بھارتی تاجر
جب پہچان پوشیدہ ہو تو کرتوت بھی پوشیدہ بیماریوں کی طرح پوشیدہ ہی رہتے ہیں۔
ہم بھی عجیب لوگ ہیں، ہمار ے کرتوت بھی عجیب اور ہمارے کام، سوچ ، امیدیں، امنگیں اور خواہشیں سب کچھ عجیب وغریب ہیں۔ عجیب وغریب کیا ہوتا ہے؟ عجیب وغریب سب سے الگ ہوتا ہے۔ اس کی علیحدہ شناخت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ اوروں سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے بارے میں پورے اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ ہم ہر اعتبار سے نہیں تو کم از کم اکثر اعتبار سے دنیا کے عام لوگوں سے مختلف ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کی اکثریت ہمارے بارے میں بہت زیادہ اچھی رائے نہیں رکھتی ۔
اس وقت ہم اپنے تاجروں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہمارے تاجروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف اور صرف نفع کمانے کے لیے ہی ہمہ وقت فکر مند رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ دوسرے ملکوں کے تاجر نفع کمانے کے بارے میں کم سوچتے ہیں وہ تاجر حضرات بھی زیادہ تر منافع کے بارے میں ہی فکر مند رہتے ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ وہ اکثر اوقات منافع کمانے کے ساتھ ساتھ منافع کے استعمال پر ہمارے تاجروں کی نسبت زیادہ رواداری اور بھائی چارے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں اس کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارا تاجر مشکل ترین حالات میں کاروبار کرتا ہے اور قاعدے قانون کی بجائے بھیڑیوں، بھتہ خوروں اور بد معاشوں کی رضا اور اجازت کا زیادہ محتاج ہوتا ہے۔
جس تاجر کو نہ بجلی ملے نہ گیس، نہ امن نہ سکون جس کے دفتر جانے کے راستے بند، مزدور ہڑتال پر اور بھتہ خور دروازے پر موجود ہوں اس سے صرف اور صرف منافع کمانے کے علاوہ کسی اور بات کی توقع کرنا اس بیچارے پر ایک اور ظلم کے مترادف ہوگا۔ اس کے باوجود دیکھا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح جھنڈا لہرا رہا ہے۔ لیکن اب شاید مسلمان ہونے کے باوجود مصیبت در مصیبت کی وجہ سے گھبرانے لگا ہے۔ غالباً میدان چھوڑنے پر مجبور کردیاگیا ہے۔
جس بات نے مجھے آج کا کالم لکھنے پر اکسایا ہے اس کا تعلق اس خبر سے ہے جس کے مطابق ایک بھارتی تاجرنے ایک ملین ڈالر کی رقم جیب سے ادا کر کے17 ہم وطنوں کو سزائے موت سے بچا لیا۔ خبر کے مطابق سرندر پال سنگھ دبئی کی ایک کاروباری شخصیت ہے جس نے حال ہی میں ان سترہ بھارتی شہریوں کو جنھیں ایک پاکستانی شخص کے قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی جاچکی تھی، بچانے کے لیے اپنی جیب سے ایک ملین امریکی ڈالر یعنی دس کروڑ روپے کی رقم ادا کی۔
سرندرپال سنگھ رفاعی کاموں کے لیے مشہور ہے اور گذشتہ سالوں میں خون بہا کی رقم ادا کرکے 54 ہم وطنوں کی زندگیاں بچا چکا ہے۔ سرندر پال سنگھ نے بتایا کہ ساری رقمیں انھوں نے اپنی جیب سے ادا نہیں کیں بلکہ تقریباً 22 لاکھ ڈالر لوگوں سے عطیات بھی وصول کیے لیکن سترہ بھارتی شہریوں کو موت کے منہ سے بچانے کے لیے حال ہی میں انھوں نے جو رقم خرچ کی وہ اپنی جیب سے کی۔ یہ سترہ بھارتی شہری دو ہزار نو میں شارجہ میں شراب کا کاروبار کنٹرول کرنے کے جھگڑے میں ملوث پائے گئے تھے جس میں ایک پاکستانی شخص ہلاک ہوگیا تھا۔ سرندرپال نے اتنی بڑی رقم ہلاک ہونے والے پاکستانی کے خاندان کو دیت کے طور پر ادا کرکے اپنے ہم وطنوں کی جان بچائی۔ اس سے بڑی بات سرندرپال نے یہ کہی کہ اپنے ہم وطنوں کی جان بچانا اس کا مشغلہ بن چکاہے وہ کہتا ہے کہ اس کی کمائی کا نوے فیصد لوگوں کی زندگیاں بچانے کے کام آتا ہے کیونکہ اسے زندہ رہنے کے لیے زیادہ دولت کی ضرورت نہیں۔
بس یہ وہ بات ہے جس سے سرندر پال جیسے لوگ ہم لوگوں سے ذرا مختلف ہوجاتے ہیں کیونکہ ہمارا کاروباری یا بیوپاری زندہ رہنے کے لیے دولت کمانے کی بجائے دولت کمانے کے لیے زندہ رہتا ہے۔ سرندرپال اپنے ہم وطنوں پر اپنی دولت اس لیے خرچ کرتا ہے کہ دیار غیر میں وہ زندہ رہ سکیں جب کہ ہم لوگ اپنے ملک کے اندر رہ کر اپنے بہن بھائیوں کا قتل عام اس لیے کرتے ہیں تاکہ رقم بٹور سکیں۔ ساری نمازیں پڑھ کر اور سارے روزے رکھ کر نہایت نورانی اور پاکیزہ انداز میں گلے کاٹ کر رقم بٹورنا بھی تو ایک کاروبارہے اور کون کہتا ہے کہ کاروبار حرام ہوتا ہے منافع بخش کاروبار حرام کیسے ہوسکتا ہے؟ خاص کر وہ کاروبار کیسے حرام ہوسکتا ہے جب رقم لینے والا اوررقم دینے والا دونوں بفضل تعالیٰ کوٹ کوٹ کر مسلمان ہوں۔
کہا جاتا ہے کہ ہم لوگ دنیا کے سب سے زیادہ خیرات دینے والے لوگ ہیں، ہر بازار میں ہردکان پر ایک ڈبہ موجود ہوتا ہے جس کے اندر اکثر شرابی کبابی تماشبین اور جوا باز بھی خوف خدا کے تحت کچھ نہ کچھ نیت کے ساتھ یا نیت کے بغیر ڈال ہی دیتا ہے اور اپنے تئیں سرندر پال بن جاتاہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ جانے بغیر کہ یہ رقم اس کے کس مسلمان کا خون کرنے اور گلہ کاٹنے کے لیے اس نے خوف خدا کے تحت دی ہے۔
ہمارے اندر عبدالستار ایدھی جیسے لوگ بھی موجود ہیں۔ بہت کم ہیں لیکن ہیں۔ ہمارے گلو کار حضرات بھی بہت بڑے بڑے فلاحی کاموں میں مصروف ہیں اور ان میں لڑکے لڑکیاں سبھی شامل ہیں۔ یہ عظیم لوگ دوسروں سے عطیات بھی لیتے ہیں لیکن دکانوں میں رکھے ڈبوں کے ذریعے نہیں جن کی پہچان پوشیدہ رہتی ہے۔ جب پہچان پوشیدہ ہو تو کرتوت بھی پوشیدہ بیماریوں کی طرح پوشیدہ ہی رہتے ہیں۔
خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔ آمین۔