لمحۂ فکریہ

اس اسٹیٹس کو کو توڑے بغیر اس ملک کے 21 کروڑ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔


Zaheer Akhter Bedari September 28, 2017
[email protected]

ویسے تو پورے جمہوری دور میں مذہبی جماعتوں کی کارکردگی روبہ زوال رہی ہے لیکن لاہور کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخابات میں مذہبی جماعتوں کی کارکردگی اس قدر گر گئی ہے کہ مذہبی جماعتوں کے لیے یہ کارکردگی لمحۂ فکریہ بن گئی ہے ان انتخابات میں دو بڑی پارٹیوں نے 63 ہزار اور 47 ہزار ووٹ لیے ان کے مقابلے میں بڑی اور منظم مذہبی جماعتوں کا چار پانچ سو ووٹ لینا اتنی بڑی ٹریجڈی ہے کہ خود ان جماعتوں کے وجود پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ تقریباً تمام مذہبی جماعتیں مڈل کلاس پر مشتمل ہیں اور اس پس منظر میں بہتر نتائج کی توقع کرنا ایک فطری بات ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی طرف سے مذہبی جماعتوں سے اس اغماز کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

کیا عوام کا یہ ردعمل اس لیے تو سامنے نہیں آرہا ہے کہ عوام 70 سالوں سے جن مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن میں طبقاتی استحصال سرفہرست ہے، مذہبی جماعتیں عوام کے ان مسائل کو سیکنڈری حیثیت دیتی رہی ہیں اور اسلامی نظام کا نفاذ ان جماعتوں کا اولین مقصد اور پہلی ترجیح بنا دیا۔ اسلامی نظام کے مطالبے پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن اس نظام میں عوام کے مسائل خاص طور پر طبقاتی استحصال کے حوالے سے مذہبی جماعتوں کی ترجیحات کیا ہوں گی۔ کیا یہ سوال ہی عوام کی مذہبی جماعتوں سے مایوسی کا سبب بن گیا ہے؟

مذہبی جماعتیں دیگر سیاسی جماعتوں سے زیادہ منظم ہیں اور ان کے پاس نظریاتی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے یہ دو خصوصیات ایسی ہیں جن سے سیاسی جماعتیں محروم ہیں اور یہ تاثر عام ہے کہ انتخابات جیتنے میں یہ دو عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ بعض مذہبی جماعتیں حکومتوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی ہیں اور ان کی قیادت پر ذاتی مفادات کے حصول کے الزامات ہی لگتے رہے ہیں لیکن مجموعی طور پر ان جماعتوں پر کرپشن کے ایسے بڑے الزامات نہیںلگے ہیں جو ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت پر لگ رہے ہیں اور یہ قیادت عوام کی راندہ درگاہ بن کر رہ گئی ہے۔

اس حوالے سے دوسری اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ زمانہ بہت آگے نکل گیا ہے۔ سائنس ٹیکنالوجی اور آئی ٹی کے انقلابات نے ایک فکری انقلاب برپا کردیا ہے مذہبی جماعتیں اپنی فکر کو اس سے ہم آہنگ کرنے کے بجائے پرانی ڈگر پر ہی چل رہی ہیں۔ عوام کو مذہبی جماعتوں کی یہ فکری اپروچ حقیقت اور حقائق کے برخلاف بلکہ متصادم نظر آتی ہے۔ کیا مذہبی جماعتوں کی یہ سیاست عوام کی ان سے دوری کا باعث بن رہی ہے؟

اس حوالے سے ایک اور فیکٹر عوام کی بدگمانی کا باعث بن رہا ہے اور وہ فیکٹر ہے مذہبی انتہا پسندی جو دہشت گردی میں بدل گئی ہے، دہشت گردی کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہی بن رہے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں اب تک 70 ہزار مسلمان اس دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کا یہ پہلو عام مسلمانوں میں زبردست کنفیوژن کا باعث بن گیا ہے بدقسمتی سے مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لاتعلق نظر آتی ہیں بلکہ بعض تو دہشت گردوں کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی نظر آتی ہیں جو عوام کی بدگمانیوں میں اضافے کا سبب بنا ہوا ہے۔

دہشت گرد جب دہشت گردی کی خوفناک وارداتیں کرتے ہیں تو ایک طرف عوام میں بدگمانی بڑھتی ہے اور عوام تقسیم در تقسیم کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں، یہ طریقہ بھی عوام کو مذہبی جماعتوں سے دوری کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان کے علاوہ افغانستان، شام، عراق، سعودی عرب اورکئی مسلم افریقی ممالک میں بھی اسلام کے نام پر بدترین قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے اور ہر جگہ اسلام کا نام ہی استعمال ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال بھی عوام کی مذہبی جماعتوں سے دوری کا باعث بن رہی ہے۔ عرب اور عجم کے اختلافات جب میڈیا کی زینت بنتے ہیں اور عرب ملک امریکا کے اتحادی بنتے ہیں تو بعض مسلمان سخت بدظنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سے لاکھ اختلاف ممکن ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ مذہبی جماعتیں نہیں ہیں لبرل جماعتیں ہیں نئے دور کے تقاضوں کو سمجھتی ہیں اور نئے دور کے تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا چاہتی ہیں۔ لاہور کے عوام کا ان جماعتوں کو ووٹ دینا اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عوام دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا چاہتے ہیں وہ حال اور مستقبل کے تقاضوں سے واقف ہیں وہ ماضی میں زندہ رہنا نہیں چاہتے، اگر مذہبی جماعتیں ان حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنی سیاست کو حال اور مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں تو عوام کا ان کی طرف متوجہ ہونا ناممکن نہیں۔ موجودہ دور سائنس ٹیکنالوجی تحقیق اور انکشافات کا دور ہے اب تصوراتی زندگی تصوراتی دنیا میں گزارا ممکن نہیں۔ اب حقائق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

ماضی بعید میں کلیسائی نظام کے ماننے والوں کا عقیدہ تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے یہ نظریہ مشاہداتی تھا لوگ جب صبح کو سورج کو مشرق سے طلوع ہوتے دیکھتے اور سارے دن کی گردش کے بعد مغرب میں غروب ہوتے دیکھتے تو ان کا یہ خیال ہوتا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہ تھا سورج ساکن تھا زمین سورج کے گرد گردش کناں تھی جب محققین نے کہا کہ سورج ساکن ہے زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے تو کلیسائی نظام کے ماننے والوں نے ان پر مذہب دشمنی کا الزام لگا کر انھیں سزائے موت سنائی۔

اس جہل کی وجہ زمین نے سورج کے گرد گردش کرنا نہیں چھوڑ دیا زمین آج بھی سورج کے گرد گردش کر رہی ہے اس حقیقت کو دوسری تیسری کلاس کا بچہ بھی جانتا ہے۔ ماضی بعید میں علم اور معلومات بہت محدود تھے اور انھی محدود علم اور معلومات کے مطابق عوام اپنے عقائد و نظریات تشکیل دیتے تھے۔ کرہ ارض ہی کو کل کائنات سمجھتے تھے جب کہ کرہ ارض کائنات کی ناقابل تصور وسعتوں میں ایک ایٹمی ذرے سے بھی ہزاروں گنا چھوٹا ہے۔ کیا اب زمین ہی کو کل کائنات سمجھا جاسکتا ہے؟

ہم جس اقتصادی نظام میں زندہ ہیں وہ طبقاتی نظام ہے اس نظام میں نوے فیصد سے زیادہ عوام دن بھر کی محنت کے باوجود دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں اور ایک چھوٹا سا ٹولہ قوم کی 80 فیصد دولت پر قابض ہوکر زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے، اس طبقے کی لوٹ مار سے میڈیا بھرا ہوا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی طبقاتی استحصال کا اسی طرح شکار ہیں جس طرح اس ملک کے 21 کروڑ عوام شکار ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس طبقاتی نظام کی سرپرست ہیں اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے والے 63 ہزار عوام کا تعلق بھی انھی طبقات سے ہے جو طبقاتی استحصال کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس اسٹیٹس کو کو توڑنا نہیں چاہتیں کیونکہ یہ اسٹیٹس کو ان طبقات کو اربوں روپوں کی کرپشن کے مواقعے فراہم کرتا ہے۔

اس اسٹیٹس کو کو توڑے بغیر اس ملک کے 21 کروڑ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ عوام ظلم کے خلاف اس وقت ڈنڈا اٹھاتے ہیں جب وہ ظالم سے واقف ہوں اگر عوام کو یہ بتایا جائے کہ غربت بھوک بیماری بے کاری قسمت کی دی ہوئی ہوتی ہے اور یہ امتحان ہے اور دنیا میں ظلم سہنے والوں کو اس کا اجر ملے گا تو ظالموں کے خلاف مظلوموں کی بغاوت سرد پڑ جاتی ہے۔

اسٹیٹس کو کو صرف مڈل کلاس کی قیادت میں عوام توڑ سکتے ہیں ہماری تمام مذہبی جماعتیں مڈل کلاس پر مشتمل ہیں ۔ ان کے پاس کارکنوں کی ایک بھاری تعداد ہے اگر یہ جماعتیں نظریاتی بھول بلیوں سے نکل کراستحصالی اسٹیٹس کو کو توڑنے پر کمربستہ ہوجائیں تو نہ صرف انھیں عوام کی حمایت حاصل ہوگی بلکہ ستر سال سے طبقاتی مظالم کے شکار عوام کو بھی اس ظلم و استحصال کے نظام سے نجات مل جائے گی لیکن اس کے لیے مذہبی جماعتوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور ہماری دنیا کائنات میں ایک ایٹمی ذرے سے بھی چھوٹی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں