امارات میں غیر ملکی ملازمین کے حقوق سے متعلق نیا قانون منظور
سالانہ 30 بامعاوضہ چھٹیاں ملیں گی جبکہ 18 سال سے کم عمر افراد کو گھریلو ملازم رکھنے پر پابندی ہوگی
متحدہ عرب امارات نے غیرملکی ملازمین کے حقوق کے تحفظ کا قانون منظور کرلیا۔
متحدہ عرب امارات کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق غیرملکی محنت کشوں کے ساتھ ناروا سلوک سے نمٹنے کے لیے قانون منظور کیا گیا ہے جس میں انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے، جبری مشقت اور 18 سال سے کم عمر افراد کو گھریلو ملازم رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ نئے قانون میں ملازمین کو ہفتے میں ایک دن کی چھٹی، سال میں 30 روز کی بامعاوضہ چھٹیاں اور 30 دن کی بیماری کی رخصت بھی فراہم کی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات کی حکومت کا مزدوروں کیلیے مفت رہائش کا اعلان
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے اس قانون کی منظوری دی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بل کا خیر مقدم کیا ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات تارک وطن مزدوروں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق امارات میں 80 لاکھ مزدور کام کرتے ہیں اور یہ تعداد وہاں کی آبادی کا 80 فیصد سے بھی زیادہ بنتی ہے جب کہ زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے ہوتا ہے۔ نئے قانون میں 19 پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو تحفظ دیا گیا ہے جن میں چوکیدار، پارکنگ میں کام کرنے والے محنت کش، مالی، گھریلو ملازمین، خانساماں، آیائیں، نرسیں، ڈرائیور اور نجی استاد شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے قانون کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس کا پوری روح کے ساتھ نفاذ اور عملدرآمد بھی ہونا چاہیے۔ اس پیش رفت کے باوجود متحدہ عرب امارات میں ایک اور بدترین نظام کفالہ کا ہے جو بدستور نافذ ہے جس کے تحت غیرملکی ملازمین ملازمت بدلنے یا ملک چھوڑنے کے لیے اپنے پرانے آجر کی مرضی کے پابند ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں متحدہ عرب امارات کو غیر ملکی ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک پر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں کیونکہ پہلے وہاں گھریلو ملازمین سے طویل گھنٹوں تک کام کروانے، تنخواہ نہ دینے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کی کھلی چھٹی ہوتی تھی۔ یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات 7 ریاستوں پر مشتمل ملک ہے جن میں ابوظہبی، عجمان، دبئی، فجیرہ، راس الخیمہ، شارجہ اور ام القوین شامل ہیں جب کہ وہاں لاکھوں پاکستانی محنت کش بھی روزگار کے سلسلے مقیم ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق غیرملکی محنت کشوں کے ساتھ ناروا سلوک سے نمٹنے کے لیے قانون منظور کیا گیا ہے جس میں انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے، جبری مشقت اور 18 سال سے کم عمر افراد کو گھریلو ملازم رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ نئے قانون میں ملازمین کو ہفتے میں ایک دن کی چھٹی، سال میں 30 روز کی بامعاوضہ چھٹیاں اور 30 دن کی بیماری کی رخصت بھی فراہم کی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات کی حکومت کا مزدوروں کیلیے مفت رہائش کا اعلان
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے اس قانون کی منظوری دی ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بل کا خیر مقدم کیا ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات تارک وطن مزدوروں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق امارات میں 80 لاکھ مزدور کام کرتے ہیں اور یہ تعداد وہاں کی آبادی کا 80 فیصد سے بھی زیادہ بنتی ہے جب کہ زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے ہوتا ہے۔ نئے قانون میں 19 پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو تحفظ دیا گیا ہے جن میں چوکیدار، پارکنگ میں کام کرنے والے محنت کش، مالی، گھریلو ملازمین، خانساماں، آیائیں، نرسیں، ڈرائیور اور نجی استاد شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے قانون کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس کا پوری روح کے ساتھ نفاذ اور عملدرآمد بھی ہونا چاہیے۔ اس پیش رفت کے باوجود متحدہ عرب امارات میں ایک اور بدترین نظام کفالہ کا ہے جو بدستور نافذ ہے جس کے تحت غیرملکی ملازمین ملازمت بدلنے یا ملک چھوڑنے کے لیے اپنے پرانے آجر کی مرضی کے پابند ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں متحدہ عرب امارات کو غیر ملکی ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک پر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں کیونکہ پہلے وہاں گھریلو ملازمین سے طویل گھنٹوں تک کام کروانے، تنخواہ نہ دینے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کی کھلی چھٹی ہوتی تھی۔ یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات 7 ریاستوں پر مشتمل ملک ہے جن میں ابوظہبی، عجمان، دبئی، فجیرہ، راس الخیمہ، شارجہ اور ام القوین شامل ہیں جب کہ وہاں لاکھوں پاکستانی محنت کش بھی روزگار کے سلسلے مقیم ہیں۔