ماہرہ خان کا کوئی قصور نہیں
ماہرہ خان نے کبھی بھی اپنے ’’ماں‘‘ ہونے کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھا
ماہرہ خان کا کوئی قصور نہیں! قصور ہماری آنکھوں کا ہے جنہوں نے صرف ماہرہ کے ہاتھ میں جلتی سگریٹ اوراس کے سفید رنگ کے خوبصورت اورمختصر لباس کو دیکھا۔ قصورہماری سوچ کا ہے جس نے ماہرہ کو رنبیر کے ساتھ دیکھ کر نجانے کیا کیا اخذ کرلیا اور پھراپنےخیالات کو ٹوئٹر پر ڈال کرماہرہ کو ٹوئٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بنادیا۔ قصور ہماری تربیت کا ہے جس نے ماہرہ کو ایک مسلمان اور پاکستانی لڑکی ہونےکی وجہ سےمختصرلباس پہننےپرتنقید کا نشانہ تو خوب بنایا مگربحیثیت مسلمان اور پاکستانی اس کے لباس اور کمر پر موجود لال رنگ کا نشان تک بھی بہت غور سے دیکھا اور اس نشان پر خوب تبصرے بھی کیے۔
مجھے سوشل میڈیا استعمال کرنے کا بہت شوق ہے اور گھر کے کام کرکے جیسے ہی فارغ ہوتی ہوں، فوراً اپنا اسمارٹ فون ہاتھ میں لے کر فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر لاگ ان ہوجاتی ہوں۔ تاہم سوشل میڈیا استعمال کرنے کا میرا مقصد نازیبا پوسٹس اور غیر اخلاقی مواد دیکھنا نہیں بلکہ میں دنیا بھر سے باخبر رہنے کےلیے سوشل میڈیا استعمال کرتی ہوں۔
گزشتہ اورموجودہ دورکی زندگی میں سب سے بڑافرق ہی سوشل میڈیا کے ذریعے آیا ہے۔ پہلے دنیا کے حالات جاننے کےلیے پورے ایک دن انتظار کرنا پڑتا تھا اور دوسرے دن جب اخبار گھر پر آتا تھا تو خبر باسی ہوچکی ہوتی تھی۔ لیکن اس دور میں اس چیز کا ہوش ہی کہاں ہوتا تھا کہ خبر باسی ہے یا تازی۔ بس ہاتھ میں اخبار لیا اور بیٹھ گئے۔ پورے اخبار میں میرا سب سے پسندیدہ صفحہ شوبزنس کا ہوتا تھا جس میں اداکاروں اور اداکاراؤں کی مرچ مصالحہ لگی ہوئی خبریں میں بڑے چٹخارے لے کر پڑھتی تھی۔ لیکن آج مجھے اپنے پسندیدہ فنکاروں کے بارے میں جاننے کےلیے پورے ایک دن کے طویل انتظار سے نہیں گزرنا پڑتا۔ بس ایک کلک کی دیر ہوتی ہے اور تمام خبریں میرے ہاتھ میں ہوتی ہیں، یہاں تک کہ ایک ایک پل کی تازہ ترین صورتحال اوران سے متعلق لوگوں کے تبصرے بھی منٹوں میں آجاتے ہیں اور یہ سب کمال ہے سوشل میڈیا کا۔
لیکن اچھائی کے ساتھ سوشل میڈیا کے چند برے پہلو بھی ہیں جن میں سب سے اول کسی بھی انسان کی شخصیت اورامیج کو منٹوں میں برباد کرنا ہے جس کی سب سے بڑی مثال ماہرہ خان خود ہے۔ ذاتی طور پر مجھے ماہرہ خان بہت پسند ہے۔ ہمت، حوصلے اور محنت سے بھرپور لڑکی ماہرہ خان نے زندگی کے سفر کی ابتداء بہت چھوٹے پیمانے سے کی لیکن مسلسل محنت سے وہ آج اس مقام پر ہے کہ چند تصاویر کی وجہ سےگزشتہ چند دنوں سے وہ ٹوئٹرپرٹاپ ٹرینڈ بن گئی ہے۔ اگر ماہرہ کی جگہ یہ تصاویر کسی غیر معروف اداکارہ یا کسی عام لڑکی کی ہوتیں تو چند سطروں کی خبر لگ جاتی اور معاملہ بہت جلد ٹھنڈا ہوجاتا۔ لیکن یہاں بات ماہرہ خان کی تھی اس لیے گزشتہ چند روز سے ماہرہ سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔
محنت، عزم اور حوصلے کے علاوہ مجھے ماہرہ کی جو چیز سب سے زیادہ پسند ہے وہ ہے اس کا ''ماں'' ہونا۔ ماہرہ نے کبھی ماں ہونے کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھا ورنہ ماضی میں اداکارائیں برسوں تک اس بات کو میڈیا پر آنے ہی نہیں دیتی تھیں کہ وہ نہ صرف شادی شدہ ہیں بلکہ ان کے بچے بھی ہیں۔ شادی شدہ اور بچے ہونے کی صورت میں ان کا کیریئر زوال کا شکار ہوجاتا تھا۔ پاکستان کی ماہرہ خان اور بھارت کی کرینہ نے شوبز میں اس رجحان کو بدلنے میں بہت اہم کردارادا کیا ہے کہ ماں ہونا کوئی بری بات نہیں، بچوں کے ساتھ بھی آپ شوبز کی دنیا میں کام کرسکتی ہیں اور نام کما سکتی ہیں۔ اور ماہرہ تو سوشل میڈیا پرا کثر اپنے بیٹے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئےاس سے اپنی بےانتہا محبت کا اظہار بھی کئی بار کرچکی ہیں۔
تو میرا سوشل میڈیا صارفین، نام نہاد مسلمانوں اور پاکستانیوں سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ ایک عورت جو اکیلی اور تنہا نہ صرف اپنے بچے کی پرورش کررہی ہے بلکہ اپنی محنت کے دم پر آج پاکستان اور بھارت کی نمبر ون اداکاراؤں میں شامل ہوچکی ہے، کیوں آپ لوگوں کو اس کی محنت نظر نہیں آئی؟ آپ سب نے دیکھا تو صرف اس کا مختصر لباس، اس کے ہاتھ میں سگریٹ اور اس کی کمر پر موجود لال نشان... اور یہ سب دیکھ کر خود ہی اخذ کرلیا کہ ماہرہ اور رنبیر کے آپس میں تعلقات ہیں۔
ماہرہ ان تصاویر میں رنبیر کپور کے ساتھ کسی اکیلے کمرے میں نہیں بلکہ نیویارک کی سڑکوں پر موجود تھی جہاں اور لوگ بھی تھے۔ وہ سب کو کیوں نہیں دکھائی دیئے؟ ہوسکتا ہے وہ دونوں اس وقت کسی اہم موضوع پر بات کررہے ہوں جیسے سارے دوست کرتے ہیں۔ جب کوئی بہت ضروری بات ہوتی ہے تو رات اور دن بھی نہیں دیکھتے بس فوراً اپنے دوست کو کال کردیتے ہیں یا اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ لہٰذا ماہرہ نے ایسا کردیا تو کیا گناہ کردیا؟ اس کے علاوہ جس بات کےلیے ماہرہ پر تنقید کے نشتر چبھوئے گئے وہ یہ ہے کہ ماہرہ خان ایک لڑکی ہوکر سگریٹ کیوں پی رہی تھی۔ لیکن کسی نے بھی نہیں کہا کہ رنبیر کپور ایک لڑکا ہوکر سگریٹ کیوں پی رہا تھا۔ اگر ایک لڑکا کوئی غلط کام کرے تو ٹھیک لیکن اگر یہی کام ایک لڑکی کرے تو گناہ... واہ! کیا دوہرامعیار ہے ہمارے سماج کا!
تاہم جس بات پر ماہرہ کو جہنم واصل کردینے کے مشورے دیئے گئے وہ تھا ان کا لباس جس میں ان کی کمر برہنہ نظر آرہی تھی۔ لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ماہرہ ایک مسلمان اور پاکستانی لڑکی ہوکر کس طرح ایسا لباس پہن سکتی ہے؟ توآپ کےلیے عرض ہے کہ ماہرہ نے پہلی بار اتنا مختصر لباس تو نہیں پہنا؛ پاکستانی فیشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی کئی ماڈلز اور اداکارائیں (ماہرہ سمیت) اس سے بھی مختصر لباس پہنتی ہیں۔ اس وقت تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ تو اب کیوں؟ بھارتی اور انگریزی فلموں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے والے لوگوں کی عزت اس وقت کہاں چلی جاتی ہے جب وہ ان فلموں میں اداکاراؤں کو مختصر لباس میں دیکھتے ہیں اور اسی میں محو ہوجاتے ہیں۔ اصل میں ہمارا زور صرف اس پر چلتا ہے جو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی ہمت نہ رکھتا ہو۔ اور ماہرہ تو ہے ہی اکیلی عورت جو پاکستانی بھی ہے، لہٰذا اسے اپنی مرضی سے لباس پہننے کا اور دوست بنانے کا حق کیسے ہوسکتا ہے؟
بس اسی سوچ نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کردیا ہے کیونکہ ہم سوچتے کچھ ہیں، چاہتے کچھ اوربولتے کچھ ہیں۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے ماہرہ کی برہنہ کمراوراس پر موجود نشان کو بہت غور سے دیکھا، تنقید بھی انہوں نے ہی سب سے زیادہ کی... اپنی سوچ تبدیل کیجئے تاکہ ایک عورت، خاص طور پر کامیاب عورت، اپنی مرضی سے آزادی کے ساتھ بھرپور زندگی گزارسکے؛ ویسی ہی زندگی جسے گزارنے کا حق رکھنے کے دعویدار آپ خود بھی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مجھے سوشل میڈیا استعمال کرنے کا بہت شوق ہے اور گھر کے کام کرکے جیسے ہی فارغ ہوتی ہوں، فوراً اپنا اسمارٹ فون ہاتھ میں لے کر فیس بک، انسٹاگرام اور ٹوئٹر پر لاگ ان ہوجاتی ہوں۔ تاہم سوشل میڈیا استعمال کرنے کا میرا مقصد نازیبا پوسٹس اور غیر اخلاقی مواد دیکھنا نہیں بلکہ میں دنیا بھر سے باخبر رہنے کےلیے سوشل میڈیا استعمال کرتی ہوں۔
گزشتہ اورموجودہ دورکی زندگی میں سب سے بڑافرق ہی سوشل میڈیا کے ذریعے آیا ہے۔ پہلے دنیا کے حالات جاننے کےلیے پورے ایک دن انتظار کرنا پڑتا تھا اور دوسرے دن جب اخبار گھر پر آتا تھا تو خبر باسی ہوچکی ہوتی تھی۔ لیکن اس دور میں اس چیز کا ہوش ہی کہاں ہوتا تھا کہ خبر باسی ہے یا تازی۔ بس ہاتھ میں اخبار لیا اور بیٹھ گئے۔ پورے اخبار میں میرا سب سے پسندیدہ صفحہ شوبزنس کا ہوتا تھا جس میں اداکاروں اور اداکاراؤں کی مرچ مصالحہ لگی ہوئی خبریں میں بڑے چٹخارے لے کر پڑھتی تھی۔ لیکن آج مجھے اپنے پسندیدہ فنکاروں کے بارے میں جاننے کےلیے پورے ایک دن کے طویل انتظار سے نہیں گزرنا پڑتا۔ بس ایک کلک کی دیر ہوتی ہے اور تمام خبریں میرے ہاتھ میں ہوتی ہیں، یہاں تک کہ ایک ایک پل کی تازہ ترین صورتحال اوران سے متعلق لوگوں کے تبصرے بھی منٹوں میں آجاتے ہیں اور یہ سب کمال ہے سوشل میڈیا کا۔
لیکن اچھائی کے ساتھ سوشل میڈیا کے چند برے پہلو بھی ہیں جن میں سب سے اول کسی بھی انسان کی شخصیت اورامیج کو منٹوں میں برباد کرنا ہے جس کی سب سے بڑی مثال ماہرہ خان خود ہے۔ ذاتی طور پر مجھے ماہرہ خان بہت پسند ہے۔ ہمت، حوصلے اور محنت سے بھرپور لڑکی ماہرہ خان نے زندگی کے سفر کی ابتداء بہت چھوٹے پیمانے سے کی لیکن مسلسل محنت سے وہ آج اس مقام پر ہے کہ چند تصاویر کی وجہ سےگزشتہ چند دنوں سے وہ ٹوئٹرپرٹاپ ٹرینڈ بن گئی ہے۔ اگر ماہرہ کی جگہ یہ تصاویر کسی غیر معروف اداکارہ یا کسی عام لڑکی کی ہوتیں تو چند سطروں کی خبر لگ جاتی اور معاملہ بہت جلد ٹھنڈا ہوجاتا۔ لیکن یہاں بات ماہرہ خان کی تھی اس لیے گزشتہ چند روز سے ماہرہ سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔
محنت، عزم اور حوصلے کے علاوہ مجھے ماہرہ کی جو چیز سب سے زیادہ پسند ہے وہ ہے اس کا ''ماں'' ہونا۔ ماہرہ نے کبھی ماں ہونے کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھا ورنہ ماضی میں اداکارائیں برسوں تک اس بات کو میڈیا پر آنے ہی نہیں دیتی تھیں کہ وہ نہ صرف شادی شدہ ہیں بلکہ ان کے بچے بھی ہیں۔ شادی شدہ اور بچے ہونے کی صورت میں ان کا کیریئر زوال کا شکار ہوجاتا تھا۔ پاکستان کی ماہرہ خان اور بھارت کی کرینہ نے شوبز میں اس رجحان کو بدلنے میں بہت اہم کردارادا کیا ہے کہ ماں ہونا کوئی بری بات نہیں، بچوں کے ساتھ بھی آپ شوبز کی دنیا میں کام کرسکتی ہیں اور نام کما سکتی ہیں۔ اور ماہرہ تو سوشل میڈیا پرا کثر اپنے بیٹے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئےاس سے اپنی بےانتہا محبت کا اظہار بھی کئی بار کرچکی ہیں۔
تو میرا سوشل میڈیا صارفین، نام نہاد مسلمانوں اور پاکستانیوں سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ ایک عورت جو اکیلی اور تنہا نہ صرف اپنے بچے کی پرورش کررہی ہے بلکہ اپنی محنت کے دم پر آج پاکستان اور بھارت کی نمبر ون اداکاراؤں میں شامل ہوچکی ہے، کیوں آپ لوگوں کو اس کی محنت نظر نہیں آئی؟ آپ سب نے دیکھا تو صرف اس کا مختصر لباس، اس کے ہاتھ میں سگریٹ اور اس کی کمر پر موجود لال نشان... اور یہ سب دیکھ کر خود ہی اخذ کرلیا کہ ماہرہ اور رنبیر کے آپس میں تعلقات ہیں۔
ماہرہ ان تصاویر میں رنبیر کپور کے ساتھ کسی اکیلے کمرے میں نہیں بلکہ نیویارک کی سڑکوں پر موجود تھی جہاں اور لوگ بھی تھے۔ وہ سب کو کیوں نہیں دکھائی دیئے؟ ہوسکتا ہے وہ دونوں اس وقت کسی اہم موضوع پر بات کررہے ہوں جیسے سارے دوست کرتے ہیں۔ جب کوئی بہت ضروری بات ہوتی ہے تو رات اور دن بھی نہیں دیکھتے بس فوراً اپنے دوست کو کال کردیتے ہیں یا اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ لہٰذا ماہرہ نے ایسا کردیا تو کیا گناہ کردیا؟ اس کے علاوہ جس بات کےلیے ماہرہ پر تنقید کے نشتر چبھوئے گئے وہ یہ ہے کہ ماہرہ خان ایک لڑکی ہوکر سگریٹ کیوں پی رہی تھی۔ لیکن کسی نے بھی نہیں کہا کہ رنبیر کپور ایک لڑکا ہوکر سگریٹ کیوں پی رہا تھا۔ اگر ایک لڑکا کوئی غلط کام کرے تو ٹھیک لیکن اگر یہی کام ایک لڑکی کرے تو گناہ... واہ! کیا دوہرامعیار ہے ہمارے سماج کا!
تاہم جس بات پر ماہرہ کو جہنم واصل کردینے کے مشورے دیئے گئے وہ تھا ان کا لباس جس میں ان کی کمر برہنہ نظر آرہی تھی۔ لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ماہرہ ایک مسلمان اور پاکستانی لڑکی ہوکر کس طرح ایسا لباس پہن سکتی ہے؟ توآپ کےلیے عرض ہے کہ ماہرہ نے پہلی بار اتنا مختصر لباس تو نہیں پہنا؛ پاکستانی فیشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی کئی ماڈلز اور اداکارائیں (ماہرہ سمیت) اس سے بھی مختصر لباس پہنتی ہیں۔ اس وقت تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ تو اب کیوں؟ بھارتی اور انگریزی فلموں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے والے لوگوں کی عزت اس وقت کہاں چلی جاتی ہے جب وہ ان فلموں میں اداکاراؤں کو مختصر لباس میں دیکھتے ہیں اور اسی میں محو ہوجاتے ہیں۔ اصل میں ہمارا زور صرف اس پر چلتا ہے جو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی ہمت نہ رکھتا ہو۔ اور ماہرہ تو ہے ہی اکیلی عورت جو پاکستانی بھی ہے، لہٰذا اسے اپنی مرضی سے لباس پہننے کا اور دوست بنانے کا حق کیسے ہوسکتا ہے؟
بس اسی سوچ نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کردیا ہے کیونکہ ہم سوچتے کچھ ہیں، چاہتے کچھ اوربولتے کچھ ہیں۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے ماہرہ کی برہنہ کمراوراس پر موجود نشان کو بہت غور سے دیکھا، تنقید بھی انہوں نے ہی سب سے زیادہ کی... اپنی سوچ تبدیل کیجئے تاکہ ایک عورت، خاص طور پر کامیاب عورت، اپنی مرضی سے آزادی کے ساتھ بھرپور زندگی گزارسکے؛ ویسی ہی زندگی جسے گزارنے کا حق رکھنے کے دعویدار آپ خود بھی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔