا رہا ہے۔ ''ہم نے اس بستی میں جالب، جھوٹ کا اونچا سر دیکھا ہے'' اور ''بہت میں نے سنی ہے آپ کی تقریر مولانا''۔

یہ پڑھے لکھے باشعور پاپ گلوکار، اپنے فن کے ذریعے اپنے دیس کی دھرتی کو ظالموں، جابروں سے آزادی دلانے کے لیے بڑا مضبوط کام کر رہے ہیں، دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انقلاب کے نغمے گانے والوں نے انقلاب برپا کر دیے۔ ہمیں بھی یقین ہے کہ ہمارے ملک پر چھائی ستم کی یہ شام بہت جلد ڈھل جائے گی۔ یہ نوجوان آگے بڑھتے ہوئے کہہ رہے ہیں:

قاتلو! راہ سے ہٹ جاؤ کہ ہم آتے ہیں
اپنے ہاتھوں میں لیے سرخ علم آتے ہیں
Load Next Story