جو اصل خواجہ سرا ہیں
ان کی پیاری اور میٹھی باتیں سن کر دل مسرور ہوتا ہے کس قدر دعائیں دیتے ہیں قدرتی خوشی حاصل ہوتی ہے۔
اردو زبان میں مذکر اور مونث موجود ہے، عربی میں مذکر، مونث اور مخنث لکھا جاتا ہے۔ ان کی گرامر میں یہ تین صفات پائی جاتی ہیں۔ مذکر اگر انسان کو لیں تو وہ مرد اور مونث عورت کو کہیں گے۔ مخنث ایک تیسری جنس ہے جو مرد ہے نا عورت اس کو ہم خواجہ سرا کا نام دیتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کی دین ہے جیسا جس کو بنایا وہ دنیا میں آیا اس کے اپنے اختیار میں تو نہیں جو وہ چاہے بن جائے۔
ایک مقامی ٹی وی چینل کے محققین نے اس پر بڑی تحقیق کی وہ باتیں معلوم ہوئیں جو عام لوگوں کو اس کا قطعی علم نہ ہوگا مثلاً سگنل پر جو بھیک مانگ رہے ہیں انھوں نے اپنے آپ کو خواجہ سرا بنا لیا ہے جب کہ وہ اصل مرد ہیں ساری مردانہ قوت و جنس موجود ہے لیکن ایک معمولی پیشہ سمجھتے ہوئے بھیک مانگنا شروع کردی، لیکن جو اصل خواجہ سرا ہیں وہ کہیں بھیک مانگتے نظر نہیں آئیں گے۔
ان میں آپس میں بے حد اتفاق و اتحاد ہے مل جل کر محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کا تعلق گانا بجانا، شادی بیاہ ہو، منگنی یا عقیقہ، اولاد کی پیدائش کی خوشی میں بھی یہ جا کر گاتے بجاتے ہیں دعائیں دیتے ہیں جس کا جو دل چاہے خوشی کے ساتھ ان کو دے دے یہ قبول کرلیتے ہیں۔
سب سے بڑی بات یا یوں سمجھیں بڑی خوبی ان میں یہ ہے لڑائی جھگڑا کسی سے نہیں کرتے حتیٰ کہ آپس میں بھی نہیں لڑتے اگر کوئی ان کو پریشان کرے تنگ کرے تو اس سے بھی نہیں جھگڑتے بلکہ اس کو یہ کہہ دیتے ہیں جاؤ مت تنگ کرو تم کو اللہ سمجھے گا ہم تو کچھ نہیں کرسکتے۔ دیکھا جائے تو نہایت معصوم نسل ہے ان کی معصومیت عیاں ہے آج تک شاید کسی نے کبھی نہیں سنا ہوگا کسی خواجہ سرا نے جھگڑا فساد کیا۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے چند لڑکے جو خواجہ سرا بننے کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ آپریشن کروا کر ان کے پاس جاتے ہیں۔ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ آپریشن کروایا ہے۔ چونکہ وہ خواہش مند ہوتا ہے اس لیے یہ اس کی خواہش کو نہیں ٹھکراتے اس کو خواجہ سرا بنا لیتے ہیں آداب و تہذیب کا درس اور گانا بجانا سکھاتے ہیں۔ ان کا پہلا درس ہوتا ہے تم نے کسی سے لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ نہیں کرنا۔ جو شخص تم کو جو بھی کہے اسے کہنے دینا وہ خود خاموش ہوجائے گا اور اگر بہت دل خراب ہو تو بس اتنا کہہ دینا جاؤ بھائی! تم کو اللہ سمجھے۔ ان کی پیاری اور میٹھی باتیں سن کر دل مسرور ہوتا ہے کس قدر دعائیں دیتے ہیں قدرتی خوشی حاصل ہوتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے یہ صرف ہندوستان یا پاکستان میں پائے جاتے ہیں ایسا نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہیں لیکن وہاں کی حکومتیں ان کو عزت دار ملازمتوں سے نوازتی ہیں۔ بسا اوقات علم نہیں ہوتا یہ خواجہ سرا ہیں اور نہ یہ ظاہر کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں شاید برصغیر میں شروع دور سے خواہ وہ کسی بھی بادشاہ کا دور گزرا ہو اس میں خواجہ سرا پائے گئے بلکہ بادشاہوں نے ان کو اپنے درباروں میں خواتین کی رہائشوں میں ملازمتیں دیں ان کو ملازم رکھا اس طرح در در کی ٹھوکروں سے بچایا۔ لیکن وہ سارے دور ختم ہوئے تو یہ سب در بہ در ہوئے بالآخر انھوں نے گانے بجانے کا کام شروع کردیا کیونکہ ان کو کہیں نوکری نہیں ملتی تو پھر کیا کریں۔
بھیک مانگنا انھوں نے شروع سے برا جانا، گانے بجانے کو اپنی محنت و مشقت کی کمائی سمجھ کر آپس میں مل بیٹھ کر گزر اوقات کیا۔ ایسا بھی ہوا جس محلے میں یہ رہے وہاں کے محلے والوں نے ان کو بے دخل کیا یہ کہہ کر ہمارا ماحول خراب ہو رہا ہے جب کہ یہ تو سب سے الگ اپنے گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں گرو اور چیلے کی طرح رہتے ہیں۔ ظالموں نے نہ جانے یا کیا کچھ سمجھا نکال باہرکیا۔
بے چارے در بہ در پھرتے رہے کسی نیک انسان نے مکان کرایہ پر دے دیا۔ یہ اس انسان کی بڑی نیکی ہمیشہ اس کو دعائیں دیتے رہے۔ میں نے ہمیشہ ان کے منہ سے دعا سنی ہے بددعا نہیں سنی۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ لوگ بددعا دیتے ہیں تو میرے نزدیک یہ بات درست نہیں۔ یہ مجبور، بے بس لوگ دعاؤں کے سوا بددعا دینے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ اگر چند لوگ انھیں تنگ کریں تمسخر اڑائیں تو بے چارے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ پھر بھی کوئی ان کے پیچھے آکر پریشان کرے تو صرف یہ کہتے ہیں تم کو اللہ سمجھے گا۔
میں نے ایک خواجہ سرا سے پوچھا آپ مجھ کو صحیح بتائیں آپ روڈ پر یا سگنل پر بھیک کیوں مانگتے ہیں؟ اس کے ساتھ دوسرا خواجہ سرا بھی کھڑا تھا۔ نہایت نرم لہجے اور پیار سے کہنے لگا اللہ آپ کو خوش رکھے آباد رکھے، آج آپ نے ایسی بات پوچھی ہے جس کے ہم بھی خلاف ہیں۔ آپ ہماری اس بات پر یقین کریں اصل نقل کی یہ ایک پہچان ہے اصل خواجہ سرا کبھی اس طرح سگنل پر بھیک مانگتے نظر نہیں آئیں گے۔ اس کی اس بات کا ثبوت اس مقامی اردو چینل سے مل گیا انھوں نے ایک لڑکے کو خواجہ سرا کا روپ دھارا اور ایک سگنل پر اس کو کھڑا کردیا جہاں دیگر چھ عدد خواجہ سرا (جو مصنوعی تھے) کھڑے کار، موٹرسائیکل والوں سے بھیک مانگ رہے تھے۔
یہ لڑکا ان کے پاس خواجہ سرا بن کر گیا انھوں نے کہا تم یہاں کیسے آئے کون ہو، ہم تم کو نہیں جانتے۔ اس نے کہا میں دو روز قبل دوسرے شہر سے یہاں آیا ہوں اس لیے میں بھیک مانگنے آگیا، میں مرد ہوں جس طرح آپ لوگ ہیں۔ پہلے تو وہ سٹپٹائے پھر بولے تم نے جب سمجھ لیا تو صحیح سمجھا تم بھی مرد ہو اور ہم بھی مرد ہیں لیکن یہ علاقہ ہمارا ہے آپ یہاں بھیک نہیں مانگ سکتے، دوسرے مصنوعی خواجہ سرا بھی آگئے۔ سب نے اس کو وہاں سے جانے کو کہا۔ اس نے کہا میں پردیسی ہوں آپ لوگ میری مدد کریں میں آپ کا شاگرد بننا چاہتا ہوں۔ ان میں سے ایک اس بات پر تیار ہوگیا۔
کسی بھی بات کی تحقیق کی جائے تو حقائق سامنے آجاتے ہیں اب کیا کیا جائے ہماری حکومت ویسے ملازمتیں نہیں دیتی تو وہ ان کو کیا اور کیسے ملازمت دے گی۔ بس ان کے لیے وہی کام ہے جو صدیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں ناچ گانا، لوگوں کا دل خوش کرنا، دعائیں دینا۔ جب یہ دعا دیتے ہیں اتنا اچھا لگتا ہے۔ پیار بھری آواز اپنے سے چھوٹے کو بیٹی یا بیٹا بڑے کو بھائی یا باجی عزت کے ساتھ القابات سے نوازنا کبھی کبھی میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہیں ایسا تو نہیں یہ ہم سے زیادہ مہذب ہوں۔
ہم دعویٰ تو اپنی تہذیب کا بڑے فخر سے کرتے ہیں لیکن معمولی بات پر لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ شروع کردیتے ہیں۔ جب کہ ان میں ایسا کوئی عنصر نظر نہیں آیا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں یہ مجھ سے زیادہ اچھے لوگ ہیں۔ کسی کو ایذا نہیں پہنچائی، کہیں چوری کی، کسی کا موبائل چھینا الغرض جب کبھی ان سے بات ہوتی ہے اور اگر پوچھیں کیسی زندگی گزر رہی ہے پہلے تو وہ اللہ کا شکر ادا کریں گے پھر کہیں گے بہت اچھی زندگی گزر رہی ہے۔
ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں چونکہ ہم کو معلوم ہے اب بقیہ زندگی اسی طرح گزرنی ہے ہم میں سے چند ایک نے عمرہ بھی کیا حج بھی کیا لیکن نہ جانے کیوں اب سعودی عرب نے ہمارے عمرہ و حج پر قدغن لگا دی جب کہ ہم وہاں جاکر کوئی ناچ گانا نہیں کرتے بلکہ مرد کی حیثیت سے حج ادا کرتے ہیں، عمرہ بھی اسی طرح کرتے ہیں کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ ہماری حکومت پاکستان سے اپیل ہے ہم کو عمرہ اور حج کی اجازت صادر فرمائی جائے۔ (جاری ہے)