ہم پسماندہ نہیں
پاکستان کو جان بوجھ کر پسماندہ بنایا گیا ہے
WASHINGTON:
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے بلکہ اگر شہید حکیم محمد سعید کی بات یاد کی جائے تو وہ کہتے تھے کہ سورۃ رحمٰن میں اﷲ تعالیٰ نے جتنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے پاکستان میں اس سے کچھ زیادہ ہی موجود ہیں بات صرف نیت کی ہے کہ ہم ان نعمتوں سے کیسے اپنے آپ کو سرفراز کرتے ہیں۔
پاکستان کو جان بوجھ کر پسماندہ بنایا گیا ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے ایک بہت ہی اہم وجہ مالیاتی پالیسیوں کی مسلسل تبدیلی بلکہ توڑ پھوڑ کی ہے۔ ہمارے ہاں جس قدر تیزی سے حکومتیں بدلتی ہیں اتنی ہی تیزی کے ساتھ مالیاتی پالیسیاں بھی تبدیلی کا سفر طے کر جاتی ہیں، ہر آنے والی نئی حکومت اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے اور سابقہ جو پالیسیاں چل رہی ہوتی ہیں چاہے وہ عوام کے لیے کتنی ہی مفید کیوں نہ ہوں ان کو فی الفور تبدیل کر دیا جاتا ہے اور ہوتا یہ ہے کہ ابھی ایک پالیسی اپنے اثرات دکھانا شروع کرتی ہے کہ اس کے متبادل دوسری پالیسی نافذ ہو جاتی ہے اور اس کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے، اس طرح قومی زندگی کا ایک اہم ترین شعبہ ناکامی کی ایک مثال بن جاتا ہے ہر نئی آنے والی حکومت اس کا ذمے دار اپنی پیشرو حکومت کو ٹھہراتی ہے۔
ہمارے ہر دل عزیز وزیر خزانہ جو کہ اپنے آپ کو عالمی معیشت دان سمجھتے ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے اس حکومت کے اہم مالیاتی امور کو چلا رہے ہیں انھوں نے ایسی عوام دشمن پالیسیاں نافذ کی ہیں جو کہ کوئی معیشت دان نہیں بلکہ ایک معمولی اکاؤنٹنٹ بھی کر سکتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ ملک میں پراپرٹی کے شعبہ میں بے بہا سرمایہ کاری مسلسل جاری تھی اور عوام اپنا پیسا اس میں لگا کر ملکی معیشت کو سہارا دے رہے تھے بلکہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے تھے تو یہی ایک ایسا شعبہ تھا جس میں وہ سرمایہ کاری کو محفوظ اور منافع بخش تصور کرتے تھے لیکن پھر راتوں رات حکومت کی عقلمند مالیاتی ٹیم نے ایسے ٹیکس ایجاد کر لیے جو کہ اس اہم شعبہ میں سرمایہ کاری کے دشمن ہیں، مجھے یاد پڑتا ہے اس کے خلاف بہت احتجاج بھی ہوا لیکن حکومت اپنی آمدن میں اضافے پر ڈٹی رہی جس کا اثر یہ ہوا کہ اگر روزانہ کی بنیاد پر حکومت کے خزانے میں کروڑوں روپے ٹیکس کی مد میں جمع ہو رہے تھے تو وہ گھٹ کر لاکھوں تک آ چکے ہیں۔
مجھے پچھلے دنوں ہی اس کا ذاتی تجربہ بھی ہوا تو پتا چلا کہ صرف لاہور کے ایک پوش علاقے میں پراپرٹی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے روزانہ دوسو سے زائد جائیدادوں کا لین دین ہو رہا تھا جس سے حکومتی خزانے میں کروڑوں روپے جمع کرائے جا رہے تھے، اب یہی شرح کم ہو کر تیس سے چالیس کے درمیان رہ گئی ہے اس ایک چھوٹی سی مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کے مالیاتی مشیر کس قدر دانا ہیں اور حکومتی خزانے کو کیسی تجربہ کاری سے خالی کر رہے ہیں، یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے حکومت کے خزانے پر زد پڑ رہی ہے اور بیرون ملک آباد پاکستانی بھی اپنے وطن میں سرمایہ کاری سے گھبرا رہے ہیں اور سننے میں یہ آیا ہے کہ موجودہ حکومت کے دوران بیرونی قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے تھے جتنے پچھلے چار سال میں لیے جا چکے ہیں۔
پہلے ہم سنتے تھے کہ حکومت پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن اب اس طرح کی باتیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اور قومی خزانے کو جدید معاشی پالیسیوں کے نام پر لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ دنیا کی یہ جدید پالیسیاں ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ناقابلِ عمل ہیں لیکن پھر بھی ہم دوسروں کا منہ لال دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے ہی لال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم پر بیرونی قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس چکر میں ہم اپنی آزادی اور خود مختاری تک کو داؤ پر لگا چکے ہیں۔یہ قرضے ہی ہیں جن کی وجہ سے ہمیں بڑی طاقتوں کا ہر مطالبہ تسلیم کرنا پڑتا ہے ہمیں دھمکیاں بھی ملتی ہیں اور بے عزتی بھی ہوتی ہے ۔
موجودہ حکومت نے اپنے ایک پہلے دور اقتدار میں ایک اسکیم متعارف کرائی تھی جس کا نام تھا 'قرض اتارو ملک سنوارو' مجھے بھی میاں نواز شر یف کا یہ نعرہ نہایت اچھا لگا اور پاکستانی عوام کی طرح میں نے بھی اعلان کر دیا کہ میں اپنی پرانی مرسیڈیز بھی اس اسکیم میں دے رہا ہوں جب اس کے متعلق میراکالم چھپا تو جہاں پر لوگوں نے میرے اس اعلان کو پذیرائی بخشی وہیں پر کچھ نے مجھے اس سے باز رہنے کا مشورہ بھی دیا کہ کیوں آپ اپنی سواری سے ہاتھ دھونا چاہتے ہیں، اس طرح کی باتیں تو حکمران عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کرتے ہی رہتے ہیں اور میں جو کہ کئی عشروں سے ان حکمرانوں کی قومی خزانے سے عیاشیاں دیکھتا آرہا تھا اپنے اس جذباتی پن سے باز آگیا اور اپنی پرانی مرسیڈیز بچا لی وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اس اسکیم کی مد میں اس ملک کے غریب عوام کو ملک کے قرض اتارنے کے نام پر اکٹھی کی گئی رقم آج تک غائب ہے اور اس کا کوئی حساب کتاب ہی موجود نہیں۔
موجودہ حکومت بھی اپنی مرضی کی پالیسیاں چلا رہی ہے اگرچہ اس وقت تک عوام کو ان سے مشکلات کے سوا کچھ نہیں ملا ، ہمیں بار بار یہ کہا جارہا ہے کہ ذرا صبر کریں اس صبر کا پھل بہت میٹھا ہو گا لیکن ہم عوام گزشتہ حکومتوں کے صبر کی نصیحتوں سے مایوس اور ڈرے ہوئے ہیں ۔
عوام ہوں یا خواص سب کو معلوم ہے کہ ملک کی معاشی حالت کیسی ہے جب بھی حکومت کو ضرورت ہوتی ہے عوام پر کسی نہ کسی مد میں ٹیکس لگا دیا جاتا ہے بلکہ ٹیکس کے اوپر ٹیکس لگانے کا انوکھا رواج بھی ہم نے ہی نکالا ہے۔ کبھی کوئی بل بڑھ جاتا ہے اور اب تو سنا ہے کہ حکومت نے بجلی کے بلوں میں 2015 سے اضافے کی منصوبہ بندی کر لی ہے جو کہ صارفین سے مرحلہ وار وصول کیے جائیں گے یعنی وہ بل بھی ہم ادا کریں گے جو بجلی ہم نے استعمال ہی نہیں کی، بجلی کی دستیابی کا یہ عالم ہے کہ حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود جب بھی گرمی زور پکڑتی ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی زور پکڑ جاتی ہے۔
ہمیں کوئی ایسی خوشخبری سننے کو نہیں ملی کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کر دی ہو سرکار دربار کے وہی سج دھج جاری ہیں جو اس ملک کی توفیق اور استطاعت سے باہر ہیں ۔ ہمارے حکومتی مالیات کے ماہرین جتنے بھی فلسفے بیان کرتے رہیں ان کے پاس اس لوٹ کھسوٹ کا کوئی علاج بھی نہیں اور کوئی جواز بھی ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمیں پسماندگی ورثے میں نہیں ملی بلکہ ہمیں خوشحالی کا سفر طے کرنے ہی نہیں دیا گیا کہ ہم ایک خوشحال زندگی گزار سکتے ۔حکمرانوں سے درخواست ہے کہ اگر امیری نہیں تو ہر ایک میں غریبی ہی بانٹ دو کسی مزدور کا پسینہ خشک نہ کرو اس کے آنسو خشک کرو، یہی ایک اچھی حکومت اور حکمران کی نشانی ہے۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے بلکہ اگر شہید حکیم محمد سعید کی بات یاد کی جائے تو وہ کہتے تھے کہ سورۃ رحمٰن میں اﷲ تعالیٰ نے جتنی نعمتوں کا ذکر کیا ہے پاکستان میں اس سے کچھ زیادہ ہی موجود ہیں بات صرف نیت کی ہے کہ ہم ان نعمتوں سے کیسے اپنے آپ کو سرفراز کرتے ہیں۔
پاکستان کو جان بوجھ کر پسماندہ بنایا گیا ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے ایک بہت ہی اہم وجہ مالیاتی پالیسیوں کی مسلسل تبدیلی بلکہ توڑ پھوڑ کی ہے۔ ہمارے ہاں جس قدر تیزی سے حکومتیں بدلتی ہیں اتنی ہی تیزی کے ساتھ مالیاتی پالیسیاں بھی تبدیلی کا سفر طے کر جاتی ہیں، ہر آنے والی نئی حکومت اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے اور سابقہ جو پالیسیاں چل رہی ہوتی ہیں چاہے وہ عوام کے لیے کتنی ہی مفید کیوں نہ ہوں ان کو فی الفور تبدیل کر دیا جاتا ہے اور ہوتا یہ ہے کہ ابھی ایک پالیسی اپنے اثرات دکھانا شروع کرتی ہے کہ اس کے متبادل دوسری پالیسی نافذ ہو جاتی ہے اور اس کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے، اس طرح قومی زندگی کا ایک اہم ترین شعبہ ناکامی کی ایک مثال بن جاتا ہے ہر نئی آنے والی حکومت اس کا ذمے دار اپنی پیشرو حکومت کو ٹھہراتی ہے۔
ہمارے ہر دل عزیز وزیر خزانہ جو کہ اپنے آپ کو عالمی معیشت دان سمجھتے ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے اس حکومت کے اہم مالیاتی امور کو چلا رہے ہیں انھوں نے ایسی عوام دشمن پالیسیاں نافذ کی ہیں جو کہ کوئی معیشت دان نہیں بلکہ ایک معمولی اکاؤنٹنٹ بھی کر سکتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ ملک میں پراپرٹی کے شعبہ میں بے بہا سرمایہ کاری مسلسل جاری تھی اور عوام اپنا پیسا اس میں لگا کر ملکی معیشت کو سہارا دے رہے تھے بلکہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے تھے تو یہی ایک ایسا شعبہ تھا جس میں وہ سرمایہ کاری کو محفوظ اور منافع بخش تصور کرتے تھے لیکن پھر راتوں رات حکومت کی عقلمند مالیاتی ٹیم نے ایسے ٹیکس ایجاد کر لیے جو کہ اس اہم شعبہ میں سرمایہ کاری کے دشمن ہیں، مجھے یاد پڑتا ہے اس کے خلاف بہت احتجاج بھی ہوا لیکن حکومت اپنی آمدن میں اضافے پر ڈٹی رہی جس کا اثر یہ ہوا کہ اگر روزانہ کی بنیاد پر حکومت کے خزانے میں کروڑوں روپے ٹیکس کی مد میں جمع ہو رہے تھے تو وہ گھٹ کر لاکھوں تک آ چکے ہیں۔
مجھے پچھلے دنوں ہی اس کا ذاتی تجربہ بھی ہوا تو پتا چلا کہ صرف لاہور کے ایک پوش علاقے میں پراپرٹی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے روزانہ دوسو سے زائد جائیدادوں کا لین دین ہو رہا تھا جس سے حکومتی خزانے میں کروڑوں روپے جمع کرائے جا رہے تھے، اب یہی شرح کم ہو کر تیس سے چالیس کے درمیان رہ گئی ہے اس ایک چھوٹی سی مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کے مالیاتی مشیر کس قدر دانا ہیں اور حکومتی خزانے کو کیسی تجربہ کاری سے خالی کر رہے ہیں، یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے حکومت کے خزانے پر زد پڑ رہی ہے اور بیرون ملک آباد پاکستانی بھی اپنے وطن میں سرمایہ کاری سے گھبرا رہے ہیں اور سننے میں یہ آیا ہے کہ موجودہ حکومت کے دوران بیرونی قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنے قرضے نہیں لیے گئے تھے جتنے پچھلے چار سال میں لیے جا چکے ہیں۔
پہلے ہم سنتے تھے کہ حکومت پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن اب اس طرح کی باتیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اور قومی خزانے کو جدید معاشی پالیسیوں کے نام پر لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ دنیا کی یہ جدید پالیسیاں ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ناقابلِ عمل ہیں لیکن پھر بھی ہم دوسروں کا منہ لال دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے ہی لال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم پر بیرونی قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس چکر میں ہم اپنی آزادی اور خود مختاری تک کو داؤ پر لگا چکے ہیں۔یہ قرضے ہی ہیں جن کی وجہ سے ہمیں بڑی طاقتوں کا ہر مطالبہ تسلیم کرنا پڑتا ہے ہمیں دھمکیاں بھی ملتی ہیں اور بے عزتی بھی ہوتی ہے ۔
موجودہ حکومت نے اپنے ایک پہلے دور اقتدار میں ایک اسکیم متعارف کرائی تھی جس کا نام تھا 'قرض اتارو ملک سنوارو' مجھے بھی میاں نواز شر یف کا یہ نعرہ نہایت اچھا لگا اور پاکستانی عوام کی طرح میں نے بھی اعلان کر دیا کہ میں اپنی پرانی مرسیڈیز بھی اس اسکیم میں دے رہا ہوں جب اس کے متعلق میراکالم چھپا تو جہاں پر لوگوں نے میرے اس اعلان کو پذیرائی بخشی وہیں پر کچھ نے مجھے اس سے باز رہنے کا مشورہ بھی دیا کہ کیوں آپ اپنی سواری سے ہاتھ دھونا چاہتے ہیں، اس طرح کی باتیں تو حکمران عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کرتے ہی رہتے ہیں اور میں جو کہ کئی عشروں سے ان حکمرانوں کی قومی خزانے سے عیاشیاں دیکھتا آرہا تھا اپنے اس جذباتی پن سے باز آگیا اور اپنی پرانی مرسیڈیز بچا لی وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ اس اسکیم کی مد میں اس ملک کے غریب عوام کو ملک کے قرض اتارنے کے نام پر اکٹھی کی گئی رقم آج تک غائب ہے اور اس کا کوئی حساب کتاب ہی موجود نہیں۔
موجودہ حکومت بھی اپنی مرضی کی پالیسیاں چلا رہی ہے اگرچہ اس وقت تک عوام کو ان سے مشکلات کے سوا کچھ نہیں ملا ، ہمیں بار بار یہ کہا جارہا ہے کہ ذرا صبر کریں اس صبر کا پھل بہت میٹھا ہو گا لیکن ہم عوام گزشتہ حکومتوں کے صبر کی نصیحتوں سے مایوس اور ڈرے ہوئے ہیں ۔
عوام ہوں یا خواص سب کو معلوم ہے کہ ملک کی معاشی حالت کیسی ہے جب بھی حکومت کو ضرورت ہوتی ہے عوام پر کسی نہ کسی مد میں ٹیکس لگا دیا جاتا ہے بلکہ ٹیکس کے اوپر ٹیکس لگانے کا انوکھا رواج بھی ہم نے ہی نکالا ہے۔ کبھی کوئی بل بڑھ جاتا ہے اور اب تو سنا ہے کہ حکومت نے بجلی کے بلوں میں 2015 سے اضافے کی منصوبہ بندی کر لی ہے جو کہ صارفین سے مرحلہ وار وصول کیے جائیں گے یعنی وہ بل بھی ہم ادا کریں گے جو بجلی ہم نے استعمال ہی نہیں کی، بجلی کی دستیابی کا یہ عالم ہے کہ حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود جب بھی گرمی زور پکڑتی ہے بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی زور پکڑ جاتی ہے۔
ہمیں کوئی ایسی خوشخبری سننے کو نہیں ملی کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کر دی ہو سرکار دربار کے وہی سج دھج جاری ہیں جو اس ملک کی توفیق اور استطاعت سے باہر ہیں ۔ ہمارے حکومتی مالیات کے ماہرین جتنے بھی فلسفے بیان کرتے رہیں ان کے پاس اس لوٹ کھسوٹ کا کوئی علاج بھی نہیں اور کوئی جواز بھی ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہمیں پسماندگی ورثے میں نہیں ملی بلکہ ہمیں خوشحالی کا سفر طے کرنے ہی نہیں دیا گیا کہ ہم ایک خوشحال زندگی گزار سکتے ۔حکمرانوں سے درخواست ہے کہ اگر امیری نہیں تو ہر ایک میں غریبی ہی بانٹ دو کسی مزدور کا پسینہ خشک نہ کرو اس کے آنسو خشک کرو، یہی ایک اچھی حکومت اور حکمران کی نشانی ہے۔