حلقہ NA120 کے ناتواں کاندھے

دھاندلی کے الزامات عائد کرنے سے بہتر ہے کہ اجتماعی شعور پر بات کی جائے اور عوامی سیاسی نفسیات سمجھنے کی کوشش کی جائے

حلقہ این اے 120 کے عوام نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے پیش کئے گئے سوالنامے کا جواب حکومتی جماعت اور نااہل شدہ وزیرِاعظم پر اعتماد کی صورت میں حکومت مخالف جماعت کے مؤقف کو رد کرتے ہوئے دیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

حلقہ NA-120 کا ضمنی انتخاب خیر و عافیت سے پایہ تکمیل تک پہنچا۔ کلثوم نواز صاحبہ کامیاب ہوئیں اور ڈاکٹر یاسمین کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ضمنی انتخاب میں رائے دہندگان کی جانب سے حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے بعد بھی ان کی روزمرہ زندگی میں کوئی جادوئی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آئی۔ اہلِ علاقہ انتخاب کے اگلے دن سو کر اٹھے تو ٹوٹی ہوئی گلیاں تراشیدہ یاقوتی پتھروں سے سج نہیں گئیں تھیں، گندے پانی سے ابلتے گٹر زعفران کے تھالوں میں تبدیل بھی نہیں ہوئے، نلکوں سے زہر آلود پانی کی جگہ زم زم نہیں بہنے لگا، نہ ہی کامیاب امیدوار اور ان کی انتخابی مہم چلانے والی بیٹی عوام کو اپنے در پر ہاتھ باندھے خدمت میں کھڑی دکھائی دیں۔

پاکستان میں اقتدار کی کشمکش ایک ایسی مثلث ہے جو اپنی بناوٹ میں سادہ لیکن عملی اظہار میں انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس تکون کا ایک کردار غیر جمہوری قوتیں یا عرفِ عام میں اسٹیبلشمنٹ ہے، دوسرا کردار اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا ہے جبکہ تیسرا کردار عوام ہے۔ اقتدار غیر جمہوری قوتوں کے نمائندگان کے پاس رہے یا ان قوتوں کے مخالفین کے ہاتھ، دونوں کو اقتدار کے دوام کی خاطر اپنی قوت بہرحال عوام سے اخذ کرنے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ پاکستانی عوام کیونکہ اپنا ایک بدلتا رہتا سرد گرم مزاج رکھتی ہے لہذا اس کے مزاج کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے باقی دو کردار اقتدار کی رسہ کشی کے دوران کبھی عوامی زور کو مذہب کی بنیاد پر حاصل کرتے ہیں، کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی احتساب، کبھی وسیع تر قومی مفادات، کبھی نظریاتی معاملات، کبھی قومی سلامتی اور کبھی سب سے پہلے پاکستان کے نعرے پر۔

حلقہ این اے 120 کا ضمنی انتخاب بھی اس سادہ سی تکون کی عملی پیچیدگیوں کا اظہار ہے۔ بنیادی سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ حلقے کی عوام نے کارکردگی کی بنیاد پر حکومتی جماعت کے نمائندے کے خلاف ووٹ دے کر اسے رد کیوں نہیں کیا؟ اس بنیادی سوال کے مقابلے میں بطور جواب زیادہ سیدھا سوال کیا جا سکتا ہے کہ حکومت مخالف جماعت نے حکومتی جماعت کی حلقے میں ناقص کارکردگی کو انتخابی مہم کی بنیاد بناکر عوام سے ووٹ کیوں نہیں مانگا؟ ضمنی انتخاب کو حلقے کے حقیقی عوامی مسائل سے ہٹا کر حق بمقابلہ باطل، سچ بمقابلہ جھوٹ، کرپٹ بمقابلہ ایماندار، نااہل بمقابلہ اہل، شخصیت بمقابلہ ادارہ، بدعنوان وزیرِ اعظم بمقابلہ عدالتِ عظمی کا تھیٹر کس نے اور کیوں لگایا؟ کم از کم یہ کام حلقے کی جاہل اور گدھا خور عوام نے تو ہر گز نہیں کیا! اگر حکومتی جماعت اپنے سیاسی گڑھ میں اپنے رہنما کی نااہلی کے محرکات کا مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کر بھی رہی تھی تو یہ ان کی سیاسی مجبوری بن چکی تھی کہ انہیں اپنے ووٹر کو جماعت سے متنفر ہونے سے روکنا اور ہر صورت انتخاب جیت کر اپنی مقبولیت اور ساکھ کو مخالفین پر ثابت کرنا تھا۔

لیکن حکومت مخالف جماعت کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ اسے اپنی انتخابی مہم کو حکومتی پچ پر آکر کھیلنے کا فیصلہ کرنا پڑا؟


انقلابی میڈیا اور حکومت مخالف جماعت نے قومی سطح پر جس قدر ہیجان انگیز ماحول پیدا کرکے ایک سیاسی اہمیت کے حامل ضمنی انتخاب کو پاکستانی قوم اور اداروں کی زندگی و موت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا اور جس انداز میں حلقہ این اے 120 کے عوام کو دن رات صبح و شام سوتے جاگتے ایک عدد عظیم ترین مقابلے کا منصف ٹھہرایا، اس کے بعد عوام سے کسی طور کارکردگی کی بنیاد پر حقِ رائے دہی استعمال نہ کرنے کا شکوہ کرنے والے شاید خود کھوتے گدھے کھا کر سوچنے کے عادی ہیں۔ جس انتہائی معرکے کو پروان چڑھا کر عوام کی نفسیات پر سوار کرا کر انتخاب لڑا گیا کیا، ایسی صورتحال میں شاید ہی کوئی فرد حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اپنی ٹوٹی گلی اور اْبلتے گٹر کے بارے میں سوچنے کے قابل بھی رہا ہو گا جبکہ اسے اپنے ناتواں کاندھوں پر عظیم تر قومی مقدمے کی منصفی کا بوجھ بھی محسوس ہوتا ہو!

ضمنی انتخاب کے نتائج کا تجزیہ انتخابی مرحلے کے دوران حلقے میں پیدا کردہ حالات اور واقعات کے پس منظر میں کیا جانا ضروری ہے تاکہ حلقے کے عوام بارے کوئی بھی رائے قائم کرتے ہوئے زیادتی کا ارتکاب نہ ہو۔ حلقہ این اے 120 کے عوام نے سیاسی جماعتوں کی جانب سے پیش کئے گئے سوالنامے کا جواب حکومتی جماعت اور نااہل شدہ وزیرِاعظم پر اعتماد کی صورت میں حکومت مخالف جماعت کے مؤقف کو رد کرتے ہوئے دیا ہے۔ ضمنی انتخاب میں شکست کے بعد وطنِ عزیز کے انتہائی پڑھے لکھے، باشعور، عقلِ کل اور شدید انقلاب سے بھرپور اصل و حقیقی پاکستانی اذہان کی جانب سے حلقہ این اے 120 کے رائے دہندگان کے اجتماعی شعور پر سوال اٹھانا ماضی کے برعکس دھاندلی کے الزامات عائد کرکے شور و غل مچانے سے بہت بہتر بحث ہے کہ کم از کم اجتماعی شعور پر بات کرنے اور عوامی سیاسی نفسیات سمجھنے کا موقع میسر آئے گا۔

اگلا قدم یہ ہے کہ اجتماعی شعور کو ہر شکست کے بعد للکارنے، کوسنے اور قیمے والے نان کے طعنے دینے سے کہیں اچھا ہو اگر رائے دہندگان کے سامنے درست موقع پر درست سوالنامہ پیش کیا جائے تاکہ درست جواب ملنے کی امید بھی زیادہ بندھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story