امریکی وزیر دفاع کا دورہ بھارت

عالمی برادری متفق ہو چکی کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں

عالمی برادری متفق ہو چکی کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ۔ فوٹو : فائل

بھارت نے امریکا پر واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے فوجی دستے افغانستان نہیں بھیجے گا تاہم نئی حکمت عملی پر عملدرآمد کے لیے ترقیاتی سرگرمیوں میں مدد کرتا رہے گا۔ بھارت کے اس انکار کو جنوبی ایشیا کے لیے امریکا کی افغان پالیسی کے وسیع تر تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ کے لیے پہلا دھچکا کہہ سکتے ہیں۔

بھارت کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر دفاع جم میٹس سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتارمن نے کہا بھارت افغان سیکیورٹی اہلکاروں کی تربیت بڑھانے، اسکولوں اور انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں تعاون کے لیے تیار ہے، ہمارا تعاون ان معاملات کی حد تک ہوگا اور ہم اس تعاون کو ضرورت کے وقت بڑھائیںگے تاہم یہ بات بالکل واضح ہے کہ بھارتی فوجی دستے افغانستان میں قدم نہیں رکھیں گے۔

جم میٹس ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں بھارت کا سہ روزہ دورہ کرنیوالے پہلے رکن ہیں جن کی آمد پر افغانستان کی سرزمین راکٹ حملوں سے لرز اٹھی۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق علی الصبح حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ میں افغان ملٹری سیکشن کے قریب 6 راکٹ گرے تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، حملوں کے بعد ایئر پورٹ بند کردیا گیا ،ایمرجنسی نافذ ہوئی اور تمام پروازیں منسوخ کی گئیں۔

امریکی وزیر دفاع کا یہ دورہ بھارت سے افغانستان میں مدد کے لیے زور دینے سے متعلق تھا جس میں امریکی وزیر دفاع نے نریندر مودی سے ملاقات کی، اور خطے کی مجموعی صورتحال بھی زیر غور لائی گئی، جم میٹس کے ہمراہ نیٹو چیف جینز اسٹولٹن برگ بھی ہیں، یہ دراصل جائزہ مشن ہے تاکہ افغانستان کے جنگی تھیٹرکو پاکستان منتقل کیا جائے اور اس حکمت عملی پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، جب کہ پاکستان پہلے سے واضح کرچکا ہے کہ یہ جنگ پاکستان میں ہر گز نہیں لڑی جا سکتی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یہ اعلان جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کرچکے ہیں۔

جم میٹس نے بھارت کے افغانستان میں قیمتی تعاون کو سراہتے ہوئے افغانستان میں جمہوریت، استحکام اور سیکیورٹی کے لیے اس کی کوششوں کا خیرمقدم کیا جب کہ کسی ملک کا نام لیے بغیر ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو بالکل برداشت نہیں کیا جاسکتا۔


یہی وہ مقام ہے جہاں امریکی دو عملی اور حقائق سے چشم پوشی کا باب کھلتا ہے، ٹرمپ کی طرح جم میٹس بھی اس حقیقت سے صرف نظر کر گئے کہ دہشتگردی کے محفوظ ٹھکانے توافغانستان میں ہیں جس کے بارے میں پاکستان بار بار اس جانب عالمی قوتوں کی توجہ مبذول کراتا رہا ہے اور مسئلہ کا ایک ہی حل پاکستان تجویز کرتا ہے کہ طالبان کمانڈروں اور پاکستان سے مفرور دہشتگردوں کو افغان سرزمین پر قیام اور سرحد پار دہشتگری کے منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی کھلی چھٹی ملی نہ ہوتی تو افغان بحران کب کا حل ہوچکا ہوتا، اور اب بھی پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے امریکا بھارت پر خطے کے امن کے لیے تکیہ نہ کرے۔

بھارتی ڈپلومیسی اور مذموم عسکری عزائم اس کے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن سے ظاہر ہیں جبھی بھارتی آرمی چیف سرجیکل اسٹرائیک کی بار بار دھمکی دیتے ہیں ، ادھر کنٹرول لائن پر کشیدگی سمیت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، امریکا کو پاکستان کی قربانیوں کا ادراک کرنا چاہیے کیونکہ افغانستان میں شورش کی کیمسٹری اور تاریخی عوامل کو نظر انداز کرنے سے مسائل مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں،کیا ہی بہتر ہوتا کہ جم میٹس اپنے دورے کی آخری منزل پاکستان کو بناتے۔

ادھرافغان وزارت دفاع نے کہا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے پانچ روز میں کابل کا دورہ کریں گے ،جہاں افغان حکام ان کے ساتھ ملاقاتوںمیں دہشتگردی کے خاتمے ، طالبان کے ساتھ ممکنہ امن مذاکرات اور افغان حکومت پاکستان کو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے اور کارروائی کے حوالے سے بات کریں گے نیز پاکستان میں تعینات افغان سفیر ڈاکٹر عمر ذاخیل وال کا کہنا ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود پاک افغان تعلقات ختم نہیں ہوسکتے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پاکستان سرحد پاردہشت گردی کا شکار ہے اور اپنی سرزمین پر افغان جنگ لڑنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے سیکیورٹی کونسل میں افغانستان کے بارے میں مباحثے کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت اورمزاحمت کاروں میں امن عمل ناگزیر ہے۔

عالمی برادری متفق ہو چکی کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں، طالبان تشدد ترک کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں، ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور افغانستان امور کے حوالے سے سیمینار کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے مرزا اسلم بیگ نے کہا کہ ایشیا میں بھارتی بالادستی قائم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ افغانستان کو داعش کا گڑھ بنائے جانے کی سازش ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سیکیورٹی صورتحال کے تناظر میں پاکستان وسیع طور پر باہم منسلک اور باہمی انحصار کے حامل خطے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ چنانچہ موجودہ وقت امریکی عملیت پسندی کا ہے، بھارت کو کلیدی کردار دینے کا نہیں۔

 
Load Next Story