گیس اور گوادر
سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ تھوپے جانے والے تمام تر فیصلے عوامی اورجمہوری کہلاتے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ کی بدترین اور خونی ترین جمہوریت اپنا دورِ اقتدار مکمل کرنے کو ہے۔جمہوریت کے اِس تحفے نے پاکستان اور پاکستانیوں کو وہ وہ تحائف دیے ہیں جو برس ہا برس یاد ہی نہیں یادگار رہیں گے۔صرف حکم ران ٹولا ہی نہیں تمام تر نام نہاد، نااہل، مفاد پرست سیاسی قیادت یکساں مجرم ہے۔ہر ہر شعبے میں وہ انحطاط ہے کہ ''پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے''اِس گھٹا ٹوپ تاریکی میں کم ازکم دو جرأتیں ایسی بھی سرزد ہوئی ہیںکہ جِن کا ظہور کم ازکم اِس راج سے متوقع نہیں تھا۔ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا معاہدہ اور گوادر کی بندر گاہ چین کے حوالے کرنا۔
1950رسال پور کے فوجی انجینئرنگ کالج کے نوجوان سِول انجینئر ملک آفتاب احمد خان کا ایک وقیع مضمون ''پرشین پائپ لائن'' شایع ہوا۔مضمون پاکستانی قدرتی گیس کے ذخائر محفوظ رکھتے ہوئے سستے ایندھن کی فراہمی کے بارے میں تھا۔ مضمون میںانجینئر آفتاب احمد خان نے نہ صرف یہ کہ پائپ لائن کے راستے کا تعین کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ پائپ لائن کی حفاظت کے لیے مختلف مقامات پر چھوٹی فوجی چھائونیاں قائم کی جائیں گی۔1989،بھارتی نژاد راجندر کمار پچوری اور اُس وقت کے ایرانی نائب وزیرِ خارجہ علی شمس اردخانی نے کام کیا۔اِس منصوبے کو بھارت تک وسیع کرتے ہوئے ''ایران، پاکستان انڈیا''(آئی پی آئی) پائپ لائن کا نام دیا۔یہ منصوبہ امن پائپ لائن کے نام سے بھی مشہور ہے۔ایران اور بھارت کی حکومتوں نے منصوبے کی اصولی حمایت کا اعلان کیا۔
1994میں پاکستان اور ایران کی حکومتوں کے درمیان باقاعدہ مذاکرات کاآغاز ہوا۔1995میں حکومتوں کے درمیان ابتدائی معاہدہ طے پا گیا۔پائپ لائن ایران کی جنوبی پارس گیس فیلڈ سے پاکستان آئے گی۔2775کلومیٹر طویل۔قریباً 1100کلومیٹر ایران میں اور 1000کلومیٹر سے کچھ کم پاکستان میں۔اگر اِس منصوبے کو آگے بڑھایا جائے تو مزید 600کلومیٹرکے بعد بھارت تک جا پہنچے گی۔پارس سے بندر عباس ہوتے ہوئے پائپ لائن خضدار،سوئی اور پھر ملتان۔ ملتان سے آگے یہ پائپ لائن دہلی تک جاسکتی ہے۔
منصوبے کا تخمینہ اُس وقت 7.5ارب امریکی ڈالر لگایا گیاتھا۔2007 فروری میںبھارت اور پاکستان نے گیس کی قیمت 4.93ڈالر فی ملین تھرمل یونٹ (برطانوی) پر اتفاق کیا،اگرچہ بعد میں بھارت نے اپنی رائے تبدیل کر لی۔2009میں بھارت نے قیمت اور حفاظت کا بہانہ کیا اور منصوبے سے علیحدہ ہو گیا۔خیال کیا جاتا ہے کہ قیمت سے زیادہ معاہدے سے علیحدگی کا سبب بھارت امریکا جوہری معاہدہ 2008تھا۔ 2013،30جنوری پاکستان کی حکومت نے گیس پائپ لائن معاہدے کی حتمی منظوری دے دی۔ایران اپنی سر زمین پر نو سو کلومیٹر تک پائپ لائن بچھا چکا ہے۔امید ہے آیندہ برس تک منصوبہ قابلِ عمل ہوگا۔تخمینے کے مطابق پاکستان کو یومیہ ساڑھے اکیس کیوبِک میٹر قدرتی گیس ملا کرے گی۔
پاکستان اور بھارت پر امریکا کا شدید دبائو تھا اور ہے کہ وہ گیس پائپ لائن منصوبے سے باز آجائے۔2010 جنوری میںامریکا نے پاکستان کو پائپ لائن کے منصوبے سے گریزکی صورت میں پاکستان کی مایع قدرتی گیس کے منصوبے نیز تاجکستان سے بجلی کی فراہمی کے منصوبوں میں مدد کا عندیہ دیا۔2013،29جنوری کو امریکی کائونسل جنرل مائیکل ڈاڈمین نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر اُس نے منصوبہ ختم نہیں کیا تو اُسے معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔یاد رہے کہ 2012میں سعودی فرماں روا بھی امریکی حمایت میں پاکستان پر دبائو ڈال چکے ہیں کہ وہ منصوبے سے ہاتھ کھینچ لے۔اِن حالات میں حکومتِ وقت نے کمال جرآت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گیس پائپ لائن کا منصوبہ آیندہ برس تک مکمل کرنے کی منظوری دی ہے۔
پاکستان اور ایران کو ایک دوسرے کی شدید ضرورت ہے۔جتنا جلد یہ ادراک کر لیا جائے اُتنا ہی بہتر ہے۔ علاقائی امن ، استحکام اور خوش حالی کے لیے بھارت ، چین اور روسی ریاستوں کو بھی شریک ہونا چاہیے۔امریکی آشیر باد کا حامل ایک منصوبہ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت پائپ لائن کا بھی تھا۔ لیکن وہ منصوبہ صرف کتابوں تک ہی رہ گیا۔امن پائپ لائن منصوبے میں چین کی شرکت کا امکان پایا جاتا ہے۔چین کو توانائی کی شدید ضرورت ہے اور ایران اُسے ایک عمدہ تجویز پیش کر چکا ہے۔
صدر آصف علی زرداری کی موجودگی میںایک اور اہم معاہدے پر دستخط ہوئے یہ معاہدہ ہمسایہ ملک چین سے طے پایا ہے۔گوادرکی بندرگاہ چین کے حوالے کر دی گئی۔چین بندرگاہ بنائے گا بھی اور چلائے گا بھی۔کراچی سے محض 460کلومیٹر کی دوری پریہ اہم ترین پورٹ ہے۔اس کی دوسری جانب عمان ہے صرف 380کلومیٹر دور۔تیل کی ترسیل کی مصروف ترین آبنائے ہُرمز بھی قریب ہے۔گوادر خلیج کے دہانے پر واقع ہے۔دنیا کی روزانہ تیل کی ترسیل کا قریباً 30فی صد یہاں سے گزرتا ہے۔مرکزی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان کے لیے گرم پانی تک رسائی کا واحد راستہ یہ ہی ہے۔پاکستان کو 1100کلومیٹر طویل ساحل ملا ہے۔قریباً 36 ہزار بحری جہاز پاکستان کی سمندری حدود سے گزرتے ہیں۔پاکستانی ترسیلات تین سے چار کروڑ ٹن ہوتی ہیں۔اِس تجارت کا 95فی صد بحری راستوں سے منسلک ہے۔
پاکستان نے 1954ہی میں گوادر کی اہمیت کا اندازہ لگا لیا تھا۔اُس وقت یہ عمان کے زیرِ تسلط تھا۔ 1958،8 ستمبر کو پاکستان نے یہ خطہ تیس لاکھ ڈالر میں عمان سے خرید لیا۔1988سے 1992کے دوران پاکستان نے گوادر کی بندر گاہ کی تعمیر شروع کر دی تھی۔اِس تمام عرصے میںگوادر اور بلوچستان کے بارے میں دو اہم امور نظر انداز کیے جاتے رہے۔ اول زمینی موثر رابطے کی بحالی۔ گوادر کی سہ جہتی اہمیت اور بلوچستان کی معدنی، قدرتی اور علاقائی اہمیت کے پیش نظر یہاں شاہراہوں کا جو جال ہونا چاہیے تھا۔
نیز بلوچستان کا جیسا بھرپور زمینی رابطہ پورے ملک سے ہونا چاہیے تھا،ایسا کبھی نہیں رہا۔یہ ہمیشہ نظر انداز کیا گیا خطہ رہا۔مانا کہ آج بندرگاہ کی تعمیر ،توسیع اور انتظامی امور چین کے حوالے کر دیے گئے ہیں لیکن بغیر شاہر اہوں کے بندرگاہ کس کام کی رہے گی؟دوسرا اہم ترین مسئلہ بلوچوں کے احساسِ محرومی اور نظر انداز کیے جانے کا ہے۔بلوچستان کے مسائل کو کبھی بلوچوں کے نقطہ نظر سے حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی۔آج بھی چین سے یہ اہم معاہدہ کرتے ہوئے بلوچوں سے مشورے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔بلوچ قوم پرست اِس معاہدے کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔انھیں حکو متِ پاکستان کے ساتھ ساتھ چین سے بھی شکایت ہے ،یہاں معدنی وسائل کا بلوچ عوام یا بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔
بلوچ قبائل وفاق اور یہاں مصروف عمل دیگر ممالک سے یکساں نالاں نظر آتے ہیں۔آج بلوچستان میں امن و امان جتنا تباہ ہے اُتنا کبھی نہ تھا۔عالمی سطح کی بندرگاہ کی تعمیر تو ایک جانب رہی بغیر امن کے ادنیٰ درجے کا ترقیاتی کام بھی ممکن نہیں۔اگر مقامی افراد میں شدید اضطراب ،بے چینی ،غم و غصہ ہو تو آپ وہاں ترقی کے راگ نہیں الاپ سکتے۔ گورنربلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے کمال سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جانا چاہیے۔ بندرگاہ کی تعمیر سے سب سے پہلا فائدہ بلوچ عوام کا ہونا چاہیے۔وغیرہ ...لیکن سچ تو یہ ہے کہ بلوچوں کو معاہدے کے دوران اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔ نہ ہی اُنھیں معاہدے کی شقوں ہی کی کچھ خبر ہے۔ان حالات میں مندرجہ بالا قسم کے بیانات کی اہمیت نہیں معلوم۔سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ تھوپے جانے والے تمام تر فیصلے عوامی اورجمہوری کہلاتے ہیں۔