کراچی لٹریچر فیسٹیول
بالآخر قوم نے اس ظلم کے خلاف ایسا احتجاج کیا ہے کہ اب حاکموں کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔
کسی سفر کی سرگزشت لکھنے میں ہمیشہ ایک الجھن کا سامنا رہتا ہے کہ اس دوران میں میزبانوں اور حلقے والوں کا تذکرہ کس طرح سے کیا جائے کہ ان کے ذکر کے بغیر بات مکمل بھی نہیں ہوتی، لیکن اگر اس کی تفصیل بیان کی جائے تو بعض معترفین کے مطابق اس پر پی آر یعنی ''تعلقات عامہ'' کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ اس کا سکہ بند جواب اور حل تو یہی ہے کہ اعتدال سے کام لیا جائے مگر مصیبت یہ ہے کہ ''اعتدال'' کی جغرافیائی پوزیشن ہر شخص کی اپنی اپنی ہوتی ہے اور آخری نتیجہ بقول میر دردؔ یہی نکلتا ہے کہ
آیا نہ اعتدال پہ ہرگز مزاج دہر
میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا
تو اب کراچی لٹریچر فیسٹیول کے حوالے سے اپنے مرکزی اور الحاقی میزبانوں اور ان کی پذیرائی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ بھی زیادتی ہے کہ بہت سے احباب سے ملاقات ہی ان دعوتوں کے حوالے سے ہو پائی۔ مثال کے طور پر برادرم منور سعید سے تعلق کی عمر اگرچہ چار دہائیوں کے لگ بھگ ہے لیکن گزشتہ دس بارہ برس سے ان سے ملاقات کا کوئی موقع ہی نہیں نکل پایا تھا۔ وہ اپنی بیگم (جو ان کی کزن اور سید محمد تقی مرحوم کی صاحبزادی بھی ہیں) کے ساتھ اس فیسٹیول میں آئے اور 16 فروری کی دوپہر کے لیے لنچ پر اس اصرار کے ساتھ مدعو کر گئے کہ ''معذرت'' کا لفظ ہی گفتگو سے خارج ہو گیا۔
اسی طرح اتوار 17 فروری کی دوپہر برادرم اشرف شاہین نے اپنے اور چند مشترکہ دوستوں کے نام کر لی اور حسب معمول ڈیفنس کے گولف کلب میں برنچ کا اہتمام کیا جس میں یارانِ قدیم اختر شاہ' سید جاوید اقبال' ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی' عرفان جاوید' زاہد علی' ریاض احمد مستوری' عزیزی مطاہر احمد اور عطا کے بھانجے مبین عرف گوگی جمع ہو گئے ا ور یوں عمر رفتہ ''آواز'' کے تکلف کے بغیر ہی تین گھنٹے کے لیے لوٹ آئی۔چونکہ 90 فیصد بیرونی مہمان 14 فروری کو کسی نہ کسی وقت پہنچ گئے تھے، اس لیے اس رات کا ڈنر ہوٹل بیچ لگژری کے مالکان یعنی آواری فیملی نے اپنے وسیع و عریض گھر پر ہی رکھ لیا جو اصل میں ہوٹل کی عمارت ہی کا ایک حصہ تھا اور یوں مہمانوں کو صرف چند قدم چلنے ہی کی زحمت کرنا پڑی۔
میں اپنے فلائٹ شیڈول کی وجہ سے قدرے تاخیر سے پہنچا، کھانا شروع ہو چکا تھا لیکن اس سے پہلے کہ میں پلیٹ پکڑتا کچھ احباب نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور گلزار صاحب کی اچانک واپسی کی وجوہات پر استفسار کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس لٹریچر فیسٹیول میں گلزار کو منانے اور لانے کا سارا کریڈٹ آصف نورانی صاحب کو جاتا ہے لیکن وہ بھی اس وقت تک واقعے کی اصل تفصیلات سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ میں نے انھیں تب تک کی اپنی معلومات اور پیش رفت سے آگاہ کیا۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ کچھ اسی طرح کی صورت حال کے پیش نظر چند ایک اور اہم بھارتی مندوب بھی آنے سے رہ گئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پریس کلب لاہور میں بھارت کی مشہور داستان گو جوڑی محمود فاروقی اور دانش حسین سے ملنے اور ان کے کمال فن کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس بار ان کا ساتھ دارین دے رہے ہیں کیونکہ محمود فاروقی اپنے بھائی کی شادی کی وجہ سے نہیں آ سکے۔
15 فروری کا کھانا کراچی آرٹس کونسل کے برادرم احمد شاہ کی طرف سے تھا جس کا اہتمام بھی ہمارے ہوٹل سے قریب ایک نئے مگر بہت خوبصورت ریستوران میں کیا گیا تھا۔ یہاں برادرم شاہد کاردار اور حامد خان سے ملاقات ہوئی۔ شاہد اکانومسٹ ہیں، پاکستان کے مشہور کرکٹ کپتان عبدالحفیظ کاردار کے صاحبزادے ہیں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر بھی رہ چکے ہیں جب کہ حامد خاں پاکستان کے چوٹی کے وکیل اور آج کل تحریک انصاف کے اعلیٰ عہدیدار ہیں لیکن ہمارا باہمی اور اصل حوالہ تین چار دہائیوں پر پھیلا ہوا وہ رشتۂ محبت ہے جو ہر طرح کے لاحقے اور سابقے سے آزاد ہے۔ اگلی رات کا کھانا برٹش کونسل کی طرف سے تھا جو حسب معمول مختلف النوع پابندیوں اور تکلفات کا مجموعہ تھا۔ یہاں شبنم شکیل کی بیٹی ملاحت سے بھی ملاقات ہوئی جو اسی ادارے میں کام کرتی ہے۔
اس نے بتایا کہ اس کے والد یعنی شکیل صاحب کی وفات کے بعد سے اب تک شبنم سنبھل نہیں پائی اور نفسیاتی اور جسمانی دونوں سطحوں پر شدید بیمار ہو چکی ہے اور اس وقت بھی اسپتال کے آئی سی یو میں ہے' خدا اس کی حفاظت کرے اور اس کے حق میں بہتری فرمائے۔ کھانے کے دوران یوں محسوس ہوا جیسے میزبان کچھ Tenseسے نظر آ رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ کوئٹہ میں کوئی بم دھماکا ہوا ہے جس کی وجہ سے اگلے دن کراچی میں ہڑتال کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اس وقت بھی صورتحال کچھ اچھی نہیں، اس لیے مہمانوں کو ہوٹل تک واپس پہنچانے کے لیے پولیس کے حفاظتی دستے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ ہماری کوسٹر میں ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ اور سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان بھی تھے جنہوں نے افغانستان کے مسئلے اور طالبان کے حوالے سے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ چنانچہ ان کی گفتگو سے بہت سی نئی باتوں کا پتہ چلا۔
میری فلائٹ PK 302 صبح آٹھ بجے روانہ ہونا تھی' چھ بجے جب میں ہوٹل سے روانہ ہوا تو خیال تھا کہ شہر میں رات والے واقعے کا جو بھی رد عمل ہے وہ نو بجے کے لگ بھگ ہی سامنے آئے گا اور ایئرپورٹ کا رستہ تو بہرحال صاف ہی ملے گا۔ (اس وقت تک ہمیں اس سانحے کی مکمل تفصیلات کا علم نہیں تھا) لیکن ہوا یوں کہ ایئرپورٹ سے دومیل پہلے تک تو راستہ صاف تھا مگر آگے ٹریفک بند تھی۔ ڈرائیور نے دو تین متبادل راستوں کو بھی آزمایا مگر ہر طرف یہی صورتحال تھی۔ مجبوراً ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ ہوٹل کے کاؤنٹر پر انتظار صاحب اور شمیم حنفی مل گئے جو چیک آؤٹ کی تیاریاں کر رہے تھے۔
یہ دیکھ اور سن کر وہ بھی پریشان ہو گئے کہ حالات اس قدر مخدوش ہیں۔ تقریباً تمام بھارتی مندوبین کی اسی روز واپسی تھی اور اگلی فلائٹ ایک ہفتے بعد کی تھی جب کہ کچھ لوگوں کے پاس ویزا بھی محدود مدت کا تھا۔ مانچسٹر سے آئی ہوئی قیصرہ شیراز کو بھی چار بجے کی فلائٹ سے اسلام آباد روانہ ہونا تھا۔ بے چارے ہوٹل والے ہر طرح سے اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کر رہے تھے مگر ہر اگلی اطلاع پچھلی سے زیادہ گھمبیر اور مایوس کن تھی۔ یکے از مالکان ڈنشا آواری بھی آ گئے اور متعلقہ ٹریول ایجنسی کی اس اطلاع پر کہ میری فلائٹ گیارہ بجے تک مؤخر ہو گئی ہے اور ایئرپورٹ تک پہنچنے کا ایک راستہ جو وائرلیس گیٹ سے ہو کر جاتا ہے، اس وقت کھلا ہے۔
ڈنشا آواری نے نہ صرف یہ رسک لینے کا مشورہ دیا بلکہ فوری طور پر ایک گاڑی کا انتظام بھی کر دیا جس نے بالآخر مجھے گیارہ بج کر پانچ منٹ پر کسی نہ کسی طرح ایئرپورٹ پہنچا ہی دیا' میں ذہنی طور پر تین بجے والی فلائٹ پکڑنے کے لیے تیار ہو کر اترا مگر ایک غیرمتوقع خبر یہ ملی کہ فلائٹ مزید آدھا گھنٹہ لیٹ ہو گئی ہے اور یوں خیر سے بدھو گھر کو آئے۔ بعد میں صورتحال مزید خراب ہو گئی اور تقریباً 40 گھنٹے کے اذیت ناک انتظار کے بعد ''پسماندگان'' کو ایئرپورٹ تک رسائی حاصل ہو سکی لیکن اس ساری ذاتی تکلیف پر وہ اجتماعی دکھ حاوی رہا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور مجھے قیصرہ شیراز کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ ہمیں ہونے والی تکلیف اپنی جگہ مگر امید اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ بالآخر قوم نے اس ظلم کے خلاف ایسا احتجاج کیا ہے کہ اب حاکموں کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔
جہاز میں بیٹھتے ہی سب سے پہلے تو گھر والوں کو اطلاع دی کہ ڈرائیور کو وقت پر بھجوا دیں اور پھر یونہی ای میل باکس پر ایک سرسری سی نظر ڈالی جو حسب معمول درجنوں فضولیات سے بھرا ہوا تھا۔ یک دم اشفاق حسین کا نام اور پیغام سامنے آ گئے جس میں رسول احمد کلیمی کا نام بھی تھا۔ پتہ نہیں کیوں ایک دم دل دھک سا رہ گیا۔ تفصیل پڑھی تو معلوم ہوا کہ گزشتہ رات کلیمی بھائی بھی خاموشی سے ہماری، آپ کی اس دنیائے فانی سے پردہ کر گئے ہیں۔
حافظے کی اسکرین پر یک دم کئی بھولی بھٹکی یادیں ایک دم روشن سی ہو گئیں۔ ان سے آخری ملاقات ان کے ٹورانٹو والے گھر میں کوئی تین برس قبل ہوئی تھی جب انھوں نے میرے اور انور مسعود کے اعزاز میں ایک مشاعراتی عشایئے کا اہتمام کیا تھا۔ وہ ایک خوش گو شاعر اور کامیاب بینکر تو تھے ہی لیکن ایک بہت شاندار انسان اور بہت اچھے دوست بھی تھے۔ انشاء اللہ ان کے بارے میں تفصیل سے لکھوں گا۔ فی الوقت ان کے چند شعر دیکھے جو برادرم ولی عالم شاہین نے بذریعہ ای میل بھجوائے ہیں۔ رب کریم ان کی جملہ خطاؤں سے درگزر کریں اور ان کی روح کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔ آمین۔
منزل دار و رسن ایک تماشا ہی سہی
تم سمجھتے ہو جو ایسا تو پھر ایسا ہی سہی
ناحق ہوئے معتوب کہ جب جرم ہوا تھا
ہم لوگ تو مصروف نظارہ بھی نہیں تھے
پھر وقت نے لکھوائے ہمیں سے وہ قصیدے
ان کے لیے' جو ہم کو گوارا بھی نہیں تھے
یہ بھی بہت ہے آج کلیمیؔ جو وہ ملا
کہنے لگا کہ نام ہے تیرا' سنا ہوا
آیا نہ اعتدال پہ ہرگز مزاج دہر
میں گرچہ گرم و سردِ زمانہ سمو گیا
تو اب کراچی لٹریچر فیسٹیول کے حوالے سے اپنے مرکزی اور الحاقی میزبانوں اور ان کی پذیرائی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ بھی زیادتی ہے کہ بہت سے احباب سے ملاقات ہی ان دعوتوں کے حوالے سے ہو پائی۔ مثال کے طور پر برادرم منور سعید سے تعلق کی عمر اگرچہ چار دہائیوں کے لگ بھگ ہے لیکن گزشتہ دس بارہ برس سے ان سے ملاقات کا کوئی موقع ہی نہیں نکل پایا تھا۔ وہ اپنی بیگم (جو ان کی کزن اور سید محمد تقی مرحوم کی صاحبزادی بھی ہیں) کے ساتھ اس فیسٹیول میں آئے اور 16 فروری کی دوپہر کے لیے لنچ پر اس اصرار کے ساتھ مدعو کر گئے کہ ''معذرت'' کا لفظ ہی گفتگو سے خارج ہو گیا۔
اسی طرح اتوار 17 فروری کی دوپہر برادرم اشرف شاہین نے اپنے اور چند مشترکہ دوستوں کے نام کر لی اور حسب معمول ڈیفنس کے گولف کلب میں برنچ کا اہتمام کیا جس میں یارانِ قدیم اختر شاہ' سید جاوید اقبال' ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی' عرفان جاوید' زاہد علی' ریاض احمد مستوری' عزیزی مطاہر احمد اور عطا کے بھانجے مبین عرف گوگی جمع ہو گئے ا ور یوں عمر رفتہ ''آواز'' کے تکلف کے بغیر ہی تین گھنٹے کے لیے لوٹ آئی۔چونکہ 90 فیصد بیرونی مہمان 14 فروری کو کسی نہ کسی وقت پہنچ گئے تھے، اس لیے اس رات کا ڈنر ہوٹل بیچ لگژری کے مالکان یعنی آواری فیملی نے اپنے وسیع و عریض گھر پر ہی رکھ لیا جو اصل میں ہوٹل کی عمارت ہی کا ایک حصہ تھا اور یوں مہمانوں کو صرف چند قدم چلنے ہی کی زحمت کرنا پڑی۔
میں اپنے فلائٹ شیڈول کی وجہ سے قدرے تاخیر سے پہنچا، کھانا شروع ہو چکا تھا لیکن اس سے پہلے کہ میں پلیٹ پکڑتا کچھ احباب نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور گلزار صاحب کی اچانک واپسی کی وجوہات پر استفسار کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس لٹریچر فیسٹیول میں گلزار کو منانے اور لانے کا سارا کریڈٹ آصف نورانی صاحب کو جاتا ہے لیکن وہ بھی اس وقت تک واقعے کی اصل تفصیلات سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ میں نے انھیں تب تک کی اپنی معلومات اور پیش رفت سے آگاہ کیا۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ کچھ اسی طرح کی صورت حال کے پیش نظر چند ایک اور اہم بھارتی مندوب بھی آنے سے رہ گئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پریس کلب لاہور میں بھارت کی مشہور داستان گو جوڑی محمود فاروقی اور دانش حسین سے ملنے اور ان کے کمال فن کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس بار ان کا ساتھ دارین دے رہے ہیں کیونکہ محمود فاروقی اپنے بھائی کی شادی کی وجہ سے نہیں آ سکے۔
15 فروری کا کھانا کراچی آرٹس کونسل کے برادرم احمد شاہ کی طرف سے تھا جس کا اہتمام بھی ہمارے ہوٹل سے قریب ایک نئے مگر بہت خوبصورت ریستوران میں کیا گیا تھا۔ یہاں برادرم شاہد کاردار اور حامد خان سے ملاقات ہوئی۔ شاہد اکانومسٹ ہیں، پاکستان کے مشہور کرکٹ کپتان عبدالحفیظ کاردار کے صاحبزادے ہیں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر بھی رہ چکے ہیں جب کہ حامد خاں پاکستان کے چوٹی کے وکیل اور آج کل تحریک انصاف کے اعلیٰ عہدیدار ہیں لیکن ہمارا باہمی اور اصل حوالہ تین چار دہائیوں پر پھیلا ہوا وہ رشتۂ محبت ہے جو ہر طرح کے لاحقے اور سابقے سے آزاد ہے۔ اگلی رات کا کھانا برٹش کونسل کی طرف سے تھا جو حسب معمول مختلف النوع پابندیوں اور تکلفات کا مجموعہ تھا۔ یہاں شبنم شکیل کی بیٹی ملاحت سے بھی ملاقات ہوئی جو اسی ادارے میں کام کرتی ہے۔
اس نے بتایا کہ اس کے والد یعنی شکیل صاحب کی وفات کے بعد سے اب تک شبنم سنبھل نہیں پائی اور نفسیاتی اور جسمانی دونوں سطحوں پر شدید بیمار ہو چکی ہے اور اس وقت بھی اسپتال کے آئی سی یو میں ہے' خدا اس کی حفاظت کرے اور اس کے حق میں بہتری فرمائے۔ کھانے کے دوران یوں محسوس ہوا جیسے میزبان کچھ Tenseسے نظر آ رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ کوئٹہ میں کوئی بم دھماکا ہوا ہے جس کی وجہ سے اگلے دن کراچی میں ہڑتال کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اس وقت بھی صورتحال کچھ اچھی نہیں، اس لیے مہمانوں کو ہوٹل تک واپس پہنچانے کے لیے پولیس کے حفاظتی دستے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ ہماری کوسٹر میں ناصرہ جاوید اقبال صاحبہ اور سابق سیکریٹری خارجہ ریاض محمد خان بھی تھے جنہوں نے افغانستان کے مسئلے اور طالبان کے حوالے سے کتابیں بھی لکھی ہیں۔ چنانچہ ان کی گفتگو سے بہت سی نئی باتوں کا پتہ چلا۔
میری فلائٹ PK 302 صبح آٹھ بجے روانہ ہونا تھی' چھ بجے جب میں ہوٹل سے روانہ ہوا تو خیال تھا کہ شہر میں رات والے واقعے کا جو بھی رد عمل ہے وہ نو بجے کے لگ بھگ ہی سامنے آئے گا اور ایئرپورٹ کا رستہ تو بہرحال صاف ہی ملے گا۔ (اس وقت تک ہمیں اس سانحے کی مکمل تفصیلات کا علم نہیں تھا) لیکن ہوا یوں کہ ایئرپورٹ سے دومیل پہلے تک تو راستہ صاف تھا مگر آگے ٹریفک بند تھی۔ ڈرائیور نے دو تین متبادل راستوں کو بھی آزمایا مگر ہر طرف یہی صورتحال تھی۔ مجبوراً ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ ہوٹل کے کاؤنٹر پر انتظار صاحب اور شمیم حنفی مل گئے جو چیک آؤٹ کی تیاریاں کر رہے تھے۔
یہ دیکھ اور سن کر وہ بھی پریشان ہو گئے کہ حالات اس قدر مخدوش ہیں۔ تقریباً تمام بھارتی مندوبین کی اسی روز واپسی تھی اور اگلی فلائٹ ایک ہفتے بعد کی تھی جب کہ کچھ لوگوں کے پاس ویزا بھی محدود مدت کا تھا۔ مانچسٹر سے آئی ہوئی قیصرہ شیراز کو بھی چار بجے کی فلائٹ سے اسلام آباد روانہ ہونا تھا۔ بے چارے ہوٹل والے ہر طرح سے اس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کر رہے تھے مگر ہر اگلی اطلاع پچھلی سے زیادہ گھمبیر اور مایوس کن تھی۔ یکے از مالکان ڈنشا آواری بھی آ گئے اور متعلقہ ٹریول ایجنسی کی اس اطلاع پر کہ میری فلائٹ گیارہ بجے تک مؤخر ہو گئی ہے اور ایئرپورٹ تک پہنچنے کا ایک راستہ جو وائرلیس گیٹ سے ہو کر جاتا ہے، اس وقت کھلا ہے۔
ڈنشا آواری نے نہ صرف یہ رسک لینے کا مشورہ دیا بلکہ فوری طور پر ایک گاڑی کا انتظام بھی کر دیا جس نے بالآخر مجھے گیارہ بج کر پانچ منٹ پر کسی نہ کسی طرح ایئرپورٹ پہنچا ہی دیا' میں ذہنی طور پر تین بجے والی فلائٹ پکڑنے کے لیے تیار ہو کر اترا مگر ایک غیرمتوقع خبر یہ ملی کہ فلائٹ مزید آدھا گھنٹہ لیٹ ہو گئی ہے اور یوں خیر سے بدھو گھر کو آئے۔ بعد میں صورتحال مزید خراب ہو گئی اور تقریباً 40 گھنٹے کے اذیت ناک انتظار کے بعد ''پسماندگان'' کو ایئرپورٹ تک رسائی حاصل ہو سکی لیکن اس ساری ذاتی تکلیف پر وہ اجتماعی دکھ حاوی رہا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور مجھے قیصرہ شیراز کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ ہمیں ہونے والی تکلیف اپنی جگہ مگر امید اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ بالآخر قوم نے اس ظلم کے خلاف ایسا احتجاج کیا ہے کہ اب حاکموں کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔
جہاز میں بیٹھتے ہی سب سے پہلے تو گھر والوں کو اطلاع دی کہ ڈرائیور کو وقت پر بھجوا دیں اور پھر یونہی ای میل باکس پر ایک سرسری سی نظر ڈالی جو حسب معمول درجنوں فضولیات سے بھرا ہوا تھا۔ یک دم اشفاق حسین کا نام اور پیغام سامنے آ گئے جس میں رسول احمد کلیمی کا نام بھی تھا۔ پتہ نہیں کیوں ایک دم دل دھک سا رہ گیا۔ تفصیل پڑھی تو معلوم ہوا کہ گزشتہ رات کلیمی بھائی بھی خاموشی سے ہماری، آپ کی اس دنیائے فانی سے پردہ کر گئے ہیں۔
حافظے کی اسکرین پر یک دم کئی بھولی بھٹکی یادیں ایک دم روشن سی ہو گئیں۔ ان سے آخری ملاقات ان کے ٹورانٹو والے گھر میں کوئی تین برس قبل ہوئی تھی جب انھوں نے میرے اور انور مسعود کے اعزاز میں ایک مشاعراتی عشایئے کا اہتمام کیا تھا۔ وہ ایک خوش گو شاعر اور کامیاب بینکر تو تھے ہی لیکن ایک بہت شاندار انسان اور بہت اچھے دوست بھی تھے۔ انشاء اللہ ان کے بارے میں تفصیل سے لکھوں گا۔ فی الوقت ان کے چند شعر دیکھے جو برادرم ولی عالم شاہین نے بذریعہ ای میل بھجوائے ہیں۔ رب کریم ان کی جملہ خطاؤں سے درگزر کریں اور ان کی روح کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔ آمین۔
منزل دار و رسن ایک تماشا ہی سہی
تم سمجھتے ہو جو ایسا تو پھر ایسا ہی سہی
ناحق ہوئے معتوب کہ جب جرم ہوا تھا
ہم لوگ تو مصروف نظارہ بھی نہیں تھے
پھر وقت نے لکھوائے ہمیں سے وہ قصیدے
ان کے لیے' جو ہم کو گوارا بھی نہیں تھے
یہ بھی بہت ہے آج کلیمیؔ جو وہ ملا
کہنے لگا کہ نام ہے تیرا' سنا ہوا