ہم کمزور نہیں ہیں
مغربی ممالک میں ہمارے وقار کا یہ عالم ہے کہ کہیں کوئی پاکستانی چلا جائے تو وہاں کے باشندے اسے دہشتگرد سمجھتے ہیں
ISLAMABAD:
ہمارے وزیر اعظم اقتدار کے اعلیٰ ترین منصب پر براجمان ہونے کے بعد حسب روایت سب سے پہلے سعودی عرب کا سرکاری دورہ کرنے کے بعد اقوام متحدہ سے خطاب کے لیے امریکا تشریف لے گئے جہاں پر انھوں نے پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں اور کشمیر جیسے اہم مسئلے پر اپنے موقف کو دنیا کے حکمرانوں کے سامنے رکھا، وہ امریکا جانے سے پہلے اس بات کا بھی اظہار کرتے رہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں امریکا کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ امریکا کو ہماری ضرورت ہو گی اور اگر اس نے ہمیں اس وقت چھوڑ دیا تو ہمارا نقصان کم اس کا زیادہ ہوگا۔
اس وقت پاکستان کے جو داخلی اور خارجی حالات ہیں ان میں کسی حکمران کا امریکا جیسے ملک کی پالیسیوں سے اختلاف ِ رائے رکھنا ہی ایک بڑی بات ہے جب کہ امریکا کے صدر جو کہ اب نئے نہیں رہے بلکہ پرانے ہو چکے ہیں لیکن ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسا کہ دنیا کی واحد سپر پاور کا اپنے مخالفین کے ساتھ ہونا چاہیے لیکن ہم یہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی امریکی دوستی کا ہی دم بھرتے آئے ہیں۔
امریکا نے اپنی ذاتی مفادات کے تحت پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمان ممالک میں جس بے رحمی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہم مسلمانوں کے لیے عبرت کا مقام ہے کہ ہم اس سب کے باوجود جو کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے امریکی مہروں کا ہی کردار ادا کر رہے ہیں ہماری یہ بدقسمتی رہی ہے کہ امریکا نے جب بھی ہمارے خطے میں کوئی مہم جوئی کی اس کا آغاز پاکستان سے ہی ہوا۔ روس کے خلاف افغان جنگ پاکستان سے ہی لڑی گئی اور امریکا اور طالبان کے درمیان جنگ میں بھی پاکستان کا کلیدی کردار رہا۔
امریکی کی ایک پالیسی ستمبر 11 کے بعد کی تھی اور ایک نئی پالیسی کے خدو خال اب نظر آرہے ہیں دنیا کے حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں اور ہر دن حالات کی ایک نئی شکل لے کر طلوع ہوتا ہے اور ان بدلتے حالات میں کوئی نہ کوئی ٹھوکر پاکستان کو بھی لگ ہی جاتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ان دنوں ایک بار پھر بیان بازی اپنے عروج پر ہے اور دونوں طرف سے لفظی جنگ جاری ہے الزامات اور جوابات دیے جارہے ہیں۔
بھارت کی فرقہ پرست اور مسلمان دشمن حکومت ہمارے 'دوست' نریندر مودی کی سربراہی میں پاکستان کے علاوہ اپنے ملک میں ہی بسنے والے مسلمانوں کے خلاف ادھار کھائے بیٹھی ہے سفارتی میدانوں میں وہ بڑی کامیابی سے پاکستان کے لیے دنیا بھر میں مسلسل مشکلات پیدا کر رہی ہے جب کہ فوجی میدان میں ہم سے بڑی فوج رکھنے کے باوجود بھاتی سورمے ہم سے ہمیشہ خوفزدہ ہی رہتے ہیں اس ساری کاروائی کی سر پرستی امریکا بہادر کی ہے کیونکہ پاکستان کی واحد دولت ایٹمی طاقت کو ختم کرنے یا اس پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے امریکا تلا ہوا ہے اور امریکا جب بھی کسی مسلمان ملک کو دھمکی دیتا ہے تو پاکستان اس کے نشانے پر آجاتا ہے اور اس دفعہ تو ہمیں براہ راست دھمکی بھی مل چکی ہے اور ہماری بے وقعتی کا یہ عالم ہے کہ ہماری مسلسل قربانیوں کو آنِ واحد میں بھلا کر ہمیں دھمکایا جارہا ہے۔
مغربی ممالک میں ہمارے وقار کا یہ عالم ہے کہ کہیں کوئی پاکستانی چلا جائے تو وہاں کے باشندے اسے دہشتگرد سمجھتے ہیں اور ملک کی سیکیورٹی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ان ناپسندیدہ حالات میں اگر ہمارا وزیر اعظم امریکا کے دورے سے پہلے اپنے خیالات کا واضح اظہار کرتا ہے تو کئی سوال اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ہر سوال کا جواب خود سے ہی دینے کا پابند ہے اور ہم اپنی قربانیوں کی داد پانے کے بجائے ایک ملزم کی حیثیت سے اپنی صفائیاں ہی پیش کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے خارجہ محاذ کو اس قدر کمزور رکھا کہ موجودہ حکومت کے پہلے چار سال سے زائد عرصے تک ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب دنیا کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے ۔
امریکا جو کمزور ملکوں کے بے بہا قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے جارحیت کرتا آیا ہے وہ اب اپنی واحد سپر پاور کی حیثیت کو خطرے میں دیکھ کر اپنا غصہ اس طرح نکالنا چاہتا ہے جیسے اس نے مفلس افغانستان پر نکالا تھا لیکن تما م تر وسائل کے استعمال کے باوجود وہ افغانستان پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہا اور بہادر افغانیوں نے اس کی بالادستی قبول سے اسی طرح انکار کر دیا جس طرح انھوں نے روس کے ساتھ کیا تھا۔ پاکستان جو کہ افغانستان کا قریب ترین اسلامی پڑوسی ملک ہے اپنی تمام تر حمایت امریکی پلڑے میں ڈالنے کے باوجود اس کی جھڑکیاں برداشت کر رہا ہے۔
اس حقیقت کے تکرار سے اب الجھن ہو تی ہے کہ امریکا مسلم دنیا کو بے جان اور بے سکت بنانے کا واضح پروگرام بنا چکا ہے اور ہم بطور مسلمان اپنی آنکھوں کے سامنے اس آنے والی مصیبت کو صاف صاف دیکھ رہے ہیں ہمارے پاس اگر تسلی کی کوئی ایک بھی وجہ ہے تو وہ ہمارا ایٹمی بم ہی ہے جس کے سہارے ہم ابھی تک جی رہے ہیں اور اپنی خودمختار حیثیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اگر یہ اہم ترین ہتھیار ہمارے پاس نہ ہوتا تو امریکا تو بعد کی بات ہے بھارت ہی ہمارا جینا محال کر چکا ہوتا۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمیں دنیا کو یہ یقین دلانا ہے کہ دہشتگردی ہمارے ملک سے نہیں ہوئی بلکہ ہم خود دہشتگردی کا شکار تھے اور ابھی تک ہیں ہمارے حکمرانوں کو امریکا بہادر جیسی بڑی فوجی طاقت کو گاہے بگاہے اس بات کی یاد دہانی کراتی رہنی ہو گی کہ ہم ایک ایٹمی ملک بھی ہیں اور بہادر قوم بھی اور اسے ہم پر الزامات کے بجائے ہمارا اصولی موقف تسلیم کرنا ہو گا ورنہ ایک کمزور فوجی طاقت ملکی دفاع کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیتی۔