نگراں حکومت پر پی پی ن لیگ کی غیر رسمی بات چیت شروع
ایک ہی دن الیکشن کے لیے حکومت اور ن لیگ میں اتفاق ضروری ہے،تجزیہ
قومی اسمبلی 16 مارچ کی رات کواپنی مد ت پوری کرنے پرازخود ختم ہوجائے گی تاہم حکومت کے لیے بڑا آئینی چیلنج صوبائی اسمبلیوں کی مدت الگ الگ مکمل ہونا ہے۔
ایک ہی دن الیکشن کے لیے حکومت اور ن لیگ میں اتفاق ضروری ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں میں نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے بات چیت کاغیر رسمی عمل شروع ہوچکا ہے کیونکہ اس کے بغیرنگراں سیٹ اپ کے قیام میں بہت سے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی مدت 8اپریل، بلوچستان اسمبلی 6اپریل،سندھ اسمبلی 4 اپریل جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کی آئینی مدت 27 مارچ کومکمل ہوگی۔
یوں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ اسی صورت میں ممکن ہوسکتے ہیں جب صوبائی اسمبلیوں کو 16 مارچ کی رات قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے پرتحلیل کرنے پراتفاق ہوجائے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرحکمران جماعت پیپلز پارٹی اور ن لیگ پنجاب اسمبلی کو وقت سے پہلے تحلیل کرنے پرمتفق ہوجائے تویہ تمام آئینی بحران ٹل سکتا ہے اور دیگرصوبائی اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل حکمران جماعت کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔حکومت نے ن لیگ کو پنجاب اسمبلی اپنی آئینی مدت سے قبل تحلیل کرنے پر رضامندکرنے کے لیے ہی طاہرالقادری کوقومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے پرمنوالیا ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات قمرزمان کائرہ اور وزیرقانون فاروق نائیک کہہ چکے ہیں کہ قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے پر ہی نگران سیٹ اپ کے لیے اپوزیشن لیڈرسے مشاورت کا عمل شروع کیاجائے گا۔ 18ویں ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی کو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈرنگران وزیراعظم کے لیے دودو نام بھجوائیں گے اوراگر پارلیمانی کمیٹی کسی ایک نام پرمتفق نہیں ہوتی توپھربال الیکشن کمیشن کے کورٹ میں چلی جائے گی جونگران وزیراعظم کے لیے کسی ایک نام کا حتمی فیصلہ کرے گا۔حکومت کے لیے یہ بات بھی باعث تقویت ہے کہ فوج نے اپنا دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ جمہوری نظام کی حمایتی ہے اور بروقت الیکشن چاہتی ہے۔
ایک ہی دن الیکشن کے لیے حکومت اور ن لیگ میں اتفاق ضروری ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں میں نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے بات چیت کاغیر رسمی عمل شروع ہوچکا ہے کیونکہ اس کے بغیرنگراں سیٹ اپ کے قیام میں بہت سے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی مدت 8اپریل، بلوچستان اسمبلی 6اپریل،سندھ اسمبلی 4 اپریل جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی کی آئینی مدت 27 مارچ کومکمل ہوگی۔
یوں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ اسی صورت میں ممکن ہوسکتے ہیں جب صوبائی اسمبلیوں کو 16 مارچ کی رات قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے پرتحلیل کرنے پراتفاق ہوجائے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرحکمران جماعت پیپلز پارٹی اور ن لیگ پنجاب اسمبلی کو وقت سے پہلے تحلیل کرنے پرمتفق ہوجائے تویہ تمام آئینی بحران ٹل سکتا ہے اور دیگرصوبائی اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل حکمران جماعت کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔حکومت نے ن لیگ کو پنجاب اسمبلی اپنی آئینی مدت سے قبل تحلیل کرنے پر رضامندکرنے کے لیے ہی طاہرالقادری کوقومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے پرمنوالیا ہے۔
وفاقی وزیراطلاعات قمرزمان کائرہ اور وزیرقانون فاروق نائیک کہہ چکے ہیں کہ قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے پر ہی نگران سیٹ اپ کے لیے اپوزیشن لیڈرسے مشاورت کا عمل شروع کیاجائے گا۔ 18ویں ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی کو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈرنگران وزیراعظم کے لیے دودو نام بھجوائیں گے اوراگر پارلیمانی کمیٹی کسی ایک نام پرمتفق نہیں ہوتی توپھربال الیکشن کمیشن کے کورٹ میں چلی جائے گی جونگران وزیراعظم کے لیے کسی ایک نام کا حتمی فیصلہ کرے گا۔حکومت کے لیے یہ بات بھی باعث تقویت ہے کہ فوج نے اپنا دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ جمہوری نظام کی حمایتی ہے اور بروقت الیکشن چاہتی ہے۔