جمہوریت کی جیت
انتخابی نتائج نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ عوام دوسروں کے ہاتھوں کھیلنے والے مہروں کو مسترد کرچکے ہیں
جمہوریت ایک ایسا عمل جو قوموں کی ترقی کا ضامن ہے ، اس نظام کے تسلسل میں ہی ہماری بقا اور سلامتی کا راز مضمر ہے کیونکہ عالمی سطح پر ایک سیاسی لیڈر بطور وزیراعظم اور جمہوری حکومت قومی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے، امریکی صدر ٹرمپ نے جس نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو واشگاف الفاظ میں دھمکیاں دیں، اس کا جواب عالمی سطح پر اقوام متحدہ میں جاکر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دیا، جب کہ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے بھی اس ضمن میں خاصی بھاگ دوڑ کی اور وہ مختلف ممالک کے دورے پر گئے اور ان کی حمایت پاکستان کے حق میں حاصل کی۔
ہمیں ماننا اور تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک جمہوری سربراہ ہی خارجی سطح پر بات چیت اور دلیل کے ذریعے دنیا کو قائل کرسکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں کیا ہے اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی جارحیت تصور ہوگی ۔ یہ موقف امریکی نائب صدر کے سامنے بھی واضح کیا گیا ۔ ڈائیلاگ ہی واحد راستہ ہے تصادم اور جنگ سے بچنے کا۔
داخلی سطح پر دیکھیں تو اس وقت جمہوریت کے خلاف سازشوں کے جال بنے جاچکے ہیں اور جمہوریت کو تہہ تیغ کرنے کے لیے کچھ عناصر بہت زیادہ سرگرم دیکھائی دے رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے اور عوام پر آمریت مسلط کردی جائے ۔اس وقت جمہوری اور غیرجمہوری عناصر کے درمیان ایک جنگ جاری ہے ۔ اسی تناظر میں لاہور کے الیکشن ایک ٹیسٹ کیس تھا ۔سابق وزیر اعظم کی خالی ہونے والی این اے 120 کی نشست پر ضمنی انتخابات میں نواز شریف کی اہلیہ اور قومی اسمبلی کی امیدوارکلثوم نواز نے عمران خان کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دے کر ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔
بیگم کلثوم نواز نے 61 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے جب کہ یاسمین راشد نے 47 ہزار سے زائد ووٹ لیے۔ بیگم کلثوم نواز کو مجموعی طور پر 14188 ووٹوں کی برتری حاصل رہی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس ضمنی انتخاب کو ایک ٹیسٹ تصورکیا جا رہا تھا کہ آیا عوام کی عدالت سے نواز شریف سرخرو ہوتے ہیں یا نہیں۔ کیا انھیں اب بھی عوام کا اعتماد حاصل ہے۔
انتخابی نتائج نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ عوام دوسروں کے ہاتھوں کھیلنے والے مہروں کو مسترد کرچکے ہیں دراصل یہ انتخاب جمہوری لیڈروں اور دوسروں کے ہاتھوں کھیلنے والے مہروں کے درمیان تھا۔ یہ انتخاب ووٹ کی حرمت کا انتخاب تھا اس انتخاب میں ووٹرز نے ثابت کردیا ہے کہ عوامی رائے کا احترام کرنا ہوگا ، جمہوری نظام کو جاری رکھنا ہوگا۔ ن لیگ جمہوری روایات کی امین ہے اس لیے اس نے جمہوریت اور ووٹ کے تقدس کا معرکہ سر کر لیا ہے۔
حسن اتفاق یہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز اپنی بیماری کی وجہ سے بیرون ملک زیر علاج تھیں اور ان کی تیمار داری کے لیے ان کے شوہر نواز شریف بھی پاکستان میں نہیں تھے۔ ان حالات میں ضمنی انتخابات کی مہم چلانے کی ذمے داری مریم نواز کے سپرد کی گئی۔ یہ مریم نواز کی پہلی سیاسی کڑی آزمائش تھی جس میں وہ فاتح بن کر ابھری ہیں۔
دراصل مریم نواز کی خصوصی سیاسی تربیت خود نواز شریف نے کی ہے اور 2013 کے انتخابات کے بعد مریم نواز مسلسل پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ انھیں ضمنی انتخابات کی مہم کی ذمے داری سونپی گئی تو انھوں نے الیکشن مہم کے دوران انھوں نے کنونشن سے متاثر کن خطاب کیا کارکنوں سے مل کر انتخابی حکمت عملی تیار کی۔ وکلاء، خواتین، نوجوانوں اور دیگر طبقات کو ساتھ لے کر چلیں اور انتخابی مہم پر انھوں نے ایسی کمانڈ رکھی کہ بس پھر فتح اور کامیابی کے ڈنکے بجنے لگے۔
قارئین یہ کوئی عام الیکشن نہیں تھا۔ اس الیکشن میں کلثوم نواز کے خلاف 40 سے زائد امیدوار میدان میں تھے۔ جنھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ لیکن اصل مقابلہ کلثوم نواز اور پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد کے درمیان تھا ۔ اس کے باوجود بیشتر تجزیہ نگاروں کی رائے یہ تھی کہ اس حلقے سے ن لیگ ہی فاتح ہوگی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابی سرگرمیوں کے دوران ن لیگ کے بعض کارکنوں کو غائب کردیا گیا ۔ یہ بھی ایک ایشو تھا کہ کلثوم نواز اپنی بیماری کی وجہ سے اپنے انتخابی حلقے سے دور تھیں۔ ایسے میں یہ کامیابی اپنی مثال آپ ہے۔
ایک جانب مسلم لیگ ن الیکشن لڑ رہی تھی اور دوسری جانب قوتیں تھیں جو بار بار منتخب وزرائے اعظم پر وار کرتی ہیں۔ بلا شبہ عمران خان اور ان کے حواری کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں کبھی وہ کسی ادارے کے ترجمان بن جاتے ہیں اور کبھی وہ یہ کہتے ہیں کہ ضمنی انتخاب سے یہ طے ہوجائے گا کہ عوام چور ، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو مسترد کر دیں گے۔ لیکن عوام نے انھیں مسترد کردیا ۔ انھوں نے عدالتی فیصلے کا حوالہ بھی دیا مگر عوام نے اپنی عدالت میں نواز شریف کی نااہلی کو ٹھکرا دیا۔ انھوں نے کہا کہ ضمنی انتخاب ملک کے مستقبل کا فیصلہ کردے گا ۔لیجیے صاحب! نتیجہ آ گیا ہے فیصلہ ہوگیا۔ آپ نے جھوٹے الزامات اور جمہوریت کے خلاف سازشیں، چھپ کر وار کرنے کی کوششیں اور نواز شریف اور ان کی فیملی پر بہتان تراشی کو عوام نے مسترد کردیا ہے ۔ اب آپ کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ عوام نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے امن و ترقی کے وژن کی تصدیق کردی ہے ۔
نواز شریف کے توانائی منصوبوں اور تاریکی دور کرنے کے عمل کی توثیق کر رہی ہے۔ موٹر وے اور سی پیک منصوبے کی منظوری دیدی ہے۔ عوام نے ن لیگ کے چار سالہ دور حکومت کے کارناموں کو مستقبل کی بنیاد قرار دیا ہے ۔ مخالفین کی قسمت میں مایوسی لکھ دی گئی۔ اور اب پھر انھوں نے بے سرو پا الزامات عائد کرنا شروع کردیے ہیں بلکہ انتخابی عمل میں ن لیگ کے خلاف جو کچھ ہوا اس پر وفاقی وزیر سعد رفیق نے اپنی پریس کانفرنس میں تفصیل سے روشنی ڈالی۔ میں سمجھتا ہوںیہ جیت جمہوریت کی لبرل سوچ کی ہوئی ہے ۔ جمہوریت مخالفین ہار گئے ہیں۔