بھارت کا خوف
اندرونی مسائل میں گھرا بھارت خود ان سے بمشکل نبرد آزما ہے لیکن اس پر طرہ یہ کہ پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے
قائد اعظم بے باک، اصول پسند سیاستدان اور مضبوط ارادوں کے مالک تھے۔ سیاست ان کا شوق نہیں بلکہ وہ پاکستانی آزاد قوم کو ایک ایسی مستحکم اور روشن راہ پر چلانے کے خواہش مند تھے کہ جس پر چل کر پاکستان ایک مضبوط ملک بن جائے۔
ایک موقعہ تھا جب کشمیر پر بھارتی جارحیت نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو آپ جو بھارت کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات رکھنے کے خواہاں تھے لیکن آپ نے اس جارحیت کے جواب میں جارحیت کا حکم دیا تھا آپ کا نظریہ بالکل واضح تھا آپ بھارت کے ساتھ اصولوں کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتے تھے۔ گیارہ مارچ 1948ء کو ایک سوئٹزرلینڈ کے صحافی نے آپ سے سوال کیا کہ کیا پاکستان اور ہندوستان پرامن طور پر تنازعات حل کرسکتے ہیں؟
قائد اعظم نے جواب دیا۔
''ہاں، اگر ہندوستان کی حکومت احساس برتری ختم کردے اور پاکستان کے ساتھ مساوی حیثیت میں تعلق قائم کرے اور حقیقتوں کا مکمل ادراک کرے۔''
آج بھارت میں جس قسم کی ہوا چل رہی ہے اس نے ملک کے اندر دہشتگردی کو مزید فروغ دیا ہے۔ نریندر مودی اپنے ماضی کے حوالوں کے ساتھ اسی طرح مشہور و مقبول ہیں یہاں تک کہ آج وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں لیکن بھارت میں حالات وہاں کے عام باسیوں کو مسائل میں گھیر رہے ہیں لیکن مذہبی جنون جو دہشتگردی کی فہرست میں اول درجے پر ہے زیادہ ہی پھل پھول رہا ہے۔
اس کی مثال ان شدت پسند مذہبی جنونی گروپس کی ہے جو آج بھی بھارت کو سیکولر ہونے کے باوجود صرف ہندو دھرم کے ماننے والوں کی سرزمین بنانے کے خواہاں ہیں ویسے تو آئے دن خبریں گرم ہی رہتی ہیں کہ گائے کو فروخت، ذبح یا اس کا گوشت کھانے پر قتل کیا گیا، تشدد کرکے مار دیا گیا، جلا دیا گیا، یہ تو آئے دن ہوتا ہی آرہا ہے لیکن ریاست ہریانہ کے شہر گڑگاؤں میں شیوسینا کے حامیوں نے حد ہی کردی اور دس روز تک پانچ سو سے زائد مرغی کے کاروبار کرنے والوں کی دکانوں کو بھی بند کرنے کا حکم دیا۔ شیو سینا کے جنرل سیکریٹری ریتو راج نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ ''ہم نے نو راتری کے تہوار کے موقعے پر تمام چکن اور گوشت کی دکانوں کو نو روز کے لیے بند کرنے کا نوٹس دیا ہے۔''
صرف یہی نہیں بلکہ وہاں گوشت سے بنے کھانوں کو بیچنے والے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کو بھی بند کردیا گیا ہے۔ وہاں زعفرانی رنگ کے کپڑے پہنے شیوسینا کے حامی بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں اور اگر کسی دکان کو کھلا دیکھا جاتا ہے تو سختی اور تشدد کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گوشت کا کاروبار کرنے والے اکثر مسلمان ان کے اس تشدد اور مارپیٹ سے خوفزدہ ہیں انھیں ڈر ہے کہ اس طرح کہیں مستقل ان کے کاروبار کو بند نہ کردیا جائے اور وہ شیو سینا کے جنونی کارکنوں کے تشدد اور ظلم سے خوفزدہ ہیں۔
اندرونی مسائل میں گھرا بھارت خود ان سے بمشکل نبرد آزما ہے لیکن اس پر طرہ یہ کہ پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے، اقوام متحدہ میں جس طرح بھارتی سیکریٹری نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے حوالے سے الزامات عائد کیے اس بات کا مظہر ہے کہ بھارت مسائل کے حل کے بجائے واویلا کرکے دنیا کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پرانے حوالے گو خاصے پرانے ہوچکے ہیں ان حوالوں میں کس قدر سچائی تھی آج بھی سب کے سامنے ہے لیکن کشمیر کے مسئلے کو کسی بھی طرح سے دبا کر، چھپا کر، چلا کر ٹالنے کی پالیسی ماضی کے حکمرانوں کی طرح آج بھی برقرار ہے وہ کسی بھی طور اگلے الیکشن میں اپنی سیٹوں کو کم کرنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ ان کے خیال میں کشمیر کے ایشو کو حل کرنے کا مقصد اپنی عوام کے سامنے شرمندگی کا طوق گلے میں ڈالنے کے مترادف ہے حالانکہ کشمیر میں ہونے والی بھارتی جارحیت نے اب نہ صرف بیرونی دنیا بلکہ بھارت میں بسنے والی عوام کو بھی بھارتی فوج کے رویوں سے متنفر کردیا ہے، اس پر سونے پہ سہاگہ بھارتی فوج نے جس برے کردار کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے اس سے ان کا اعتماد اپنی فوج پر کم ہو چکا ہے۔ اکثریت کے خیال میں بھارتی فوج بجائے اپنی قوم کی حفاظت کرنے کے انھیں اذیت دیتی ہے۔ نفسیاتی طور پر نچلے درجے کے فوجی بھی اپنے افسران کی ہٹ دھرمی اور کرپشن سے دل برداشتہ ہیں۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی یو این او میں تقریر نے بھارتی ایوانوں میں جس خوف کو پیدا کیا ہے اس کا مظاہرہ حالیہ بھارتی سیکریٹری کی اس ہرزہ سرائی سے ظاہر ہوگیا جس میں اس نے پاکستان کے نام کو اپنے تئیں تشدد سے جوڑنے کی جس طرح کوشش کی اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر طرح سے دنیا کو کشمیر کے ایشو پر چپ کرانے میں مصروف ہے جب کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کا انگ کشمیر ہے اور صرف پاکستان سے ہی کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں پر جس طرح سے آہ اٹھتی ہے اس کا درد ایک دنیا میں سنانے والا بھی پاکستان ہی ہے، لیکن اندرونی خلفشار کا شکار بھارت جس طرح بیرونی دنیا کے سامنے ڈرامے کرکے اپنے تئیں بہترین نتائج جمع کرنے میں مصروف ہے۔
کیا اندر سے بھارت میں ابلنے والے اس تشدد کے ریلے کو روک سکے گا جو شیو سینا کے مذہبی جنونیوں، آسام کے باغیوں، سکم کے علیحدگی پسند اور سکھ برادری کے اندر ابھرتے تنہائی کے جنون کی شکل میں بپا ہونے کو تیار ہے۔ آخر کب تک وہ پاکستان کو برا ، تشدد پسند، دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والا وغیرہ وغیرہ کے ٹیگ لگا لگا کر اپنے آپ کو مطمئن کرتے رہیں گے۔ آنے والا موسم کہیں باہر کی بجائے اندر سے ہی خطرات کے کالے بادل بھارت کے آسمان پر بکھیر دے تو۔ اس تو کا کوئی جواب ہے؟ ہے تو مستقبل کے دامن میں۔
ایک موقعہ تھا جب کشمیر پر بھارتی جارحیت نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو آپ جو بھارت کے ساتھ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات رکھنے کے خواہاں تھے لیکن آپ نے اس جارحیت کے جواب میں جارحیت کا حکم دیا تھا آپ کا نظریہ بالکل واضح تھا آپ بھارت کے ساتھ اصولوں کی بنیاد پر تعلقات رکھنا چاہتے تھے۔ گیارہ مارچ 1948ء کو ایک سوئٹزرلینڈ کے صحافی نے آپ سے سوال کیا کہ کیا پاکستان اور ہندوستان پرامن طور پر تنازعات حل کرسکتے ہیں؟
قائد اعظم نے جواب دیا۔
''ہاں، اگر ہندوستان کی حکومت احساس برتری ختم کردے اور پاکستان کے ساتھ مساوی حیثیت میں تعلق قائم کرے اور حقیقتوں کا مکمل ادراک کرے۔''
آج بھارت میں جس قسم کی ہوا چل رہی ہے اس نے ملک کے اندر دہشتگردی کو مزید فروغ دیا ہے۔ نریندر مودی اپنے ماضی کے حوالوں کے ساتھ اسی طرح مشہور و مقبول ہیں یہاں تک کہ آج وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں لیکن بھارت میں حالات وہاں کے عام باسیوں کو مسائل میں گھیر رہے ہیں لیکن مذہبی جنون جو دہشتگردی کی فہرست میں اول درجے پر ہے زیادہ ہی پھل پھول رہا ہے۔
اس کی مثال ان شدت پسند مذہبی جنونی گروپس کی ہے جو آج بھی بھارت کو سیکولر ہونے کے باوجود صرف ہندو دھرم کے ماننے والوں کی سرزمین بنانے کے خواہاں ہیں ویسے تو آئے دن خبریں گرم ہی رہتی ہیں کہ گائے کو فروخت، ذبح یا اس کا گوشت کھانے پر قتل کیا گیا، تشدد کرکے مار دیا گیا، جلا دیا گیا، یہ تو آئے دن ہوتا ہی آرہا ہے لیکن ریاست ہریانہ کے شہر گڑگاؤں میں شیوسینا کے حامیوں نے حد ہی کردی اور دس روز تک پانچ سو سے زائد مرغی کے کاروبار کرنے والوں کی دکانوں کو بھی بند کرنے کا حکم دیا۔ شیو سینا کے جنرل سیکریٹری ریتو راج نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ ''ہم نے نو راتری کے تہوار کے موقعے پر تمام چکن اور گوشت کی دکانوں کو نو روز کے لیے بند کرنے کا نوٹس دیا ہے۔''
صرف یہی نہیں بلکہ وہاں گوشت سے بنے کھانوں کو بیچنے والے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کو بھی بند کردیا گیا ہے۔ وہاں زعفرانی رنگ کے کپڑے پہنے شیوسینا کے حامی بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں اور اگر کسی دکان کو کھلا دیکھا جاتا ہے تو سختی اور تشدد کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گوشت کا کاروبار کرنے والے اکثر مسلمان ان کے اس تشدد اور مارپیٹ سے خوفزدہ ہیں انھیں ڈر ہے کہ اس طرح کہیں مستقل ان کے کاروبار کو بند نہ کردیا جائے اور وہ شیو سینا کے جنونی کارکنوں کے تشدد اور ظلم سے خوفزدہ ہیں۔
اندرونی مسائل میں گھرا بھارت خود ان سے بمشکل نبرد آزما ہے لیکن اس پر طرہ یہ کہ پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے، اقوام متحدہ میں جس طرح بھارتی سیکریٹری نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے حوالے سے الزامات عائد کیے اس بات کا مظہر ہے کہ بھارت مسائل کے حل کے بجائے واویلا کرکے دنیا کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پرانے حوالے گو خاصے پرانے ہوچکے ہیں ان حوالوں میں کس قدر سچائی تھی آج بھی سب کے سامنے ہے لیکن کشمیر کے مسئلے کو کسی بھی طرح سے دبا کر، چھپا کر، چلا کر ٹالنے کی پالیسی ماضی کے حکمرانوں کی طرح آج بھی برقرار ہے وہ کسی بھی طور اگلے الیکشن میں اپنی سیٹوں کو کم کرنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ ان کے خیال میں کشمیر کے ایشو کو حل کرنے کا مقصد اپنی عوام کے سامنے شرمندگی کا طوق گلے میں ڈالنے کے مترادف ہے حالانکہ کشمیر میں ہونے والی بھارتی جارحیت نے اب نہ صرف بیرونی دنیا بلکہ بھارت میں بسنے والی عوام کو بھی بھارتی فوج کے رویوں سے متنفر کردیا ہے، اس پر سونے پہ سہاگہ بھارتی فوج نے جس برے کردار کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے اس سے ان کا اعتماد اپنی فوج پر کم ہو چکا ہے۔ اکثریت کے خیال میں بھارتی فوج بجائے اپنی قوم کی حفاظت کرنے کے انھیں اذیت دیتی ہے۔ نفسیاتی طور پر نچلے درجے کے فوجی بھی اپنے افسران کی ہٹ دھرمی اور کرپشن سے دل برداشتہ ہیں۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی یو این او میں تقریر نے بھارتی ایوانوں میں جس خوف کو پیدا کیا ہے اس کا مظاہرہ حالیہ بھارتی سیکریٹری کی اس ہرزہ سرائی سے ظاہر ہوگیا جس میں اس نے پاکستان کے نام کو اپنے تئیں تشدد سے جوڑنے کی جس طرح کوشش کی اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ہر طرح سے دنیا کو کشمیر کے ایشو پر چپ کرانے میں مصروف ہے جب کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کا انگ کشمیر ہے اور صرف پاکستان سے ہی کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں پر جس طرح سے آہ اٹھتی ہے اس کا درد ایک دنیا میں سنانے والا بھی پاکستان ہی ہے، لیکن اندرونی خلفشار کا شکار بھارت جس طرح بیرونی دنیا کے سامنے ڈرامے کرکے اپنے تئیں بہترین نتائج جمع کرنے میں مصروف ہے۔
کیا اندر سے بھارت میں ابلنے والے اس تشدد کے ریلے کو روک سکے گا جو شیو سینا کے مذہبی جنونیوں، آسام کے باغیوں، سکم کے علیحدگی پسند اور سکھ برادری کے اندر ابھرتے تنہائی کے جنون کی شکل میں بپا ہونے کو تیار ہے۔ آخر کب تک وہ پاکستان کو برا ، تشدد پسند، دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والا وغیرہ وغیرہ کے ٹیگ لگا لگا کر اپنے آپ کو مطمئن کرتے رہیں گے۔ آنے والا موسم کہیں باہر کی بجائے اندر سے ہی خطرات کے کالے بادل بھارت کے آسمان پر بکھیر دے تو۔ اس تو کا کوئی جواب ہے؟ ہے تو مستقبل کے دامن میں۔