ترقی پسند رہنما فتحیاب علی خان
ملک کی تمام حزب اختلاف کی جماعتوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا
اگر کسی سماج میں کسی قوم کی تقدیر بدلنے والے ہوتے ہیں تو وہ ہوتے ہیں اس قوم کے حقیقی لیڈر۔ اور حقیقی لیڈر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے تمام تر ذاتی مفادات کو پس پش ڈالتے ہوئے اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرے۔ ٹھیک ہے کہ حقیقی لیڈر اپنی قوم کے ہر ایک خاندان کے لیے محلات تعمیر نہیں کرسکتا مگر حقیقی لیڈر خود بھی کسی محل میں فروکش ہونا پسند نہیں کرتا، مگر یہ سب ہوتا ہے حقیقی جمہوری نظام میں۔ اب یہ بات دیگر ہے کہ کسی بھی قوم کا بالادست طبقہ سیاست کو تجارت سمجھتے ہوئے سیاست میں قدم رکھ دے اور تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے حکومتی ایوانوں میں داخل ہوجائے اور من مانی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہوکر فقط بالادست طبقے کے لیے کام کرے، یعنی بالادست طبقے کے مفاد کے لیے تو ایسا شخص حکمران تو ہوتا ہے، خود ساختہ سیاست دان بھی ہوسکتا ہے مگر حقیقی لیڈر نہیں۔ کیونکہ حقیقی لیڈر کا راج قوم کے دلوں پر ہوتا ہے سروں پر نہیں۔ مگر عصر حاضر میں سروں کے حکمران تو ہیں البتہ دلوں پر حکمران نایاب ہیں۔ بہرکیف آج کی نشست میں ہم ایک ایسے سیاسی لیڈر کا تذکرہ کریںگے جوکہ سروں کے حکمران تو نہ تھے البتہ تمام حقیقی جمہوریت پسندوں کے دلوں کے حکمران ضرور تھے، وہ تھے فتحیاب علی خان۔ جنھوں نے نوابوں کے شہر حیدرآباد دکن میں 1936 کو ایک آسودہ حال خاندان میں جنم لیا۔
فتحیاب علی خان نے پوری طرح شعور کی دنیا میں قدم بھی نہ رکھا تھا کہ انھیں اپنے خاندان کے ساتھ فقط 11 برس کی عمر میں ہجرت کرکے حیدرآباد دکن سے شکارپور میں قیام پذیر ہونا پڑا۔ ان کی یہ ہجرت قیام پاکستان کے سلسلے میں تھی جوکہ 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ گو ان کا تعلیمی سلسلہ حیدرآباد دکن ہی میں شروع ہوچکا تھا مگر گمان کیا جاسکتا ہے کہ ابتدائی تعلیم فتحیاب علی خان نے شکارپور میں حاصل کی۔
البتہ مزید حصول تعلیم کے لیے وہ کراچی تشریف لے آئے اور اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور وہیں سے طلبا سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اور جلد ہی ایک طالب علم رہنما کے طور پر اپنی شناخت قائم کرلی۔ یہ ذکر ہے 1958 کا۔ بعد ازاں وہ انٹر کالجز کے صدر منتخب ہوئے۔ یہی سال تھا جب کہ ملک کے طول و عرض پر ایوبی آمریت مسلط ہوئی، جوکہ قریب قریب دس برس پانچ ماہ تک مسلط رہی۔ کالج کی تعلیم کے بعد فتحیاب علی خان نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور جلد ہی یونیورسٹی کے طلبا میں اس قدر مقبول ہوئے کہ اسٹوڈنٹ یونین آف کراچی کے چیئرمین منتخب کرلیے گئے۔ البتہ 1961 میں فقط 25 برس کی عمر میں ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیے گئے اور بہاولپور جیل منتقل کردیے گئے، جہاں سے اگلے برس یعنی 1962 کو رہائی نصیب ہوئی۔
1964 میں 28 برس کی عمر میں فتحیاب علی خان نے وکالت کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ جب کہ اسی برس ملک میں صدارتی انتخاب ہوا جوکہ آمر ایوب خان و محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان مقابلہ تھا۔ ملک کی تمام حزب اختلاف کی جماعتوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ اس صدارتی انتخاب میں فقط BD ممبران کو ووٹ ڈالنے کا حق تھا۔ قابل افسوس امر یہ تھا کہ انتخابی مہم میں جو زبان آمر ایوب خان و حکومتی حلقوں کی جانب سے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف استعمال کی گئی وہ ناقابل بیان ہے۔
اس انتخاب میں آمر ایوب خان کو جیتا ہوا قرار دیا گیا۔ یوں بھی اس قسم کے انتخابات میں حکومتی حلقے کبھی ہارے ہوئے قرار نہیں پاتے۔ خیال رہے کہ BD ممبران کی تعداد جنھوں نے اپنا ووٹ استعمال کیا 80 ہزار تھی۔ اس صدارتی انتخاب میں فتحیاب علی خان نے دل و جان سے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ وہ صدارتی انتخاب 5 جنوری 1965 کو ہوا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دینے کی پاداش میں انھیں ایوبی آمریت کا عتاب بھی برداشت کرنا پڑا مگر فتحیاب علی خان ایوبی آمریت کی طاقت و دولت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے اور اپنے اسی موقف پر وہ دم آخر قائم رہے۔
فتحیاب علی خان سیاسی طور پر پاکستان مزدور پارٹی سے وابستہ رہے اور اس پارٹی کے سربراہ بھی رہے۔ البتہ 5 جولائی 1977 سے جب کہ ملک میں ضیا الحق نے آمریت نافذ کی، وہ ضیا آمریت کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتے رہے اور گرفتار ہوتے رہے۔ ایک بار فتحیاب علی خان کو 4 اپریل 1981 کو نوڈیرو لاڑکانہ سے گرفتار کیا گیا، جب کہ 1983 میں جب ضیا آمریت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت چلی تو فتحیاب علی خان نے اس تحریک میں پوری جانفشانی سے حصہ لیا اور 18 اگست 1983 کو ایمپریس مارکیٹ کے مقام پر گرفتاری پیش کی۔ ضیا آمریت کے دور میں جب کہ ان پر سندھ کے علاوہ تمام صوبوں میں داخلے پر پابندی عائد تھی انھوں نے صوبہ سرحد میں 1977 سے 1987 تک 12 بار داخلے کی کوشش کی، مگر ہر بار انھیں داخلے سے روک دیا گیا۔ ضیا الحق کے دور میں فتحیاب علی خان کو کوڑوں کی سزا بھی دی گئی، مزید یہ کہ ان پر بھی مقدمات قائم کرکے سزائیں دی گئیں، مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔
فتحیاب علی خان تمام عمر اپنے ترقی پسند نظریات پر قائم رہے۔ انھوں نے تمام عمر مظلوم طبقات و مزدوروں، کسانوں پر ہونے والے جبر و استبداد کے خلاف اپنی آواز بلند رکھی۔ انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے بھی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھی کوششیں کی مگر انھیں بروقت پاسپورٹ جاری نہ کیا گیا اور بلاوجہ انھیں پاسپورٹ جاری کرنے میں تاخیر کی گئی، جس کے باعث وہ کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہ کرپائے۔ ایک نظریاتی سیاست دان، ماہر قانون، دانشور اور انسان دوست شخصیت فتحیاب علی خان نے 26 ستمبر 2010 کو دنیا سے کوچ کیا۔ 26 ستمبر 2017 کو ان کی ساتویں برسی تھی، البتہ احترام محرم کے باعث ان کی برسی کی تقریبات 10 اکتوبر 2017 کراچی میں منائی جائیںگی۔ اس روز ان کے تمام قریبی احباب و مزدور کسان پارٹی کے رہنما و کارکنان لیاری کے قبرستان میں ان کی قبر پر حاضری دیںگے اور کراچی کے مقامی ہال میں ان کی برسی کی تقریبات منعقد کرکے انھیں خراج عقیدت پیش کریںگے۔ ہماری جانب سے فتحیاب علی خان کو ان کی ساتویں برسی کے موقع پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، اس عزم کے ساتھ کہ سامراجی قوتوں کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔