زے سے زیور
ابتدا میں پتھروں سے شکار، کھُدائی اور کھیتی باڑی کے اوزار یا آلات تیار ہوئے
عورت نے ابتدائے آفرینش سے خود کو سجانا سنوارنا شروع کیا تو شروع شروع میں جڑی بوٹیوں ، پھولوں اور خوشبودار گھاس سے تزئین و آرائش کا وہ سامان تیار کیا جسے آج کل میک اپ کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، بہت جلد، دوسروں سے اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لیے ، زیورات بھی تیار کرنے اور پہننے شروع کردیے۔
قدیم مذہبی کتب، تاریخ اور آثار قدیمہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ابتدا میں پتھروں سے شکار، کھُدائی اور کھیتی باڑی کے اوزار یا آلات تیار ہوئے...یقیناً دور میں پتھر سے زیورات سازی کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہوگا۔ اس قیاس کی تصدیق اُن زیورات سے ہوتی ہے جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے آثار دریافت ہونے پر ، ہمارے سامنے آئے۔ اس کے بعدلکڑی، لوہے، تانبے ، سونے، چاندی اور مختلف دھاتوں کی بھرت سے بنے ہوئے زیورات تیار ہوئے جن میں قیمتی جواہر یانگینوں کا استعمال بھی خاصی مہارت سے کیا گیا تھا۔ مہرگڑھ (بلوچستان)، ہڑپہ (پنجاب)، موہن جو دڑو (سندھ)، عراق، مصر، بنگلہ دیش، سعودی عرب، عُمان[Oman]اور نیپال سمیت مختلف ممالک کے متعدد مقامات پر کھُدائی سے برآمد ہونے والی قدیم اشیاء میں ایسے زیورات شامل ہیں جن کی بناوٹ آج بھی پُرکشش اور متأثر کُن معلوم ہوتی ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ کے خیال میں، قدیم ترین زیورات، براعظم افریقہ کے مختلف مقامات، خصوصاً کینیاکے ایک غار سے ملے ہیں۔ انھوں نے ان زیورات کی قدامت کا اندازہ پچھتر ہزار [75000]سال لگایا ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ خود حضرت انسان کی دنیا میں آمد، ایک تحقیق کے مطابق، دس ہزار سال قبل ہوئی تھی۔ (یہ نام 'کی نیا' نہیں ، بلکہ کَین یا Kenya=Ken+ya ہے)۔ اس بحث سے قطعِ نظر، دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ قدیم افریقی زیورات، سیپیوں اور گھونگھوں کے خول سے بنائے گئے تھے۔
افریقہ میں آج بھی سیپیوں، کَوڑیوں اور دیگر سمندری معدنیات سے زیورات سازی کا رجحان پایا جاتا ہے، جب کہ پاکستان میں بھی ایسے زیورات رائج کرنے کی کوشش ہوچکی ہے۔ تقریباً سات ہزار سال قبل تانبے کے زیورات دنیا میں رائج ہوئے۔ یہ وہی دور ہے جب بلوچستان کے علاقے مہر گڑھ کی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ آپ یقیناً یہ جان کر حیران ہوں گے کہ زمانہ قدیم میں زیورات سازی کا پیشہ محض مردوں تک محدود نہ تھا۔ اکتوبر 2012ء میں آسٹریا[Austria] کے عجائب خانہ قدیم تاریخ نے ایک قبر سے 'زیورساز' خاتون کی لاش برآمد ہونے کا اعلان کیا۔ قدیم استادسخن شاہ مبارک آبروؔ کا مشہورزمانہ شعر ہے: ؎ نہیں محتاج زیورکا جسے خوبی خدا دیوے
کہ اُس کو بدنُما لگتا ہے جیسے چاند کو گہنا
مگر آج کے دور کی عورت اس حقیقت کا اعتراف کم کم کرتی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سونے کا بھاؤ آئے دن بڑھتا جارہا ہے اور اسی پر بس نہیں، چاندی بھی مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ اس کے بعد لوہے، تانبے ، پِیتل، بھرت، حتیٰ کہ لکڑی، پلاسٹک ، سیپیوں اور گھونگھوں کے خول سے بنے ہوئے زیورات....موتی جَڑے ہوں یا ہیرے سے مُزَیّن ....ان کی طلب ہر طبقے میں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ایک شاعرہ مَسرت جبیں زیباؔ نے کہا تھا: ؎ نقلی گہنوں کی دیکھنا زیباؔ
دیرپا رنگتیں نہیں ہوتیں
اس کے باوجود مصنوعی زیورات کی کھپت، خصوصاً غریب اور متوسط طبقے میں بہت زیادہ ہے۔ بعض ماہر کاری گر اِس کام میں بھی ایسا کمال دکھاتے ہیں کہ جو دیکھے اَش اَش کر اُٹھے اور....پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، سو بعض مصنوعی زیورات بھی بہت معیاری اور دیرپا ہوتے ہیں۔ (عَش عَش غلط ہے۔ بحوالہ فرہنگ آصفیہ ولُغات کشوری)۔ بات زیور کی ہو تو عورت کا تصور، ذہن میں اُبھرتا ہے، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے بہت سے گوشوں میں مرد بھی زیورات سے لدے پھدے نظر آتے ہیں۔ قدیم تہذیبوں میں موہن جو دڑو کا نام اس لحاظ سے بہت نمایاں ہے کہ اس کے ماہر کاری گروں نے پتھر، سِرامک [Ceramics]، تانبے، کانسی، ہڈّیوں، سیپی یا گھونگھے کے خول اور سونے، چاندی جیسی قیمتی دھاتوں سے روزمَرّہ استعمال کے لیے مختلف اوزار، آئینے ، برتن ، فرنیچر اور زیور تیار کیے۔
یہاں یہ با ت بھی قابل ذکر ہے کہ ہڈّیوں اور ہاتھی دانت سے زیوربنانے کا کام براعظم افریقہ میں بھی مقبول ہے۔ اسی طرح موہن جو دڑو کی طرح، دنیا کے مختلف ممالک کے اُمَراء آج بھی ہاتھی دانت سے فرنیچر یا آرائشی اشیاء تیار کراتے ہیں۔ گویا صدیوں کے اِرتِقائی سفر میں ایسے شوق بدستور اپنی جگہ قایم ہیں، ان میں کمی نہیں آئی۔ (تازہ ترین اضافہ یہ ہے کہ ابھی ایک ادیب محترم سعید جاوید صاحب نے اپنی کتاب میں ایک فرعون کی شاہی کرسی کی فوٹو شامل کی ہے جو خالص سونے سے بنی ہوئی ہے اور اس کا نمونہ ہرگز قدیم معلوم نہیں ہوتا، بلکہ آج کے دور کی ایجاد لگتا ہے)۔ صدیوں تک زیورات سازی کے عمل میں دھاتوں اور جواہر کا استعمال عام رہا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دیگر اشیاء کے علاوہ بعض مخصوص پودوں سے مواد حاصل کرکے بھی زیور تیار کیے جاتے تھے۔ مشرق اور مغرب میں بہت سے زیورات، رواج کے لحاظ سے مِلتے جُلتے رہے ہیں، مگر ناک اور پاؤں میں پہنے جانے والے زیورات مغرب میں نسبتاً کم پسند کیے گئے۔
مختلف دھاتوں، سمندری اشیاء، ہڈیوں اور ہاتھی دانت کے علاوہ زیورات کی تیاری میں عنبر کا استعمال بھی ہوتا رہا ہے۔ مشرق میں اس کا استعمال خوشبو کے لیے بھی ہوتا ہے۔ عنبر، ایک رَکازی رال [Fossilized gum] ہے جو کسی زمانے میں نابُود [Extinct] ہونے والے صنوبروں سے بنی ہے۔ انگریزی زبان میں زیورات کے لیے لفظ Jewellery استعمال ہوتا ہے۔ دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ اس لفظ کا ماخذ ژوکیل [JOCALE]ہے جس کا لاطینی زبان میں مطلب ہے: ''کھیلنے کی چیز''[Plaything]، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ زیورات محض نمودونمائش کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتے بلکہ لباس یا بالوں کو جمانے، درست ترتیب میں رکھنے، گھڑی کی شکل میں وقت بتانے، شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں نمایاں ہونے اور تعویذ کی صورت، استعمال کے لیے بھی انھیں یاد کیا جاتا ہے۔ (لفظ 'بلکہ' کو توڑ کر، بل کہ لکھنا اہل زبان کا شیوہ نہیں)۔ مختلف قسم کی مصوری ودستکاری میں زیورات بطور فن پارہ بھی تیار کیے جاتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ جہیز یا بَری میں شامل ہونے کے علاوہ زیورات کا استعمال کرنسی کے طور پر بھی ہوتا رہا ہے جیسے غلاموں کی خریداری کے لیے قیمتی مالا یا کسی اور زیورکا استعمال۔ زیورات میں شامل طُرّہ یا جُگنی[Brooch]اور بَکسُوا[Buckle]اصل میں لباس کو ضرورت کے تحت، کَسنے کے لیے ایجاد ہوئے تھے، مگر رفتہ رفتہ اُن کا استعمال بھی آرائش کے لیے ہونے لگا، خصوصاً بکسوا، کپڑوں کے علاوہ، دستی بیگ اور جوتوں پر بھی آرائش کا کا م دیتا ہے۔ جدید دور میں جہاں مغرب سے دیگر ایجادات، مشرق میں دَرآئی ہیں، وہیں زیورات سازی میں دیگر دھاتوں کے ساتھ ساتھ پلاٹینم [Platinum]، پَے لیڈئیم [Palladium]اور ٹائی ٹے نئیم [Titanium]کا استعمال بھی شروع کردیا گیا ہے۔
یہ اُمَراء کے خاص مشغلے میں شامل ایک شَغل ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں رائج، خواتین کے مقبول زیورات میں جھُومَر، بِندی، جھُمکا، آویزہ، بُندا، ٹاپس، کان کے چھَلّے[Earrings]، نَتھ، بُلاق، چُوڑیاں، کنگن، بریسلیٹ [Bracelet]، پایل ، پازیب، مالا اور لاکٹ [Locket]شامل ہیں۔ سر کے زیورات میں جھُومَر، جھُومَرپَٹی، بِندی، بِندیا اور ٹِیکا مشہور ہیں، جب کہ گلے کے زیورات میں گلوُ بَند، لاکٹ ، چَمپا کلی اور ہنسلی نمایاں ہیں۔ خواتینِ برصغیر کے ہاتھوں اور بازؤوں میں انگوٹھی، پہونچیاں، بازوبند اور چوڑیاں خوب سجتی ہیں۔ پاؤں کی بات ہو تو ہمیں پایل اور توڑے خاص طور پر یاد آتے ہیں۔
زرگر کا تیرے ہاتھ، جو پہنچے سِپِہر تک زیور بناکے لائے زرِ آفتاب کا
اسیرؔ لکھنوی کے اس شعر کو نازک خیالی کا شاہکار قراردیا جاسکتا ہے اور کیوں نہ ہو...جب ذکر ہو صنف نازک کا اور وہ بھی اُس سے مخصوص زیورجیسے، حُسن کے ہتھیار کا تو نزاکت ہر مقام پر آئے گی، خواہ زیور سازی ہو یا زیور کی تعریف ہو یا زیور زیب تن کرنے والی کی۔ لفظ زیور پہلے 'زیب وَر' تھا یعنی زیب دینے والا، سجنے والا یا جس کی بدولت پہننے والا زیبا یعنی خوب صورت، عمدہ دکھائی دے۔ یہ فارسی سے اردو میں آنے والا لفظ ہے ۔ اردو میں اس کے لیے ہندی لفظ 'گہنا' اور 'پاتا' بھی موجود ہیں۔ اس کے معانی میں زینت ، آرائش اور بناؤ سنگھار شامل ہیں۔ اردو میں زیور کے استعمال سے متعلق بعض دل چسپ محاورے ملاحظہ فرمائیں:
زیور بڑھانایعنی زیور اُتاردینا، ْزیور توڑنا یعنی شوہر کی وفات پر زیور ٹکڑے ٹکڑے کردینا اور زیور سے گوندنی کی طرح لَدے رہنا یعنی بہت سے زیور پہنے رہنا (گوندنی ایک انتہائی مفیدپھل ہے جس کا درخت، اِن دنوں کراچی میں کم یاب ہے۔ یہ پھل ہڈیوں اور جوڑوں کی مضبوطی کے لیے کھایا جاتا ہے اور اس کا لیس بھی اسی مقصد کے تحت جسم کے کمزور حصوں پر لگایا جاتا ہے)۔ بیگماتی زبا ن میں بھی زیور سے متعلق دو محاورے خاصے مشہور رہے ہیں:
ا)۔سونٹا سے ہاتھ یعنی چوڑیوں سے خالی ہاتھ جوڈنڈے سے مشابہہ لگتے ہیں، جیسے خواتین کہا کرتی تھیں: ''میرے دل سے پوچھوکہ آج کل کی فیشن ماری لڑکیوں کے سونٹا سے ہاتھ کتنے بُرے لگتے ہیں''۔ اور
ب)۔ٹبا سا مُنھ یعنی زیور سے محروم چہرہ ...طنزاً کہا جاتا تھا: ''خدا کے لیے کانوں میں بالیاں ہی پہن لو...ٹبا سا مُنھ زہر لگتا ہے''۔(لفظ مُنھ کو مُنہ لکھنے کا رواج عام ہے، مگر صوتی اعتبار سے غلط ہے، کیوں کہ 'ہ' پر اس طرح زورنہیں دیاجاسکتا، جس طر ح 'ھ' پر)۔ کہا جاتا ہے کہ برصغیر پاک وہند میں زیورات کا رواج اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود یہ خطہ۔ مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ پوری دنیا کا ہے۔ ابتدائی انسانی آبادی کے دور سے آرائش کا تصور کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا ہے۔ قدیم ہندوستان میں زیورات کا استعمال، ذاتی مقاصد کے علاوہ مذہبی حوالے سے بھی ہوتا تھا۔ قدیم دور سے بھَرَت ناٹی ایم [Bharat Natyam]اور کتھک سمیت ہر طرح کے رقص میں، رقاص یا رقاصہ کے لباس کے لوازم میں مختلف اقسام کے زیورات شامل رہے ہیں۔
ایک طرف تامِل ناڈُو اور کیرالا جیسے بھارتی صوبوں میں زیورسازی کا عمل، فطرت سے قریب تر رہا تو دوسری طرف مغلیہ سلطنت کے فنّی اثرات سے مختلف علاقوں میں مِیناکاری اور کُندن والے زیورات پسند کیے جاتے رہے ہیں۔ زیورات، دُلھن پہنے، کوئی مَلِکہ، کنیز، داسی، فیشن ایبل ماڈل یا عام گھریلو عورت...عموماً کچھ چیزیں بنیادی سمجھی جاتی ہیں، جیسے سر کے زیورات میں جھُومر، جھومر پٹی، ماتھا پٹی، ٹیکا یا تِلَک، چھَپکا اور چُوڈامنی بہت اہم ہیں۔ جھُومر سے تو سبھی واقف ہیں۔
ٹیکا ۔یا۔تِلَک زیور بھی ہے اور ہندؤوں کی مذہبی رسم کے مطابق ماتھے پر لگایا جانے والا نشان بھی...اچھا یہ بات شاید ہماری بہت سی خواتین کے لیے نئی ہو کہ ٹیکا اصل میں ایک پٹّی نُما زیور کا حصہ ہے جو ماتھے سے لے کر، سر کی جَڑ تک لگایا جاتا ہے اور اسے سَراسَری کہتے ہیں۔ چھَپکا بھی جھُومرکی طرح کا زیور ہے جسے بالوں میں باندھ کر ماتھے پر لٹکایا جاتا ہے۔ جُھومر کے متعلق یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ لفظ دیگر معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے عورتوں کا ایک ناچ، عورتوں ہی کا ایک گیت، گِروہ، جھُنڈ، مجمع اور جُھرمُٹ۔ چُوڈامنی ہندو عورتوں کا وہ مخصوص زیور ہے جو چوٹی میں پہنا جاتا ہے۔
پھو ل کی شکل ہونے کی وجہ سے اسے سِیش پھول یا سِیس پھول بھی کہاجاتا ہے۔ یہ اصل میں گیندے کے پھول سے مُشابہہ ہوتا ہے۔ شاید سب سے زیادہ زیورات جس عُضو کے حوالے سے مشہور ہوئے وہ ہے کان۔ کان زیور سے آراستہ ہوں تو خاتون ہر طرح کے مجمع میں نمایاں، اورخالی ہوں تو، کم از کم حلقہ خواتین میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ کان کے اکثر زیور لٹکانے والے ہوتے ہیں، لہٰذا انھیں 'آویزہ' کہتے ہیں۔کانوں کے زیورات میں بُندا سب سے زیادہ مشہور ہے، جسے فارسی اور قدیم اردو میں 'گوشوارہ' بھی کہاجاتا تھا۔
جدید دور میں گوشوارہ، حساب کے خلاصے کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ ویسے بہت بڑے موتی کو بھی گوشوارہ کہا جاتا ہے۔ بَناوَٹ یا ڈیزائن کے فرق سے، قدیم اور جدید طرز کے بُندوں کو 'بالا' یا آویزہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ جب 'بالا' کی بات ہو تو مزید دل چسپ انکشافات سامنے آتے ہیں۔ پرانے زمانے میں نوجوان لڑکے یا سولہ سالہ لڑکی کو بھی 'بالا' کہاجاتا تھا۔ ویسے فارسی زبا ن میں 'بالا' کا مطلب ہے: اُونچا۔ ہمارے معاشرے میں بعض دقیانوسی رُسوُم اور تَوَہّمُات آج بھی رائج اور مقبول ہیں جیسے ''مَنّت کا بُندا پہنانا...جن عورتوں کے بچے، پیدائش کے بعدجلد مرجاتے ہیں، وہ اپنے بچوں کے کان چھِدواکرکسی بزرگ سے عقیدت ظاہر کرتے ہوئے، بُندا پہناتی ہیں اور پھر جب بچہ بڑا ہوجائے تو وہ بُندا اُتاردیتی ہیں۔ اِسے 'بُندا بڑھانا' یا مَنّت بڑھانا کہتے ہیں۔ اس موقع پر نیازبھی دی جاتی ہے۔ جب بُندے سے بالے پر بات آتی ہے تو بالیاں یاد آتی ہیں۔ اب بالیوں کی اقسام ملاحظہ کیجے:
سادہ بالی،ڈھاکا بالی، آدھا کان، پورا کان، پَتّے یا بالی پتے، جھُمکی بالی یا جھُمکے کی بالی، ڈنڈی بالی، چاند بالی، بِجلی بالی، جَڑاؤ بالی، حیدرآبادی جَڑاؤ بالی، مِینا کاری والی بالی اور دُری بالی۔ ڈھاکا بالی کا تعلق ڈھاکا، بنگلہ دیش سے نہیں...البتہ اس میں 'لاکھ' بھرا ہوتا ہے۔ لاکھ جسے انگریزی میںLAC کہتے ہیں، بڑے کام کی چیز ہے۔ 'لاکھ ' ایک ننھا سا کیڑا ہوتا ہے جسے انگریزی میں Lacciferlacca (لیکسی فرلاکا) کہتے ہیںیہ کیڑا پاکستان، بھارت ، میان مار، سری لنکا اور فلی پینز سمیت کئی ممالک میں پایا جاتا ہے۔ 'لاکھ' کیڑے کی اَن گنت مادہ [Females]، بیر، ببول، انجیر، سال، ڈھاک یا کسی اور درخت کی ایک شاخ پر ڈیرہ جماکر اپنے اردگرد، رال جیسے مادّے کی تہہ پیداکرلیتی ہے جو تقریباً دوملی میٹر[2mm]کا ہوتا ہے....یہی لاکھ ہے۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مادہ' لاکھ ' کی محنت سے ایک پونڈ 'لاکھ' حاصل ہوتا ہے۔گھریلو اور صنعتی پیمانے پر 'لاکھ' کا استعمال بہت پرانا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، سولھویں صدی سے رنگ اور وارنش بنانے میں اسے استعمال کیا جارہا ہے۔ لاکھ سے کھلونے، برتن، مصنوعی پھل پھول، بٹن، جوتو ں کی پالش ، مُہر لگانے کا موم، بجلی کے آلات، کتابت کی روشنائی، گراموفون ریکارڈ اور جہازکے پُرزے وغیرہ بھی تیارکیے جاتے ہیں۔ فارسی میں 'لاکھ' کو 'قِرمِز' کہتے ہیں۔ مادہ لاکھ کی 'خشک کردہ' [Dried]لاشوں سے جولال رنگ تیار ہوتا ہے، اُسے قِرمِزی کہتے ہیں۔ یہ رنگ بھی بہت مفید ہے اور ریشمی یا سوتی کپڑے کو رنگنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض خواتین 'قِرمِزی' رنگ سے اپنے تلوے رنگ کر لال کرلیتی ہیں جو مہندی سے زیادہ سُرخی دیتا ہے۔ آدھا کان اور پورا کان نامی بالیاں اپنے نام کے مصداق آدھا یا پورا کان ڈھکتی ہیں۔ ان کی شکل مورجیسی ہوتی ہے اور کبھی کبھی اِن میں جھُمکا بھی لگاہوتا ہے۔ پھر ایک بالی پتّے جیسی ہوتی ہے جسے صرف 'پتّے' بھی کہتے ہیں۔ جاری ہے۔
قدیم مذہبی کتب، تاریخ اور آثار قدیمہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ابتدا میں پتھروں سے شکار، کھُدائی اور کھیتی باڑی کے اوزار یا آلات تیار ہوئے...یقیناً دور میں پتھر سے زیورات سازی کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہوگا۔ اس قیاس کی تصدیق اُن زیورات سے ہوتی ہے جو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے آثار دریافت ہونے پر ، ہمارے سامنے آئے۔ اس کے بعدلکڑی، لوہے، تانبے ، سونے، چاندی اور مختلف دھاتوں کی بھرت سے بنے ہوئے زیورات تیار ہوئے جن میں قیمتی جواہر یانگینوں کا استعمال بھی خاصی مہارت سے کیا گیا تھا۔ مہرگڑھ (بلوچستان)، ہڑپہ (پنجاب)، موہن جو دڑو (سندھ)، عراق، مصر، بنگلہ دیش، سعودی عرب، عُمان[Oman]اور نیپال سمیت مختلف ممالک کے متعدد مقامات پر کھُدائی سے برآمد ہونے والی قدیم اشیاء میں ایسے زیورات شامل ہیں جن کی بناوٹ آج بھی پُرکشش اور متأثر کُن معلوم ہوتی ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ کے خیال میں، قدیم ترین زیورات، براعظم افریقہ کے مختلف مقامات، خصوصاً کینیاکے ایک غار سے ملے ہیں۔ انھوں نے ان زیورات کی قدامت کا اندازہ پچھتر ہزار [75000]سال لگایا ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ خود حضرت انسان کی دنیا میں آمد، ایک تحقیق کے مطابق، دس ہزار سال قبل ہوئی تھی۔ (یہ نام 'کی نیا' نہیں ، بلکہ کَین یا Kenya=Ken+ya ہے)۔ اس بحث سے قطعِ نظر، دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ قدیم افریقی زیورات، سیپیوں اور گھونگھوں کے خول سے بنائے گئے تھے۔
افریقہ میں آج بھی سیپیوں، کَوڑیوں اور دیگر سمندری معدنیات سے زیورات سازی کا رجحان پایا جاتا ہے، جب کہ پاکستان میں بھی ایسے زیورات رائج کرنے کی کوشش ہوچکی ہے۔ تقریباً سات ہزار سال قبل تانبے کے زیورات دنیا میں رائج ہوئے۔ یہ وہی دور ہے جب بلوچستان کے علاقے مہر گڑھ کی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ آپ یقیناً یہ جان کر حیران ہوں گے کہ زمانہ قدیم میں زیورات سازی کا پیشہ محض مردوں تک محدود نہ تھا۔ اکتوبر 2012ء میں آسٹریا[Austria] کے عجائب خانہ قدیم تاریخ نے ایک قبر سے 'زیورساز' خاتون کی لاش برآمد ہونے کا اعلان کیا۔ قدیم استادسخن شاہ مبارک آبروؔ کا مشہورزمانہ شعر ہے: ؎ نہیں محتاج زیورکا جسے خوبی خدا دیوے
کہ اُس کو بدنُما لگتا ہے جیسے چاند کو گہنا
مگر آج کے دور کی عورت اس حقیقت کا اعتراف کم کم کرتی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سونے کا بھاؤ آئے دن بڑھتا جارہا ہے اور اسی پر بس نہیں، چاندی بھی مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ اس کے بعد لوہے، تانبے ، پِیتل، بھرت، حتیٰ کہ لکڑی، پلاسٹک ، سیپیوں اور گھونگھوں کے خول سے بنے ہوئے زیورات....موتی جَڑے ہوں یا ہیرے سے مُزَیّن ....ان کی طلب ہر طبقے میں روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ایک شاعرہ مَسرت جبیں زیباؔ نے کہا تھا: ؎ نقلی گہنوں کی دیکھنا زیباؔ
دیرپا رنگتیں نہیں ہوتیں
اس کے باوجود مصنوعی زیورات کی کھپت، خصوصاً غریب اور متوسط طبقے میں بہت زیادہ ہے۔ بعض ماہر کاری گر اِس کام میں بھی ایسا کمال دکھاتے ہیں کہ جو دیکھے اَش اَش کر اُٹھے اور....پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، سو بعض مصنوعی زیورات بھی بہت معیاری اور دیرپا ہوتے ہیں۔ (عَش عَش غلط ہے۔ بحوالہ فرہنگ آصفیہ ولُغات کشوری)۔ بات زیور کی ہو تو عورت کا تصور، ذہن میں اُبھرتا ہے، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے بہت سے گوشوں میں مرد بھی زیورات سے لدے پھدے نظر آتے ہیں۔ قدیم تہذیبوں میں موہن جو دڑو کا نام اس لحاظ سے بہت نمایاں ہے کہ اس کے ماہر کاری گروں نے پتھر، سِرامک [Ceramics]، تانبے، کانسی، ہڈّیوں، سیپی یا گھونگھے کے خول اور سونے، چاندی جیسی قیمتی دھاتوں سے روزمَرّہ استعمال کے لیے مختلف اوزار، آئینے ، برتن ، فرنیچر اور زیور تیار کیے۔
یہاں یہ با ت بھی قابل ذکر ہے کہ ہڈّیوں اور ہاتھی دانت سے زیوربنانے کا کام براعظم افریقہ میں بھی مقبول ہے۔ اسی طرح موہن جو دڑو کی طرح، دنیا کے مختلف ممالک کے اُمَراء آج بھی ہاتھی دانت سے فرنیچر یا آرائشی اشیاء تیار کراتے ہیں۔ گویا صدیوں کے اِرتِقائی سفر میں ایسے شوق بدستور اپنی جگہ قایم ہیں، ان میں کمی نہیں آئی۔ (تازہ ترین اضافہ یہ ہے کہ ابھی ایک ادیب محترم سعید جاوید صاحب نے اپنی کتاب میں ایک فرعون کی شاہی کرسی کی فوٹو شامل کی ہے جو خالص سونے سے بنی ہوئی ہے اور اس کا نمونہ ہرگز قدیم معلوم نہیں ہوتا، بلکہ آج کے دور کی ایجاد لگتا ہے)۔ صدیوں تک زیورات سازی کے عمل میں دھاتوں اور جواہر کا استعمال عام رہا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دیگر اشیاء کے علاوہ بعض مخصوص پودوں سے مواد حاصل کرکے بھی زیور تیار کیے جاتے تھے۔ مشرق اور مغرب میں بہت سے زیورات، رواج کے لحاظ سے مِلتے جُلتے رہے ہیں، مگر ناک اور پاؤں میں پہنے جانے والے زیورات مغرب میں نسبتاً کم پسند کیے گئے۔
مختلف دھاتوں، سمندری اشیاء، ہڈیوں اور ہاتھی دانت کے علاوہ زیورات کی تیاری میں عنبر کا استعمال بھی ہوتا رہا ہے۔ مشرق میں اس کا استعمال خوشبو کے لیے بھی ہوتا ہے۔ عنبر، ایک رَکازی رال [Fossilized gum] ہے جو کسی زمانے میں نابُود [Extinct] ہونے والے صنوبروں سے بنی ہے۔ انگریزی زبان میں زیورات کے لیے لفظ Jewellery استعمال ہوتا ہے۔ دل چسپ نکتہ یہ ہے کہ اس لفظ کا ماخذ ژوکیل [JOCALE]ہے جس کا لاطینی زبان میں مطلب ہے: ''کھیلنے کی چیز''[Plaything]، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ زیورات محض نمودونمائش کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتے بلکہ لباس یا بالوں کو جمانے، درست ترتیب میں رکھنے، گھڑی کی شکل میں وقت بتانے، شادی بیاہ اور دیگر تقاریب میں نمایاں ہونے اور تعویذ کی صورت، استعمال کے لیے بھی انھیں یاد کیا جاتا ہے۔ (لفظ 'بلکہ' کو توڑ کر، بل کہ لکھنا اہل زبان کا شیوہ نہیں)۔ مختلف قسم کی مصوری ودستکاری میں زیورات بطور فن پارہ بھی تیار کیے جاتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ جہیز یا بَری میں شامل ہونے کے علاوہ زیورات کا استعمال کرنسی کے طور پر بھی ہوتا رہا ہے جیسے غلاموں کی خریداری کے لیے قیمتی مالا یا کسی اور زیورکا استعمال۔ زیورات میں شامل طُرّہ یا جُگنی[Brooch]اور بَکسُوا[Buckle]اصل میں لباس کو ضرورت کے تحت، کَسنے کے لیے ایجاد ہوئے تھے، مگر رفتہ رفتہ اُن کا استعمال بھی آرائش کے لیے ہونے لگا، خصوصاً بکسوا، کپڑوں کے علاوہ، دستی بیگ اور جوتوں پر بھی آرائش کا کا م دیتا ہے۔ جدید دور میں جہاں مغرب سے دیگر ایجادات، مشرق میں دَرآئی ہیں، وہیں زیورات سازی میں دیگر دھاتوں کے ساتھ ساتھ پلاٹینم [Platinum]، پَے لیڈئیم [Palladium]اور ٹائی ٹے نئیم [Titanium]کا استعمال بھی شروع کردیا گیا ہے۔
یہ اُمَراء کے خاص مشغلے میں شامل ایک شَغل ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں رائج، خواتین کے مقبول زیورات میں جھُومَر، بِندی، جھُمکا، آویزہ، بُندا، ٹاپس، کان کے چھَلّے[Earrings]، نَتھ، بُلاق، چُوڑیاں، کنگن، بریسلیٹ [Bracelet]، پایل ، پازیب، مالا اور لاکٹ [Locket]شامل ہیں۔ سر کے زیورات میں جھُومَر، جھُومَرپَٹی، بِندی، بِندیا اور ٹِیکا مشہور ہیں، جب کہ گلے کے زیورات میں گلوُ بَند، لاکٹ ، چَمپا کلی اور ہنسلی نمایاں ہیں۔ خواتینِ برصغیر کے ہاتھوں اور بازؤوں میں انگوٹھی، پہونچیاں، بازوبند اور چوڑیاں خوب سجتی ہیں۔ پاؤں کی بات ہو تو ہمیں پایل اور توڑے خاص طور پر یاد آتے ہیں۔
زرگر کا تیرے ہاتھ، جو پہنچے سِپِہر تک زیور بناکے لائے زرِ آفتاب کا
اسیرؔ لکھنوی کے اس شعر کو نازک خیالی کا شاہکار قراردیا جاسکتا ہے اور کیوں نہ ہو...جب ذکر ہو صنف نازک کا اور وہ بھی اُس سے مخصوص زیورجیسے، حُسن کے ہتھیار کا تو نزاکت ہر مقام پر آئے گی، خواہ زیور سازی ہو یا زیور کی تعریف ہو یا زیور زیب تن کرنے والی کی۔ لفظ زیور پہلے 'زیب وَر' تھا یعنی زیب دینے والا، سجنے والا یا جس کی بدولت پہننے والا زیبا یعنی خوب صورت، عمدہ دکھائی دے۔ یہ فارسی سے اردو میں آنے والا لفظ ہے ۔ اردو میں اس کے لیے ہندی لفظ 'گہنا' اور 'پاتا' بھی موجود ہیں۔ اس کے معانی میں زینت ، آرائش اور بناؤ سنگھار شامل ہیں۔ اردو میں زیور کے استعمال سے متعلق بعض دل چسپ محاورے ملاحظہ فرمائیں:
زیور بڑھانایعنی زیور اُتاردینا، ْزیور توڑنا یعنی شوہر کی وفات پر زیور ٹکڑے ٹکڑے کردینا اور زیور سے گوندنی کی طرح لَدے رہنا یعنی بہت سے زیور پہنے رہنا (گوندنی ایک انتہائی مفیدپھل ہے جس کا درخت، اِن دنوں کراچی میں کم یاب ہے۔ یہ پھل ہڈیوں اور جوڑوں کی مضبوطی کے لیے کھایا جاتا ہے اور اس کا لیس بھی اسی مقصد کے تحت جسم کے کمزور حصوں پر لگایا جاتا ہے)۔ بیگماتی زبا ن میں بھی زیور سے متعلق دو محاورے خاصے مشہور رہے ہیں:
ا)۔سونٹا سے ہاتھ یعنی چوڑیوں سے خالی ہاتھ جوڈنڈے سے مشابہہ لگتے ہیں، جیسے خواتین کہا کرتی تھیں: ''میرے دل سے پوچھوکہ آج کل کی فیشن ماری لڑکیوں کے سونٹا سے ہاتھ کتنے بُرے لگتے ہیں''۔ اور
ب)۔ٹبا سا مُنھ یعنی زیور سے محروم چہرہ ...طنزاً کہا جاتا تھا: ''خدا کے لیے کانوں میں بالیاں ہی پہن لو...ٹبا سا مُنھ زہر لگتا ہے''۔(لفظ مُنھ کو مُنہ لکھنے کا رواج عام ہے، مگر صوتی اعتبار سے غلط ہے، کیوں کہ 'ہ' پر اس طرح زورنہیں دیاجاسکتا، جس طر ح 'ھ' پر)۔ کہا جاتا ہے کہ برصغیر پاک وہند میں زیورات کا رواج اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود یہ خطہ۔ مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ پوری دنیا کا ہے۔ ابتدائی انسانی آبادی کے دور سے آرائش کا تصور کسی نہ کسی شکل میں رائج رہا ہے۔ قدیم ہندوستان میں زیورات کا استعمال، ذاتی مقاصد کے علاوہ مذہبی حوالے سے بھی ہوتا تھا۔ قدیم دور سے بھَرَت ناٹی ایم [Bharat Natyam]اور کتھک سمیت ہر طرح کے رقص میں، رقاص یا رقاصہ کے لباس کے لوازم میں مختلف اقسام کے زیورات شامل رہے ہیں۔
ایک طرف تامِل ناڈُو اور کیرالا جیسے بھارتی صوبوں میں زیورسازی کا عمل، فطرت سے قریب تر رہا تو دوسری طرف مغلیہ سلطنت کے فنّی اثرات سے مختلف علاقوں میں مِیناکاری اور کُندن والے زیورات پسند کیے جاتے رہے ہیں۔ زیورات، دُلھن پہنے، کوئی مَلِکہ، کنیز، داسی، فیشن ایبل ماڈل یا عام گھریلو عورت...عموماً کچھ چیزیں بنیادی سمجھی جاتی ہیں، جیسے سر کے زیورات میں جھُومر، جھومر پٹی، ماتھا پٹی، ٹیکا یا تِلَک، چھَپکا اور چُوڈامنی بہت اہم ہیں۔ جھُومر سے تو سبھی واقف ہیں۔
ٹیکا ۔یا۔تِلَک زیور بھی ہے اور ہندؤوں کی مذہبی رسم کے مطابق ماتھے پر لگایا جانے والا نشان بھی...اچھا یہ بات شاید ہماری بہت سی خواتین کے لیے نئی ہو کہ ٹیکا اصل میں ایک پٹّی نُما زیور کا حصہ ہے جو ماتھے سے لے کر، سر کی جَڑ تک لگایا جاتا ہے اور اسے سَراسَری کہتے ہیں۔ چھَپکا بھی جھُومرکی طرح کا زیور ہے جسے بالوں میں باندھ کر ماتھے پر لٹکایا جاتا ہے۔ جُھومر کے متعلق یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ لفظ دیگر معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے عورتوں کا ایک ناچ، عورتوں ہی کا ایک گیت، گِروہ، جھُنڈ، مجمع اور جُھرمُٹ۔ چُوڈامنی ہندو عورتوں کا وہ مخصوص زیور ہے جو چوٹی میں پہنا جاتا ہے۔
پھو ل کی شکل ہونے کی وجہ سے اسے سِیش پھول یا سِیس پھول بھی کہاجاتا ہے۔ یہ اصل میں گیندے کے پھول سے مُشابہہ ہوتا ہے۔ شاید سب سے زیادہ زیورات جس عُضو کے حوالے سے مشہور ہوئے وہ ہے کان۔ کان زیور سے آراستہ ہوں تو خاتون ہر طرح کے مجمع میں نمایاں، اورخالی ہوں تو، کم از کم حلقہ خواتین میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ کان کے اکثر زیور لٹکانے والے ہوتے ہیں، لہٰذا انھیں 'آویزہ' کہتے ہیں۔کانوں کے زیورات میں بُندا سب سے زیادہ مشہور ہے، جسے فارسی اور قدیم اردو میں 'گوشوارہ' بھی کہاجاتا تھا۔
جدید دور میں گوشوارہ، حساب کے خلاصے کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ ویسے بہت بڑے موتی کو بھی گوشوارہ کہا جاتا ہے۔ بَناوَٹ یا ڈیزائن کے فرق سے، قدیم اور جدید طرز کے بُندوں کو 'بالا' یا آویزہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ جب 'بالا' کی بات ہو تو مزید دل چسپ انکشافات سامنے آتے ہیں۔ پرانے زمانے میں نوجوان لڑکے یا سولہ سالہ لڑکی کو بھی 'بالا' کہاجاتا تھا۔ ویسے فارسی زبا ن میں 'بالا' کا مطلب ہے: اُونچا۔ ہمارے معاشرے میں بعض دقیانوسی رُسوُم اور تَوَہّمُات آج بھی رائج اور مقبول ہیں جیسے ''مَنّت کا بُندا پہنانا...جن عورتوں کے بچے، پیدائش کے بعدجلد مرجاتے ہیں، وہ اپنے بچوں کے کان چھِدواکرکسی بزرگ سے عقیدت ظاہر کرتے ہوئے، بُندا پہناتی ہیں اور پھر جب بچہ بڑا ہوجائے تو وہ بُندا اُتاردیتی ہیں۔ اِسے 'بُندا بڑھانا' یا مَنّت بڑھانا کہتے ہیں۔ اس موقع پر نیازبھی دی جاتی ہے۔ جب بُندے سے بالے پر بات آتی ہے تو بالیاں یاد آتی ہیں۔ اب بالیوں کی اقسام ملاحظہ کیجے:
سادہ بالی،ڈھاکا بالی، آدھا کان، پورا کان، پَتّے یا بالی پتے، جھُمکی بالی یا جھُمکے کی بالی، ڈنڈی بالی، چاند بالی، بِجلی بالی، جَڑاؤ بالی، حیدرآبادی جَڑاؤ بالی، مِینا کاری والی بالی اور دُری بالی۔ ڈھاکا بالی کا تعلق ڈھاکا، بنگلہ دیش سے نہیں...البتہ اس میں 'لاکھ' بھرا ہوتا ہے۔ لاکھ جسے انگریزی میںLAC کہتے ہیں، بڑے کام کی چیز ہے۔ 'لاکھ ' ایک ننھا سا کیڑا ہوتا ہے جسے انگریزی میں Lacciferlacca (لیکسی فرلاکا) کہتے ہیںیہ کیڑا پاکستان، بھارت ، میان مار، سری لنکا اور فلی پینز سمیت کئی ممالک میں پایا جاتا ہے۔ 'لاکھ' کیڑے کی اَن گنت مادہ [Females]، بیر، ببول، انجیر، سال، ڈھاک یا کسی اور درخت کی ایک شاخ پر ڈیرہ جماکر اپنے اردگرد، رال جیسے مادّے کی تہہ پیداکرلیتی ہے جو تقریباً دوملی میٹر[2mm]کا ہوتا ہے....یہی لاکھ ہے۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مادہ' لاکھ ' کی محنت سے ایک پونڈ 'لاکھ' حاصل ہوتا ہے۔گھریلو اور صنعتی پیمانے پر 'لاکھ' کا استعمال بہت پرانا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، سولھویں صدی سے رنگ اور وارنش بنانے میں اسے استعمال کیا جارہا ہے۔ لاکھ سے کھلونے، برتن، مصنوعی پھل پھول، بٹن، جوتو ں کی پالش ، مُہر لگانے کا موم، بجلی کے آلات، کتابت کی روشنائی، گراموفون ریکارڈ اور جہازکے پُرزے وغیرہ بھی تیارکیے جاتے ہیں۔ فارسی میں 'لاکھ' کو 'قِرمِز' کہتے ہیں۔ مادہ لاکھ کی 'خشک کردہ' [Dried]لاشوں سے جولال رنگ تیار ہوتا ہے، اُسے قِرمِزی کہتے ہیں۔ یہ رنگ بھی بہت مفید ہے اور ریشمی یا سوتی کپڑے کو رنگنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض خواتین 'قِرمِزی' رنگ سے اپنے تلوے رنگ کر لال کرلیتی ہیں جو مہندی سے زیادہ سُرخی دیتا ہے۔ آدھا کان اور پورا کان نامی بالیاں اپنے نام کے مصداق آدھا یا پورا کان ڈھکتی ہیں۔ ان کی شکل مورجیسی ہوتی ہے اور کبھی کبھی اِن میں جھُمکا بھی لگاہوتا ہے۔ پھر ایک بالی پتّے جیسی ہوتی ہے جسے صرف 'پتّے' بھی کہتے ہیں۔ جاری ہے۔