وڈیرہ شاہی کب تک

قیام پاکستان کے بعد سے ہی ملک پر سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کا بلاواسطہ یا بالواسطہ قبضہ رہا ہے۔


طاہر نجمی September 27, 2017
[email protected]

پاکستان کے پسماندہ، دیہی و قبائلی علاقوں میں وڈیروں، جاگیرداروں اور سرداروں کے ظلم وستم کی کہانیاں زبان زد عام ہیں، ایک المناک واقعے کی بازگشت تھمتی نہیں کہ دوسرا اندوہناک واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔

ابھی پنجاب کے شہر ملتان میں 12سالہ لڑکی کی جسمانی بے حرمتی کے بدلے میں اسی طرح کی زیادتی کا نشانہ بنائی جانے والی ملزم کی 17سالہ بہن کو انصاف بھی نہیں ملا تھا اور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ٹریفک سارجنٹ کو کچلنے والے ملزم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا تھا کہ سندھ کے ضلع دادو کے علاقے سیہون میں دسویں جماعت کی طالبہ اور محنت کش کی بیٹی وڈیرہ شاہی کی بھینٹ چڑھ گئی۔

تانیہ خاصخیلی اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ پرسکون زندگی گزار رہی تھی،اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے زبردستی شادی سے انکار کردیا تھا، جس کی سزا اسے ابدی نیند سلاکر دی گئی اور علاقہ پولیس با اثر مجرم کو پکڑنے میں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی متاثرہ خاندان کے احتجاج پر معاملہ میڈیا کی زینت بنا تو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو خیال آیا کہ یہ تو ان کا اپنا حلقہ انتخاب ہے اور اگر ملزمان گرفتار نہ کیے گئے تو چراغ تلے اندھیرے والی ضرب المثل ہوگی، لہٰذا انھوں نے بہ نفس نفیس مقتولہ تانیہ خاصخیلی کے والد سے تعزیت کی اور ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا، جس کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور قتل میں ملوث 2ملزمان کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کے بعد جسمانی ریمانڈ لے لیا۔

چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے بھی وڈیرے کے ہاتھوں قتل ہونے والی لڑکی تانیہ خاصخیلی کے ورثا کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیکر 29ستمبر تک پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا گیا جب کہ سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی رکن صوبائی اسمبلی سورٹھ تھیبو نے تانیہ خاصخیلی کے قتل کے خلاف سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد جمع کرادی ہے۔ہر کوئی اس ظلم و ستم پر غم و غصے کا اظہار کر رہا ہے۔

اکیسویں صدی میں بھی اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا ہمارے معاشرے کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔ ایسے واقعات نہ صرف بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں بلکہ ہمارے معاشرتی نظام پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں۔

طالبہ کے قتل کا لرزہ خیز واقعہ اور اس جیسی دیگر خبریں جاگیردارانہ نظام کی خرابیوں کو اجاگر کرتی ہیں اور یہ تلخ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جاگیردارانہ سوچ کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہو رہی ہے، زمیندار، وڈیرے عوام کو اپنی جاگیر سمجھتے تھے اور آج بھی سمجھتے ہیں، جو چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں، انھیں جرأت کیسے ہوئی کہ ہمارے رشتے سے انکار کریں، ستم ظریفی یہ ہے کہ پولیس و دیگر متعلقہ ادارے بھی مظلوم کی داد رسی کے بجائے بااثر افراد کی کاسہ لیسی کرتے ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں جاگیرداروں اور بااثر طبقات کا کس قدر اثر و رسوخ ہے۔

ماں باپ اپنے بچوں کو بڑی محبت اور شفقت سے پالتے ہیں، پڑھاتے لکھاتے ہیں۔ خاص طورپر پسماندہ علاقوںمیں بچوں کو پڑھانا اور پھر وہ بھی لڑکیوں کو پڑھانا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ پرائمری تک تو کسی طرح لڑکیاں پڑھ لکھ جاتی ہیں لیکن ہائی اسکول علاقے سے دور دراز گوٹھوں میں واقع ہوتے ہیں۔ ایسے دور افتادہ علاقوں میں بچیوں کو تعلیم کے لیے اسکول تک چھوڑنے جانا اور واپس لانا بھی بہت بڑی ذمے داری ہے۔

ایک غریب محنت کش نے اپنی بیٹی کو کس جتن سے تعلیم دلوائی ہوگی حالات کے خلاف جاکر معاشی و معاشرتی نظام سے لڑ کر خاندان والوں کے طعنوں کو سہہ کر بچی کو پڑھایا، تانیہ کے ماں باپ کتنے خوش ہونگے۔ ان کے دلوں میں کتنے ارمان اور آنکھوں میں کتنے خواب ہوں گے کہ پڑھ لکھ کر ان کی بیٹی کو ایک بہتر مستقبل مل جائے گا۔ نجانے کتنے دن وہ وڈیرے کی طرف سے دباؤ کا شکار رہے ہوں گے جس کی نظر ان کی بچی پر پڑ گئی۔

محنت و مشقت اور قربانی کے بعد بھی غریب ماں باپ اپنی بیٹی کی جان کی حفاظت نہ کرسکے اور ان کی اولاد ان کی عمر بھر کی محنت کو ان کی آنکھوں کے سامنے بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ پہلی تانیہ نہیں ہے، ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام کی چکی میں ہر روز نہ جانے کتنی تانیائیں قتل ہوتی ہیں، وڈیروں کی حرص وہوس کا نشانہ بنتی ہیں ، چاچا کے جرم میں معصوم کم سن بچی کوبیاہ دیا جاتا ہے، کم عمری میں وٹہ سٹہ کرکے کتنی لڑکیوں کی زندگی برباد کر دی جاتی ہے۔ ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے سامنے ایک غریب مزدور کی بیٹی کی عصمت و حیات کچھ معنی نہیں رکھتی۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زمین سندھ جسے ولیوںاور صوفیوں کی سرزمین کہاجاتا ہے اب سخت گیر جاگیرداروں،سیاستدانوںاور وڈیروں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ عورتوں کی بے حرمتی، کاروکاری کے نام پر قتل اور ان کا اغواء آئے دن کا معمول ہے۔ یہاں عورتوں کی حرمت کو پامال کرنے کی قبیح ترین رسمیں جاری ہیں، ان سفاک وڈیروں کے ہاتھوں غریب کی بیٹیاں آئے روز ظلم کا شکار ہوتی ہیں مگر کو ئی آواز نہیں اٹھا سکتا، اگر کوئی ہمت کرکے اپنی بچی کو تعلیم دلوانے کے لیے قدم اٹھالے تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو غریب تانیہ کا ہوا، یہ سب کچھ جاگیردارانہ نظام کا شاخسانہ ہے۔

قیام پاکستان کے بعد سے ہی ملک پر سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کا بلاواسطہ یا بالواسطہ قبضہ رہا ہے۔ سرداریاں، جاگیرداریاں اور وڈیرہ شاہیاں بڑھتی گئیں اس کے بر عکس ہمسایہ ملک میں ان کا خاتمہ کر دیاگیا مگر ہمارے یہاں اس نظام اور سوچ پر کاری ضرب نہیں لگ سکی، اور جب بھی جاگیردارنہ نظام کے خاتمے کے لیے اراضی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ جاگیرداروں/ وڈیروں اورمراعات یافتہ طبقات نے اپنے روایتی ہتھکنڈوں سے انھیں ناکام بنا دیا، جنرل ایوب کی فوجی حکومت جس کا بڑا رعب و دبدبہ تھا اپنی اراضی اصلاحات پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہیں کرا سکی۔

یہی حال ذوالفقار علی بھٹو کی لینڈ ریفارمز کا ہوا۔ آمریت ہو یا پھر جمہوریت یہ وڈیرے، جاگیردار اور سرمایہ دار ہر حکمراں جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں،نہ صرف حکومت کا حصہ بنتے ہیں بلکہ حکومتی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی مسلسل محرومی کا شکار ہورہا ہے اور ایک غیر مرئی جال میں پھنس کر رہ گیا ہے، سیاست میں داخلے کے لیے بے تحاشا مال و دولت کی ضرورت عام آدمی کو اس طرف آنے ہی نہیں دیتی۔

اس میں سب سے زیادہ قصور وار وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو وڈیروں کو پارٹی ٹکٹ دیکر منتخب کرواتی ہیں، اگر تمام سیاسی جماعتیں یہ عزم کریں کہ وہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیں گی بلکہ اپنے باصلاحیت عام کارکنوں کو منتخب کروا کر اسمبلیوں میں بھیجیں گی تو جاگیرداری کوبتدریج ختم کرنے کی جانب بڑی مثبت پیش رفت ہوسکے گی اسی طرح حکومتیں بھی اپنی پالیسیاں وضع کرتے ہوئے عوام کے اجتماعی مفادات کو ملحوظ رکھیں اور تعلیم کے فروغ کو اولین ترجیح بنا لیں تو معاشرے کو استحصال سے پاک کرنے کا عمل شروع ہو سکتا ہے ۔

تانیہ خاصخیلی کے قتل پر وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے بر وقت نوٹس لے کر ملزمان کو گرفتار کرانا خوش آیند ہے مگر جب تک جاگیردارانہ سوچ اور نظام پر ضرب نہیں لگے گی اس طرح کے واقعات شکلیں بدل بدل کر رونما ہوتے رہینگے ۔ وڈیروں اور جاگیرداروں کے نزدیک قانون کی اہمیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں ۔المیہ یہ ہے کہ قانون کی عملداری بااثر افراد کے آگے مکڑی کا کمزور جالا ثابت ہوتی ہے ، دسمبر 2012ء میں بااثر وڈیرے کے بیٹے کے ہاتھوں شاہ زیب کا قتل ہو یا کوئٹہ میں ایم پی اے کی گاڑی تلے کچلے جانے والے ٹریفک سارجنٹ کا مقدمہ ہو اور اب تازہ ترین تانیہ خاصخیلی کا بہیمانہ قتل ہو، تمام تر واقعات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ امیر و غریب کے لیے قانون آج بھی الگ الگ ہے، حکمرانوں کو آیندہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون کی بالا دستی کو قائم کرنا ہو گا۔

مجرموں کو قانون کی آہنی گرفت میں لا کر عبرت کا نشان بنانا ہو گا ایسا ہونے لگے گا تو جاگیردارنہ سوچ پر ضرب لگنا شروع ہو گی اور وہ کمزور ہونا شروع ہو گا بصورت دیگر تانیہ جیسی لڑکیاں وڈیروں کے ہاتھوں قتل کی جاتی رہیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں