بس کردو بس…
اقوامِ متحدہ سے فعال کردار ادا کرنے کی امید بھی عبث ہی ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
جنگ کا لفظ جتنا ہیبت ناک ہے، اس کے نتائج اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہوتے ہیں ۔ تاریخ کے اشک بار صفحات نوحہ کناں ہیں کہ جنگوں کے ذریعے امن کوئی نہ پاسکا، فتح کسی کا مقدر نہ بن سکی، جان ومال، عزت و ناموس سڑکوں پر کھلے عام نیلام ہوئے، لفظ انسانیت کے چیتھڑے اڑائے گئے، گولے بارود نے نیلا فلک سیاہ کردیا اور ہری بھری زمین جلا ڈالی۔ طاقت کے نشے میں چور فتح یاب ہونے کی ضد پر اڑے وقت کے فرعونوں کا انجام بھی درد ناک ہوا اورکروڑوں بے گناہ بھی مارے گئے۔
ذاتی عناد ومفادات نے بین الاقوامی سیاست کی تعریف بدل ڈالی، جمہوریت کا چہرہ مسخ کردیا ، دنیا کے امن اور سلامتی کو تاراج کرنے میں لمحہ بھرکا بھی تامل نہ کیا ۔ روتا بلکتا ہوا ماضی شاہد ہے کہ 1914میں ہونے والی پہلی جنگِ عظیم سے بچنا ممکن تھا۔ ایک شاہی قتل کو جواز بنا کر پوری دنیا کو جنگ کی طرف دھکیل دینا اس وقت کی عالمی طاقتوں کی انا پرستی اور حیوانی تسکین کے سوا کچھ نہ تھا۔
وہ جنگ نہ تو سفارت کاری کی ناکامی کی وجہ تھی اور نہ ہی کسی حادثے کا نتیجہ، بلکہ عالمی طاقتوں کی سوچی سمجھی سازش تھی۔ جرمنی کا حکمراں قیصر ولہیلم پوری دنیا میں جرمن غلبہ دیکھنے کا شدید آرزو مند تھا۔ اس خواہش کی بھینٹ ایک کروڑ افراد کو چڑھنا پڑا۔ جرمنی، آسٹریا اور ہنگری کو بہ خوبی اندازہ تھا کہ سربیا پر حملے کی صورت میں روس لازمی سربیا کی مدد کو آئے گا، اور ہوا بھی یہی، یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ جنگ پورے خطے تک پھیل گئی۔ کروڑوں انسانوں کی خواہش کی پروا کیے بغیر ان پر جنگ مسلط کردی گئی۔
اسی طرح دوسری جنگِ عظیم کی وجہ ہٹلر کی نسل پرستانہ سوچ بنی، چھ سال بعد جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی تو دنیا ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی تھی۔ اس میں بے شمار ملکوں کی زمین متاثر ہوئی اور لگ بھگ پانچ کروڑ لوگ جان سے گئے۔ اس جنگ کا سب سے خطرناک پہلو امریکا کی طرف سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیے جانے والے ایٹمی حملے تھے، جس کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں تھا، لیکن امریکا کے لیے اپنی طاقت کے مظاہرے کا یہ بہترین موقع تھا، جسے اس نے نہیں گنوایا۔ اس بات کی فکر سے آزاد کہ ایٹمی حملوں کے بعد قوم کا مستقبل کیسا دردناک اور شب وروز کتنے اذیت ناک ہو کر رہ جائیں گے۔
اب تیسری عالمی جنگ کی پیش گوئیاں چند ذہنوں کی اختراع نہیں، بلکہ شمالی کوریا اور امریکا کا موجودہ تنازعہ ایک بار پھر ہزاروں لوگوں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے کو بے تاب ہے۔ شمالی کوریا کی جانب سے ایک دھمکی آتی ہے تو امریکا فرضِ عین سمجھتے ہوئے جوابی دھمکی دیتا ہے۔ خطے میں نصب امریکی ڈیفینس میزائل سسٹم تھاڈ کو اگر امریکا اور جنوبی کوریا اپنے تحفظ کے لیے لازمی قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف چین اس کے خلاف چیخ رہا ہے اور شمالی کوریا پھنکار رہا ہے۔ اس سب کا حاصل خطے میں کشیدگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
شمالی کوریا امریکا کو اپنی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانتے ہوئے نہ صرف یکے بعد دیگرے ایٹمی تجربات کر رہا ہے بلکہ امریکا کو علی الاعلان للکار بھی رہا ہے۔ شمالی کوریا کی نظر میں امریکا نے یہاں تھاڈ میزائل کی تنصیب سے اپنی قبر کھود لی ہے۔ امریکا ''راکٹ مین'' (ٹرمپ کی طرف سے شمالی کوریا کے رہنما کو دیا جانے والا نیا نام )کی ان دھمکیوں کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کرنے کے بجائے فضا میں طیاروں کی گڑگڑاہٹ سننے کا خود بھی متمنی ہو گیا ہے۔ یوں دنیا ایک بار پھر مصائب کی دہائی کے دہانے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ انسانی جانوں کو نگلنے کے لیے دونوں جانب نصب ایٹمی ہتھیار اشارہ ملتے ہی لمحہ بھر کی مہلت کے بغیر دنیا کا نقشہ ایک بار پھر بدل ڈالیں گے۔
اس صورت حال پر سیکیورٹی ماہرین خطے میں شدید اشتعال کا خطرہ ظاہر کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا امریکا کو دباؤ میں لینے کے لیے بڑے پیمانے پر درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کے تجربات پہ تجربات کر رہا ہے، جس سے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کے پاس امریکا کو تباہ کردینے کی صلاحیت ہے، جس سے صورت حال بحرانی اور تباہ کن ہوتی جا رہی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ سے فعال کردار ادا کرنے کی امید بھی عبث ہی ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے سالانہ اجلاس میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو درپیش، ماحولیات اور اس جیسے دیگر خطرناک مسائل کی طرف سے آنکھیں بند کرکے، شمالی کوریا کو تباہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تو وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بین الاقوامی تعاون، امن اور سلامتی کو وقت کی دھول کی نذر کر دینا سب سے آسان ہے۔
اس کشیدہ صورت حال میں ٹرمپ سے توقع تھی کہ وہ بیان بازی کے بجائے بامقصد بیان دیں گے، لیکن ٹرمپ نے گویا نیک ارادوں سے خود کو باز رکھنے کا عزمِ مصمم کرلیا ہے۔ اپنی طاقت کے بل پر زیر کر دینے کا حربہ تو ترقی یافتہ اور متمدن قوموں کا شعار نہیں۔ اگر طاقت کا حربہ ہی آزمانا ہے تو پہلے اس صدی کو نئی، ترقی یافتہ، روشن اور جگمگاتی صدی کہنے سے انکار کیا جائے اور اگر عالمی قوتوں کو ایسا لگتا ہے کہ ایٹمی جنگ ہی مسائل کا ''واحد حل '' ہے تو پہلے اس کے بدترین اثرات سے گروہِ انسانی کو محفوظ رکھنے کی منصوبہ بندی تو کی جائے۔ ایسی پناہ گاہیں اور تہہ خانے تعمیر کیے جائیں جن پر تاب کاری اثر نہ کرے۔ کروڑوں لوگوں کے تحفظ کے لیے پناہ گاہیں بنانا یقیناً دشوار ہے مگر ان کو جنگ کی بھینٹ چڑھا دینا بہت آسان ہے۔
یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم تک کا تجربہ کر کے اپنے جنگی جنون کو انتہا پر پہنچا دیا ہے لیکن امریکا کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے عالمی طاقت ہونے کے منصب کا لحاظ کرتے ہوئے دانش مندی سے مصالحت کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ نہ صرف سفارت کاری کے ذریعے شمالی کوریا کو اس کے ارادوں سے باز رکھنے کی کوشش ہو بلکہ دیگر ممالک کے ذریعے شمالی کوریا پر پُرامن طریقوں سے دباؤ ڈلوایا جائے۔ وہ قومیں جو اس وقت خود کو ساری دنیا کا چوہدری سمجھتی ہیں، انھیں آگے بڑھ کر امریکا اور شمالی کوریا کو مصالحت اور مفاہمت کے دروازے سے اندر لانا چاہیے۔
امریکا اور شمالی کوریا کو روس کے باہمت اور جری آفیسر پیٹروو کی زندگی سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے جس نے اکیلے ہی پوری دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچا لیا اور تاریخ میں امر ہو گیا۔ پیٹروو جیسے ٹھنڈے دماغ ہی اس طرح کے بحران سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو دنیا تیسری جنگِ عظیم کا مکروہ چہرہ نہ چاہتے ہوئے بھی ضرور دیکھے گی۔ قومیں ایک بار پھر گروہوں کی صورت میں تقسیم ہوجائیں گی اور ایک گروہ، دوسرے کی بربادی میں اپنی فلاح کا راستہ کھوجے گا اور ہماری بعد کی نسلیں تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں گی کہ تیسری جنگِ عظیم سے بچنا پوری طرح ممکن تھا لیکن انا اور مفادات نے کروڑوں جانیں تلف کردیں۔
موجودہ وقت بحرانی ہے جس کے دامن میں کئی سوالات ہیں اور یہ سارے سوالات فوری جواب طلب ہیں۔ کیا ہماری نسلوں کو اپنے قدم جمانے کے لیے زمین نہیں مل پائے گی؟ ہم سے سانس لینے کی آزادی بھی سلب کرلی جائے گی؟ کیا جدید دنیا خون میں لتھڑی لاشوں کو دفناتے دفناتے ہی فنا ہوجائے گی؟ امن، رحم اور سلامتی کے لیے کی جانے والی دعائیں کیا آسمان سے رد کر دی جائیں گی؟
نوعِ انسانی اپنی بقا کے لیے دونوں ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہی ہے، رو رہی ہے، گڑگڑا رہی ہے، لیکن اس کو محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔ جنگ کی دستک نے جنگ سے پہلے ہی خوف کی ٖفضا پیدا کر دی ہے۔ کتنے ہی سہمے ہوئے دل اس خوف کے باعث دھڑکن سے محروم ہوجائیں گے، زندگی کی ڈور کچھ اور طویل کرنے کی آس میں مکین گھر بار چھوڑ جائیں گے! پیچھے باقی رہ جانے والے دن کے اذیت بھرے لمحوں اور رات کے سناٹوں سے جب ہولا جائیں گے تو چیخ اٹھیں گے کہ روز روز کے مرنے سے تو اک بار کا مرنا ہی اچھا ہے۔
ذاتی عناد ومفادات نے بین الاقوامی سیاست کی تعریف بدل ڈالی، جمہوریت کا چہرہ مسخ کردیا ، دنیا کے امن اور سلامتی کو تاراج کرنے میں لمحہ بھرکا بھی تامل نہ کیا ۔ روتا بلکتا ہوا ماضی شاہد ہے کہ 1914میں ہونے والی پہلی جنگِ عظیم سے بچنا ممکن تھا۔ ایک شاہی قتل کو جواز بنا کر پوری دنیا کو جنگ کی طرف دھکیل دینا اس وقت کی عالمی طاقتوں کی انا پرستی اور حیوانی تسکین کے سوا کچھ نہ تھا۔
وہ جنگ نہ تو سفارت کاری کی ناکامی کی وجہ تھی اور نہ ہی کسی حادثے کا نتیجہ، بلکہ عالمی طاقتوں کی سوچی سمجھی سازش تھی۔ جرمنی کا حکمراں قیصر ولہیلم پوری دنیا میں جرمن غلبہ دیکھنے کا شدید آرزو مند تھا۔ اس خواہش کی بھینٹ ایک کروڑ افراد کو چڑھنا پڑا۔ جرمنی، آسٹریا اور ہنگری کو بہ خوبی اندازہ تھا کہ سربیا پر حملے کی صورت میں روس لازمی سربیا کی مدد کو آئے گا، اور ہوا بھی یہی، یوں دیکھتے ہی دیکھتے یہ جنگ پورے خطے تک پھیل گئی۔ کروڑوں انسانوں کی خواہش کی پروا کیے بغیر ان پر جنگ مسلط کردی گئی۔
اسی طرح دوسری جنگِ عظیم کی وجہ ہٹلر کی نسل پرستانہ سوچ بنی، چھ سال بعد جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی تو دنیا ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی تھی۔ اس میں بے شمار ملکوں کی زمین متاثر ہوئی اور لگ بھگ پانچ کروڑ لوگ جان سے گئے۔ اس جنگ کا سب سے خطرناک پہلو امریکا کی طرف سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیے جانے والے ایٹمی حملے تھے، جس کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں تھا، لیکن امریکا کے لیے اپنی طاقت کے مظاہرے کا یہ بہترین موقع تھا، جسے اس نے نہیں گنوایا۔ اس بات کی فکر سے آزاد کہ ایٹمی حملوں کے بعد قوم کا مستقبل کیسا دردناک اور شب وروز کتنے اذیت ناک ہو کر رہ جائیں گے۔
اب تیسری عالمی جنگ کی پیش گوئیاں چند ذہنوں کی اختراع نہیں، بلکہ شمالی کوریا اور امریکا کا موجودہ تنازعہ ایک بار پھر ہزاروں لوگوں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے کو بے تاب ہے۔ شمالی کوریا کی جانب سے ایک دھمکی آتی ہے تو امریکا فرضِ عین سمجھتے ہوئے جوابی دھمکی دیتا ہے۔ خطے میں نصب امریکی ڈیفینس میزائل سسٹم تھاڈ کو اگر امریکا اور جنوبی کوریا اپنے تحفظ کے لیے لازمی قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف چین اس کے خلاف چیخ رہا ہے اور شمالی کوریا پھنکار رہا ہے۔ اس سب کا حاصل خطے میں کشیدگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
شمالی کوریا امریکا کو اپنی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانتے ہوئے نہ صرف یکے بعد دیگرے ایٹمی تجربات کر رہا ہے بلکہ امریکا کو علی الاعلان للکار بھی رہا ہے۔ شمالی کوریا کی نظر میں امریکا نے یہاں تھاڈ میزائل کی تنصیب سے اپنی قبر کھود لی ہے۔ امریکا ''راکٹ مین'' (ٹرمپ کی طرف سے شمالی کوریا کے رہنما کو دیا جانے والا نیا نام )کی ان دھمکیوں کو دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کرنے کے بجائے فضا میں طیاروں کی گڑگڑاہٹ سننے کا خود بھی متمنی ہو گیا ہے۔ یوں دنیا ایک بار پھر مصائب کی دہائی کے دہانے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ انسانی جانوں کو نگلنے کے لیے دونوں جانب نصب ایٹمی ہتھیار اشارہ ملتے ہی لمحہ بھر کی مہلت کے بغیر دنیا کا نقشہ ایک بار پھر بدل ڈالیں گے۔
اس صورت حال پر سیکیورٹی ماہرین خطے میں شدید اشتعال کا خطرہ ظاہر کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا امریکا کو دباؤ میں لینے کے لیے بڑے پیمانے پر درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کے تجربات پہ تجربات کر رہا ہے، جس سے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کے پاس امریکا کو تباہ کردینے کی صلاحیت ہے، جس سے صورت حال بحرانی اور تباہ کن ہوتی جا رہی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ سے فعال کردار ادا کرنے کی امید بھی عبث ہی ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے سالانہ اجلاس میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو درپیش، ماحولیات اور اس جیسے دیگر خطرناک مسائل کی طرف سے آنکھیں بند کرکے، شمالی کوریا کو تباہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تو وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بین الاقوامی تعاون، امن اور سلامتی کو وقت کی دھول کی نذر کر دینا سب سے آسان ہے۔
اس کشیدہ صورت حال میں ٹرمپ سے توقع تھی کہ وہ بیان بازی کے بجائے بامقصد بیان دیں گے، لیکن ٹرمپ نے گویا نیک ارادوں سے خود کو باز رکھنے کا عزمِ مصمم کرلیا ہے۔ اپنی طاقت کے بل پر زیر کر دینے کا حربہ تو ترقی یافتہ اور متمدن قوموں کا شعار نہیں۔ اگر طاقت کا حربہ ہی آزمانا ہے تو پہلے اس صدی کو نئی، ترقی یافتہ، روشن اور جگمگاتی صدی کہنے سے انکار کیا جائے اور اگر عالمی قوتوں کو ایسا لگتا ہے کہ ایٹمی جنگ ہی مسائل کا ''واحد حل '' ہے تو پہلے اس کے بدترین اثرات سے گروہِ انسانی کو محفوظ رکھنے کی منصوبہ بندی تو کی جائے۔ ایسی پناہ گاہیں اور تہہ خانے تعمیر کیے جائیں جن پر تاب کاری اثر نہ کرے۔ کروڑوں لوگوں کے تحفظ کے لیے پناہ گاہیں بنانا یقیناً دشوار ہے مگر ان کو جنگ کی بھینٹ چڑھا دینا بہت آسان ہے۔
یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم تک کا تجربہ کر کے اپنے جنگی جنون کو انتہا پر پہنچا دیا ہے لیکن امریکا کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے عالمی طاقت ہونے کے منصب کا لحاظ کرتے ہوئے دانش مندی سے مصالحت کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ نہ صرف سفارت کاری کے ذریعے شمالی کوریا کو اس کے ارادوں سے باز رکھنے کی کوشش ہو بلکہ دیگر ممالک کے ذریعے شمالی کوریا پر پُرامن طریقوں سے دباؤ ڈلوایا جائے۔ وہ قومیں جو اس وقت خود کو ساری دنیا کا چوہدری سمجھتی ہیں، انھیں آگے بڑھ کر امریکا اور شمالی کوریا کو مصالحت اور مفاہمت کے دروازے سے اندر لانا چاہیے۔
امریکا اور شمالی کوریا کو روس کے باہمت اور جری آفیسر پیٹروو کی زندگی سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے جس نے اکیلے ہی پوری دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچا لیا اور تاریخ میں امر ہو گیا۔ پیٹروو جیسے ٹھنڈے دماغ ہی اس طرح کے بحران سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہو پاتا تو دنیا تیسری جنگِ عظیم کا مکروہ چہرہ نہ چاہتے ہوئے بھی ضرور دیکھے گی۔ قومیں ایک بار پھر گروہوں کی صورت میں تقسیم ہوجائیں گی اور ایک گروہ، دوسرے کی بربادی میں اپنی فلاح کا راستہ کھوجے گا اور ہماری بعد کی نسلیں تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں گی کہ تیسری جنگِ عظیم سے بچنا پوری طرح ممکن تھا لیکن انا اور مفادات نے کروڑوں جانیں تلف کردیں۔
موجودہ وقت بحرانی ہے جس کے دامن میں کئی سوالات ہیں اور یہ سارے سوالات فوری جواب طلب ہیں۔ کیا ہماری نسلوں کو اپنے قدم جمانے کے لیے زمین نہیں مل پائے گی؟ ہم سے سانس لینے کی آزادی بھی سلب کرلی جائے گی؟ کیا جدید دنیا خون میں لتھڑی لاشوں کو دفناتے دفناتے ہی فنا ہوجائے گی؟ امن، رحم اور سلامتی کے لیے کی جانے والی دعائیں کیا آسمان سے رد کر دی جائیں گی؟
نوعِ انسانی اپنی بقا کے لیے دونوں ہاتھ پھیلائے بھیک مانگ رہی ہے، رو رہی ہے، گڑگڑا رہی ہے، لیکن اس کو محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔ جنگ کی دستک نے جنگ سے پہلے ہی خوف کی ٖفضا پیدا کر دی ہے۔ کتنے ہی سہمے ہوئے دل اس خوف کے باعث دھڑکن سے محروم ہوجائیں گے، زندگی کی ڈور کچھ اور طویل کرنے کی آس میں مکین گھر بار چھوڑ جائیں گے! پیچھے باقی رہ جانے والے دن کے اذیت بھرے لمحوں اور رات کے سناٹوں سے جب ہولا جائیں گے تو چیخ اٹھیں گے کہ روز روز کے مرنے سے تو اک بار کا مرنا ہی اچھا ہے۔