عسکریت پسند گروپوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے کشش

ہمارے اسکولوں میں تنقیدی سوچ، جوکسی بھی روشن خیال معاشرے کے لیے پیشگی شرط ہے،کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

ayazbabar@gmail.com

گزشتہ کئی سال سے یہ بنیادی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ''عسکریت پسند تنظیموں کے لیے تعلیم یافتہ سویلین اور فوج کے لوگوں پر اثر انداز ہونا اتنا آسان کیوں ہوگیا ہے؟ '' ہم جب بھی اس معاملے پر بات کرتے ہیں حکومت وعدہ کرتی ہے کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف بیانیہ تیار کررہی ہے اور ایسے ذرایع کو روکا جا رہا ہے جہاں سے یہ نوجوان انتہا پسند پارٹیوں اور عسکریت پسند گروپوں میں شامل ہونے کا جذبہ حاصل کرتے ہیں، مگر عسکریت پسند اسلام کی روک تھام کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جاتی۔

سب سے پہلے ہمیں بعض ان نکات کا جائزہ لینا چاہیے جنھوں نے عسکریت پسند غارت گروں کے لیے پاکستان کو ایک آسان شکار گاہ بنارکھا ہے۔ اسکول کی سطح سے ہی ہمیں ایک ایسا قدامت پسند اسلامی نظریہ اور تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس میں ہر مسلم حملہ آورکی تعریف و تحسین ہوتی ہے اور تاریخ کی خود پرستی پر مبنی تشریح ہمارے دماغوں میں ٹھونسی جاتی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں تنقیدی سوچ، جوکسی بھی روشن خیال معاشرے کے لیے پیشگی شرط ہے،کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

ممتاز اسکالر سلیم علی نے اپنی کتاب''اسلام اینڈ ایجوکیشن'' میں لکھا ہے کہ ''یہ بات اہم ہے کہ باضابطہ تعلیم اور مخصوص مقاصد کی پابند تعلیم کے درمیان فرق کو یاد رکھا جائے۔تنقیدی سوچ کی خوبیوں کی صلاحیت کا حصول تعمیری باضابطہ تعلیم کا محور ہے۔'' مدارس کا نصاب کہیں زیادہ قدیم اور اسی ایک فرقے تک محدود ہے جس سے اس کا تعلق ہے، جو جہادی افغانستان، بھارت اور پاکستان میں آپریشنز کے دوران مارے جاتے ہیں، انھیں ہیرو اور مجاہد بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

اس بات کا پرچار کرنے کے لیے بھی مساجد کی ایک اچھی خاصی تعداد کو استعمال کیا جاتا ہے کہ ساری دنیا اسلام کے خلاف سازش کر رہی ہے ۔کمزور قوموں میں سازشی نظریات کو فروخت کرنا آسان ہوتا ہے، کیونکہ وہاں دوسروں پر الزام ڈال دینے اور خود احتسابی کی حوصلہ شکنی کا رجحان ہوتا ہے۔

اردو میڈیا کی طرف سے اس قسم کے نظریات کو اسلامی جہاد کی حمایت میں پیغامات کے ساتھ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کو عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ انھیں مثبت کوریج دی جائے۔ جہادی گروپوں کی50 سے زیادہ مطبوعات ہیں جو نوجوانوں کو اسلامی ''خلافت'' اور القاعدہ نظریے کی مختلف صورتوں کی طرف راغب کرتی ہیں۔

ماضی میں متوسط طبقے کے نوجوانوں کے لیے جو استحصالی نظام کو تبدیل کرنا چاہتے تھے، سوشلسٹ نظریے میں کشش ہوتی تھی، مگر سوشلسٹ ماڈل کو لگنے والے دھچکے کے بعد وہ انتہا پسند اسلامی نظریے کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ اپنے جذباتی مزاج کی وجہ سے نوجوان،گورننس کے موجودہ نظام میں انقلابی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔

ارتقائی جمہوری سرمایہ داری نظام سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اسلامی عسکریت پسند تنظیمیں ان نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں جو اسکول کی سطح پر پہلے ہی ذہنی طور پر اس بات کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ یہ ملک اسلامی ریاست کے طور پر بنایا گیا تھا، اگر چہ اس وقت دنیا میں خالص اسلامی ریاست کا کوئی ماڈل موجود نہیں ہے تاہم مسجد جانے والے ایک عام مسلمان کے لیے اس میں کشش ہے۔ اسلامی عسکریت پسند گروپوں کے حربے بھی انقلابی گروپوں جیسے نہیں ہیں بلکہ ان کی بہترین تشریح انارکزم کی حیثیت سے کی جا سکتی ہے۔


انتہا پسند عسکری تنظیموں کے لیے بھرتی کرنے والے افراد ایسے طلبہ اور نوجوانوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں جو باقاعدگی سے مسجد آتے جاتے ہیں اور پھر یہ ان جوانوں سے ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کی ضرورت پر بات چیت کرتے ہیں۔جو لوگ زیادہ پر جوش ہوتے ہیں انھیں دہشتگرد سرگرمیوں کے لیے بھرتی کرلیا جاتا ہے۔

ہم مسلسل خطرناک طریقے سے مذہب کو سیاست اور اپنی سیکیورٹی پالیسی سے گڈ مڈ کر رہے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بھارت اور افغانستان کو کمزور کرنے کے لیے بھی جہادی تنظیموں کو استعمال کیا۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی کیونکہ بہت جلد اس کا جواب ملنا تھا۔اس کا اثر پہلے جہادی تنظیموں کو چلانے والوں پر پڑے گا ،کیونکہ ان کا ان تنظیموں کے ساتھ رابطہ ہے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اسلام ازم فورسز میں سرایت کر گیا ہے۔

پاکستانی مسلح افواج کے پروفیشنل ازم کی تعریف کی جانی چاہیے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ ہمارے افسر اور جوان جو اسی بیانیے کے تربیت یافتہ ہیں کہ وہ ایک ایسے ملک کے محافظ ہیں جو اسلام کا قلعہ ہے، یہ فوجی افسر اپنی صفوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں، مگر ان چند استثنا کے ساتھ کہ اندر کے کچھ لوگ دہشتگرد سرگرمیوں میں ملوث تھے۔

اب کیا کرنا چاہیے؟سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو جہادی نظریے اور ایسے گروپوں کی حمایت ترک کر دینی چاہیے، اس بات پر کڑی نظر رکھی جائے کہ تبلیغ ِاسلام کے نام پر لوگوں کے ذہن میں نفرت نہ بھری جائے اور ایسی تنظیموں کے حامیوں کی تطہیر کی جائے۔ سیاست دانوں کو نظریاتی چیلنج قبول کرنا چاہیے اور عوام کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے سائنسی بنیاد پر ابلاغی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے کہ دہشتگردوں نے مذہب کی آڑ میں پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے اور یہ کہ ہمیں ایک جدید جمہوری سیکولر پاکستان کی تعمیر کے لیے متحد ہوکر اٹھ کھڑے ہونا ہو گا۔ یہ دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں ہے، یہ دہشتگردی کے خلاف پاکستانیوں کا دفاع کرنا ہے۔اس سے کم پر کوئی بات نہیں بنے گی۔

نظروں سے اوجھل بہت سی باتیں ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز میں بڑے پیمانے پر صفائی کی ضرورت پیش آئے۔ سیکیورٹی فورسز کو سمجھنا چاہیے کہ ان کا ''جہاد فی سبیل اللہ'' کا نعرہ جہادی تنظیموں کا بھی نعرہ ہے۔ ایک اچھی پیشرفت یہ ہے کہ آرمی چیف نے پہلی بار اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ صرف ریاست ہی کو جہاد کے اعلان کا اختیار حاصل ہے۔کیا اس حوالے سے ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اُن غیر ریاستی اداکاروں کی مزید حمایت نہیں کی جائے گی جو افغانستان اور بھارت میں اپنا جہاد کر رہے ہیں؟

ملک میں اسلامی انتہا پسندی میں اضافے کے ساتھ منظم پروپیگنڈا، القاعدہ اور اسلامی ریاست کے ساتھ جڑی ہوئی مختلف تنظیموں کی طرف سے ایک بڑے اسلامی جہاد کو آگے بڑھا رہا ہے جہادی نظریے کی سرایت اور ''اسلامی امارت ِ پاکستان'' یا پاکستان میں ''اسلامی خلافت'' کے قیام کو کسی آپریشنل سیکیورٹی کارروائی سے نہیں روکا جا سکتا۔اس اسلامی''امارت'' یا ''خلافت'' کے لیے ماڈل، افغانستان میں طالبان حکمرانی اور حال ہی میں وحشت ناک اسلامی ریاست ہے۔

سول ملٹری پالیسی سازی کی سطح پر جس بات کو تسلیم نہیں کیا جاتا وہ یہ ہے کہ اگر چہ فوج دہشتگرد تنظیموں سے محدود پیمانے پر لڑ رہی ہے اور ہمارے ہزاروں سیکیورٹی اہل کار شہید ہو چکے ہیں مگر انھوں نے جہاد کے نظریے کو چیلنج نہیں کیا۔ ہزاروں مساجد، مدارس اور مذہبی تنظیمیں مغرب اور مسلمان ممالک میں اس کی اتحادی حکومتوں کے خلاف جہاد کی تبلیغ کر رہی ہیں۔ کیا ہم نے اس ٹھوس حقیقت سے آنکھیں موند نہیں رکھیں؟

(کالم نگار ''پاکستان، خرابی اور اس کے اثرات'' نامی کتاب کا مصنف ہے۔ رسائی کے لیے(ayazbabar@gmail.com
Load Next Story