اقوام متحدہ سے کراچی تک

کراچی کی صورت حال ہمارے سامنے ہے، جہاں چھوٹے بڑے ہتھیاروں سے گزشتہ 25 برسوں سے شہر کے سڑکوں کو سرخ کیا جارہا ہے


Shabbir Ahmed Arman August 05, 2012
[email protected]

KARACHI: میڈیا کی اطلاعات ہیں کہ دنیا میں روایتی ہتھیاروں کی تجارت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ نیویارک میں ہونے والی کانفرنس میں امریکا، روس اور چین نے معاہدے پر غور کرنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔

اقوام متحدہ کے تجویز کردہ اس معاہدے کے تحت ہتھیاروں کی فروخت کے وقت اس بات کو مدنظر رکھا جائے گا کہ یہ ہتھیار کسی منظم جرائم پیشہ گروہ کے ہاتھ نہ آئیں۔ کانفرنس کے سربراہ ٹوگارشیا پرامید ہیں کہ ہتھیاروں کی تجارت کے حوالے سے رواں سال کے اختتام پر معاہدہ طے ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ہتھیاروں کی تجارت کے معاہدے کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسلحے کے پھیلائو پر موثر کنٹرول نہیں، پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ سے زاید ہلکے ہتھیار ہیں، جس سے ہر سال ہزاروں افراد ہلاک کردیے جاتے ہیں۔ جرائم اور منشیات کے پھیلائو پر نظر رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 12 فیصد افراد کے پاس چھوٹا اسلحہ ہے، ملک بھر میں پستول اور ریوالور جیسے چھوٹے ہتھیاروں کی تعداد 1 کروڑ 80 لاکھ سے زاید ہے۔

امریکا میں 88 فیصد لوگوں کے پاس پستولیں، رائفلز اور ریوالورز ہیں، امریکا میں 28 فیصد قتل ایسے ہی ہتھیاروں سے ہوتے ہیں، اسلحے سے ہونے والی قتل و غارت میں پورٹوریکو سب سے آگے ہے جہاں 95 فیصد لوگ دوسروں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

9/11 کے بعد جو امریکی پالیسی کھل کر سامنے آئی ہے اس میں باہمی مذاکرات کے طریقے کو یکسر تبدیل کردیا گیا ہے، یعنی ''حملہ ہونے سے پہلے حملہ کردو'' کی پالیسی کو فروغ دیا جارہا ہے، جس کا سب سے بڑا فائدہ وہ ممالک اٹھا رہے ہیں جو اسلحے کے بیوپاری ہیں۔ ایسے حالات میں یہ توقع رکھنا کہ دنیا امن کی طرف گامزن ہے عبث ہے۔

سچ یہ ہے کہ دنیا کے بڑے اسلحے کے بیوپاری ممالک ان ممالک پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں جہاں خانہ جنگی کا دور ہے، جہاں نسلی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر جنگیں لڑی جارہی ہیں، جہاں امن ہوتا ہے وہاں یہ طاقتیں مل کر ایسے حالات پیدا کروادیتی ہیں کہ وہاں ان کے اسلحے کی مارکیٹ بن سکے۔ اگر واقعی دنیا کو اسلحے سے پاک کرنا سنجیدہ مقصد ہے تو سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ کس کے پاس کتنا اسلحہ ہے؟

جس ملک کے پاس سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیار ہیں، اس ملک سے اسلحہ تلف کرنے کا ایمان دارانہ آغاز کیا جانا چاہیے مگر ایسا حقیقی صورت میں ممکن نہیں ہے کیونکہ جن ممالک کے پاس سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیار ہیں، وہ دنیا کے طاقت ور ممالک کہلاتے ہیں۔

اسلحہ تلف کرنے کا مقصد ان کے نزدیک یہ ہے کہ کمزور غریب ممالک کسی طور پر سر نہ اٹھاسکیں اور وہ ہمیشہ دست نگر رہیں، مزید براں یہ کہ انھیں چھوٹے موٹے ہتھیار فروخت کرکے خوب مال بنایا جاسکے۔ اس عمل کو صرف اپنی ہی اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دینا کہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 60 کروڑ سے زاید چھوٹے اور ہلکے ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں اور ان سے یومیہ ایک ہزار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جنوبی ایشیا بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے، لیکن جب ہم ان بارود اور اسلحے کی ساخت پر نظر کرتے ہیں تو ان پر میڈ اِن USA لکھا ہوتا ہے۔ یعنی امریکا جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے والا ملک ہے۔

بات واضح ہے کہ طاقت ور ممالک اپنی قوت میں اضافہ کررہے ہیں اور اس قوت کو کمزوروں پر آزما بھی رہے ہیں، جس وجہ سے دنیا عدم استحکام سے دوچار ہے اور عدم استحکام کے شکار ممالک کو چھوٹے بڑے خطرناک سے خطرناک ہتھیار فروخت بھی کررہے ہیں اور رونا بھی رو رہے ہیں کہ دنیا کو امن کی ضرورت ہے اور امن کے لیے دنیا کو میدانِ جنگ بھی بناچکے ہیں اور پھر ان ہتھیاروں کو غلط ہاتھوں سے روکنے کے لیے تدبیریں بھی کررہے ہیں۔

امن کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے، جنگ برائے امن کا راستہ امن کا ضامن نہیں ہے۔ مذاکرات برائے امن کی پالیسی ہی دنیا کو حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بناسکتی ہے۔

ہمارا مدعا یہ ہے کہ دنیا کو حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ایسا منصفانہ عالمی رویہ اختیار کیا جائے کہ جس سے ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ دم توڑ دے اور طاقت ور ممالک کمزور اور چھوٹے ممالک کو بلیک میل کرنے کے بجائے ان کی ترقی میں ان کا ساتھ دیں۔

کراچی کی صورت حال ہمارے سامنے ہے، جہاں چھوٹے بڑے ہتھیاروں سے گزشتہ 25 برسوں سے شہر کے سڑکوں کو سرخ کیا جارہا ہے۔ روزانہ 5 سے 16 افراد سرعام قتل کیے جارہے ہیں۔

عدم تحفظ کے اس ماحول کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ اس طرح شہر کی ترقی میں بھی خلل واقع ہورہا ہے۔ غور طلب پہلو ہے کہ شہر کراچی کیسے چھوٹے بڑے ہتھیاروں کی چھائوں میں ہے؟

نادیدہ قوتیں شہر کراچی کی معاشی فضا کو تباہ کرکے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ خانہ جنگی کی صورت حال کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے خاتمے کے لیے شہر میں بسنے والی تمام لسانی اکائیوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کسی مخصوص گروہ کو ذمے دار ٹھہرانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔

قتل غارت گری کوئی بھی کرے، ان کا تعلق کسی ذات پات سے نہیں ہوتا، وہ صرف انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں جو اپنے آقائوں کے اشارے پر شہر کا سکون تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔کسی سیاسی پارٹی کے عہدے دار، کارکنان، مذہبی رہنمائوں، تاجروں اور عام لوگوں کا قتل عام حکمرانوں کے نزدیک بڑی بات نہیں ان کی سوچ یہ ہے کہ وہ کراچی کو گنجان والی آبادی تصور کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ کروڑوں کی آبادی میں اکا دکّا قتل معمول ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انسانیت کے دشمنوں کے نرغے میں قانون نافذ کرنے والے بھی ہے۔ ان کو نشانہ بنانا بھی معمول بنتا جارہا ہے۔ پھر بھی ہمیں ہوش نہیں آتا کہ اس قتل غارت گری کے پیچھے کیا مقاصد پوشیدہ ہیں؟ سارا زور سیاسی بیانات پر دے کر اصل دشمن کی پردہ پوشی کی جارہی ہے۔ خدا کا خوف کھائیں! کراچی کو بچائیں! ''ہتھیار سب کے لیے'' یا ''ہتھیار کسی کے لیے نہیں'' کا نعرہ بلند ہونا چاہیے۔ دونوں صورتوں میں قیام امن میں مدد مل سکتی ہے، کیوں کہ ''طاقت کا توازن یکساں کرنے کی ضرورت ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں