… و من ترکی نمی دانم

ملک کی سب سے بڑی اور اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ ہی جگ میں اْس کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔


سردار قریشی September 27, 2017

پاناما گیٹ صرف ہمارا مسئلہ نہیں، بھارت سمیت دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی اس کی زد میں ہیں اور اپنے اپنے طور پر اس سے نمٹ رہے ہیں۔ یہ صرف ہم ہیں جو اس کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد سارے جہاں میں ہدفِ تنقید بنے ہوئے ہیں اور ہم پر ہر طرف سے لعن طعن کے تیر برسائے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی اور اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ ہی جگ میں اْس کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔

اس فیصلے کا شکار ہونے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف جب اپنی جی ٹی روڈ ریلی کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد سے لاہور جارہے تھے، ٹھیک انھی دنوں بھارتی پارلیمان میں بھی یہ مسئلہ وہاں کے پس منظر میں زیر بحث تھا۔ ایک رکن کے استفسار پر کہ ان بھارتیوں پر مقدمات کب چلائے جائیں گے جن کے نام پاناما پیپرز میں شامل ہیں، حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ ان لوگوں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں اور جو مجرم پائے جائیں گے ان پر یقیناً مقدمات بھی چلیں گے اور دنیا انھیں اپنے انجام کو پہنچتا دیکھے گی۔ اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ یہ کہنا بھی ضروری سمجھا گیا کہ ''ہم پاکستان نہیں ہیں کہ پہلے ملزم کو سزا سنا دیں اورمقدمہ بعد میں چلائیں۔''

افسوس کہ یہاں یہی کچھ ہوا ہے۔ پہلے وزیر اعظم کو نااہل قرار دیکر چلتا کیا گیا اور پھر نیب کو حکم دیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش کردہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں اور اس کی مدد سے وزیراعظم، ان کے بچوں، داماد اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف کرپشن کے مقدمات تیارکرکے احتساب عدالت میں ریفرنسز داخل کرے۔ گویا ابھی یہ ثابت ہونا باقی ہے کہ ملزمان نے کرپشن کی ہے یا نہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر جرم ثابت نہیں ہوا تھا تو وزیراعظم کو نااہل قرار دیکر گھر کیوں بھیج دیا گیا، جرم ثابت ہونے کا انتظارکیوں نہیں کیا گیا۔ فیصلے کا دوسرا پہلو جو اسے مزید مضحکہ خیز بناتا ہے، یہ ہے کہ فرض کریں احتساب عدالت نواز شریف کوکرپشن کے الزامات سے بری کردیتی ہے، پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کی کیا وقعت رہ جائے گی، اگرچہ اس کا سرے سے کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ فیصلے کی رو سے احتساب عدالت کی کارروائی کو بھی سپریم کورٹ کا نامزد کردہ ایک جج مانیٹر کرے گا۔ اسی نکتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی نے کہا تھا کہ قانون نواز شریف کو چھوڑتا ہے تو چھوڑ دے ہم نہیں چھوڑیں گے۔

بین الاقوامی میڈیا میں فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل ایک جج کے اْس ریمارک کو بھی خوب اچھالا گیا کہ ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ میڈیا میں ہمارے فیصلے کے حوالے سے کیا رپورٹ ہوتا ہے۔ پارلیمان کے ایک معزز رکن، سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اسی بے پروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کے خلاف تیکنیکی بنیاد پر سنائے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مولوی تمیزالدین کیس کی بْو آتی ہے۔ یوں ایک طرف ہمیں جگ ہنسائی کا سامنا ہے تو دوسری جانب ہم اس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور داڑھیاں نوچنے میں لگے ہیں۔

''روم جل رہا تھا اور نیرو بیٹھا بانسری بجا رہا تھا'' کے مصداق جب تک جوتا ہمارے اپنے سر پہ نہیں پڑتا، ہمیں عقل نہیں آتی۔ یوسف رضا گیلانی کے نااہل قرار پاکر گھر جاتے وقت نواز شریف کا ردعمل ریکارڈ پر ہے، اب جب ان کی اپنی باری آئی ہے تو دیکھیے موصوف نے کیسی قلابازی کھائی ہے۔ کچھ انھی پر موقوف نہیں، ہم مسلمانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

یاد کیجیے، جب ہلاکو بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجانے آرہا تھا ہمارے علماء (جو اْس زمانے میں آج کل کے سیاستدانوں کا نعم البدل تھے) فروعی مسائل پر مناظروں میں مصروف تھے۔ اب جو کچھ عدالتوں کے باہر مقدمہ بازی کے شوقین سیاستدانوں کی لگی لمبی قطاروں اور ان کے ایک دوسرے پر بدکرداری و بدعنوانی کے الزامات کی بھر مارکی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے، اس کا موازنہ اپنی ماضی کی تاریخ سے کیجیے، آپ کوکوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔

بہت سی درخواستیں مسترد ہونے کے باوجود اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور یہ روش بھیڑ چال میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ نواز شریف کی جی ٹی روڈ ریلی رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائرکی گئیں جو سب خارج ہوگئیں اور جسٹس عامر فاروق نے رولنگ دی کہ پْرامن اجتماع ہر شہری کا حق ہے جس سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ ہی نے نواز شریف، ان کے بچوں، داماد اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے پی ٹی آئی کی طرف سے دائر کردہ ایک دوسری درخواست بھی ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی۔

اسی عدالت نے رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پارلیمانی اخلاقیات کمیٹی کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ اْدھر لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی سابقہ رکن عائشہ گلالئی کے الزامات پر عمران خان کا موبائل ڈیٹا منظر عام پر لانے سے متعلق درخواست پر مزید دلائل طلب کرلیے ہیں جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان اور گلالئی دونوں کا موبائل ڈیٹا سامنے آنے سے ہی حقائق معلوم ہوسکتے ہیں۔

دریں اثناء الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کے خلاف دائرکردہ توہین عدالت کی درخواست تو عدم پیروی پر خارج کردی، لیکن عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ اسے کارروائی کا مکمل اختیار ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے سماعت کے بعد توہین عدالت کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کیا جس میں انھیں اگلی تاریخ سماعت پر جواب داخل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ عدالتوں میں سیاستدانوں کے دائر کردہ مقدمات کے حوالے سے جو دوسری بات خاص طور پر قابل ذکر ہے وہ مرضی اور پسند کے فیصلے لینے کی ان کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے۔

عمران خان ہی کو لے لیجیے جو دوسروں کے خلاف تو الیکشن کمیشن کو مناسب فورم مانتے اور توہین عدالت کی درخواست دائر کرتے ہیں مگر اپنے کیس میں اْس کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے۔ نا اہل قرار دیے جانے سے قبل نواز شریف اور ان کے وزراء خواہ رفقاء کہا کرتے تھے کہ وہ فیصلہ کھلے دل سے تسلیم کریں گے مگر اب اس کا مذاق اڑاتے پھرتے ہیں، جی ٹی روڈ ریلی میں جگہ جگہ کی گئی ان کی تقاریر اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ریلی کے دوران ہی میں نے میاں صاحب کی اس دھواں دھار تقریرکی ویڈیو کلپ دیکھی جو جس میں وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم نہ کرنے پر اپنے پیشرو یوسف رضا گیلانی پر برس رہے تھے۔

ریلی کے دوران ان کی وہ بات میں نے خاص طور پر نوٹ کی جس میں انھوں نے معنی خیز انداز میں اپنے پیغام کا انتظار کرنے کو کہا تھا۔ شاید ریلی میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو شریک دیکھ کر انھیں ماضی قریب میں ترکی میں رونما ہونے والا وہ محیر العقول واقعہ یاد آگیا تھا جس میں صدر اردوان کی کال پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سڑکوں پر امڈ آیا تھا اور نہتے لوگوں نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر مبینہ فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا تھا۔

پیغام دینے کی بات کرتے اور اپنے حامیوں سے اس پر من و عن عمل کرنے کا وعدہ لیتے وقت وہ یہ بھول گئے کہ ذہنی پختگی اور کسی نظریے یا نظام سے ان کی کمٹمنٹ کے لحاظ سے ترکی اور پاکستان کے عوام میں بہت بڑا فرق ہے، اور یہ بھی کہ صدر اردوان نے ترکی زبان میں کال دی تھی جو پاکستان میں نہیں سمجھی جاتی۔ بقول شاعر

زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں