ڈگریوں کی جانچ پڑتالمستحسن فیصلہ
آئین وقانون کی پامالی ایسے افراد کے ہاتھوں ہو جو خود قانون ساز اورمنتخب نمایندے ہوں تو سر شرم سے جھک جانا چاہیے
ملک بھرمیں موسم سرد ہے،لیکن سیاسی گہماگہمی کے باعث گرما گرمی ماحول کا حصہ بنتی جارہی ہے کیونکہ وطن عزیز میں انتخابات کا موسم شروع ہونے والا ہے،الیکشن کمیشن منصفانہ انتخابات کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہے ۔ انتخابی عمل جتنا شفاف ہوگا اتنا ہی جمہوریت کے استحکام باعث بنے گا ۔ اسی تناظر میں الیکشن کمیشن نے واضح کیا ہے کہ جعلی ڈگری کیسزکی تحقیقات ختم نہیں کی گئی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔
آئین وقانون کی پامالی ایسے افراد کے ہاتھوں ہو جو خود قانون ساز اور عوام کے منتخب نمایندے ہوں تو سر شرم سے جھک جانا چاہیے ،لیکن اس کا کیا کیجیے کہ ملک میں کرپشن کا بول بالا ہے، جہاں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے سڑکوں پر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں وہاں صاحب ثروت افراد جعلی ڈگریوں کے ذریعے اسمبلی کے رکن بن جائیں اور جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے تو ایک بہت بڑی تعداد اپنی نشستوں سے محروم ہوجائے ۔کیا سب جمہوریت کے ساتھ مذاق کے زمرے میں نہیں آتا ۔ آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کو نظرانداز کرنا معمولی بات نہیں ہے ۔صورتحال تو کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ارکان پارلیمنٹ کی تعلیمی اسناد کی ہائیرایجوکیشن کمیشن سے تصدیق کا عمل پارلیمنٹرینزکی عدم دلچسپی کے باعث تاحال مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔
249 ارکان پارلیمنٹ توایسے ہیں جنھوں نے ابھی تک تصدیق کے لیے اپنی اسناد ہائیرایجوکیشن کمیشن کو نہیں بھجوائیں ،یہ انداز بے نیازی اس امر کا غماز ہے کہ طبقہ اشرافیہ خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے الیکشن کمیشن کی جانب سے 249ارکان پارلیمنٹ کو ڈگریوں کی تصدیق کے لیے بھجوائے گئے نوٹس کے معاملے کے جائزے کے لیے وزیر قانون فاروق نائیک کی سربراہی میں حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل8رکنی خصوصی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔ بہرحال جب کمیٹی رپورٹ پیش کرے گی تو درست صورتحال سامنے آئے گی ۔ اس مرتبہ قوم نے الیکشن کمیشن سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی ہے کہ وہ کسی بھی رو رعایت کے بغیر آئین کے مطابق انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کرے گا ۔
جھوٹ ، فریب اور دھوکا دہی کے حامل افراد کا رکن پارلیمنٹ منتخب ہونا کسی المیے سے کم نہیں ، آخر تعلیم یافتہ لوگ اسمبلیوں کے رکن بنیں گے تو قانون سازی اور دیگر امور مملکت میں بہتری آئے گی چہ جائیکہ گریجویشن کی شرط کوختم کرنے کے لیے پارلیمنٹیرینز آپس میں متحد ہوجائیں ۔جمہوریت کا صرف راگ الاپنے سے جمہوریت رائج نہیں ہوجاتی جب تک ہمارے رویے بھی جمہوری نہ ہو ۔ قانون کی بالادستی اور قانون کا احترام تو ہر شہری پر فرض ہے تو پھر اراکین پارلیمنٹ کو تو قانون کی دھجیاں نہیں بکھیرنی چاہیے ۔الیکشن کمیشن جتنی کڑی جانچ پڑتال کرے اتنا ہی بہتر اور اچھے کردار کے حامل افراد کا چنائو کرنے میں قوم کو الیکشن والے دن آسانی ہوگی ۔
آئین وقانون کی پامالی ایسے افراد کے ہاتھوں ہو جو خود قانون ساز اور عوام کے منتخب نمایندے ہوں تو سر شرم سے جھک جانا چاہیے ،لیکن اس کا کیا کیجیے کہ ملک میں کرپشن کا بول بالا ہے، جہاں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لیے سڑکوں پر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں وہاں صاحب ثروت افراد جعلی ڈگریوں کے ذریعے اسمبلی کے رکن بن جائیں اور جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے تو ایک بہت بڑی تعداد اپنی نشستوں سے محروم ہوجائے ۔کیا سب جمہوریت کے ساتھ مذاق کے زمرے میں نہیں آتا ۔ آئین کے آرٹیکل62 اور 63 کو نظرانداز کرنا معمولی بات نہیں ہے ۔صورتحال تو کچھ یوں ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ارکان پارلیمنٹ کی تعلیمی اسناد کی ہائیرایجوکیشن کمیشن سے تصدیق کا عمل پارلیمنٹرینزکی عدم دلچسپی کے باعث تاحال مکمل نہیں کیا جاسکا ہے۔
249 ارکان پارلیمنٹ توایسے ہیں جنھوں نے ابھی تک تصدیق کے لیے اپنی اسناد ہائیرایجوکیشن کمیشن کو نہیں بھجوائیں ،یہ انداز بے نیازی اس امر کا غماز ہے کہ طبقہ اشرافیہ خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے الیکشن کمیشن کی جانب سے 249ارکان پارلیمنٹ کو ڈگریوں کی تصدیق کے لیے بھجوائے گئے نوٹس کے معاملے کے جائزے کے لیے وزیر قانون فاروق نائیک کی سربراہی میں حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل8رکنی خصوصی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔ بہرحال جب کمیٹی رپورٹ پیش کرے گی تو درست صورتحال سامنے آئے گی ۔ اس مرتبہ قوم نے الیکشن کمیشن سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی ہے کہ وہ کسی بھی رو رعایت کے بغیر آئین کے مطابق انتخابی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کرے گا ۔
جھوٹ ، فریب اور دھوکا دہی کے حامل افراد کا رکن پارلیمنٹ منتخب ہونا کسی المیے سے کم نہیں ، آخر تعلیم یافتہ لوگ اسمبلیوں کے رکن بنیں گے تو قانون سازی اور دیگر امور مملکت میں بہتری آئے گی چہ جائیکہ گریجویشن کی شرط کوختم کرنے کے لیے پارلیمنٹیرینز آپس میں متحد ہوجائیں ۔جمہوریت کا صرف راگ الاپنے سے جمہوریت رائج نہیں ہوجاتی جب تک ہمارے رویے بھی جمہوری نہ ہو ۔ قانون کی بالادستی اور قانون کا احترام تو ہر شہری پر فرض ہے تو پھر اراکین پارلیمنٹ کو تو قانون کی دھجیاں نہیں بکھیرنی چاہیے ۔الیکشن کمیشن جتنی کڑی جانچ پڑتال کرے اتنا ہی بہتر اور اچھے کردار کے حامل افراد کا چنائو کرنے میں قوم کو الیکشن والے دن آسانی ہوگی ۔