کراچی میں ہلاکتیں بڑھنا تشویشناک نہیں آئی جی سندھ سپریم کورٹ میں موقف
16اکتوبر2011سے8 فروری2013 تک شہر میں 25ہڑتالیں ہوئیں، لیاری کے ٹارچر سیل کی ویڈیومیں ملزمان کی شناخت نہیں ہوسکتی
انسپکٹر جنرل آف سندھ نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ کراچی میں2011 میں 2042 جبکہ 2012 میں 2375 افراد قتل ہوئے ،333قتل کا اضافہ کراچی جیسے وسیع شہر کیلیے تشویشناک اضافہ نہیں۔
پولیس نے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث 224سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا مگر تمام سیاسی جماعتوں نے ان سے لاتعلقی کااظہار کردیاہے۔ جھنگ، اوکاڑہ اور گجرات میں ایک لاکھ نفوس پر ہلاکتوں کا تناسب کراچی سے زیادہ ہے۔ کراچی میں ایک لاکھ نفوس پرقتل کا تناسب 10.4ہے جبکہ اوکاڑہ،جھنگ اور گجرات جیسے شہروں میں یہ تناسب کہیں زیادہ ہے۔ ایک سال میں 133ٹارگٹ کلر اور 221 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا گیا،غفلت برتنے والے 11ہزار591پولیس افسران واہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی جبکہ 1942کوسخت سزائیں دی گئیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کالارجر بینچ جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں پیر25 فروری سے کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع کرے گا۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت، محکمہ داخلہ سندھ،محکمہ ریونیو اور آئی جی سندھ سمیت دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہیں۔محکمہ داخلہ نے 1994سے اب تک کراچی میں امن و امان سے متعلق24 عدالتی تحقیقات کی رپورٹ پیش کردی جن میں مرتضیٰ بھٹو قتل کیس اور مولانا یوسف لدھیانوی قتل کیس بھی شامل ہیں۔ وفاق کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یکم نومبر2011سے31جنوری2013 تک غیرقانونی طور پر مقیم 943غیرملکیوں کوبے دخل کیا گیا۔ ان میں 696 بھارتی، 210افغان،25بنگالی،3 زیمبین،2نیپالی،ایک ایرانی،ایک نائجیرین ، ایک جنوبی افریقی اورایک روسی،ایک ولندیزی، ایک تنزانین،ایک یمنی شہری شامل ہیں۔
آئی جی سندھ فیاض لغاری کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کو بتایا گیا کہ لیاری کے ٹارچر سیل کی ویڈیومیں ملزمان نے نقاب پہنے ہوئے ہیں، اسلیے ان کے چہرے شناخت کے قابل نہیں اور ویڈیوسے مقام کا تعین بھی کرنا مشکل ہے ۔ پولیس اور رینجرز نے مختلف کارروائیوں میں نارتھ ناظم آباد ، چاکیواڑہ اور بغدادی کے علاقوں میں ٹارچر سیل برآمد کیے اور ملزمان کو گرفتار بھی کیا ہے۔عدالت کو بتایاگیا کہ 16 اکتوبر 2011سے8فروری2013تک 25ہڑتالیں ہوئیں۔ان ہڑتالوں کے دوران ہونے والے پرتشدد واقعات کے 61 مقدمات درج کیے گئے،135ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ مختلف واقعات میں 8 بینک،4سنیما،4فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس اور 9 دکانیںنذرآتش کردی گئیں۔
آئی جی سندھ کے مطابق کراچی میں سال 2009 میں 1201، 2010 میں 1727، سال 2011میں 2042اورسال2012میں 2375 افراد قتل ہوئے۔سال2011کے مقابلے میں 2012میں 333قتل کا اضافہ ہواجو تشویشناک اضافہ نہیں۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ کراچی میں 2002میں آئی ڈی پیز کی آمد میں اضافہ ہوا جبکہ حالیہ سیلاب اور سوات آپریشن کے بعد بڑی تعداد میںدیگر شہروں سے آئی ڈی پیز کراچی منتقل ہوئے۔ اس دوران کراچی کی آبادی میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا مگر پولیس میں 2002سے2008 تک بھرتیوں پر پابندی عائد رہی ۔ 7 سال تک سندھ پولیس میں بھرتیاں نہیں ہوسکیں۔2008میں پابندی ختم ہونے پر5796اہلکاروں کی بھرتیوں کا آغاز ہوا جبکہ سال2012-13کے سالانہ بجٹ میں 7500پولیس اہلکاروں اور 350اے ایس آئیز کی بھرتیوں کیلیے بھی رقم مختص کر دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی اسلحے کی روک تھام کیلیے قانون سازی ہوگئی ہے اور اس ضمن میں سندھ آرمزایکٹ2013منظورکیا گیا ہے جس میں غیرقانونی اسلحہ رکھنے والوں کی سزامیں 14سال تک اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اسلحہ لائسنس کے غیرقانونی اجرا اور استعمال پر بھی 10سال سزامقررکی گئی ہے۔آئی جی سندھ کی رپورٹ میں بتایاگیا کہ کراچی میں مفروراور اشتہاری ملزمان کی تعداد40 ہزار 484تھی،سال2012کے دوران 220اشتہاری اور2132 مفرورملزمان کو گرفتار کیاگیا ۔ اس وقت مفرورملزمان کی تعداد38793اوراشتہاری ملزمان کی تعداد 9414 ہے۔ 2012-13کے دوران133ٹارگٹ کلرز کو گرفتار اورٹارگٹ کلنگ کے 100مقدمات حل ہوئے،221بھتہ خوروں کوگرفتار کیا گیا اور بھتہ خوری کے 122مقدمات حل ہوئے جبکہ قتل کے دیگر واقعات میں ملوث 995ملزمان گرفتار اور717مقدمات حل ہوئے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ سندھ پولیس میں 551تفتیشی افسران ہیں جبکہ معمولی نوعیت کے مقدمات کیلیے 448اے ایس آئیز تفتیشی افسر مقررکیے گئے ہیں۔ سی آئی ڈی میں 110اورکرائم برانچ میں 29 تفتیشی افسران ہیں۔آئی جی سندھ نے بتایا ہے کہ پولیس میں سیاسی بھرتیوں کی روک تھام کیلیے سی آئی ڈی اور کرائم برانچ کے خصوصی سیل کام کررہے ہیں جبکہ 2008,2009 اور 2010 کے دوران پولیس میں ہونے والی بھرتیوں کے حوالے سے سندھ ہائیکورٹ میں متعدد درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کررہی ہے ۔
عدالت کو بتایا گیا کہ کراچی کے 20تھانوں کی ریونیوحدود میں تبدیلی کی گئی جن میں اکثر ضلع وسطی کے تھانے شامل ہیں۔محکمہ داخلہ کی جانب سے عدالت میں 1994سے اب تک ہونے والی 24عدالتی تحقیقات کی رپورٹ بھی جمع کرادی گئی ۔سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی تحقیقات کا ریکارڈ مرتب کرنے والی کمیٹی نے غفلت برتی ہے، اسلیے ان کے خلاف کارروائی کیلیے چیف سیکریٹری سے سفارش کی گئی ہے۔دریں اثناء کراچی میں غیر ملکیوں کی موجودگی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید رپورٹس متوقع ہے۔
پولیس نے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری جیسے جرائم میں ملوث 224سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا مگر تمام سیاسی جماعتوں نے ان سے لاتعلقی کااظہار کردیاہے۔ جھنگ، اوکاڑہ اور گجرات میں ایک لاکھ نفوس پر ہلاکتوں کا تناسب کراچی سے زیادہ ہے۔ کراچی میں ایک لاکھ نفوس پرقتل کا تناسب 10.4ہے جبکہ اوکاڑہ،جھنگ اور گجرات جیسے شہروں میں یہ تناسب کہیں زیادہ ہے۔ ایک سال میں 133ٹارگٹ کلر اور 221 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا گیا،غفلت برتنے والے 11ہزار591پولیس افسران واہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی جبکہ 1942کوسخت سزائیں دی گئیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کالارجر بینچ جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں پیر25 فروری سے کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع کرے گا۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت، محکمہ داخلہ سندھ،محکمہ ریونیو اور آئی جی سندھ سمیت دیگر اداروں نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہیں۔محکمہ داخلہ نے 1994سے اب تک کراچی میں امن و امان سے متعلق24 عدالتی تحقیقات کی رپورٹ پیش کردی جن میں مرتضیٰ بھٹو قتل کیس اور مولانا یوسف لدھیانوی قتل کیس بھی شامل ہیں۔ وفاق کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یکم نومبر2011سے31جنوری2013 تک غیرقانونی طور پر مقیم 943غیرملکیوں کوبے دخل کیا گیا۔ ان میں 696 بھارتی، 210افغان،25بنگالی،3 زیمبین،2نیپالی،ایک ایرانی،ایک نائجیرین ، ایک جنوبی افریقی اورایک روسی،ایک ولندیزی، ایک تنزانین،ایک یمنی شہری شامل ہیں۔
آئی جی سندھ فیاض لغاری کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کو بتایا گیا کہ لیاری کے ٹارچر سیل کی ویڈیومیں ملزمان نے نقاب پہنے ہوئے ہیں، اسلیے ان کے چہرے شناخت کے قابل نہیں اور ویڈیوسے مقام کا تعین بھی کرنا مشکل ہے ۔ پولیس اور رینجرز نے مختلف کارروائیوں میں نارتھ ناظم آباد ، چاکیواڑہ اور بغدادی کے علاقوں میں ٹارچر سیل برآمد کیے اور ملزمان کو گرفتار بھی کیا ہے۔عدالت کو بتایاگیا کہ 16 اکتوبر 2011سے8فروری2013تک 25ہڑتالیں ہوئیں۔ان ہڑتالوں کے دوران ہونے والے پرتشدد واقعات کے 61 مقدمات درج کیے گئے،135ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ مختلف واقعات میں 8 بینک،4سنیما،4فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس اور 9 دکانیںنذرآتش کردی گئیں۔
آئی جی سندھ کے مطابق کراچی میں سال 2009 میں 1201، 2010 میں 1727، سال 2011میں 2042اورسال2012میں 2375 افراد قتل ہوئے۔سال2011کے مقابلے میں 2012میں 333قتل کا اضافہ ہواجو تشویشناک اضافہ نہیں۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ کراچی میں 2002میں آئی ڈی پیز کی آمد میں اضافہ ہوا جبکہ حالیہ سیلاب اور سوات آپریشن کے بعد بڑی تعداد میںدیگر شہروں سے آئی ڈی پیز کراچی منتقل ہوئے۔ اس دوران کراچی کی آبادی میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا مگر پولیس میں 2002سے2008 تک بھرتیوں پر پابندی عائد رہی ۔ 7 سال تک سندھ پولیس میں بھرتیاں نہیں ہوسکیں۔2008میں پابندی ختم ہونے پر5796اہلکاروں کی بھرتیوں کا آغاز ہوا جبکہ سال2012-13کے سالانہ بجٹ میں 7500پولیس اہلکاروں اور 350اے ایس آئیز کی بھرتیوں کیلیے بھی رقم مختص کر دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی اسلحے کی روک تھام کیلیے قانون سازی ہوگئی ہے اور اس ضمن میں سندھ آرمزایکٹ2013منظورکیا گیا ہے جس میں غیرقانونی اسلحہ رکھنے والوں کی سزامیں 14سال تک اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اسلحہ لائسنس کے غیرقانونی اجرا اور استعمال پر بھی 10سال سزامقررکی گئی ہے۔آئی جی سندھ کی رپورٹ میں بتایاگیا کہ کراچی میں مفروراور اشتہاری ملزمان کی تعداد40 ہزار 484تھی،سال2012کے دوران 220اشتہاری اور2132 مفرورملزمان کو گرفتار کیاگیا ۔ اس وقت مفرورملزمان کی تعداد38793اوراشتہاری ملزمان کی تعداد 9414 ہے۔ 2012-13کے دوران133ٹارگٹ کلرز کو گرفتار اورٹارگٹ کلنگ کے 100مقدمات حل ہوئے،221بھتہ خوروں کوگرفتار کیا گیا اور بھتہ خوری کے 122مقدمات حل ہوئے جبکہ قتل کے دیگر واقعات میں ملوث 995ملزمان گرفتار اور717مقدمات حل ہوئے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ سندھ پولیس میں 551تفتیشی افسران ہیں جبکہ معمولی نوعیت کے مقدمات کیلیے 448اے ایس آئیز تفتیشی افسر مقررکیے گئے ہیں۔ سی آئی ڈی میں 110اورکرائم برانچ میں 29 تفتیشی افسران ہیں۔آئی جی سندھ نے بتایا ہے کہ پولیس میں سیاسی بھرتیوں کی روک تھام کیلیے سی آئی ڈی اور کرائم برانچ کے خصوصی سیل کام کررہے ہیں جبکہ 2008,2009 اور 2010 کے دوران پولیس میں ہونے والی بھرتیوں کے حوالے سے سندھ ہائیکورٹ میں متعدد درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کررہی ہے ۔
عدالت کو بتایا گیا کہ کراچی کے 20تھانوں کی ریونیوحدود میں تبدیلی کی گئی جن میں اکثر ضلع وسطی کے تھانے شامل ہیں۔محکمہ داخلہ کی جانب سے عدالت میں 1994سے اب تک ہونے والی 24عدالتی تحقیقات کی رپورٹ بھی جمع کرادی گئی ۔سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی تحقیقات کا ریکارڈ مرتب کرنے والی کمیٹی نے غفلت برتی ہے، اسلیے ان کے خلاف کارروائی کیلیے چیف سیکریٹری سے سفارش کی گئی ہے۔دریں اثناء کراچی میں غیر ملکیوں کی موجودگی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے مزید رپورٹس متوقع ہے۔