بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس
اسلام بھائی چارے کادین ہے اور ہمیں پرامن کوششوں کے ذریعے ان عناصر کا مقابلہ کرنا ہے جو نفرت کا پرچار کرتے ہیں۔
BHIT SHAH:
مذہبی اور مسلکی اختلافات کے نام پر پاکستانی ہی نہیں، دنیا بھر میں جو خون آشامی کی جا رہی ہے، اس کا نہ تو مذہب کی تعلیمات سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی مسلک سے کیونکہ مذاہب اور مسالک تو دائماً امن و آشتی کا درس ہی دیتے ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ بعض شر پسند عناصر مذہبی اور مسلکی اختلافات کو بھڑکا کر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کی تھی، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت پیچیدہ شکل اختیار کر گئی ہے۔
عراق کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان میں بھی داخل ہو گئی۔ اس جنگ کی تباہ کاریاں سب کے سامنے ہیں۔ د ہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج کے حوالے سے گزشتہ روز اسلام آباد میں بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار رہی ہے، جب کہ پاکستان اور افغانستان سمیت یہ پورا خطہ ہی انتہاپسندی کا شکار بن چکا ہے، لیکن آج دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کا رویہ درست نہیں ہے بلکہ مذہب کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
بلاشبہ امریکا اور مغربی ممالک کے پالیسی ساز دہشت گردی کے بارے میں جو رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں' وہ حالات کو بہتر بنانے کے بجائے مزید الجھا رہا ہے۔ مغربی پالیسی ساز افغانستان اور پاکستان کی تہذیب وثقافت کو پوری طرح نہیں سمجھتے، دوسرا ان ممالک میں وہ جس اسٹرٹیجی پر عمل پیرا ہیں اس سے یہاں کی قومیتوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ہم اپنے خطے کے خونچکاں حالات کی طرف دیکھیں تو چہار سو قیامت صغریٰ کے مناظر نظر آتے ہیں۔
کہیں بے کس اور بے بس افراد کو بسوں سے اتار کر اور ان کے شناختی کارڈوں پر ان کے نام پڑھ کر انھیں گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے اور کہیں ان کی بستیوں کو ہزاروں کلوگرام وزنی دھماکا خیز مواد سے صفحہ ہستی سے ناپید کیا جا رہا ہے لیکن یہ سب وہ واقعات ہیں جن کے بارے میں صرف چند دہائیوں قبل تک وہم وگمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صدر پاکستان کا اپنے خطاب میں کہنا بالکل بجا ہے کہ انتہاپسندی کو حکمت عملی کے طور پر ہوا دینے والوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ آگے چل کر یہ انتہاپسند عناصر خود ان کے قابو سے بھی باہر ہو جائیں گے کیونکہ ہتھیاروں کے استعمال سے کامیابی حاصل کرنے والے دوسروں کے آلہ کار بالآخر خود اپنا الگ ایجنڈا قائم کر لیتے ہیں اور پھر یہ کھیل ماسٹر مائنڈ کے بس میں نہیں رہتا۔
صدر زرداری نے اپنے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم انتہاپسندوں کو ان کا ایجنڈا مسلط نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اسلام کسی کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل تک کوئی خودکشی کے لیے تیار نہیں تھا لیکن آج پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا عالمی برادری کا طریقہ درست نہیں ہے۔ عالمی برادری جس طرح دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے، اس سے فتح حاصل نہیں کی جا سکتی۔ صدر نے کہا ہم دہشت گردوں کو اسلام کی مخصوص تشریح کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ جمہوریت صبر و تحمل اور برداشت کا نام ہے۔ جمہوریت کو فروغ دے کر مفاہمت اور مربوط کوششوں کے ذریعے درپیش چیلنجوں سے موثر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔
اسلام بھائی چارے اور رواداری کادین ہے اور ہمیں پرامن کوششوں کے ذریعے ان عناصر کا مقابلہ کرنا ہے جو نفرت کا پرچار کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں خود کو بم دھماکے سے اڑانے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اسلام خودکشی کو حرام قرار دیتا ہے۔ لوگ اس وقت امن اور ہم آہنگی سے رہتے تھے اور کوئی فرقہ وارانہ مسائل نہیں تھے، پھر عالمی سیاست نے صورتحال تبدیل کر دی، جب مذہب کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بعض مبصرین کوئٹہ میں ایک اقلیتی برادری کے قتل عام اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو بیرونی طاقتوں کی آویزش کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان کی طرف سے گوادر کی بندرگاہ چین کے کنٹرول میں دینا مغربی طاقتوں کے لیے قابل قبول نہیں۔
کیونکہ اس طرح تیل کی ترسیل کے سب سے اہم آبی راستے پر مغرب کی مکمل حکمرانی کے لیے رخنہ اندازی کا احتمال پیدا ہو گیا ہے جس کے لیے انسانی خون بہانے کے واقعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ بہرحال معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، مذہب اور مسلک کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی کوئی ذی شعور تائید نہیں کر سکتا۔ دنیا کی طاقت ور اقوام کو بھی اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ قوموں کو مذاہب کے نام پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کرنے کی پالیسی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے اور دنیا ایک ایسی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتی ہے جس کا کوئی اختتام نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے جس کے نتیجے میں دہشت گرد گروپوں کے ہاتھوں سے مذہب کا ہتھیار چھین لیا جائے۔ جب یہ کام ہو گیا تو پھر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔
مذہبی اور مسلکی اختلافات کے نام پر پاکستانی ہی نہیں، دنیا بھر میں جو خون آشامی کی جا رہی ہے، اس کا نہ تو مذہب کی تعلیمات سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی مسلک سے کیونکہ مذاہب اور مسالک تو دائماً امن و آشتی کا درس ہی دیتے ہیں لیکن یہ الگ بات ہے کہ بعض شر پسند عناصر مذہبی اور مسلکی اختلافات کو بھڑکا کر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کی تھی، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت پیچیدہ شکل اختیار کر گئی ہے۔
عراق کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان میں بھی داخل ہو گئی۔ اس جنگ کی تباہ کاریاں سب کے سامنے ہیں۔ د ہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج کے حوالے سے گزشتہ روز اسلام آباد میں بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار رہی ہے، جب کہ پاکستان اور افغانستان سمیت یہ پورا خطہ ہی انتہاپسندی کا شکار بن چکا ہے، لیکن آج دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کا رویہ درست نہیں ہے بلکہ مذہب کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
بلاشبہ امریکا اور مغربی ممالک کے پالیسی ساز دہشت گردی کے بارے میں جو رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں' وہ حالات کو بہتر بنانے کے بجائے مزید الجھا رہا ہے۔ مغربی پالیسی ساز افغانستان اور پاکستان کی تہذیب وثقافت کو پوری طرح نہیں سمجھتے، دوسرا ان ممالک میں وہ جس اسٹرٹیجی پر عمل پیرا ہیں اس سے یہاں کی قومیتوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ ہم اپنے خطے کے خونچکاں حالات کی طرف دیکھیں تو چہار سو قیامت صغریٰ کے مناظر نظر آتے ہیں۔
کہیں بے کس اور بے بس افراد کو بسوں سے اتار کر اور ان کے شناختی کارڈوں پر ان کے نام پڑھ کر انھیں گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے اور کہیں ان کی بستیوں کو ہزاروں کلوگرام وزنی دھماکا خیز مواد سے صفحہ ہستی سے ناپید کیا جا رہا ہے لیکن یہ سب وہ واقعات ہیں جن کے بارے میں صرف چند دہائیوں قبل تک وہم وگمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صدر پاکستان کا اپنے خطاب میں کہنا بالکل بجا ہے کہ انتہاپسندی کو حکمت عملی کے طور پر ہوا دینے والوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ آگے چل کر یہ انتہاپسند عناصر خود ان کے قابو سے بھی باہر ہو جائیں گے کیونکہ ہتھیاروں کے استعمال سے کامیابی حاصل کرنے والے دوسروں کے آلہ کار بالآخر خود اپنا الگ ایجنڈا قائم کر لیتے ہیں اور پھر یہ کھیل ماسٹر مائنڈ کے بس میں نہیں رہتا۔
صدر زرداری نے اپنے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم انتہاپسندوں کو ان کا ایجنڈا مسلط نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اسلام کسی کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل تک کوئی خودکشی کے لیے تیار نہیں تھا لیکن آج پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا عالمی برادری کا طریقہ درست نہیں ہے۔ عالمی برادری جس طرح دہشت گردی سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے، اس سے فتح حاصل نہیں کی جا سکتی۔ صدر نے کہا ہم دہشت گردوں کو اسلام کی مخصوص تشریح کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ جمہوریت صبر و تحمل اور برداشت کا نام ہے۔ جمہوریت کو فروغ دے کر مفاہمت اور مربوط کوششوں کے ذریعے درپیش چیلنجوں سے موثر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔
اسلام بھائی چارے اور رواداری کادین ہے اور ہمیں پرامن کوششوں کے ذریعے ان عناصر کا مقابلہ کرنا ہے جو نفرت کا پرچار کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں خود کو بم دھماکے سے اڑانے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اسلام خودکشی کو حرام قرار دیتا ہے۔ لوگ اس وقت امن اور ہم آہنگی سے رہتے تھے اور کوئی فرقہ وارانہ مسائل نہیں تھے، پھر عالمی سیاست نے صورتحال تبدیل کر دی، جب مذہب کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ بعض مبصرین کوئٹہ میں ایک اقلیتی برادری کے قتل عام اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو بیرونی طاقتوں کی آویزش کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان کی طرف سے گوادر کی بندرگاہ چین کے کنٹرول میں دینا مغربی طاقتوں کے لیے قابل قبول نہیں۔
کیونکہ اس طرح تیل کی ترسیل کے سب سے اہم آبی راستے پر مغرب کی مکمل حکمرانی کے لیے رخنہ اندازی کا احتمال پیدا ہو گیا ہے جس کے لیے انسانی خون بہانے کے واقعات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ بہرحال معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، مذہب اور مسلک کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی کوئی ذی شعور تائید نہیں کر سکتا۔ دنیا کی طاقت ور اقوام کو بھی اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ قوموں کو مذاہب کے نام پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کرنے کی پالیسی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے اور دنیا ایک ایسی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتی ہے جس کا کوئی اختتام نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے جس کے نتیجے میں دہشت گرد گروپوں کے ہاتھوں سے مذہب کا ہتھیار چھین لیا جائے۔ جب یہ کام ہو گیا تو پھر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔