موسیقی روح کی غذا بنا سیکھے سچے سُروں تک رسائی ممکن نہیں حمیرا ارشد
بین الاقوامی مارکیٹ ہمارا ٹارگٹ، میوزک پرتوجہ دیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں، گلوکارہ
معروف گلوکارہ حمیرا ارشد نے کہا کہ میوزک کو روح کی غذا کہا جاتا ہے اوریہ بات سو فیصد درست بھی ہے لیکن بنا سیکھے سچے سُروں تک رسائی ممکن نہیں۔
حمیرا ارشد نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میوزک کو روح کی غذا کہا جاتا ہے اوریہ بات سو فیصد درست بھی ہے لیکن بنا سیکھے سچے سُروں تک رسائی ممکن نہیں۔ وہ نوجوان جو اس شعبے کو اپنا پروفیشن بنانا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کریں۔ سیکھ کر اس کام کوکرنے والے کمال کرتے ہیں اوروہ کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں رہتے۔ انہوں نے کہا کہ لائیو شوز میں سی ڈی اور یو ایس بی لگا کر پرفارم کرنے والے تو بہت سے ہیں لیکن لائیو پرفارم کرنے والے جب اپنا ہنر شائقین کو دکھاتے ہیں تو انھیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگتا ہے۔
گلوکارہ نے کہا کہ پاکستان میں فلم سازی کا شعبہ بہتری کی جانب گامزن ہے لیکن تاحال فلمی میوزک پرکوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ فلم سے وابستہ لوگوں کومیوزک کے شعبے کے ساتھ ساتھ ایسی اچھوتی آوازوں کو اپنی فلموںکا حصہ بنانا چاہیے جن کی آواز سنتے ہی شائقین دیوانے ہو جائیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ انٹرنیشنل مارکیٹ ہمارا ٹارگٹ ضرور ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لیے جب تک میوزک پر توجہ نہیں دی جائے گی، تب تک آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوگا۔
حمیرا ارشد نے کہا ہے کہ فن موسیقی میں جہاں دنیا بھرمیں انوکھی آواز اور انداز رکھنے والے گلوکاروں کی تعداد انتہائی کم ہے، وہیں پاکستان میں بھی ایسے گلوکارکم ہی ملتے ہیں جن کی آواز اور انداز دوسروں سے جدا ہو۔ کلاسیکل، غزل، فوک، پاپ اورصوفی میوزک میں بھی اگرنظر ڈالیں تو ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منفرد آواز اور اندازرکھنے والے گلوکاروں کی تلاش کے لیے آرٹس کونسلوں، نجی چینلز اور دیگرذرائع کواپنا کردارادا کرنا چاہیے۔ دوسری جانب فلم انڈسٹری کوبھی میوزک پرخاص توجہ دینی چاہیے، کیونکہ یہی وہ ایک واحد شعبہ ہے جو پاکستانی فلم کوانٹرنیشنل مارکیٹ تک پہنچا سکتا ہے۔
حمیرا ارشد نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میوزک کو روح کی غذا کہا جاتا ہے اوریہ بات سو فیصد درست بھی ہے لیکن بنا سیکھے سچے سُروں تک رسائی ممکن نہیں۔ وہ نوجوان جو اس شعبے کو اپنا پروفیشن بنانا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کریں۔ سیکھ کر اس کام کوکرنے والے کمال کرتے ہیں اوروہ کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں رہتے۔ انہوں نے کہا کہ لائیو شوز میں سی ڈی اور یو ایس بی لگا کر پرفارم کرنے والے تو بہت سے ہیں لیکن لائیو پرفارم کرنے والے جب اپنا ہنر شائقین کو دکھاتے ہیں تو انھیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگتا ہے۔
گلوکارہ نے کہا کہ پاکستان میں فلم سازی کا شعبہ بہتری کی جانب گامزن ہے لیکن تاحال فلمی میوزک پرکوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ فلم سے وابستہ لوگوں کومیوزک کے شعبے کے ساتھ ساتھ ایسی اچھوتی آوازوں کو اپنی فلموںکا حصہ بنانا چاہیے جن کی آواز سنتے ہی شائقین دیوانے ہو جائیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ انٹرنیشنل مارکیٹ ہمارا ٹارگٹ ضرور ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لیے جب تک میوزک پر توجہ نہیں دی جائے گی، تب تک آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوگا۔
حمیرا ارشد نے کہا ہے کہ فن موسیقی میں جہاں دنیا بھرمیں انوکھی آواز اور انداز رکھنے والے گلوکاروں کی تعداد انتہائی کم ہے، وہیں پاکستان میں بھی ایسے گلوکارکم ہی ملتے ہیں جن کی آواز اور انداز دوسروں سے جدا ہو۔ کلاسیکل، غزل، فوک، پاپ اورصوفی میوزک میں بھی اگرنظر ڈالیں تو ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منفرد آواز اور اندازرکھنے والے گلوکاروں کی تلاش کے لیے آرٹس کونسلوں، نجی چینلز اور دیگرذرائع کواپنا کردارادا کرنا چاہیے۔ دوسری جانب فلم انڈسٹری کوبھی میوزک پرخاص توجہ دینی چاہیے، کیونکہ یہی وہ ایک واحد شعبہ ہے جو پاکستانی فلم کوانٹرنیشنل مارکیٹ تک پہنچا سکتا ہے۔