حالات کا جبر
ویسے تو پاکستان اپنے قیام سے ہی حالت جنگ میں ہے مگر اس وقت یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ حالت نزع تک پہنچ چکا ہے
ویسے تو پاکستان اپنے قیام سے ہی حالت جنگ میں ہے مگر اس وقت یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ حالت نزع تک پہنچ چکا ہے۔ ہمارے دشمنوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیرے میں لیا ہے، ان کے بھیجے گئے دہشت گرد مقامی سہولت کاروں کے تعاون سے ملک کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ہماری فوج اندرونی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے اور بیرونی جارحیت کو روکنے میں سرگرم ہے، پہلے صرف مشرقی سرحد سے خطرہ رہتا تھا اب مغربی سرحد بھی خطرناک بن گئی ہے، طالبان جنھیں کبھی پاکستان کا ہمدرد کہاجاتا تھا اب دشمن کے ساتھ گٹھ جوڑ کرچکے ہیں۔
بلوچستان کو ملک سے کاٹنے کے لیے بھارت کی سازشیں عروج پر ہیں۔ ایک بلوچ منحرف کے جاپانی پارلیمنٹ میں تقریر کے بعد اب سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں بلوچستان کی آزادی سے متعلق پمفلٹ تقسیم کیے جارہے ہیں اور شاہراہوں پر پوسٹر لگائے گئے ہیں ۔ ملک کے دریاؤں میں پانی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، ماہرین کے مطابق اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو تیس پینتیس سال بعد ہمارے کھیت پانی کو ترسیں گے۔ اُدھر ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کو خطرہ قرار دینے کے لیے امریکا، بھارت اتحاد وطن عزیز کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کرتا نظر آرہا ہے۔ ایک تازہ روح فرسا خبر یہ بھی ہے کہ اب امریکی حکومت کی جانب سے ڈومور سے بھی زیادہ مہلک وبال آنے کے لیے پرتول رہا ہے، امریکا پاکستان کا غیر نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کرکے دہشت گردی کا سر پرست ملک قرار دینے کی تیاری کررہا ہے، ملک کو لاحق ان خطرات کا تقاضا ہے کہ ہم غیر سنجیدگی چھوڑ کر سنجیدگی اختیار کرلیں آپس کی لڑائی جھگڑے ترک کرکے یک جان اور ایک سو ہوجائیں مگر افسوس کہ ملک کو اس قدر خطرات لاحق ہونے کے باوجود ہمارے حکومتی قائدین سے لے کر حزب اختلاف کے رہنماؤں تک کسی پر تشویش کے آثار نظر نہیں آرہے، سب ہی ہمیشہ کی طرح مطمئن اور اقتدار بچانے و اقتدار چھیننے کی جنگ میں مصروف ہیں وہ نہیں سوچ رہے کہ پہلے ملک کی بقا ہے بعد میں کچھ اور ہے مگر ان کے نزدیک اپنے مفادات اور انا کا مقام اول ہے۔
ملک کو لاحق خطرات اور عوامی مسائل سے ان کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ملک میں غربت کا گراف دن بدن دراز ہوتا جارہاہے۔ حکومت تو عوامی مسائل سے بے بہرہ ہے ہی مگر حزب اختلاف بھی اپنی ذمے داریوں سے قطعی غافل ہے وہ اگر احتجاج کرتی ہے، ریلی نکالتی ہے یا پھر طویل دھرنا دیتی ہے تو اس کا مقصد ملک سے غربت یا بے روزگاری کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تاکہ وہ جلد اقتدار حاصل کرکے اپنے مسائل حل کرسکے۔ ایک طرف ہماری غیر سنجیدگی ہے اور دوسری طرف ہمارے دشمن کی سنجیدگی ملاحظہ کیجیے کہ حکومت سے لے کر پوری حزب اختلاف پاکستان کے خلاف یکجا اور یکسو ہے۔
سب کی ایک ہی پالیسی ہے اور ایک ہی نعرہ ہے کہ پاکستان کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ وہ ہمیشہ کے لیے کشمیر کا نام ہی لینا بھول جائے حکومت اور حزب اختلاف مل کر پوری دنیا میں کشمیر بچاؤ اور پاکستان کو رلاؤ کے مشق پر عمل پیرا ہیں کسی نے خوب کہا ہے کہ بھارت کے نزدیک صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ کشمیر ہے حالانکہ اس سے بھی کہیں زیادہ بڑا مسئلہ وہاں کے عوام کی غربت ہے مگر بھارتی حکومت کے نزدیک کشمیر سب سے اہم ہے۔ بھارت کی تمام پالیسیاں خواہ خارجہ ہو، معاشی یا داخلہ کشمیر کے گرد گھومتی ہیں وہ ستر سال سے کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کا دفاع کرتا چلا آرہا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے مگر وہ اس کی کیا قیمت ادا کررہا ہے یہ وہی جانتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر بھارت خود کو مسئلہ کشمیر میں نہ پھنساتا تو شاید وہ آج چین سے بھی آگے ہوتا۔ اب خواہ بعض افغان قائدین کو اپنا زر خرید غلام بنانا ہو یا امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان کو بھاری کشش کے عوض اپنا ہمنوا بنانا ہو اس کی وجہ صرف کشمیر ہے۔ اسی طرح اس کے کسی بھی ملک سے تعلقات ہوں یا اسلحے کی جا بجا خرید ہو اس کا مقصد کشمیر کا دفاع اور پاکستان کو تنہائی میں دھکیلنا ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ آخر ہم کب سنجیدہ ہوںگے؟ اب اہم سوال یہ ہے کہ اگر ناتجربہ کار اور جذباتی ٹرمپ بھارت نواز امریکی حکام کے بہکاوے میں آگئے اور امریکا کی جانب سے ہماری غیر نیٹو حیثیت ختم کرکے ہمیں دہشت گرد ملک قرار دے دیا گیا۔ ساتھ ہی ہمارے جوہری ہتھیاروں پر پابندی لگادی گئی تو اس طرح ہمیں عسکری اور معاشی طور پر کمزور کیا جاسکتا ہے یہ بھارت نواز امریکی منصوبہ ہمیں دیوار سے بھی لگاسکتا ہے پھر اس منصوبے کا عملی آغاز گزشتہ دنوں بغیر اطلاع دیے ہماری سرزمین پر ڈرون حملے سے کیا جاچکا ہے وہ قومیں جو اپنے ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف ہوتی ہیں اور انھیں اپنے ملک کی پرواہ نہیں ہوتی ان کا مقدر تباہی ہی ہوتا ہے ہم نے اپنی غفلت اور اقتدار کی ہوس میں پانے آدھے ملک کو پہلے ہی کھودیا ہے، اس سانحہ عظیم سے بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
بیرونی سازشیں تو اپنی جگہ ہیں خود ہماری اپنی اندرونی سازشوں نے ملک کو عدم استحکام سے دو چارکرنے کے علاوہ اس کے امیج کو تباہ کردیا ہے ہمارے دشمنوں کی سازشیں بھی اس لیے کامیاب ہوجاتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کافی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ ملک میں موجودہ دہشت گردی کو شاید اتنا عروج حاصل نہ ہوتا اگر ہمارے اپنے لوگ دشمن کا آلۂ کار نہ بنتے۔ اب اگر کل بھوشن یا اس کے پیشرو وطن عزیز میں برسوں سے تباہی مچارہے تھے تو انھیں ہمارے اپنے لوگوں کی ہی مدد حاصل تھی ورنہ کسی کی کیا مجال کہ ہمیں گزند پہنچاسکتا۔ بلوچستان میں اب بھی علیحدگی پسندی کے حق میں اور سی پیک کے خلاف بیان دینے والے موجود ہیں۔
ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ملک کی جڑیں ہلانا چاہتے ہیں مگر لگتا ہے ان پر کوئی نظر نہیں رکھی جارہی، شاید اس لیے کہ وہ اثر و رسوخ والے ہیں لیکن بلوچستان میں علیحدگی پسندی کا رجحان اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایسے لوگوں کو گرفت میں نہیں لیا جاتا ہم نے افغان مسئلے میں الجھ کر سب سے بڑی غلطی کی ہے اس مسئلے کے امریکا کی مرضی کے مطابق حل کرنے کے لیے ہم نے وہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے جو کوئی اور ملک برداشت نہیں کرسکتا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم دہشت گردی کو مٹاتے مٹاتے خود دہشت گرد قرار دے دیے گئے ہیں جب کہ بھارت بغیر کوئی نقصان اٹھائے آج افغانستان کا ملک بنا بیٹھا ہے۔
اس سے پتا چلا کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام رہی جب کہ بھارت کامیاب رہا۔ در اصل ہماری خارجہ پالیسی امریکا کی چاپلوسی کے گرد گھومتی رہی ہے اور اس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ انھوں نے خود وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا ۔ لیکن بد قسمتی سے وہ اپنی مصروفیات کے علاوہ الیکشن میں دھاندلی، طویل دھرنے، پاناما اور ڈان لیکس جیسے مسائل میں اُلجھنے کی وجہ سے اپنے وزیر خارجہ کے منصب سے انصاف نہیں کرسکے چنانچہ اس کے جتنے وہ ذمے دار ہیں اتنی ہی حزب اختلاف بھی ہے۔ خوش قسمتی سے اب ایک وزیر خارجہ کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے اب دیکھیے وہ ملک کی خارجہ پالیسی کی کل کس حد تک درست کرتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہمارے سفیروں کی نا اہلی بھی ہے۔ وہ وہی بھاگ دوڑ نہیں کررہے ہیں جیسی کہ بھارتی سفیر کررہے ہیں۔ خواہ بلوچ منحرف شخص کی جاپانی پارلیمان میں تقریر ہو یا سوئٹزر لینڈ میں بلوچستان کی آزادی کے پروپیگنڈے کا تعلق ہو یا پھر برکس کا اعلامیہ یا ٹرمپ کی دھمکی ان تمام کے لیے ہمارے ان ممالک میں متعین سفیر ذمے دار ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب وزارت خارجہ ہی خواب خرگوش میں مگن ہو تو اس کے ذیلی اداروں سے بھلا کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟
بلوچستان کو ملک سے کاٹنے کے لیے بھارت کی سازشیں عروج پر ہیں۔ ایک بلوچ منحرف کے جاپانی پارلیمنٹ میں تقریر کے بعد اب سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں بلوچستان کی آزادی سے متعلق پمفلٹ تقسیم کیے جارہے ہیں اور شاہراہوں پر پوسٹر لگائے گئے ہیں ۔ ملک کے دریاؤں میں پانی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، ماہرین کے مطابق اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو تیس پینتیس سال بعد ہمارے کھیت پانی کو ترسیں گے۔ اُدھر ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کو خطرہ قرار دینے کے لیے امریکا، بھارت اتحاد وطن عزیز کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کرتا نظر آرہا ہے۔ ایک تازہ روح فرسا خبر یہ بھی ہے کہ اب امریکی حکومت کی جانب سے ڈومور سے بھی زیادہ مہلک وبال آنے کے لیے پرتول رہا ہے، امریکا پاکستان کا غیر نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کرکے دہشت گردی کا سر پرست ملک قرار دینے کی تیاری کررہا ہے، ملک کو لاحق ان خطرات کا تقاضا ہے کہ ہم غیر سنجیدگی چھوڑ کر سنجیدگی اختیار کرلیں آپس کی لڑائی جھگڑے ترک کرکے یک جان اور ایک سو ہوجائیں مگر افسوس کہ ملک کو اس قدر خطرات لاحق ہونے کے باوجود ہمارے حکومتی قائدین سے لے کر حزب اختلاف کے رہنماؤں تک کسی پر تشویش کے آثار نظر نہیں آرہے، سب ہی ہمیشہ کی طرح مطمئن اور اقتدار بچانے و اقتدار چھیننے کی جنگ میں مصروف ہیں وہ نہیں سوچ رہے کہ پہلے ملک کی بقا ہے بعد میں کچھ اور ہے مگر ان کے نزدیک اپنے مفادات اور انا کا مقام اول ہے۔
ملک کو لاحق خطرات اور عوامی مسائل سے ان کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ملک میں غربت کا گراف دن بدن دراز ہوتا جارہاہے۔ حکومت تو عوامی مسائل سے بے بہرہ ہے ہی مگر حزب اختلاف بھی اپنی ذمے داریوں سے قطعی غافل ہے وہ اگر احتجاج کرتی ہے، ریلی نکالتی ہے یا پھر طویل دھرنا دیتی ہے تو اس کا مقصد ملک سے غربت یا بے روزگاری کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تاکہ وہ جلد اقتدار حاصل کرکے اپنے مسائل حل کرسکے۔ ایک طرف ہماری غیر سنجیدگی ہے اور دوسری طرف ہمارے دشمن کی سنجیدگی ملاحظہ کیجیے کہ حکومت سے لے کر پوری حزب اختلاف پاکستان کے خلاف یکجا اور یکسو ہے۔
سب کی ایک ہی پالیسی ہے اور ایک ہی نعرہ ہے کہ پاکستان کو ایسا سبق سکھایا جائے کہ وہ ہمیشہ کے لیے کشمیر کا نام ہی لینا بھول جائے حکومت اور حزب اختلاف مل کر پوری دنیا میں کشمیر بچاؤ اور پاکستان کو رلاؤ کے مشق پر عمل پیرا ہیں کسی نے خوب کہا ہے کہ بھارت کے نزدیک صرف ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ کشمیر ہے حالانکہ اس سے بھی کہیں زیادہ بڑا مسئلہ وہاں کے عوام کی غربت ہے مگر بھارتی حکومت کے نزدیک کشمیر سب سے اہم ہے۔ بھارت کی تمام پالیسیاں خواہ خارجہ ہو، معاشی یا داخلہ کشمیر کے گرد گھومتی ہیں وہ ستر سال سے کشمیر پر اپنے ناجائز قبضے کا دفاع کرتا چلا آرہا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہے مگر وہ اس کی کیا قیمت ادا کررہا ہے یہ وہی جانتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر بھارت خود کو مسئلہ کشمیر میں نہ پھنساتا تو شاید وہ آج چین سے بھی آگے ہوتا۔ اب خواہ بعض افغان قائدین کو اپنا زر خرید غلام بنانا ہو یا امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان کو بھاری کشش کے عوض اپنا ہمنوا بنانا ہو اس کی وجہ صرف کشمیر ہے۔ اسی طرح اس کے کسی بھی ملک سے تعلقات ہوں یا اسلحے کی جا بجا خرید ہو اس کا مقصد کشمیر کا دفاع اور پاکستان کو تنہائی میں دھکیلنا ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ آخر ہم کب سنجیدہ ہوںگے؟ اب اہم سوال یہ ہے کہ اگر ناتجربہ کار اور جذباتی ٹرمپ بھارت نواز امریکی حکام کے بہکاوے میں آگئے اور امریکا کی جانب سے ہماری غیر نیٹو حیثیت ختم کرکے ہمیں دہشت گرد ملک قرار دے دیا گیا۔ ساتھ ہی ہمارے جوہری ہتھیاروں پر پابندی لگادی گئی تو اس طرح ہمیں عسکری اور معاشی طور پر کمزور کیا جاسکتا ہے یہ بھارت نواز امریکی منصوبہ ہمیں دیوار سے بھی لگاسکتا ہے پھر اس منصوبے کا عملی آغاز گزشتہ دنوں بغیر اطلاع دیے ہماری سرزمین پر ڈرون حملے سے کیا جاچکا ہے وہ قومیں جو اپنے ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف ہوتی ہیں اور انھیں اپنے ملک کی پرواہ نہیں ہوتی ان کا مقدر تباہی ہی ہوتا ہے ہم نے اپنی غفلت اور اقتدار کی ہوس میں پانے آدھے ملک کو پہلے ہی کھودیا ہے، اس سانحہ عظیم سے بھی ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
بیرونی سازشیں تو اپنی جگہ ہیں خود ہماری اپنی اندرونی سازشوں نے ملک کو عدم استحکام سے دو چارکرنے کے علاوہ اس کے امیج کو تباہ کردیا ہے ہمارے دشمنوں کی سازشیں بھی اس لیے کامیاب ہوجاتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کافی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔ ملک میں موجودہ دہشت گردی کو شاید اتنا عروج حاصل نہ ہوتا اگر ہمارے اپنے لوگ دشمن کا آلۂ کار نہ بنتے۔ اب اگر کل بھوشن یا اس کے پیشرو وطن عزیز میں برسوں سے تباہی مچارہے تھے تو انھیں ہمارے اپنے لوگوں کی ہی مدد حاصل تھی ورنہ کسی کی کیا مجال کہ ہمیں گزند پہنچاسکتا۔ بلوچستان میں اب بھی علیحدگی پسندی کے حق میں اور سی پیک کے خلاف بیان دینے والے موجود ہیں۔
ان بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ملک کی جڑیں ہلانا چاہتے ہیں مگر لگتا ہے ان پر کوئی نظر نہیں رکھی جارہی، شاید اس لیے کہ وہ اثر و رسوخ والے ہیں لیکن بلوچستان میں علیحدگی پسندی کا رجحان اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایسے لوگوں کو گرفت میں نہیں لیا جاتا ہم نے افغان مسئلے میں الجھ کر سب سے بڑی غلطی کی ہے اس مسئلے کے امریکا کی مرضی کے مطابق حل کرنے کے لیے ہم نے وہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے جو کوئی اور ملک برداشت نہیں کرسکتا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم دہشت گردی کو مٹاتے مٹاتے خود دہشت گرد قرار دے دیے گئے ہیں جب کہ بھارت بغیر کوئی نقصان اٹھائے آج افغانستان کا ملک بنا بیٹھا ہے۔
اس سے پتا چلا کہ ہماری خارجہ پالیسی ناکام رہی جب کہ بھارت کامیاب رہا۔ در اصل ہماری خارجہ پالیسی امریکا کی چاپلوسی کے گرد گھومتی رہی ہے اور اس کا نتیجہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ انھوں نے خود وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا ۔ لیکن بد قسمتی سے وہ اپنی مصروفیات کے علاوہ الیکشن میں دھاندلی، طویل دھرنے، پاناما اور ڈان لیکس جیسے مسائل میں اُلجھنے کی وجہ سے اپنے وزیر خارجہ کے منصب سے انصاف نہیں کرسکے چنانچہ اس کے جتنے وہ ذمے دار ہیں اتنی ہی حزب اختلاف بھی ہے۔ خوش قسمتی سے اب ایک وزیر خارجہ کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے اب دیکھیے وہ ملک کی خارجہ پالیسی کی کل کس حد تک درست کرتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہمارے سفیروں کی نا اہلی بھی ہے۔ وہ وہی بھاگ دوڑ نہیں کررہے ہیں جیسی کہ بھارتی سفیر کررہے ہیں۔ خواہ بلوچ منحرف شخص کی جاپانی پارلیمان میں تقریر ہو یا سوئٹزر لینڈ میں بلوچستان کی آزادی کے پروپیگنڈے کا تعلق ہو یا پھر برکس کا اعلامیہ یا ٹرمپ کی دھمکی ان تمام کے لیے ہمارے ان ممالک میں متعین سفیر ذمے دار ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب وزارت خارجہ ہی خواب خرگوش میں مگن ہو تو اس کے ذیلی اداروں سے بھلا کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں؟