CPEC پاک چین دوستی کا شاہکار
دونوں ممالک کی یہ سچی اور پکی دوستی دنیا بھر میں ایک قابل رشک مثال ہے
ہماری آنکھوں میں وہ منظر آج بھی محفوظ ہے جب چین کے وزیراعظم چو این لائی پنڈت جواہر لعل نہرو کی دعوت پر بھارت یاترا کے لیے تشریف لائے تھے۔دہلی میں رام لیلا گراؤنڈ جہاں انھیں استقبالیہ دیا گیا تھا دلہن کی طرح سجاہوا تھا، جب نہرو اور چو این لائی ایک ساتھ جلسہ گاہ میں آئے تو فضائیں ہندی چینی بھائی بھائی کے نعروں سے گونج اٹھیں۔ اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والے وقتوں میں حالات کیا رخ اختیار کریںگے۔
پھر اچانک ہوا کا رخ پلٹا اور بھارت نے چین کو Underestimateکرتے ہوئے اس سے لڑائی مول لے لی۔ یہ سودا بھارت کو بڑا مہنگا پڑا کیونکہ اس کے بے شمار فوجی لڑے بغیر برف میں دھنس کر ہلاک ہوگئے جس سے بھارتی فوج کے حوصلے بالکل پست ہوگئے۔ اس صدمے نے وزیراعظم نہرو کو بری طرح نڈھال کردیا اور وہ اس کی تاب نہ لاکر شدید بیمار پڑ گئے ایک روایت یہ بھی ہے کہ ان کے دماغ پر فالج کا اثر ہوگیا تھا۔
یہ واقعہ خطے کی سیاست کا Turning Pointثابت ہوا۔ اسے پاکستان کے حق میں ایک خیر blessing in disguiseبھی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی قیادت نے اس وقت اور موقعے کو غنیمت جانا اور خوب فائدہ اٹھایا، چین کے ساتھ سرحدی معاملات نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے طے کرلیے گئے اور دائمی دوستی کی مضبوط بنیاد رکھ دی گئی۔
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ پاک چین تعلقات کا خواب سب سے پہلے پاکستان کے سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی (مرحوم) نے دیکھا تھا، اس کے بعد کے پاکستانی حکمرانوں نے اسے عملی جامہ پہنایا اور شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ پاک چین دوستی کو برقرار رکھنے میں دونوں ممالک کے تمام حکمرانوں نے بلا تخصیص بھرپورکردار ادا کیا اور کررہے ہیں۔
سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کی ہر قیادت اس دوستی کو مضبوط سے مضبوط اور وسیع سے وسیع تر بنانے کے لیے پوری قوت اور زیادہ سے زیادہ دلچسپی اور جذبہ خیر سگالی کے ساتھ کوشاں ہے۔ پاکستان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے چین کو اقوام عالم میں اس کا جائز مقام دلانے اور بین الاقوامی امور میں اس کی ہر موقعے پر حمایت کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے، پاکستان کی حمایت کے حوالے سے یہی بات چین پر بھی صادق آتی ہے، دونوں ممالک کی یہ سچی اور پکی دوستی دنیا بھر میں ایک قابل رشک مثال ہے لیکن بعض ممالک کی آنکھوں میں یہ دوستی کانٹا بن کرکھٹک رہی ہے جن میں دونوں ممالک کا سب سے بڑا حاسد ور دشمن ملک بھارت سر فہرست ہے جس کے ان دونوں ممالک کے ساتھ شدید تنازعات ہیں۔
بھارت کا بس نہیں چلتا کہ ان دونوں کو کچا چبا جائے۔ بھارت میں جو بھی قیادت برسر اقتدار آتی ہے اسے پاکستان اور چین سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے، بھارت کو موجودہ قیادت اس سلسلے میں امریکا کی چھتری کو استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے جس میں اسے کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی کیونکہ:
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
پاک چین دوستی کے فروغ میں دونوں ملکوں کے قائدین نے قابل تعریف کردار ادا کیا ہے وہیں یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ دونوں ممالک کے سفارت کاروں کا بھی اس کام کو انجام دینے میں بہت بڑا ہاتھ ہے، سچ پوچھیے تو آج کا سی پیک ان ہی مخلصانہ کاوشوں کا سب سے بڑا اور اہم ترین ثمر ہے جو ہمارے دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر بری طرح کھٹک رہا ہے۔
جہاں تک پاکستان کی حکومت اور عوام کا تعلق ہے تو انھیں سی پیک کی اہمیت اور افادیت کا پورا احساس اور اندازہ ہے اور انھیں یقین ہے کہ یہ واقعی Game Changer ثابت ہوگا اور اس سے پاکستان کی معیشت کا پھانسا پلٹ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی غالب اکثریت اس کے حق میں ہے۔ تاہم پاکستان کے بعض حلقوں میں اسے موضوعِ بحث بنایا جا رہاہے اور اس کے بارے میں وقتاً فوقتاً تحفظات کا اظہار کیا جارہاہے جوکہ کوئی بری بات نہیں کیونکہ ایک پاکستانی کی آنکھ سے اس کے تمام پہلوؤں کو دیکھنے کا ہر پاکستانی کا جائز اور فطری حق ہے۔
دوسری جانب چین اسکالرز، ماہرین، دانشور اور اہلکار بھی شامل ہیں اس بارے میں اپنے خیالات، تاثرات اور رد عمل کا اظہار کررہے ہیں جو ایک فطری امر اور ان کا بھی جائز حق ہے۔ اب اگر کوئی اس سے منفی تاثر لینے کی کوشش کرے تو یہ بڑے افسوس اور بد قسمتی کی بات ہوگی۔ چونکہ چین اور اس کے عوام میں پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں بے مثال خیر سگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں اس لیے ان کی تشویشات اور مشوروں پر توجہ دینا لازمی اور انتہائی اہم ہے، چین نے 2013 میں ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے جس پہل قدمی کا اعلان کیا تھا اس کے تحت وہ دنیا بھر کے 60 ممالک میں ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے ذریعے 6 مختلف راہداریاں قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں چین کے اس اقدام کو پذیرائی کی نظر سے دیکھا گیا ہے مگر چینی دوستوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ پاک چین دوستی کے آزمائے ہوئے سابقہ ریکارڈ کے باوجود پاکستانی میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا میں بعض حلقوں کی جانب سے منفی رویوں کا اظہار کیا جارہاہے جوکہ ناقابل فہم اور ناقابل ہضم ہے، حالانکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں اور قطعی ناقابل تردید ہے کہ دونوں ممالک میں قیادت کی تبدیلی کا دونوں ملکوں کے اٹوٹ باہمی تعلقات پر کبھی بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑا اور یہ تعلقات کسی بھی تبدیلی سے بالاتر رہے ہیں اس پس منظر کے باوجود سی پیک کے حوالے سے ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی مثالوں کا ذکر چھیڑنا بڑی نا مناسب اور بے جا سی حرکت معلوم ہوتی ہے۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں چھیڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے عوام میں چین کے حوالے سے شکوک و شبہات کے بیج بونے کی کوشش کررہے ہیں جس کا واحد مقصد دونوں ملکوں کی سچی اور پکی دوستی میں دراڑ ڈالنے کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
پاکستان کے توانائی کے شعبے میں PP کی سرمایہ کاری پالیسی کا ایک حصہ رہا ہے اور یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ پاکستان کو توانائی کے بحران سے نجات دلانے کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھا لیکن اب جوں ہی چین نے 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے قدم اٹھایا ہے تو بعض حلقوں کے پیٹ میں سی پیک کے حوالے سے اس بارے میں مروڑ اٹھنے شروع ہوگئے ہیں اور اس بارے میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں حالانکہ یہ اقدام بھی سابقہ انرجی پالیسی ہی کا جزو ہے۔
اگر پاکستانی وسائل کا یہ استعمال چینیوں کے فائدے کی خاطر ہوتا تو اس طرح کی انگشت نمائی شاید جائز کہی جاسکتی تھی لیکن ان حالات میں جب کہ اس کا فائدہ صرف اور صرف پاکستان کی صنعتوں اور گھریلو صارفین کو ہی ہوگا اس قسم کے ناجائز اعتراضات کا سرے سے کوئی جواز ہی نہیں ہے اس سرمایہ کاری سے نہ صرف لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل ہوگی بلکہ جی ڈی پی میں سالانہ دو فی صد اضافہ بھی ہوگا۔
چین کی کمپنیاں مقررہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں گی جن کے لیے چین کے سرکاری ملکیت والے بینک نرم اور آسان شرائط پر قرضوں کا بندوبست کریںگے۔ بعض صنعتیں چین اور پاکستانی کمپنیوں کی مشترکہ شراکت داری سے قائم کی جائیں گی جن کا مقام گوادر کا آزاد اکنامک زون حاصل ہوگا جس کے ثمرات سے صوبے کے عوام کی زندگی میں انقلاب برپا ہوگا۔
پاکستانی فوج چینی ماہرین اور کارکنوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک نیا فوجی ڈویژن تشکیل دے رہی ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان کی سیکیورٹی کا برسوں پرانا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا اور پاکستان دشمن غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی شہ پر شورش برپا کرنے والے کرائے کے ٹٹوؤں پر مشتمل وطن دشمن عناصر کا خاتمہ ہوجائے گا۔ گویا آم کے آم گٹھلیوں کے دام بلاشبہ سی پیک پاک چین دوستی کا عظیم شاہکار ہے۔ا