میانمار برما کے محنت کشوں پر مظالم
’’سیکیورٹی فورسز مسلمانوں کے قتل میں براہِ راست ملوث ہے
KARACHI:
میانمار کی کل آبادی پانچ کروڑ کی ہے۔ اس کے مشرق میں کمبوڈیا اور مغرب میں بنگلہ دیش ہے ۔ اکثریت بدھ مذہب ماننے والوں کی ہے، ان کے بعد مسلمان، پھر ہندو اور کنفیوشس اور کچھ عیسائی۔ میانمار کی ریاست ریکھائین جہاں اکثریت بدھ مذہب ماننے والے رہتے ہیں۔
یہ لوگ ریکھائین کمیونٹی کے کہلاتے ہیں جب کہ مسلمانوں کا روہنگیا کمیونٹی سے تعلق ہے۔ روہنگیا کمیونٹی کے مسلمان میانمار میں استحصال زدہ لوگ ہیں ۔میانمار کے آمر فوجی حکمرانوں کے خلاف ہر سطح پر مذہب، فرقہ اور نسل سے بالاتر ہو کر متحدہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اتحاد کو تقسیم کرنے کے لیے حکمران کسانوں کو طبقاتی بنیادوں کے بجائے نسلی بنیادوں پر اکسانے کے لیے تیار کررہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں بھی میانمار کے دارالحکومت پنگون میں 40,000 صنعتی مزدوروں نے ہڑتال کی تھی۔ سائوتھ ڈینگون، ٹائون شہر نمبر 2 صنعتی علاقے میں زیادہ موثر ہڑتال رہی۔
یہاں افراط زر ہے اور ضروریاتِ زندگی کی بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پبلک سرونٹ کی ماہانہ تنخواہ 20,000 کیات (مقامی کرنسی) ''20 ڈالر'' جنوری 2012 میں تھی۔ یہاں کے مزدوروں کی تنخواہیں کمبوڈیا اور ویت نام کے مزدوروں سے کم ہیں۔ میانمار میں مزدوروں کی بنیادی تنخواہ 20 سے 50 ڈالر ہے جب کہ کمبوڈیا اور ویت نام کے مزدوروں کی ماہانہ تنخواہ 120 ڈالر ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین نے کہا ہے کہ ''میانمار میں نسلی فسادات کے نتیجے میں 80 ہزار عوام نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان میں بیشتر لوگوں کو خیموں میں رہنا پڑ رہا ہے ۔ حالیہ فسادات مئی 2012 سے شروع ہوئے۔ جب ریکھائین نسل کی ایک بدھ خاتون کو تین مسلمانوں نے قتل کردیا۔ 3 جون 2012 کو منظم انداز میں ریکھائین نسل کے بدھوں نے 10 روہنگیا مسلمانوں کا قتل کیا۔'' اقوام متحدہ کی خاتون نمایندہ پیلے جو کہ گزشتہ جمعے کو پنگون، میانمار پہنچی ہیں، انھوں نے رپورٹ دی ہے کہ ''اب تک 78 روہنگیا مسلمانوں کا قتل ہوا ہے۔''
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن فارہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ ''سیکیورٹی فورسز مسلمانوں کے قتل میں براہِ راست ملوث ہے۔ ریاستی حکام کے کارندوں نے روہنگیا برادری کے مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنا کر گولی ماری۔'' پیلے نے میانمار حکومت کو اس بات پر خوش آمدید کہا کہ اس نے آیندہ ہفتے اقوام متحدہ کے کارواں کو میانمار جانے کی اجازت دی ہے، مگر یہ اجازت مکمل طور پر فسادات کی تحقیقات کا متبادل نہیں ہے۔گزشتہ مہینوں میں صدر تھین کین نے کہا کہ ''ہم نے میانمار کی بیشتر نسلی قومیتوں کو ہتھیار ڈال کر امن کے معاہدے کروائے ہیں، ان میں 60 سالہ کارین عوام کے دھڑے بھی شامل ہیں۔''
بہرحال ریکھائین ریاست میں فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ یہاں ہتھیار ڈالنے اور لڑائی نہ کرنے کے کئی مقامات پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ میانمار کی جیلوں میں اب بھی سیکڑوں ضمیر کے قیدی موجود ہیں۔ اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت انھیں رہا کرے۔ اس لیے بھی کہ وہ امن کی راہ اپنانا چاہتے ہیں۔ دہائیوں سے چلے آرہے ہوئے فوجی طور طریقے بدلنا مشکل ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ 1988 کے مظاہرے میں 3 ہزار افراد کو قتل کردیا گیا تھا۔ یہ فوجی آمر حکمرانوں کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے جب کہ مقتولین میں 90 فیصد بدھ تھے اور قاتلوں میں بھی بدھ۔ امریکی سامراج منافقانہ انداز میں میانمار میں قتل و غارت گری کے خلاف واجباً چند کلمات ادا کردیتا ہے جب کہ عراق اور افغانستان کی حکومتیں اپنے عوام پر مظالم ڈھاتی آرہی ہیں اور امریکا ان حکومتوں سے بہتر تعلقات بھی رکھے ہوئے ہے۔
اسی طرح سے امریکا میانمار حکومت کی انسانیت سوز قتل غارت گری پہ واجبی کلمات تو ادا کردیتا ہے لیکن میانمار سے بہتر تعلقات بھی برقرار رکھتا ہے۔ میانمار کے عوام اب اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کریں کہ انھیں کیا کرنا ہے؟ انھیں امریکا یا برطانیہ سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ ان کے مسائل حل کریں گے۔ امریکا اور چین خود میانمار سے تجارتی مفادات کے لیے مسابقت میں لگے ہوئے ہیں۔ ہندوستان بھی چین سے مقابلے میں لگا ہوا ہے کہ میانمار میں خام مال کے حصول کے لیے کیسے داخل ہو۔
یوکرائن، جارجیا میں بہت سے مواقعے پر ایسے حالات نظر آئے ہیں کہ امریکا انھیں اپنے پٹھو کے طور پر استعمال میں لایا ہے اور اب میانمار کو بھی استعمال میں لانا چاہتا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ چین کو میانمار سے نکال باہر کرے اور جمہوریت کے نام پر میانمار میں اپنا سامراجی کردار ادا کرے۔ اس قسم کی نام نہاد جمہوری حکومت کے ذریعے سامراج اپنی پالیسی یعنی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب رجوع کرے گا۔ جیسا کہ وہ پاکستان کے ساتھ کررہا ہے۔
میانمار میں وہ نج کاری کرے گا اور سماجی بہبود کی سہولیات کو عوام سے چھینے گا اور عوام کی زندگی کو اور بھیانک اور اجیرن بنادے گا۔ یہ وہ گھنائونے مقاصد ہیں جو سامراج میانمار کے پس منظر میں چھپائے ہوئے ہے۔ 1962 میں جنرل نیون کی قیادت میں میانمار میں بغاوت ہوئی اور وہاں کی حکومت نے چین کے ماڈل پر تمام زمینوں، صنعتوں اور تجارت کو نیشنلائزڈ کیا اور ملک میں ایک پارٹی نظام کو رائج کیا۔ انھوں نے مائو کے چیئرمین کے لفظ کو بھی اپنایا۔
سرمایہ داری کو نیست ونابود کیا اور منصوبہ بند معیشت رائج کی مگر حکومت میں مزدوروں کا کوئی کردار نہیں رکھا۔ میانمار کے سرمایہ داروں کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ اپنی معیشت کو ترقی دیں۔ یہ اس کا ردّعمل تھا جو کہ برطانوی سامراج نے اپنی نوآبادی بنا کر استحصال کیا۔ انھوں نے اسے فتح کرنے میں 62 سال لگادیے، یعنی 1824 سے 1886 تک اور اس پر 1948 تک قابض رہے۔ ان ادوار میں وہ اس ملک کو کسی بھی قابل ذکر ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرپائے۔ یہاں تک کہ باقاعدہ آزادی کے بعد بھی یہ ملک سامراجی غلبے میں تھا۔
بہرحال میانمار جدید بورژوا ریاست بن پایا اور نہ غیر طبقاتی اسٹیٹ لیس سوسائٹی۔ بقول شیخ سعدی ''نہ خود کھایا۔ نہ کھانے دیا اورگندا کردیا۔'' جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ میانمار کے عوام کے مسائل کا واحد حل رنگ، نسل، برادری، فرقہ، مذہب اور زبان سے بالاتر ہو کر طبقاتی جڑت اور یکجہتی سے ریاستی جبر کو ختم کرنے کے لیے اسے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ تب جا کر مسائل کا حل نکلے گا۔
یعنی ایک ایسے معاشرے کا قیام جہاں ریاست ہوگی اور نہ طبقہ۔ صدارت ہوگی اور نہ وزارت، فوج، اسمبلی، عدالت اور وکیل کا وجود نہ ہوگا۔ سارے لوگ سارے وسائل کے مالک ہوں گے۔ موچی اور جنرل ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے گا۔ نائی، امام اور مونک ایک دستر خوان پر بیٹھیں گے۔ بھنگی اور دانشور ایک ہی گلاس میں پانی پیے گا۔ ایک آسمان تلے ایک خاندان ہوگا، کوئی طبقہ اور نہ کوئی ریاست۔