تاریخ کی تاریکیاں

اب تاریخ میں دو ایسے بڑے واقعات ہماری چشم کشائی اور تاریخ کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq September 28, 2017
[email protected]

کونین اور پنسلین جب ایجاد ہوئی تو ساری دنیا میں ایک غلغلہ مچ گیا ۔ جیسے آب حیات مل گیا ہو لیکن آج ان دونوں کو نقصان دہ ہونے کی وجہ سے ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ ایسا ڈی ڈی ٹی کے ساتھ ہوا یہاں تک کہ صدیوں سے بہترین خوراک سمجھا جانے والا دیسی گھی بھی زہر قرار دیا جا چکا ہے۔ ھمہ صفت موصوف چینی کو سفیدزہر کہا جا رہا ہے ،گوشت کو سب سے اعلیٰ خوراک سے گراکر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا چکا ہے ایسی اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں جو تریاق کے بجائے زہر قرار دی جاچکی ہیں۔

ایک چیز ''تاریخ '' بھی ہے جو عرصہ دراز سے درسگاہوں میں پڑھائی جا رہی ہے اس پر ڈگریاں حاصل کی جا رہی ہیں اور ''علم '' کا ایک زبردست حصہ کہاجاتا ہے لیکن یہ حقیقت آہستہ آہستہ کھل رہی ہے کہ جسے تاریخ کہا جاتا ہے وہ تاریخ نہیں ہے اس کے علاوہ سب کچھ ہے اور اس سے زیادہ حقائق افسانوں اور اساطیر میں ہیں۔سب سے پہلے تو یہ بات بالکل ثابت ہو چکی ہے کہ جسے تاریخ سمجھا جا رہا لکھا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے ۔ وہ صرف پندرہ فیصد اشرافیہ یا حکمرانیہ کی وہ بڑہانکیناں ہیں جو خود اس نے ہاں کی ہیں۔

وہ ان بادشاہوں حکمرانوں کے خود اپنے بیانات ہیں یا ان کے طرف داروں کے کہے ہوئے قصیدے ہیں کسی بھی اور غیر جانبدار ذریعے سے ان واقعات کی تصدیق نہیں ہو سکتی جو ان خودنوشت قصیدوں میں لکھا گیا ہے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ آج کے جدید دور میں جب روشنی زیادہ پھیل چکی ہے وہی سلسلہ ہے کہ کوئی حکومت اپنے خلاف کچھ بھی برداشت نہیں کرتی اور صرف اپنے کہے ہوئے کو مستند کہتی ہے تو ان زمانوں میں جب تحریر پر حکمرانوں یا ان کے ساجھے دار مذہبی پروہتوں کی مکمل اجارہ داری تھی کوئی حرف حق کیسے لکھ سکتا تھا اور اگر لکھا بھی گیا ہوگا تو شاہی وسائل کے بغیر ان کو محفوظ کیسے رکھا جا سکتا۔

اب اگر شاہوں بادشاہوں اور جہاں پناہوں کے اس ستائش باہمی قصدۂ خود نوشت کو تاریخ سمجھ بھی لیا جائے تو صرف پندرہ فیصد حکمران طبقے کی تاریخ کہی جا سکتی ہے اور ان پچاسی فیصد رعیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں ہے جو ان شاہوں بادشاہوں کو شاہ اور بادشاہ بنانے کی بنیاد تھی '' ساری تاریخ '' بھی حکمرانوں کی مرضی ومنشا اور پسند کے مطابق ہوتی تھی کہ صرف وہی اس کی '' داد'' دے سکتی تھی اور دیتی تھی بلکہ ''پیشگی '' دیتی تھی ۔

اس میں اگر اس پچاسی فیصد خداماروں کا ذکر کہیں آبھی جاتا تو وہ ہندسوں میں ہوتا ہے کہ اتنے مرے اتنے جلے اتنے جلے اتنے برباد ہوئے یا فلاں ظل اللہ اور ظل الٰہی کے دور میں اس کی کمی ذات بابرکات سے ''رعایا '' چین کی بانسری بجاتی تھی ، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے اور لوگ دولت اچھال اچھال کر اس فردوس گم گشتہ میں پھرتے تھے۔ اور پھر یہ تاریخ فتح و شکست سے بھی یکسر یوٹرن پے لیتی ہے ۔ تاریخ میں مثالوں کی تو کوئی حد نہیں ہے کہ جب ایک عظیم الشان ظل الہی شکست کھاتا ہے تو دنیا کے تمام عیوب اور برائیاں اس میں ڈال دی جاتی ہیں اور صفات فاتح کی ذات میں جمع ہو جاتی ہیں۔

اب تاریخ میں دو ایسے بڑے واقعات ہماری چشم کشائی اور تاریخ کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں اور ان دونوں کو ایک طرح سے تاریخ کا ہولوکاسٹ قرار دیا جا چکا ہے اور اتفاق سے یہ دونوں ہی واقعات مظلوم یہودیوں کے ساتھ ہوئے ہیں جن کے پاس ابلاغ کے سارے ذریعے پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں ۔پہلا ہولوکاسٹ '' بخت نصر کے نام سے موسوم ہے ۔ اور دوسرا ہٹلر کے ساتھ ۔ لیکن یہ دونوں شکست کھا گئے تھے تو اس لیے سارے عیبوں خرابیوں اور مظالم کے مجسمے قرار دیے گئے اور '' یہودی '' ان دونوں واقعات میں مظلوم معصوم اور ہمہ صفت موصوف قرار پا چکے ہیں۔حالانکہ دونوں واقعات ان معصوموں اور مظلوموں نے ان '' ظالموں'' کو اتنا مجبور کیا تھااتنا تنگ کیا تھا اتنا نقصان پہنچایا تھا کہ اگر وہ ۔ وہ نہ کرتے تو خود مٹ جاتے۔

بخت نصر اور بابل کے دوسرے حکمرانوں کو یروشلم کی سازشوں ریشہ دوانیوں وعدہ خلافیوں اور شورہ پشتیوں نے اتنا زچ کیا تھا اتنا پریشان کیا تھا اور اتنا مجبور کیا تھا کہ اگر وہ سازشوں ریشہ دوانیوں اور شرارتوں کے مرکز یروشلم کو تباہ نہ کرتے تو خود تباہ ہو جاتے۔ہوا صرف اتنا تھا کہ بخت نصر نے یروشلم کے مراکز کو تباہ کیا تھا اور خطرناک لوگوں کو پکڑ کر بابل میں رکھ لیا جو قیدی نہیں تھے ایک ہی محلے محلہ ''کبر'' میں رہتے تھے اپنا کاروبار کرتے تھے صرف بابل سے باہر جانے کی پابندی تھی باقی یہودیوں سے کوئی تعرض نہیں کیا لیکن اس واقعے پر یہودیوں نے اتنا واویلا مچایا کہ تاریخ میں ظلم کی مثال بن گیا کیونکہ یہودیوں کی یہ عادت جدی پشتی ہے کہ فاتح ہوں تو شیطان ہوتے ہیں اور مفتوم ہوتے ہیں تو فرشتے بن کرروتے رہتے ہیں۔

دوسرا واقعہ تو ابھی کل ہی ہوا تھا کیا ہٹلر واقعی اتنا ظالم تھا جتنا یہودیوں کے زیر اثر یا اپنے ذرایع ابلاغ نے ثابت کیا ہے ؟بالکل بھی نہیں بلکہ اصل مظلوم ہٹلر تھا ۔ جسے یہودیوں سرمایہ داروں نے جنگ عظیم اول کے بعد اتنا بے دست و پا کیا کہ مرنے مارنے پر اتر آیا، ایک ہی دن میں جرمنی کا سکہ ردی کا ڈھیر بن گیا تھا تب وہ اپنی بقا کے لیے کیا کرتا کوئی دوسرا آپشن اس کے پاس تھا ہی نہیں ۔اور پھر یہودیوں کے واویلے پر ساری دنیا نے مل کر اُسے تباہ کیا تو ''ہولو کاسٹ '' کا بے بنیاد افسانہ بنا لیا گیا جس کا '' تاوان'' ابھی تک جرمنی سے اسرائیل وصول کر رہا ہے اب تک اربوں کھربوں ڈالر وصول کر چکاہے اور سلسلہ ابھی جاری ہے حالانکہ غیر جانبدار ذرایع نے جرمنی جاکر ثابت کیا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا جو افسانوں ڈراموں اور فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔

دوران جنگ جب ہٹلر کو ایک ایک بوند پیٹرول کی ضرورت تھی وہ کیا پاگل تھا جو اس قیمتی متاع کو یوں برباد کرتا اور سب سے بڑی حقیقت یہ کہ چھ لاکھ یہودی اس وقت پورے پورپ میں بھی نہیں تھے تو جرمنی میں کہاں سے آگئے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں