لندن میں دھرنا تھری کی پلاننگ۔ لیکن ابھی ابہام ہے
یہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کا بہترین وقت ہے
لند ن میں کیا ہورہا ہے۔ لندن میں کیا فیصلے ہو رہے ہیں۔ لندن میں بیٹھے نواز شریف اپنے رفقا کے ساتھ کیا مشاورت کر رہے ہیں۔ کیا پارٹی صدر بننے کے بعد نواز شریف نے جشن فتح کے لیے اپنے رفقا کو لندن بلا یا ہے کہ اکیلے جشن میں مزہ نہیں آرہا تھا۔ کیا پارٹی صدر بننے کے بعد نیب کے مقدمات سے لڑناآسان ہو جائے گا۔ مشکلات آسان ہو جائیں گی۔ لندن میں ابہام ہے۔ دل اور دماغ ایک ساتھ نہیں چل رہے۔ غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ شش و پنج بھی ہے اور خواہشات کا سمندر بھی ہے۔ رفقا سے اختلاف بھی ہے اور رفقا پر غصہ بھی ہے۔ لیکن وقت کی نزاکت کا احساس بھی۔ سب کچھ نے ماحول کو واقعی عجیب کر دیا ہے۔ لندن والوں کو بھی نہیں معلوم وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیا ممکن ہے اور جو نا ممکن ہے اس کو ممکن کیسے بنایا جائے۔
یہ درست ہے کہ نواز شریف وطن واپس آنا چاہتے ہیں۔مریم نواز بھی وطن واپس آنا چاہتی ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ دونوں جیل جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن رفقا کہتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ پانچ حکومتوں والی پارٹی کا صدر اور مستقبل کی قیادت جیل میں ہو۔ ایسے میں پانچ حکومتیں کیا کریں گی۔ یہ حکومتوں کے لیے مشکل صورتحال ہو گی۔ لیکن نواز شریف سمجھتے ہیں یہ ان کے لیے مشکل نہیں بہترین صورتحال ہے۔ اس لیے اگر جیل جانا ہے تو یہ بہترین وقت ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا موقف ہے کہ اگر وہ اس وقت جیل جاتے ہیں تو کیا ہو گا۔ پنجاب میں اپنی حکومت ہے۔ مرکز میں اپنا وزیر اعظم ہے۔ جیل میں کوئی سختی نہیں ہو سکتی بلکہ یہ آسان جیل ہو گی۔ ہر روز حکومت ان کو ملنے آئے گی۔
وہ جیل میں پارٹی کے سربراہ ہو نگے۔ ایک دن پاکستان کے وزیر اعظم آئیں گے، پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ ملنے آئیں گے، پھر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ملنے آئیں گے، پھر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ملنے آئیں گے، پھر گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ ملنے آئیں گے۔ پھر اسپیکر قومی اسمبلی بھی آئیں گے۔ صدر پاکستان بھی ملنے آئیں گے۔ اس طرح ہفتہ مکمل ہو جائے گا۔ ابھی تووزرا اور ارکان اسمبلی کی باری ہی نہیں آئی۔ انھوں نے بھی آنا ہے۔ ایسے میں جیل کیا مسئلہ ہے۔ اسی طرح روز جیل کے باہر دھرنا بھی ہو گا۔ قومی اسمبلی میں ڈیڑھ سو ارکان قومی اسمبلی ہیں۔آزاد کشمیر تو ساتھ ہی ہے۔ وہاں سے بھی وزرا اور ارکان اسمبلی لوگ لائیں گے اور دھرنا دیں گے۔
اس لیے دھرنا دینے والے لوگ زیادہ ہو نگے۔ اور سب کی باری آرام سے ہی آئے گی۔ایسے میں جب آپ حکومت کے مہمان ہوں ۔ ارکان اسمبلی اور اورکارکنان نے باہر دھرنا دیا ہو تو جیل جانے میں کوئی مضا ئقہ نہیں۔ جو کم بندے لائے گا اس کا ٹکٹ ختم۔ پنجاب اسمبلی کا ایک غیر رسمی اجلاس نواز شریف اور مریم نواز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جیل کے باہر بھی ہو سکتا ہے۔ پھر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر بھی تو ساتھ ہوں گے۔ لاہور کے ضلعی اسمبلی مئیر ڈپٹی مئیر کے ساتھ پنجاب کے تمام شہروں میں ن لیگ کی ضلعی حکومتیں ہیں۔ وہ بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔ موسم بھی اچھا ہو رہا ہے۔گرمیاں ختم ہو گئی ہیں۔
یہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کا بہترین وقت ہے۔ ہم بھر پور جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ تو کیوں نہ دیں۔ بھاگنے کی کیا ضرورت ہے۔ہم کمزور نہیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ غیر ملکی بھی ملنے آ جائیں۔ یقیناً یہ ایک دلچسپ صورتحال ہو گی۔ لیکن نواز شریف کے رفقا کو خدشات ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ بھی مشکلات میں کمی نہیں کرے گا۔ احتسا ب عدالت میں مقدمات چلیں گے۔ سزا بھی ہو جائے گی۔ پھر ہم کیا کریں گے۔ سزایافتہ لیڈر کی قیادت میں اگلا لیکشن کیسے لڑیں گے۔ پہلے نا اہلی سے نبٹنا مشکل ہو رہا ہے۔ پھر سزا یا فتہ ہونے کے بعد مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اگر لندن میں بیٹھ کر سزا سے بچا جا سکتا ہے تو کیوں نہ اس آپشن کو استعمال کیا جائے۔ یہ کوئی چند دن یا چندماہ کی جیل نہیں کہ جشن لگ جائے گا۔ مقابلہ میں اپوزیشن بھی دھرنا دے سکتی ہے۔ انھوں نے بھی جیل کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کر دیا توکیا ہو گا۔ اس سب کچھ کے خلاف عدالتوں میں درخواستیں دی جائیں گی اگر عدالت نے اس سب پر پابندی لگا دی تو کیا کریں گے۔ کیا عدالتوں کے احکامات کی خلاف ورزی کی جائے گی۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر جیل کے باہر مسلم لیگ (ن) کے متوالوں کے دھرنے چھوٹے اور ان کے مخالفین کے دھرنے بڑے ہو گئے تو میڈیا کیا تاثر دے گا۔لڑائی کس سطح پر پہنچ جائے گی۔ ساری اپوزیشن اکٹھی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ن لیگ کے مفاد میں نہیں ہو گا۔چلیں اس حد تک تو اچھی خبر آئی ہے کہ اسحاق ڈار کے استعفیٰ پر اتفاق ہو گیا ہے۔ورنہ مجھے تو ڈر تھا کہ کہیں نواز شریف یہ فیصلہ نہ کر دیتے کہ ڈار پاکستان جیل میں چلے جاؤ اور تم جیل میں بھی پاکستان کے وزیر خزانہ ہو گے۔ کابینہ کے اجلاس کے لیے وزیر اعظم خود ہی تمھارے پروڈکشن آرڈر جاری کرے گا۔ اسلام آباد میں منسٹر کالونی میں اسحاق ڈار کے گھر کو بھی سب جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ تا کہ وہ جیل میں بھی رہ سکیں اور اپنی بطور وزیر خزانہ ذمے داریاں بھی ادا کر سکیں۔
اگر وسیم اختر جیل سے کراچی کے مئیر ہو سکتے ہیں تو ڈار جیل سے وزیر خزانہ کیوں نہیں ہو سکتے۔ کہتے ہیں وہ تو ڈار ہی نہیں مانے۔ انھوں نے خود ہی لندن رہنے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے کہا ہے کہ میں نے پہلے بھی کافی جیل کاٹ لی ہے اب مجھے معاف کر دیا جائے۔ اللہ کا بہت شکر ہے کہ اس نے اسحاق ڈار کو ہدایت دی کہ وہ وزارت کی جان چھوڑ دیں۔ جہاں تک شہباز شریف کے مستقبل کا سوال ہے۔ اس پر نواز شریف یکسو نہیں ہیں۔ اس پرابھی بات چیت جاری ہے۔ لگتا ہے کہ آیندہ چوبیس گھنٹوں میں جب کوئی حکمت عملی واضح ہو گی تو شہباز شریف کا کردار واضح ہو گا۔ اگر واپسی کا فیصلہ ہوا تو صورتحال مختلف ہو گی۔ اگر واپسی کا فیصلہ نہ ہوا، تو صورتحال مختلف ہو گی۔ ابہام کے اس موسم میں شہباز شریف کے مستقبل کا فیصلہ بھی ابہام کا شکار ہے۔
ویسے ساری صورتحال لکھنے کے بعد مجھے پتہ نہیں ایسا کیوں لگنے لگا ہے کہ میں فلم سرکار کا پارٹ ٹو کی کہانی لکھ رہا ہوں۔ لیکن کیا کروں فلموں کی کہانیاں بھی کہیں نہ کہیں حقیقت سے لے کر ہی بنائی جاتی ہیں۔ بہر حال فیصلہ کچھ بھی ہو یہ کسی سپر ہٹ فلم کا اچھا اسکرپٹ ہو سکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ نواز شریف وطن واپس آنا چاہتے ہیں۔مریم نواز بھی وطن واپس آنا چاہتی ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ دونوں جیل جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن رفقا کہتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ پانچ حکومتوں والی پارٹی کا صدر اور مستقبل کی قیادت جیل میں ہو۔ ایسے میں پانچ حکومتیں کیا کریں گی۔ یہ حکومتوں کے لیے مشکل صورتحال ہو گی۔ لیکن نواز شریف سمجھتے ہیں یہ ان کے لیے مشکل نہیں بہترین صورتحال ہے۔ اس لیے اگر جیل جانا ہے تو یہ بہترین وقت ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کا موقف ہے کہ اگر وہ اس وقت جیل جاتے ہیں تو کیا ہو گا۔ پنجاب میں اپنی حکومت ہے۔ مرکز میں اپنا وزیر اعظم ہے۔ جیل میں کوئی سختی نہیں ہو سکتی بلکہ یہ آسان جیل ہو گی۔ ہر روز حکومت ان کو ملنے آئے گی۔
وہ جیل میں پارٹی کے سربراہ ہو نگے۔ ایک دن پاکستان کے وزیر اعظم آئیں گے، پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ ملنے آئیں گے، پھر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ملنے آئیں گے، پھر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ملنے آئیں گے، پھر گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ ملنے آئیں گے۔ پھر اسپیکر قومی اسمبلی بھی آئیں گے۔ صدر پاکستان بھی ملنے آئیں گے۔ اس طرح ہفتہ مکمل ہو جائے گا۔ ابھی تووزرا اور ارکان اسمبلی کی باری ہی نہیں آئی۔ انھوں نے بھی آنا ہے۔ ایسے میں جیل کیا مسئلہ ہے۔ اسی طرح روز جیل کے باہر دھرنا بھی ہو گا۔ قومی اسمبلی میں ڈیڑھ سو ارکان قومی اسمبلی ہیں۔آزاد کشمیر تو ساتھ ہی ہے۔ وہاں سے بھی وزرا اور ارکان اسمبلی لوگ لائیں گے اور دھرنا دیں گے۔
اس لیے دھرنا دینے والے لوگ زیادہ ہو نگے۔ اور سب کی باری آرام سے ہی آئے گی۔ایسے میں جب آپ حکومت کے مہمان ہوں ۔ ارکان اسمبلی اور اورکارکنان نے باہر دھرنا دیا ہو تو جیل جانے میں کوئی مضا ئقہ نہیں۔ جو کم بندے لائے گا اس کا ٹکٹ ختم۔ پنجاب اسمبلی کا ایک غیر رسمی اجلاس نواز شریف اور مریم نواز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جیل کے باہر بھی ہو سکتا ہے۔ پھر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر بھی تو ساتھ ہوں گے۔ لاہور کے ضلعی اسمبلی مئیر ڈپٹی مئیر کے ساتھ پنجاب کے تمام شہروں میں ن لیگ کی ضلعی حکومتیں ہیں۔ وہ بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔ موسم بھی اچھا ہو رہا ہے۔گرمیاں ختم ہو گئی ہیں۔
یہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کا بہترین وقت ہے۔ ہم بھر پور جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ تو کیوں نہ دیں۔ بھاگنے کی کیا ضرورت ہے۔ہم کمزور نہیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ غیر ملکی بھی ملنے آ جائیں۔ یقیناً یہ ایک دلچسپ صورتحال ہو گی۔ لیکن نواز شریف کے رفقا کو خدشات ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ بھی مشکلات میں کمی نہیں کرے گا۔ احتسا ب عدالت میں مقدمات چلیں گے۔ سزا بھی ہو جائے گی۔ پھر ہم کیا کریں گے۔ سزایافتہ لیڈر کی قیادت میں اگلا لیکشن کیسے لڑیں گے۔ پہلے نا اہلی سے نبٹنا مشکل ہو رہا ہے۔ پھر سزا یا فتہ ہونے کے بعد مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اگر لندن میں بیٹھ کر سزا سے بچا جا سکتا ہے تو کیوں نہ اس آپشن کو استعمال کیا جائے۔ یہ کوئی چند دن یا چندماہ کی جیل نہیں کہ جشن لگ جائے گا۔ مقابلہ میں اپوزیشن بھی دھرنا دے سکتی ہے۔ انھوں نے بھی جیل کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کر دیا توکیا ہو گا۔ اس سب کچھ کے خلاف عدالتوں میں درخواستیں دی جائیں گی اگر عدالت نے اس سب پر پابندی لگا دی تو کیا کریں گے۔ کیا عدالتوں کے احکامات کی خلاف ورزی کی جائے گی۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر جیل کے باہر مسلم لیگ (ن) کے متوالوں کے دھرنے چھوٹے اور ان کے مخالفین کے دھرنے بڑے ہو گئے تو میڈیا کیا تاثر دے گا۔لڑائی کس سطح پر پہنچ جائے گی۔ ساری اپوزیشن اکٹھی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ن لیگ کے مفاد میں نہیں ہو گا۔چلیں اس حد تک تو اچھی خبر آئی ہے کہ اسحاق ڈار کے استعفیٰ پر اتفاق ہو گیا ہے۔ورنہ مجھے تو ڈر تھا کہ کہیں نواز شریف یہ فیصلہ نہ کر دیتے کہ ڈار پاکستان جیل میں چلے جاؤ اور تم جیل میں بھی پاکستان کے وزیر خزانہ ہو گے۔ کابینہ کے اجلاس کے لیے وزیر اعظم خود ہی تمھارے پروڈکشن آرڈر جاری کرے گا۔ اسلام آباد میں منسٹر کالونی میں اسحاق ڈار کے گھر کو بھی سب جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ تا کہ وہ جیل میں بھی رہ سکیں اور اپنی بطور وزیر خزانہ ذمے داریاں بھی ادا کر سکیں۔
اگر وسیم اختر جیل سے کراچی کے مئیر ہو سکتے ہیں تو ڈار جیل سے وزیر خزانہ کیوں نہیں ہو سکتے۔ کہتے ہیں وہ تو ڈار ہی نہیں مانے۔ انھوں نے خود ہی لندن رہنے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے کہا ہے کہ میں نے پہلے بھی کافی جیل کاٹ لی ہے اب مجھے معاف کر دیا جائے۔ اللہ کا بہت شکر ہے کہ اس نے اسحاق ڈار کو ہدایت دی کہ وہ وزارت کی جان چھوڑ دیں۔ جہاں تک شہباز شریف کے مستقبل کا سوال ہے۔ اس پر نواز شریف یکسو نہیں ہیں۔ اس پرابھی بات چیت جاری ہے۔ لگتا ہے کہ آیندہ چوبیس گھنٹوں میں جب کوئی حکمت عملی واضح ہو گی تو شہباز شریف کا کردار واضح ہو گا۔ اگر واپسی کا فیصلہ ہوا تو صورتحال مختلف ہو گی۔ اگر واپسی کا فیصلہ نہ ہوا، تو صورتحال مختلف ہو گی۔ ابہام کے اس موسم میں شہباز شریف کے مستقبل کا فیصلہ بھی ابہام کا شکار ہے۔
ویسے ساری صورتحال لکھنے کے بعد مجھے پتہ نہیں ایسا کیوں لگنے لگا ہے کہ میں فلم سرکار کا پارٹ ٹو کی کہانی لکھ رہا ہوں۔ لیکن کیا کروں فلموں کی کہانیاں بھی کہیں نہ کہیں حقیقت سے لے کر ہی بنائی جاتی ہیں۔ بہر حال فیصلہ کچھ بھی ہو یہ کسی سپر ہٹ فلم کا اچھا اسکرپٹ ہو سکتا ہے۔