آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ
عشق ہوجائے تو پھر روگ کہاں جاتے ہیں
TORONTO:
یہ لوگ ہی تو ہیں جو راہیں سجھاتے ہیں، پھر ان پر چلاتے ہیں، مسافر تھک جائے تو ہمت دلاتے ہیں، پیٹھ تھپتھپاتے ہیں، منزل کی اور اشارہ کرتے ہیں، کہتے ہیں! دیکھو وہ رہی منزل، اٹھو گرد جھاڑو اور چلو، چلو کہ منزل تمہارا انتظار کر رہی ہے، تمہاری راہ تک رہی ہے۔ زندگی کی راہ میں لوگ ملتے ہی چلے جاتے ہیں اور پھر انھی میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہیں۔ مستقل بس جاتے ہیں۔
آنکھیں دروازہ ہوتی ہیں، داخلہ یہیں سے ہوتا ہے، دل کو رستہ یہیں سے جاتا ہے۔ پھر سر کا سودا بن جائیں، خون بن کر شریانوں میں دوڑیں، جسم و جاں میں رچ بس جائیں، جدھر مرضی گھومیں پھریں مگر داخلہ آنکھیں ہی دیتی ہیں اور بسیرا بھی دیتی ہیں۔ میرے سامنے ایک کتاب پڑی ہے۔ ''آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ'' یہ کتاب آنکھوں میں ٹھہرے لوگوں کی منظوم داستان ہے، جو کچھ انھوں نے کہا، شاعر شبیر نازش نے بیان کردیا۔ کتاب کے شروع میں ہی شاعر نے یہ بتادیا ہے کہ
آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ کہاں جاتے ہیں
عشق ہوجائے تو پھر روگ کہاں جاتے ہیں
شاعر تو سودائی ہوتے ہیں، نگر نگر گھومنا، ڈگر ڈگر پھرنا، اسی گھومتے پھرتے میں انھیں شاعری ملتی ہے۔ شبیر نازش کہتا ہے
دل ہی نادان ہے جو لے کے ہمیں جاتا ہے
ورنہ اس شہر میں ہم لوگ کہاں جاتے ہیں
شاعر کو اس کی آنکھوں کے مقیم نگر نگر ڈگر ڈگر گھماتے رہتے ہیں، شاعر اپنے گاؤں پہنچتا ہے تو کہتا ہے:
یہاں تغاروں میں ہوتی تھی کچھ گندھی مٹی
بہار میں چاک پہ کوزے بنایا کرتا تھا
شہروں میں درختوں پر نظر کہاں پڑتی ہے، فلک بوس عمارتیں، چمکیلی کاریں، یہی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ شاعر کو گاؤں میں درخت بھی نظر آئے۔
کیا ظرف ہے درخت کا، حیرت کی بات ہے
ملتا ہے پھر خزاں سے جو شاخیں نکال کے
گاؤں میں آج بھی وہی منظر ہے، جاگیردار اور کمی، وہ اوپر بیٹھا ہے یہ زمین پر اور قدموں میں۔
ہر شخص اپنے قد کے برابر دکھائی دے
سوچیں جو درمیان سے ذاتیں نکال کے
یہی وہ گاؤں تھا، جہاں شاعر کی محبت آباد تھی۔ گاؤں آیا تو بہت کچھ یاد آنے لگا، دل میں درد بھری لہر اٹھی، پھر سکون سا مل گیا۔
دے رہی ہے جو سکوں درد میں گاہے گاہے
ہو نہ ہو یہ اسی آنچل کی ہوا لگتی ہے
مگر اب یہ گاؤں بھی وہ گاؤں نہیں تھا، بہت کچھ نہیں سب کچھ بدل گیا تھا۔
سونے پڑے ہیں گھونسلے شامیں اداس ہیں
چہکار کیا ہوئی وہ پکھیرو کہاں گئے
سانجھے چبوترے تھے، محبت تھی، گیان تھا
وہ رکھ رکھاؤ کیا ہوا، تہذیب کیا ہوئی
جن میں تھی اگلے وقت کی خوبو کہاں گئے
اے زندگی بتا تری شوخی کہاں گئی
سر چڑھ کے بولتے ہوئے جادو کہاں گئے
شاعر کی آنکھوں کے مقیم بولے ''چلو! چلیں'' شاعر یہ کہتا ہوا رخصت ہورہا ہے
جانے کس دیس میں جا نکلا ہوں
تیرے بارے میں سوچتا ہوا میں
یہ تو وہ گاؤں ہی نہیں، نہ وہ لوگ، نہ وہ رستے، گلیاں۔ شہر میں وہی ''جھوٹ کا اونچا سر'' شاعر اسی جھوٹے ماحول میں رہ رہا ہے مگر وہ سچ کا ساتھ نبھارہا ہے۔
تیرگی! شکریہ کہ تیرے سبب
روشنی سے ہوا ہے عشق مجھے
وہ شاعر ہے، محبت اس کا ایمان ہے، ہر پیغمبر نے ہر اوتار نے، ہر بڑے آدمی نے محبت ہی کا درس دیا ہے۔ یہ اور بات کہ ان سب کے ماننے والے محبت سے انکاری ہیں، مگر شاعر تو محبت ہی کو جانتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اگر وہ واقعی شاعر ہے:
اپنے نزدیک محبت ہے عبادت کی طرح
ہم عبادت کی تجارت نہیں کرنے والے
کاٹ کر پھینک دے سر، چاہے سجا نیزے پر
ہم ترے ہاتھ پر بیعت نہیں کرنے والے
حاکم وقت ذرا اپنے گریبان میں جھانک
لوگ بے وجہ بغاوت نہیں کرنے والے
شاعر یہ بھی کہتا ہے۔
گلے ملو کہ محبت پذیر ہیں ہم لوگ
بدی سے ہے ہمیں نفرت کسی بھی بد سے نہیں
یہ منظر دیکھ کر بھی شاعر تڑپ اٹھتا ہے۔
دیکھیے ضعیف کاندھوں پہ محنت کے جب نشان
بچوں نے کچھ بھی باپ سے مانگا نہ پھر کبھی
یہ شاعر بھی بہت دور تک جانا چاہتا ہے، کائنات کے اسرار و رموز اسے اکساتے رہتے ہیں۔
کہاں تک سلسلہ ہے زماں و مکاں کا
کہاں تک زندگی پھیلی ہوئی ہے
پتا نہیں شاعر کے کیا ارادے ہیں۔
اس طرف منہ نہیں کرتا، کوئی ڈرتا لیکن
ہم جو گزرے تو ادھر سے بھی جہاں گزرے گا
چند اشعار بلا تبصرہ کے۔
چل رہی تھی تو سب مسافر تھے
ناؤ ڈوبی تو ناخدا ہوا میں
...
رفتہ رفتہ رہرو منزل نشیں ہوجائیںگے
ساحلوں پر گیت گاتا ناخدا رہ جائے گا
...
مہ و نجوم بنے اور کہکشائیں بنیں
میں گرد جھاڑ کے جس وقت آسماں سے اٹھا
...
نازشؔ ایسا قلندرانہ مزاج
کوئی ہوگا تو ہوگا صدیوں میں
میں نے شبیر نازشؔ کو شعری نشستوں میں سنا ہے، وہ خوب پڑھتا ہے اور سامعین اسے خوب سنتے ہیں، شبیر نازش کو واقعی بہت دور تلک جانا ہے اور جب وہ چلے گا تو رستہ کٹتا ہی جائے گا، منزلیں ملتی جائیںگی۔
یہ لوگ ہی تو ہیں جو راہیں سجھاتے ہیں، پھر ان پر چلاتے ہیں، مسافر تھک جائے تو ہمت دلاتے ہیں، پیٹھ تھپتھپاتے ہیں، منزل کی اور اشارہ کرتے ہیں، کہتے ہیں! دیکھو وہ رہی منزل، اٹھو گرد جھاڑو اور چلو، چلو کہ منزل تمہارا انتظار کر رہی ہے، تمہاری راہ تک رہی ہے۔ زندگی کی راہ میں لوگ ملتے ہی چلے جاتے ہیں اور پھر انھی میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جو آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہیں۔ مستقل بس جاتے ہیں۔
آنکھیں دروازہ ہوتی ہیں، داخلہ یہیں سے ہوتا ہے، دل کو رستہ یہیں سے جاتا ہے۔ پھر سر کا سودا بن جائیں، خون بن کر شریانوں میں دوڑیں، جسم و جاں میں رچ بس جائیں، جدھر مرضی گھومیں پھریں مگر داخلہ آنکھیں ہی دیتی ہیں اور بسیرا بھی دیتی ہیں۔ میرے سامنے ایک کتاب پڑی ہے۔ ''آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ'' یہ کتاب آنکھوں میں ٹھہرے لوگوں کی منظوم داستان ہے، جو کچھ انھوں نے کہا، شاعر شبیر نازش نے بیان کردیا۔ کتاب کے شروع میں ہی شاعر نے یہ بتادیا ہے کہ
آنکھ میں ٹھہرے ہوئے لوگ کہاں جاتے ہیں
عشق ہوجائے تو پھر روگ کہاں جاتے ہیں
شاعر تو سودائی ہوتے ہیں، نگر نگر گھومنا، ڈگر ڈگر پھرنا، اسی گھومتے پھرتے میں انھیں شاعری ملتی ہے۔ شبیر نازش کہتا ہے
دل ہی نادان ہے جو لے کے ہمیں جاتا ہے
ورنہ اس شہر میں ہم لوگ کہاں جاتے ہیں
شاعر کو اس کی آنکھوں کے مقیم نگر نگر ڈگر ڈگر گھماتے رہتے ہیں، شاعر اپنے گاؤں پہنچتا ہے تو کہتا ہے:
یہاں تغاروں میں ہوتی تھی کچھ گندھی مٹی
بہار میں چاک پہ کوزے بنایا کرتا تھا
شہروں میں درختوں پر نظر کہاں پڑتی ہے، فلک بوس عمارتیں، چمکیلی کاریں، یہی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ شاعر کو گاؤں میں درخت بھی نظر آئے۔
کیا ظرف ہے درخت کا، حیرت کی بات ہے
ملتا ہے پھر خزاں سے جو شاخیں نکال کے
گاؤں میں آج بھی وہی منظر ہے، جاگیردار اور کمی، وہ اوپر بیٹھا ہے یہ زمین پر اور قدموں میں۔
ہر شخص اپنے قد کے برابر دکھائی دے
سوچیں جو درمیان سے ذاتیں نکال کے
یہی وہ گاؤں تھا، جہاں شاعر کی محبت آباد تھی۔ گاؤں آیا تو بہت کچھ یاد آنے لگا، دل میں درد بھری لہر اٹھی، پھر سکون سا مل گیا۔
دے رہی ہے جو سکوں درد میں گاہے گاہے
ہو نہ ہو یہ اسی آنچل کی ہوا لگتی ہے
مگر اب یہ گاؤں بھی وہ گاؤں نہیں تھا، بہت کچھ نہیں سب کچھ بدل گیا تھا۔
سونے پڑے ہیں گھونسلے شامیں اداس ہیں
چہکار کیا ہوئی وہ پکھیرو کہاں گئے
سانجھے چبوترے تھے، محبت تھی، گیان تھا
وہ رکھ رکھاؤ کیا ہوا، تہذیب کیا ہوئی
جن میں تھی اگلے وقت کی خوبو کہاں گئے
اے زندگی بتا تری شوخی کہاں گئی
سر چڑھ کے بولتے ہوئے جادو کہاں گئے
شاعر کی آنکھوں کے مقیم بولے ''چلو! چلیں'' شاعر یہ کہتا ہوا رخصت ہورہا ہے
جانے کس دیس میں جا نکلا ہوں
تیرے بارے میں سوچتا ہوا میں
یہ تو وہ گاؤں ہی نہیں، نہ وہ لوگ، نہ وہ رستے، گلیاں۔ شہر میں وہی ''جھوٹ کا اونچا سر'' شاعر اسی جھوٹے ماحول میں رہ رہا ہے مگر وہ سچ کا ساتھ نبھارہا ہے۔
تیرگی! شکریہ کہ تیرے سبب
روشنی سے ہوا ہے عشق مجھے
وہ شاعر ہے، محبت اس کا ایمان ہے، ہر پیغمبر نے ہر اوتار نے، ہر بڑے آدمی نے محبت ہی کا درس دیا ہے۔ یہ اور بات کہ ان سب کے ماننے والے محبت سے انکاری ہیں، مگر شاعر تو محبت ہی کو جانتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اگر وہ واقعی شاعر ہے:
اپنے نزدیک محبت ہے عبادت کی طرح
ہم عبادت کی تجارت نہیں کرنے والے
کاٹ کر پھینک دے سر، چاہے سجا نیزے پر
ہم ترے ہاتھ پر بیعت نہیں کرنے والے
حاکم وقت ذرا اپنے گریبان میں جھانک
لوگ بے وجہ بغاوت نہیں کرنے والے
شاعر یہ بھی کہتا ہے۔
گلے ملو کہ محبت پذیر ہیں ہم لوگ
بدی سے ہے ہمیں نفرت کسی بھی بد سے نہیں
یہ منظر دیکھ کر بھی شاعر تڑپ اٹھتا ہے۔
دیکھیے ضعیف کاندھوں پہ محنت کے جب نشان
بچوں نے کچھ بھی باپ سے مانگا نہ پھر کبھی
یہ شاعر بھی بہت دور تک جانا چاہتا ہے، کائنات کے اسرار و رموز اسے اکساتے رہتے ہیں۔
کہاں تک سلسلہ ہے زماں و مکاں کا
کہاں تک زندگی پھیلی ہوئی ہے
پتا نہیں شاعر کے کیا ارادے ہیں۔
اس طرف منہ نہیں کرتا، کوئی ڈرتا لیکن
ہم جو گزرے تو ادھر سے بھی جہاں گزرے گا
چند اشعار بلا تبصرہ کے۔
چل رہی تھی تو سب مسافر تھے
ناؤ ڈوبی تو ناخدا ہوا میں
...
رفتہ رفتہ رہرو منزل نشیں ہوجائیںگے
ساحلوں پر گیت گاتا ناخدا رہ جائے گا
...
مہ و نجوم بنے اور کہکشائیں بنیں
میں گرد جھاڑ کے جس وقت آسماں سے اٹھا
...
نازشؔ ایسا قلندرانہ مزاج
کوئی ہوگا تو ہوگا صدیوں میں
میں نے شبیر نازشؔ کو شعری نشستوں میں سنا ہے، وہ خوب پڑھتا ہے اور سامعین اسے خوب سنتے ہیں، شبیر نازش کو واقعی بہت دور تلک جانا ہے اور جب وہ چلے گا تو رستہ کٹتا ہی جائے گا، منزلیں ملتی جائیںگی۔