لابنگ فرمز کے آکٹوپس نے امریکا کو جکڑ لیا
کرپشن کی آلہ کار ایک خون آشام بلا کا حیرت انگیز قصہ جس کے بازو پورے امریکی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکے
کچھ عرصے سے یہ خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ امریکا کی ٹرمپ حکومت پاکستان کو ''ناپسندیدہ'' ملک قرار دے سکتی ہے۔ یا کم از کم پاکستان سے قریبی و دوستانہ تعلقات ختم کردیئے جائیں گے۔
ممکن ہے کہ ان خبروں کے پیچھے بھارتی حکومت کا ہاتھ ہو، مگر یہ بھی سچ ہے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ اس کی اہم وجہ امریکا اور بھارت میں ایسے قوم پرست لیڈروں کا اقتدار میں آجانا ہے جو پاکستان کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ ایک اور اہم وجہ یہ کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں امریکی فوج کا اثرورسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے جس کے باعث امریکا جنگجوئی کی طرف مائل ہے۔اس تبدیلی کی داستان بڑی حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔یہ عیاں کرتی ہے کہ آج امریکی اسٹیبلشمنٹ میں یہ معاملہ نہایت منافع بخش کاروبار بن چکا کہ کس ملک کو دوست بنایا جائے اور کسے دشمن قرار دے دیا جائے۔
پچھلے ستر برس کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھ چکے۔ ماضی میں جب امریکا اور سویت یونین کے مابین جنگ زوروں پر تھی، تو امریکی کیمپ میں شامل پاکستان اہم اتحادی کی حیثیت رکھتا تھا۔ تاہم پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں امریکا پاکستان کی مدد کو نہیں پہنچا اور امریکی حکمرانوں نے خالی خولی بیانات سے انہیں بہلائے رکھا۔
2001ء میں جب امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا، تو اس جنگ میں اسے پاکستان کی ضرورت پڑگئی۔ پاکستانی حکمرانوں نے بھی کھل کر امریکیوں کا ساتھ دیا، نتیجتاً امریکی دشمن مسلم تنظیمیں بھی پاکستان کی مخالف بن گئیں۔ ان کے حملوں کی وجہ سے ہزارہا پاکستانی شہید ہوئے اور ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ یہ تمام تر تباہی امریکا کی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' میں شمولیت اختیار کرنے سے ہی وطن عزیز کو دیکھنا پڑی۔
افغان جنگ امریکا کی طویل ترین جنگ بن چکی اور اس کا خاتمہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ وجہ یہ کہ ٹرمپ حکومت مزید امریکی فوجی افغانستان بھجوا رہی ہے۔ گویادو کروڑ افغانوں کو نجانے مزید کتنے برس خانہ جنگی اور تباہی کا عذاب سہنا پڑے گا۔عسکری و سیاسی ماہرین کے نزدیک افغانوں کی اذیت ناک زندگی کی ذمے دار امریکی فوج ہے جو امریکا میں سب سے طاقتور ادارہ بن چکی۔
پاکستان میں ہر تعلیم یافتہ شخص امریکی سیاست دان لیری پریسلر سے واقف ہے۔ اس شخص نے 1985ء میں امریکی سینٹ سے ''پریسلر ترمیم'' منظور کرائی تھی۔ اس ترمیم کے ذریعے امریکی صدر کو پابند بنادیا گیا کہ وہ ہر سال یہ تحریری سرٹیفکیٹ دے :'' پاکستان ایٹمی ہتھیار نہیں بنارہا۔'' یہ سرٹیفکیٹ دینے کے بعد ہی امریکی عسکری و مالی امداد پاکستان کو مل سکتی تھی۔
اکتوبر 1990ء میں اسی پریسلر ترمیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا نے پاکستان کی عسکری و مالی امداد روک لی تھی۔ پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے سویت یونین کو شکست دے ڈالی تھی اور یوں اپنا مطلب پورا کرلیا۔ جب امریکی حکمران طبقے کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی، تو پریسلر ترمیم کا سہارا لے کر اس پر پابندیاں لگادی گئیں۔۔ واقعہ نائن الیون کے بعد ایک بار پھر امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی تو اس پر عائد کردہ عسکری و معاشی و تجارتی نوعیت کی تمام پابندیاں اٹھالی گئیں۔ یہ معاملہ امریکی حکمران طبقے کی خود غرضی اور مفاد پرستی بخوبی اجاگر کرتا ہے۔
لیری پریسلر امریکا میں بھارت کا حامی سینیٹر تھا۔ وہ 1979ء تا 1997ء امریکی سینٹ کا طاقتور ریپبلکن سینیٹر رہا۔ اس دوران پریسلر کی کوشش رہی کہ وہ امریکا میں نہ صرف بھارت کے مفادات کی رکھوالی کرے بلکہ انہیں عملی جامہ بھی پہنا دے۔ پریسلر اب سینیٹر نہیں رہا لیکن ریپبلکن پارٹی کی حکومت آجانے کے بعد وہ واشنگٹن میں دوبارہ سرگرم ہوچکا ہے۔
حال ہی میں امریکی میڈیا نے لیری پریسلر کے ایک مضمون کو نمایاں انداز میں شائع کیا۔ مضمون میں پریسلر نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کے بجائے پاکستان امریکا کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ وجہ یہ کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیار اگر امریکا مخالف ''دہشت گردوں'' کے ہاتھ لگ گئے تو وہ امریکی شہر تباہ کرسکتے ہیں۔ یہ محض ایک تصّور ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ عیاں ہے کہ بھارت حمایتی پریسلر پاکستان پر بے جا الزامات لگا کر اسے ہوّا بنانا چاہتا ہے تاکہ ٹرمپ حکومت اس کو ''بدمعاش ریاست''(rogue state) قرار دے سکے۔
لیری پریسلر کی پاکستان دشمنی اپنی جگہ مگر موصوف نے اپنی ایک حالیہ کتاب ''مسلح پڑوسی'' (Neighbours in Arms: An American Senator's Quest for Disarmament in a Nuclear Subcontinent) میں اس خفیہ طاقت کو خوبصورتی سے بے نقاب کیا ہے جو آج امریکا میں اصل حکمران بن چکی اور جسے اس نے ''آکٹوپس'' کا نام دیا ہے۔ یہ نظام حقیقی آکٹوپس کی طرح کئی لمبے بازو رکھتا ہے۔ امریکا کے اس انسانی اکٹوپس کے بڑے بازوؤں میں پرائیویٹ لا فرمز اور لابنگ فرمز ،کنسلٹنگ فرمز اور ملٹری کنٹریکٹر (فوجی ٹھیکے دار)، شامل ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ انسانی آکٹوپس بہت طاقتور اور بارسوخ بن چکا اور آج اس کا اہم ترین ہتھیار ''لابسٹ''(lobbyist) ہے۔
امریکی معاشرے میں لابسٹ عموماً وہ وکیل یا سیاست داں ہے جو جرنیلوں، وزیروں، سینیٹروں، ارکان ایوان نمائندگان، بڑے صنعت کاروں اور کاروباری افراد، اعلیٰ سرکاری افسروں وغیرہ سے تعلقات رکھتا ہے۔ یہ شخص کسی بھی پارٹی سے رقم لے کر امریکی فوج یا حکومت میں اس کا کام کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ امریکا میں ایک جائز اور قانونی کاروبار ہے۔
اعدادو شمار کی رو سے امریکا میں تقریباً بارہ ہزار رجسٹرڈ شدہ لابسٹ موجود ہیں۔ ان کی اکثریت وکیل ہے۔ مگر پچھلے ایک عشرے سے لابنگ کا دھندہ زیرزمین جاچکا۔ اس دھندے سے امریکا میں ''ایک لاکھ افراد'' کا روزگار وابستہ ہے۔ اس کاروبار کی مالیت ''اربوں ڈالر'' بتائی جاتی ہے۔ اکثر لابسٹ کسی فرم میں کام کرتے ہیں۔ ایسے ادارے ''لابنگ فرمز'' کہلاتی ہیں۔
امریکی لابسٹوں کا کام یہ ہے کہ وہ کانگریس اور حکومت میں اپنی پارٹیوں کے مفادات کی تکمیل کراتے ہیں۔ یہ کام انجام دیتے ہوئے وہ ہر جائز اور ناجائز حربہ اختیار کرسکتے ہیں۔ ماضی میں لابسٹوں کا کردار محدود تھا، لیکن اب امریکی حکومت کی قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں کی تشکیل میں ان لابسٹوں کا عمل دخل بڑھتا چلا جارہا ہے۔
دراصل امریکا میں جب بھی صدارتی یا سینٹ و ایوان نمائندگان کے الیکشن ہوں، تو یہ لابسٹ امیدواروں کو بھاری چندہ دیتے ہیں۔ یہی نہیں، وہ اپنے دوست احباب سے بھی انہیں بھاری رقم دلواتے ہیں۔ جب بھی ان کا حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوکر ایوان اقتدار میں پہنچ جائے، تو پھر وہ اس سے اپنے کام کروانے لگتے ہیں۔ سینیٹر یا رکن ایوان نمائندگان نہ چاہتے بھی ان کے کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ عمل منافع بخش کاروبار بن چکا۔ اب بہت سے امریکی سینیٹر اور ارکان نمائندگان کام کروانے پر لابسٹوں سے اپنے حصے کی رقم لیتے ہیں۔ اسی لیے امریکی عوام کی نگاہ میں لابنگ اب رشوت کی ایک شکل بن چکی۔ لابسٹ کی خوبی (یاعیاری؟) یہ ہے کہ وہ قوانین میں ایسی کوئی نہ کوئی درز پکڑلیتے ہیں جس سے گزر کر اپنا کام پورا کرلیں۔
لیری پریسلر کے مطابق امریکا میں اب لابسٹ اتنے زیادہ طاقتور ہوچکے کہ وہاں کسی بھی ملک کا بھی سفیر آئے، تو وہ سب سے پہلے لابسٹوں کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے سلسلے میں حکومت امریکا کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکے۔ لابسٹوں کی بڑی قوت کا راز یہ ہے کہ انہی کے پیسے کی بدولت سیاست داں اقتدار میں آتے ہیں۔ چناں چہ وہ ان کی مرضی و منشا پر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حکومت سازی میں لابسٹوں کا اتنا زیادہ عمل دخل امریکا کے علاوہ کسی اور ملک میں نظر نہیں آتا۔
لابسٹوں اور ملٹری ٹھیکے داروں نے امریکی جرنیلوں سے بھی قریبی تعلقات استوار کرلیے ہیں۔ بعید نہیں کہ جرنیل کام کرنے پر اپنا ''حصہ'' وصول کرتے ہوں۔ آج ٹرمپ حکومت میں چار اہم ترین عہدے حاضر یا سابقہ جرنیلوں نے سنبھال رکھے ہیں۔ وہ عہدے یہ ہیں: وزیر دفاع( جنرل (ر) جمیز میٹس)، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر (جنرل میک مائر)، وائٹ ہاؤس چیف آف سٹاف (جنرل جان کیلے) اور جوائنٹ چیفس چیئرمین (جنرل جوزف ڈنفورڈ)۔
امریکی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نیشنل سکیورٹی اور فارن افئیرز ٹیم پانچ ارکان پر مشتمل ہے... جس میں درج بالا چاروں جرنیل اور وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن جو ٹیم میں شامل واحد سول شخصیت ہے۔ انہی جرنیلوں کی پالیسیوں کے باعث امریکا پھر عالمی سطح پر جنگجوئی کی جانب مائل ہے۔ اسی لیے ٹرمپ حکومت نے افغانستان سے امریکی فوج واپس بلوانے کے بجائے اس کی تعداد میں اضافہ کردیا۔لیری پریسلر اپنی کتاب میں لکھتا ہے ''غیر ملکی حکومتیں امریکی انتخابات کے موقع پر امیدواروں کو براہ راست چندے نہیں دیتیں۔ لیکن وہ لابسٹوں اور لافرموں کو بھاری رقومات ضرور دیتی ہیں۔
مقصد یہی ہوتا ہے کہ امریکی پالیسی سازی کے عمل پر اثر انداز ہوجاسکے۔ یہی وجہ ہے، اب پالیسی سازی کا روایتی طریقہ بدل چکا۔ پہلے وزارت خارجہ، وزارت دفاع، وائٹ ہاؤس اور کانگریس مل جل کر پالیسیاں بناتے تھے۔ اب یہ پالیسیاں خفیہ و عیاں لابنگ فرموں کے تعاون سے بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی حکومت کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ صرف بھارت اور پاکستان کے لیے کم از کم پانچ لابنگ فرمز کام کررہی ہیں۔''
اب صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی کہ جو ملک زیادہ طاقتور اور با رسوخ لابنگ و لافرموں کی خدمات حاصل کرے، وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے اپنا کام کروالیتا ہے چاہے وہ غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہی ہو۔مثال کے طور پر صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ کمپیوٹر کے غیر ملکی ہنرمندوں کو امریکا آنے سے روک دیں گے۔ چناں چہ حکومت سنبھالتے ہی انہوں نے H-1B ویزے کے اجرا پر سخت پابندیاں عائد کردیں۔یہ H-1B ویزہ سب سے زیادہ بھارتی ہنرمندوں کو ملتا تھا۔
ٹرمپ حکومت کے اقدام سے بھارتی آئی ٹی انڈسٹری میں بے چینی پھیل گئی اور یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ ہزارہا بھارتی ماہرین کمپیوٹر سائنس بے روزگار ہوجائیں گے۔ اپنی آئی ٹی انڈسٹری کے دباؤ پر مودی حکومت نے امریکا میں بارسوخ لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کرلیں۔ مدعا یہ تھا کہ بھارتی ہنر مندوں کے لیے H-1B ویزہ کا حصول آسان بنایا جاسکے۔ لابنگ فرمز کی کوششیں کامیاب رہیں اور وسط ستمبر سے بھارتی ہنر مندوں کو دوبارہ H-1B ویزہ باآسانی ملنے لگا ہے۔
اس معاملے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ ہر سال پچاسی ہزار H-1B ویزے جاری کرتا ہے اور نصف سے بھی زیادہ ویزے بھارتی لے اڑتے ہیں۔ جبکہ پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کے ہنرمندوں کو گھاس تک نہیں ڈالی جاتی۔ اس امر سے عیاں ہے کہ آج امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھارت ایک اہم مملکت بن چکا۔اسی لیے لابنگ فرمز کی کوششیں بھی ثمر آور ثابت ہوئیں۔یہ فرمز اب اسلحے کی خریدو فروخت کے سودوں میں بھی اہم کردار ادا کرنے لگی ہیں۔گویا ان کے لیے کرپشن کرنے کا ایک اور در کھل چکا۔
سب سے بڑی لابنگ فرم
اکین گمپ سٹراس ہوئر(Akin Gump Strauss Hauer & Feld LLP)نامی ادارہ امریکا میں سب سے بڑی لابنگ فرم بن چکا۔یہ بنیادی طور پر لا فرم ہے جس کی بنیاد 1945ء میں کچھ سیاست دانوں اور وکلا نے مل کر رکھی۔آج اس فرم میں اٹھارہ سو ملازم کام کرتے ہیں۔ان میں نو سو وکیل ہیں۔صدر دفتر امریکی دارالحکومت میں واقع ہے۔جبکہ نو امریکی شہروں سمیت دنیا بھر میں اس کے دفاتر ہیں۔فرم کے وکلا تمام امریکی سیاست دانوں اور بااثرشخصیات سے تعلقات رکھتے ہیں۔انہی کے بل پر اور رشوت کا چمتکار دکھا کر فرم اپنے گاہکوں کے کام نکلوا لیتی ہے۔اس کی ظاہری آمدن کروڑوں جبکہ خفیہ اربوں ڈالر میں ہے۔
ممکن ہے کہ ان خبروں کے پیچھے بھارتی حکومت کا ہاتھ ہو، مگر یہ بھی سچ ہے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ اس کی اہم وجہ امریکا اور بھارت میں ایسے قوم پرست لیڈروں کا اقتدار میں آجانا ہے جو پاکستان کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ ایک اور اہم وجہ یہ کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں امریکی فوج کا اثرورسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے جس کے باعث امریکا جنگجوئی کی طرف مائل ہے۔اس تبدیلی کی داستان بڑی حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔یہ عیاں کرتی ہے کہ آج امریکی اسٹیبلشمنٹ میں یہ معاملہ نہایت منافع بخش کاروبار بن چکا کہ کس ملک کو دوست بنایا جائے اور کسے دشمن قرار دے دیا جائے۔
پچھلے ستر برس کے دوران پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھ چکے۔ ماضی میں جب امریکا اور سویت یونین کے مابین جنگ زوروں پر تھی، تو امریکی کیمپ میں شامل پاکستان اہم اتحادی کی حیثیت رکھتا تھا۔ تاہم پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں امریکا پاکستان کی مدد کو نہیں پہنچا اور امریکی حکمرانوں نے خالی خولی بیانات سے انہیں بہلائے رکھا۔
2001ء میں جب امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا، تو اس جنگ میں اسے پاکستان کی ضرورت پڑگئی۔ پاکستانی حکمرانوں نے بھی کھل کر امریکیوں کا ساتھ دیا، نتیجتاً امریکی دشمن مسلم تنظیمیں بھی پاکستان کی مخالف بن گئیں۔ ان کے حملوں کی وجہ سے ہزارہا پاکستانی شہید ہوئے اور ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ یہ تمام تر تباہی امریکا کی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' میں شمولیت اختیار کرنے سے ہی وطن عزیز کو دیکھنا پڑی۔
افغان جنگ امریکا کی طویل ترین جنگ بن چکی اور اس کا خاتمہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ وجہ یہ کہ ٹرمپ حکومت مزید امریکی فوجی افغانستان بھجوا رہی ہے۔ گویادو کروڑ افغانوں کو نجانے مزید کتنے برس خانہ جنگی اور تباہی کا عذاب سہنا پڑے گا۔عسکری و سیاسی ماہرین کے نزدیک افغانوں کی اذیت ناک زندگی کی ذمے دار امریکی فوج ہے جو امریکا میں سب سے طاقتور ادارہ بن چکی۔
پاکستان میں ہر تعلیم یافتہ شخص امریکی سیاست دان لیری پریسلر سے واقف ہے۔ اس شخص نے 1985ء میں امریکی سینٹ سے ''پریسلر ترمیم'' منظور کرائی تھی۔ اس ترمیم کے ذریعے امریکی صدر کو پابند بنادیا گیا کہ وہ ہر سال یہ تحریری سرٹیفکیٹ دے :'' پاکستان ایٹمی ہتھیار نہیں بنارہا۔'' یہ سرٹیفکیٹ دینے کے بعد ہی امریکی عسکری و مالی امداد پاکستان کو مل سکتی تھی۔
اکتوبر 1990ء میں اسی پریسلر ترمیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا نے پاکستان کی عسکری و مالی امداد روک لی تھی۔ پاکستانی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے سویت یونین کو شکست دے ڈالی تھی اور یوں اپنا مطلب پورا کرلیا۔ جب امریکی حکمران طبقے کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی، تو پریسلر ترمیم کا سہارا لے کر اس پر پابندیاں لگادی گئیں۔۔ واقعہ نائن الیون کے بعد ایک بار پھر امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی تو اس پر عائد کردہ عسکری و معاشی و تجارتی نوعیت کی تمام پابندیاں اٹھالی گئیں۔ یہ معاملہ امریکی حکمران طبقے کی خود غرضی اور مفاد پرستی بخوبی اجاگر کرتا ہے۔
لیری پریسلر امریکا میں بھارت کا حامی سینیٹر تھا۔ وہ 1979ء تا 1997ء امریکی سینٹ کا طاقتور ریپبلکن سینیٹر رہا۔ اس دوران پریسلر کی کوشش رہی کہ وہ امریکا میں نہ صرف بھارت کے مفادات کی رکھوالی کرے بلکہ انہیں عملی جامہ بھی پہنا دے۔ پریسلر اب سینیٹر نہیں رہا لیکن ریپبلکن پارٹی کی حکومت آجانے کے بعد وہ واشنگٹن میں دوبارہ سرگرم ہوچکا ہے۔
حال ہی میں امریکی میڈیا نے لیری پریسلر کے ایک مضمون کو نمایاں انداز میں شائع کیا۔ مضمون میں پریسلر نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کے بجائے پاکستان امریکا کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ وجہ یہ کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیار اگر امریکا مخالف ''دہشت گردوں'' کے ہاتھ لگ گئے تو وہ امریکی شہر تباہ کرسکتے ہیں۔ یہ محض ایک تصّور ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ عیاں ہے کہ بھارت حمایتی پریسلر پاکستان پر بے جا الزامات لگا کر اسے ہوّا بنانا چاہتا ہے تاکہ ٹرمپ حکومت اس کو ''بدمعاش ریاست''(rogue state) قرار دے سکے۔
لیری پریسلر کی پاکستان دشمنی اپنی جگہ مگر موصوف نے اپنی ایک حالیہ کتاب ''مسلح پڑوسی'' (Neighbours in Arms: An American Senator's Quest for Disarmament in a Nuclear Subcontinent) میں اس خفیہ طاقت کو خوبصورتی سے بے نقاب کیا ہے جو آج امریکا میں اصل حکمران بن چکی اور جسے اس نے ''آکٹوپس'' کا نام دیا ہے۔ یہ نظام حقیقی آکٹوپس کی طرح کئی لمبے بازو رکھتا ہے۔ امریکا کے اس انسانی اکٹوپس کے بڑے بازوؤں میں پرائیویٹ لا فرمز اور لابنگ فرمز ،کنسلٹنگ فرمز اور ملٹری کنٹریکٹر (فوجی ٹھیکے دار)، شامل ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ انسانی آکٹوپس بہت طاقتور اور بارسوخ بن چکا اور آج اس کا اہم ترین ہتھیار ''لابسٹ''(lobbyist) ہے۔
امریکی معاشرے میں لابسٹ عموماً وہ وکیل یا سیاست داں ہے جو جرنیلوں، وزیروں، سینیٹروں، ارکان ایوان نمائندگان، بڑے صنعت کاروں اور کاروباری افراد، اعلیٰ سرکاری افسروں وغیرہ سے تعلقات رکھتا ہے۔ یہ شخص کسی بھی پارٹی سے رقم لے کر امریکی فوج یا حکومت میں اس کا کام کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ امریکا میں ایک جائز اور قانونی کاروبار ہے۔
اعدادو شمار کی رو سے امریکا میں تقریباً بارہ ہزار رجسٹرڈ شدہ لابسٹ موجود ہیں۔ ان کی اکثریت وکیل ہے۔ مگر پچھلے ایک عشرے سے لابنگ کا دھندہ زیرزمین جاچکا۔ اس دھندے سے امریکا میں ''ایک لاکھ افراد'' کا روزگار وابستہ ہے۔ اس کاروبار کی مالیت ''اربوں ڈالر'' بتائی جاتی ہے۔ اکثر لابسٹ کسی فرم میں کام کرتے ہیں۔ ایسے ادارے ''لابنگ فرمز'' کہلاتی ہیں۔
امریکی لابسٹوں کا کام یہ ہے کہ وہ کانگریس اور حکومت میں اپنی پارٹیوں کے مفادات کی تکمیل کراتے ہیں۔ یہ کام انجام دیتے ہوئے وہ ہر جائز اور ناجائز حربہ اختیار کرسکتے ہیں۔ ماضی میں لابسٹوں کا کردار محدود تھا، لیکن اب امریکی حکومت کی قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں کی تشکیل میں ان لابسٹوں کا عمل دخل بڑھتا چلا جارہا ہے۔
دراصل امریکا میں جب بھی صدارتی یا سینٹ و ایوان نمائندگان کے الیکشن ہوں، تو یہ لابسٹ امیدواروں کو بھاری چندہ دیتے ہیں۔ یہی نہیں، وہ اپنے دوست احباب سے بھی انہیں بھاری رقم دلواتے ہیں۔ جب بھی ان کا حمایت یافتہ امیدوار کامیاب ہوکر ایوان اقتدار میں پہنچ جائے، تو پھر وہ اس سے اپنے کام کروانے لگتے ہیں۔ سینیٹر یا رکن ایوان نمائندگان نہ چاہتے بھی ان کے کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ عمل منافع بخش کاروبار بن چکا۔ اب بہت سے امریکی سینیٹر اور ارکان نمائندگان کام کروانے پر لابسٹوں سے اپنے حصے کی رقم لیتے ہیں۔ اسی لیے امریکی عوام کی نگاہ میں لابنگ اب رشوت کی ایک شکل بن چکی۔ لابسٹ کی خوبی (یاعیاری؟) یہ ہے کہ وہ قوانین میں ایسی کوئی نہ کوئی درز پکڑلیتے ہیں جس سے گزر کر اپنا کام پورا کرلیں۔
لیری پریسلر کے مطابق امریکا میں اب لابسٹ اتنے زیادہ طاقتور ہوچکے کہ وہاں کسی بھی ملک کا بھی سفیر آئے، تو وہ سب سے پہلے لابسٹوں کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے سلسلے میں حکومت امریکا کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکے۔ لابسٹوں کی بڑی قوت کا راز یہ ہے کہ انہی کے پیسے کی بدولت سیاست داں اقتدار میں آتے ہیں۔ چناں چہ وہ ان کی مرضی و منشا پر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حکومت سازی میں لابسٹوں کا اتنا زیادہ عمل دخل امریکا کے علاوہ کسی اور ملک میں نظر نہیں آتا۔
لابسٹوں اور ملٹری ٹھیکے داروں نے امریکی جرنیلوں سے بھی قریبی تعلقات استوار کرلیے ہیں۔ بعید نہیں کہ جرنیل کام کرنے پر اپنا ''حصہ'' وصول کرتے ہوں۔ آج ٹرمپ حکومت میں چار اہم ترین عہدے حاضر یا سابقہ جرنیلوں نے سنبھال رکھے ہیں۔ وہ عہدے یہ ہیں: وزیر دفاع( جنرل (ر) جمیز میٹس)، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر (جنرل میک مائر)، وائٹ ہاؤس چیف آف سٹاف (جنرل جان کیلے) اور جوائنٹ چیفس چیئرمین (جنرل جوزف ڈنفورڈ)۔
امریکی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نیشنل سکیورٹی اور فارن افئیرز ٹیم پانچ ارکان پر مشتمل ہے... جس میں درج بالا چاروں جرنیل اور وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن جو ٹیم میں شامل واحد سول شخصیت ہے۔ انہی جرنیلوں کی پالیسیوں کے باعث امریکا پھر عالمی سطح پر جنگجوئی کی جانب مائل ہے۔ اسی لیے ٹرمپ حکومت نے افغانستان سے امریکی فوج واپس بلوانے کے بجائے اس کی تعداد میں اضافہ کردیا۔لیری پریسلر اپنی کتاب میں لکھتا ہے ''غیر ملکی حکومتیں امریکی انتخابات کے موقع پر امیدواروں کو براہ راست چندے نہیں دیتیں۔ لیکن وہ لابسٹوں اور لافرموں کو بھاری رقومات ضرور دیتی ہیں۔
مقصد یہی ہوتا ہے کہ امریکی پالیسی سازی کے عمل پر اثر انداز ہوجاسکے۔ یہی وجہ ہے، اب پالیسی سازی کا روایتی طریقہ بدل چکا۔ پہلے وزارت خارجہ، وزارت دفاع، وائٹ ہاؤس اور کانگریس مل جل کر پالیسیاں بناتے تھے۔ اب یہ پالیسیاں خفیہ و عیاں لابنگ فرموں کے تعاون سے بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی حکومت کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ صرف بھارت اور پاکستان کے لیے کم از کم پانچ لابنگ فرمز کام کررہی ہیں۔''
اب صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی کہ جو ملک زیادہ طاقتور اور با رسوخ لابنگ و لافرموں کی خدمات حاصل کرے، وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے اپنا کام کروالیتا ہے چاہے وہ غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہی ہو۔مثال کے طور پر صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ کمپیوٹر کے غیر ملکی ہنرمندوں کو امریکا آنے سے روک دیں گے۔ چناں چہ حکومت سنبھالتے ہی انہوں نے H-1B ویزے کے اجرا پر سخت پابندیاں عائد کردیں۔یہ H-1B ویزہ سب سے زیادہ بھارتی ہنرمندوں کو ملتا تھا۔
ٹرمپ حکومت کے اقدام سے بھارتی آئی ٹی انڈسٹری میں بے چینی پھیل گئی اور یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ ہزارہا بھارتی ماہرین کمپیوٹر سائنس بے روزگار ہوجائیں گے۔ اپنی آئی ٹی انڈسٹری کے دباؤ پر مودی حکومت نے امریکا میں بارسوخ لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کرلیں۔ مدعا یہ تھا کہ بھارتی ہنر مندوں کے لیے H-1B ویزہ کا حصول آسان بنایا جاسکے۔ لابنگ فرمز کی کوششیں کامیاب رہیں اور وسط ستمبر سے بھارتی ہنر مندوں کو دوبارہ H-1B ویزہ باآسانی ملنے لگا ہے۔
اس معاملے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ ہر سال پچاسی ہزار H-1B ویزے جاری کرتا ہے اور نصف سے بھی زیادہ ویزے بھارتی لے اڑتے ہیں۔ جبکہ پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کے ہنرمندوں کو گھاس تک نہیں ڈالی جاتی۔ اس امر سے عیاں ہے کہ آج امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھارت ایک اہم مملکت بن چکا۔اسی لیے لابنگ فرمز کی کوششیں بھی ثمر آور ثابت ہوئیں۔یہ فرمز اب اسلحے کی خریدو فروخت کے سودوں میں بھی اہم کردار ادا کرنے لگی ہیں۔گویا ان کے لیے کرپشن کرنے کا ایک اور در کھل چکا۔
سب سے بڑی لابنگ فرم
اکین گمپ سٹراس ہوئر(Akin Gump Strauss Hauer & Feld LLP)نامی ادارہ امریکا میں سب سے بڑی لابنگ فرم بن چکا۔یہ بنیادی طور پر لا فرم ہے جس کی بنیاد 1945ء میں کچھ سیاست دانوں اور وکلا نے مل کر رکھی۔آج اس فرم میں اٹھارہ سو ملازم کام کرتے ہیں۔ان میں نو سو وکیل ہیں۔صدر دفتر امریکی دارالحکومت میں واقع ہے۔جبکہ نو امریکی شہروں سمیت دنیا بھر میں اس کے دفاتر ہیں۔فرم کے وکلا تمام امریکی سیاست دانوں اور بااثرشخصیات سے تعلقات رکھتے ہیں۔انہی کے بل پر اور رشوت کا چمتکار دکھا کر فرم اپنے گاہکوں کے کام نکلوا لیتی ہے۔اس کی ظاہری آمدن کروڑوں جبکہ خفیہ اربوں ڈالر میں ہے۔